اکیس فروری۲۰۱۹ کو شام تین بجے مولانا وحید الدین خان صاحب سے پہلی اور آخری ملاقات نظام الدین میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ہوئی تھی۔ انتظار کا وقفہ ذرا سا تھا، پتہ بھی نہیں چلا کہ انتظار گاہ میں کتابیں ہی کتابیں تھیں۔
مطالعہ جب پیام تعلیم، گل بوٹے، نور، بتول اور امنگ سے آگے بڑھا تو شاعر اور ایوان اردو سے ہوتا ہوا نیا دور اور آج کل تک پہنچ گیا۔ نوائے اسلام، الاسلام اور صوت الاسلام سے تعلق تو تقریروں تک ہی تھا۔ ہاں البلاغ کے مطالعے میں دلچسپی تھی۔ جامعہ عالیہ مئو میں داخلے کے وقت مولانا مظہر ازہری صاحب ملے تو تقریری اور تحریری امتحان کے نمبرات میں زیادہ فرق کا سبب جاننا چاہا۔ ان کی یہ چاہت ہماری معرفت کی وجہ بن گئی۔ زیادہ لکھنے پھر اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کا جذبہ شدید ہوتا گیا۔ جامعہ عالیہ عربیہ کی لائبریری ملی، مطلع ذرا اور وسیع ہوگیا۔ یہاں معارف ملا تو مقالات شبلی، مکاتیب شبلی، حیات شبلی، حیات جاوید، سیرت النبی اور بہت ساری کتابوں کے بیچ اقبال اور غالب کی شرحیں، فضا ابن فیضی کے سہ لفظی شعری مجموعے بھی ملے۔ ابوالکلام آزاد اور ابوالحسن علی ندوی کے ناموں اور کچھ کاموں سے تو جامعہ رحمانیہ کاندیولی میں ہی شناسائی ہوچکی تھی۔ دارالمصنفین کی مطبوعات اور معارف سے یہاں تعلق بڑھا تو سید سلیمان ندوی، مسعود عالم ندوی، عبدالسلام ندوی اور محمد شہاب الدین ندوی کی کتابیں مطالعے میں رہنے لگیں۔ ہر دن تین چار سو صفحات کی ایک کتاب کا مطالعہ عام سی بات ہوگئی تھی۔ مودودی صاحب کی کتابیں پردہ اور الجہاد فی الاسلام پرشنسا کا وشے تو تھیں ہی، ان کی خلافت و ملوکیت پر حافظ صلاح الدین یوسف کے تعاقب کا بھی بڑا چرچا تھا۔ موضوعات کے بجائے یہ سب بڑے بڑے نام اپنے اپنے اسلوب، شستہ زبان اور معاصر اپروچ کے سبب زیادہ توجہ کھینچتے تھے۔ ہمارے یہاں نثر میں آزاد اور نظم میں اقبال تو بالاتفاق حلال تھے مگر باقی مہارتھیوں کی منتخبہ کتابیں ہی ریکمنڈڈ لسٹ میں تھیں۔ مطالعے کے شوقین کو تو دلچسپی سے غرض ہوتا ہے سو استثناء کی لکیر پار کرنے سے بھی کسی نے نہیں روکا۔
یہی وہ زمانہ تھا جب ایک دن ’تعبیر کی غلطی‘ ہاتھ لگ گئی۔ یہ پہلی کتاب تھی جس کی کچھ سطروں کو تین تین چار چار بار پڑھنا پڑتا تھا پھر بھی پلے کم ہی پڑتا۔ ایسا پہلے نہیں ہوا تھا۔ شاعر کے ابتدائی چھ شمارے(۲۰۰۰ء)تو بالکل سمجھ میں نہیں آتے تھے مگر دوہرانے کی چاہت نہیں ہوتی تھی۔ یہ پہلی اور آخری کتاب تھی جس کو اتنی محنت سے پڑھی، سمجھنے کی کوشش کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نقد کا ایک ذوق پروان چڑھا۔ اس ذوق کی زد میں پہلے مودودی، پھر سرسید، پھر خود خان صاحب اور ایک دن آزاد بھی آ گئے۔ جرح و تعدیل کا شعور بھی یہیں پیدا ہوا۔ مولانا ضیاء الحسن صاحب ترمذی پڑھاتے ہوئے کسی بھی راوی کا تعارف نہیں چھوڑتے تھے چاہے ایک ہی راوی کا نام دوبارہ سہ بارہ ہی کیوں نہ آئے۔ عالیہ کا نصاب (تفسیر نسفی، عقائد نسفی وغیرہ) بھی ہمارے حائطیہ لوح وقلم کے صفحات پر تنقید کی زد میں آگیا۔ اس ذوق، شعور اور مشق کا فائدہ یہ ہوا کہ تمام مشاہیر مصنفین کی تسامحات بھی حسب توفیق نشان زد ہوتی رہیں۔ جامعہ عالیہ میں گزرا ہوا یہ سال(۲۰۰۱ء) اس اعتبار سے یادگار ہے کہ بعد کو اس مزاولت کے نتیجے میں جو تحریریں قلم سے نکلیں ان میں ایجابی کم انتقادی زیادہ رہیں۔صوت الاسلام ممبئی میں شائع شدہ ایک مضمون میں مودودی، عالم نقوی صاحب کے اتواریہ کالم (روزنامہ اردو ٹائمز) میں ایک حوالے سے مذکور مگر غیر مطبوعہ دو مضامین میں سرسید اور روزنامہ اردو ٹائمز میں ہی شائع شدہ ایک مضمون میں آزاد مختلف مسائل میں نقد کا موضوع بنے۔ اسی اردو ٹائمز میں ہی ڈاکٹر رفیق زکریا، انقلاب میں حسن کمال اور البلاغ میں راشد شاز کا تعاقب بھی ہوا۔ دلیلوں کی سمجھ تھی، حسب توفیق انطباق تھا شاید اسی لیے ڈر نہیں تھا۔ مطالعہ جاری رہا۔ خان صاحب کی جو کتاب ملی پڑھتا گیا۔ ابن کلیم صاحب نے ’مذہب اور جدید چیلنج‘ صابوصدیق کتاب میلے سے خریدی تھی، میں نے بھی پڑھی۔ ’تعبیر کی غلطی‘ کے بعد یہ دوسری کتاب ہے جو یاد رہ گئی اور ایسے جیسے ’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘ یاد رہ گئی تھی۔ بعد میں پتہ چلا اس کا عربی ترجمہ ’الاسلام یتحدی‘ پانچ عرب ملکوں قطر، مصر، طرابلس، خرطوم اور تیونس کی جامعات میں شامل نصاب ہے۔
جامعہ رحمانیہ سے فضیلت کی سند اور شیروانی ملی، باضابطہ تعلیم سے فراغت ہوئی تو پہلی نوکری اللہ کی توفیق پھر مولانا عبدالجبار رحمانی کی مہربانی سے صوبائی جمعیت اہل حدیث کرناٹک و گوا کے ہیڈ آفس واقع بڑی چارمینار مسجد شیواجی نگر بنگلور میں ملی۔ فراغت۲۰۰۳ کی اور یہ ملازمت۲۰۰۴ کی بات ہے، یہاں داعی مولانا اعجاز احمد ندوی صاحب تھے الحمدللہ ابھی تک ہیں۔ سکریٹری اسلم بھائی تھے، امیر مولانا اقبال جامعی صاحب مسجد کے دروازے سے لگی ہوئی دوکان میں کتابیں بیچتے تھے، امیر صاحب کی طرف سے اجازت تھی مطالعے کے لیے دوکان سے کوئی بھی کتاب لے جانے کی، پڑھنے کے بعد صحیح سلامت لاکر واپس رکھ دینے کی شرط پر۔ پھر بھی رسل مارکیٹ کے سامنے محبوب بک ڈپو کا چکر لگانا روز کا معمول تھا۔ یہاں ہر مہینے الرسالہ آتا تھا۔ جتنے دستیاب تھے سارے پرانے شمارے میں نے خرید لیے تھے۔ ایسا مختصر، دو ٹوک اور دل نشیں اسلوب کہ مثال نہ ملے۔ پھر بھی ’تعبیر کی غلطی‘ سے جو سیکھا تھا ۲۰۰۴ میں الرسالہ کے شماروں پر میں نے اس کا پریوگ بھی کرلیا تھا۔ جتنا پڑھتا جاتا تھا لال رنگ کے قلم سے نشان لگالیتا تھا۔ پھر ایک ساتھ کمپیوٹر پر ٹائپ کرلیتا تھا۔ عنوان تھا ’مولانا وحیدالدین خان کی گمراہیاں‘۔ یہ کوئی مضمون نہیں تھا بلکہ قابل اعتراض باتوں کی ایک فہرست تھی نمبر وار ان پیج فائل میں۔ ایک فلاپی میں سیو کرلیا تھا، اسی فلاپی میں اس زمانے کی ساری تحریریں تھیں، بعد میں پتہ چلا وہ فلاپی خراب ہوگئی۔
بعد میں یہ بھی پتہ چلا کہ اسی وقت سے، پہلے اخبارات اور رسالوں کے لیے، پھر ماہنامہ معیار حدیث بنگلور اور اس کے بعد ماہنامہ فری لانسر کے لیے ایک صفحے کے مضامین لکھنے کا جو طریقہ اپنایا وہ شاید مولانا وحیدالدین خان کی موجزنگاری کا ہی اثر تھا۔ بہت کم ایسا ہوتا کہ کچھ مضامین ایک صفحے میں نہیں سماتے تھے تو چھوڑ دینا پڑتا تھا۔ مجھے یہ بھی یاد آتا ہے کہ جب کبھی کچھ سطریں دوسرے صفحے پر چلی جاتی تھیں تو پہلے ان کا فونٹ سائز کم کرتا تھا، اس سے بھی کام نہیں چلتا تو کچھ جملے کاٹ دیا کرتا تھا۔ الرسالہ کا مطالعہ آج تک نہیں چھوٹا ہے، عام طور پر پی ڈی ایف اور کبھی جب ممبرا ریلوے اسٹیشن سے گزر ہوتا ہے تو بک اسٹال سے لے کر پڑھنے کی عادت ابھی تک ہے۔
برادرم خبیب حسن مبارکپوری نے جب بتایا کہ مولانا وحیدالدین خان صاحب سے ملوائیں گے تو دلی سفر کا ایک ایجنڈا یہ بھی بن گیا۔ حالانکہ ملاقات کا کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔ ایک دیدار سا خیال تھا جیسے لکھنؤ جاؤ تو بھول بھلیاں، بنارس جاؤ تو گھاٹ، حیدرآباد جاؤ تو چارمینار دیکھنے کا خیال آئے۔ مرشد عبدالقدیر اور شیخ سرفراز فیضی نے کچھ سوالات بھی کیے تھے۔ جواب بڑے اطمینان اور بڑی دھیمی آواز میں دے رہے تھے، میں جہاں بیٹھا تھا وہاں تک بڑی مشکل سے آواز آرہی تھی۔ سننے کے لیے بیٹھنے والوں کو ان کی طرف جھکنا پڑ رہا تھا۔ مولانا کے سکریٹری فرہاد صاحب نے پہلے سے ہی ایک ریکارڈر لگا دیا تھا، مولانا کی ساری باتیں ریکارڈ ہورہی تھیں۔ ایسے کسی آدمی سے پہلے یا بعد میں کبھی نہیں ملا میں جس کی گفتگو ریکارڈ کرنے کا ایسا اہتمام ہوتا ہو۔
آخری پیراگراف کے علاوہ صرف کتابوں اور مصنفین کا تعارف ہی ہے۔۔زبردستی کا طول دیا گیا ہے مضمون کو.اس میں ملاقات کی تفصیل کے علاوہ سب کچھ ہے
?????Khan Sahab
شیخنا المکرم
آپ کی تعلیمی روداد پڑھ کر کافی کچھ جذبہ عامل ملا
ماشاء اللہ چار سو صفحات کی کتابیں یومیہ کا پیداوار
اللّٰہ مجھے بھی ان جیسی مطالعہ کی لذت عطا فرمائے آمین
میں بھی مطالعے کا بہت شوقین ہوں لیکن درسیات پر تقدم نہیں لیکن میں کافی وقت تک پڑھ نہیں پاتا ہوں
آپ سے دعا کی درخواست ہے شیخنا المکرم