کل ۲۶؍ اپریل۲۰۲۱ کے صرف پندرہ منٹ باقی تھے، فری لانسر پر ایک چھوٹا سا مضمون پڑھ کر اپلوڈ کرنا تھا۔ جیسے ہی فارغ ہوا اور لنک شیئر کرنے کے لیے موبائل فون ہاتھ میں لیا تو سب سے پہلے حافظ عبدالحسیب عمری مدنی صاحب کے ایک میسج پر نظر پڑی۔ فوری طور پر لگا کہ فری لانسر کے لیے ان کا مضمون ہوگا مگر تبھی ایک نوٹ نمودار ہوا:
’آپ کی اطلاع کے لیے‘
میسج تھا:
’’مولانا اقبال جامعی نہ رہے
آج (۱۴؍رمضان۱۴۴۲ھ مطابق۲۶؍اپریل۲۰۲۱ء)اچانک واٹس اپ پر خبر آئی کہ مولانا اقبال جامعی لکھنؤ میں انتقال کرگئے۔انا لله وانا اليہ راجعون
بعد نماز مغرب افطار کے بعد وفات ہوئی اور وصیت کے مطابق لکھنؤ ہی میں بعد نماز عشاء تدفین بھی ہوگئی۔
جامعی صاحب کتابوں کی دنیا کے آدمی، دین کے خاموش خادم ، بنگلور و اطراف و اکناف میں اہل حدیثوں کے منہج پر اٹھنے والے اعتراضات اور اس پر ہونے والے حملوں پر نظر رکھنے والے ، بالخصوص اہل حدیث اور اہل دیوبند کے درمیان معرکہ آرائی کے تقریبا تمام مسائل اور ان سے متعلق کتابوں کی جانکاری رکھنے والے،ایک بڑی تعداد کو چارمینار بک سنٹر پر بیٹھے بیٹھے شاہراہ سنت سے جوڑنے والے ۔ حتی کہ یہ مانا جاتا تھا کہ وہ بک سنٹر سے کتابیں کم بیچتے تھے منہج اہل حدیث کی تفہیم و ترویج زیادہ کرتے تھے ۔
ایک خلق کو اللہ نے ان سے فائدہ پہنچایا۔
بنگلور تشریف لانے والے معتبر علماء اہل حدیث میں سے شاید ہی کوئی ہوں جو ان کے قدردان نہ رہے ہوں ۔ اکثر علماء، بنگلور کے حوالے سے جن علماء کی بابت سوال کرتے تھے ان میں اقبال جامعی صاحب کا نام ضرور ہوتا تھا۔
ان کی خدمات کو ضبط تحریر میں لاکر مدون و محفوظ کرنے کی ضرورت ہے ۔
آخری ایام میں بنگلور چھوڑ کر لکھنؤ میں بسیرا کرلیا تھا اور میسر معلومات کے مطابق وہاں مسجد بلال کی خدمت اپنے ذمہ لے لی تھی ۔ مسجد کی دیکھ ریکھ کے ساتھ اذان اور کبھی کبھار امامت بھی کرلیا کرتے تھے ۔اور اسی خدمت سے مرتے دم تک وابستہ رہے۔
کتابوں سے رشتہ وہاں بھی جوڑ لیا تھا اور وہاں بھی نوجوان مستفید ہونے کے لیے اردگرد اکٹھا ہونے لگے تھے ۔ مگر سفر مختصر ثابت ہوا۔
غفر الله لہ وأسكنہ فسيح جناتہ آمين
(حافظ عبدالحسیب عمری مدنی)‘‘
۲۳؍مارچ۲۰۰۴ کو دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث کرناٹک و گوا میں ملازمت کے لیے میرا انٹرویو مولانا نے ہی لیا تھا۔ مولانا اعجاز احمد ندوی صاحب (داعی صوبائی جمعیت) نے زبانی توصیہ بھی دے دیا تو اپواینٹ کرلیا گیا۔ ذمے داری کا نام تھا ’آفس سکریٹری‘ اور کام صبح شام آفس کھولنا بند کرنا نیز مسجدوں میں دروس اور اخبارات (سالار، سیاست) میں جمعیت کی سرگرمیوں کی رپورٹ لکھ کر بھیجنا۔
فراغت سے چھ مہینے پہلے سے ہی لیا ہوا مسجد اور مدرسے میں کام نہ کرنے کا عہد نبھانا آسان کام نہیں تھا، آسانی سے ملنے والی نوکری چھوڑ کر تجارت کے منصوبے پر عمل کرنے کا وہ مرحلہ بڑا ہی سبق آموز ثابت ہوا، کھوپڑی میں آگ لگی ہوئی تھی اور جن پہ تکیہ تھا وہ سب پتے ہوا دینے لگے تھے۔
ایسے میں آخری تعلیمی سال کے ہمارے ساتھی شیخ عبدالجبار رحمانی صاحب نے بنگلور بلالیا اور صوبائی جمعیت کے جنرل سیکرٹری اسلم بھائی سے ملوادیا۔ اور اسلم بھائی نے مجھے مولانا اقبال جامعی صاحب کے سامنے پیش کردیا۔
یہ پیشی آج بہت یاد آئی۔ وہ پہلی نظر ہو یا چوبیس مئی کی مولانا کی آخری نظر جب بھی ملتی ایسا لگتا جیسے سی سی ٹی وی سے نظر مل گئی ہو۔ ڈر نہیں لگتا، ڈر تو مجرموں کو لگتا ہے۔ یکایک سنبھل جانے کا خیال آتا۔ ایکسپریشن ایسا ہوتا جیسے ابھی جہاں بیٹھے ہیں یہی جگہ ان کی کل کائنات ہے اور اسی کے لیے فنا ہیں۔ ابھی یاد کرتا ہوں تو ان کی گہری دریا جیسی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اپنی پوری کیوریوسٹی کے ساتھ استقبال کرتی نظر آتی ہیں۔ گرے کلر کے کرتے پاجامے میں ملبوس ہاتھ میں ہمیشہ کوئی کتاب لیے یا سامنے کھڑے یا بیٹھے ہوئے کسی ملاقاتی سے بات کرتے ہوئے نظر آتے۔ وہ ایسے ہی سب کے لیے تھے یا صرف مجھے ایسے نظر آتے تھے پتہ نہیں، ان کے مجموعی امپریشن میں رعب تھا۔
بھلا ہو حافظ عبدالمتین صاحب کا کہ کئی بار اس چار مینار بک سنٹر میں مجھے آتے جاتے اور کتابیں الٹ پلٹ کر رکھتے دیکھا تو ایک دن مسکراتے ہوئے کہا مولانا سے پوچھ کر پڑھنے کے لیے لے جاسکتے ہو۔
حافظ عبدالمتین صاحب مسجد چارمینار کے مؤذن تھے اور مکتبے میں مولانا کے ساتھی۔ سر پر سفید چاینیز ٹوپی اور مولانا کی طرح ہی کسی رنگ کے کرتے میں ہوتے، اکثر لنگی پہنے ہوتے اور چلتے ایسے جیسے اڑ رہے ہیں۔
میں نے کمپیوٹر یہیں سیکھا۔ جب کتاب ’مہمان خانے‘ میں لے جانے کی اجازت مل گئی تو کئی کتابوں کے بیچ ایک دن کمپیوٹر گائڈ بھی لے آیا۔
کھانے اور مہمان خانے کی تو داستان ہی بڑی عجیب ہے۔ دو ہزار روپے تنخواہ تھی، مہینہ پورا ہونے تک بڑی مشکل سے گزارا ہوا تھا۔ ناشتے میں دو روپے والا پارلے جی پانی میں بھگاکر کھانے اور پھر وہ پانی پی لینے کا معمول تھا۔ پیٹ پھر بھی خالی رہتا تو جتنا پانی پیا جاتا پی لیتا تھا۔ عصر سے ذرا پہلے نائب امام مولانا عبدالنور سلفی صاحب کے لیے ایک آدمی بھر کا کھانا آتا تو وہ ہم تین لوگوں کو کھانے کا حکم تھا۔ نائب امام، مولانا وجہ القمر سلفی اور میں۔ (جب تنخواہ مل گئی تو لنچ میں میں نے دس روپے کی ہاف بریانی کھانا شروع کردی تھی) رات کا کھانا اتنا آتا کہ ہم دونوں کے پیٹ بھر بھر کر کھانے کے بعد بھی پھینکا جاتا۔ مولانا وجہ القمر صاحب عنایت بھائی کے گھر پڑھانے جاتے تھے تو وہ وہیں سے کھاکر آتے۔ (مولانا جب گاؤں چلے گئے تو یہاں میں پڑھاتا تھا) یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے میں نے اسلم بھائی سے بات کی تھی کہ دوپہر میں تھوڑا سا بڑھوادیں، بات نہیں بنی تو ایک دن دوسرا سجھاو دیا کہ دوپہر والا رات میں کردیں اور رات والا دوپہر میں، اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا تھا۔
پیاس بجھانا آسان تھا مگر کھانے کی دقت باقی ہی رہی۔ ایسا بھی نہیں کہ میری خوراک زیادہ تھی۔ ہاں دوسری سرگرمیاں ذرا مصروف رکھتی تھیں۔ سمر کورس پڑھانے کا آرڈر بھی مل گیا تھا۔ مسجد کے ٹھیک سامنے ہی ایک بلڈنگ میں یہ کورس چلتا تھا۔
یہ حالات یوں تو سننے میں قابل رحم معلوم ہوتے ہیں مگر اب پیچھے مڑکر دیکھو تو زندگی کے سب سے زریں عہد لگتے ہیں۔ کیونکہ یہی اور ایسے ہی وہ زمانے تھے جب ذہن کا کاروبار چلا۔ ورنہ اب پیٹ بھرلو تو نیند آنے لگتی ہے۔ سات آٹھ گھنٹے سونے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے ذرا سی نیند اور تھوڑے آرام کی ضرورت ابھی بھی ہے۔ بھوک ستائے رہتی تھی نیند چین سب اڑائے رہتی تھی نتیجے میں مطالعہ جاری رہتا۔ مولانا اقبال صاحب کی شفقت و محبت بھی کم نہیں ہوئی۔ پہلے تو وہ دیکھتے رہے کہ میں کون کون سی کتابیں لے جاتا ہوں۔ پھر ایک دن بٹھالیا۔ اندازہ نہیں تھا کہ کبھی دو چار جملوں سے زیادہ بات ہوگی مگر اس دن جو بات ہوئی وہ آج بھی ایک دم تازہ ہے۔ اتنی تازہ کہ اس کے خیال نے آج سونے نہیں دیا جب کہ نیند رات دس بجے سے ہی آرہی تھی۔ آنکھوں آنکھوں میں ہی سحری کا وقت ہوگیا اور ابھی بھی وہی حال ہے۔
رہنے کا حکم تو مسجد میں ملا تھا، مہمان خانے میں نہیں۔ نائب امام صاحب کے کمرے میں تو مولانا وجہ القمر کے علاوہ کسی تیسرے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ بغل میں تھا مہمان خانہ، وہاں کسی کو رہنے کی اجازت نہیں تھی، مجھے بھی نہیں۔ جیسے تیسے یہیں گزرے تھے وہ دو مہینے ۲۳؍مارچ سے ۲۴؍مئی۲۰۰۴ تک۔ پڑھنے کا ہی شوق تھا ایک، وہ پورا ہوتا تھا یہاں مگر کھانے رہنے کا مسئلہ چھوٹا نہیں لگتا تھا اس وقت، دماغ میں بیٹھ گئی تھی یہ بات کہ یہاں سے ایک بار چھٹکارا مل جائے تو کون مڑکر پیچھے دیکھے گا۔ ایک دن یہی ہوا، گورکھپور ایکسپریس کے ویٹنگ ٹکٹ پر دروازے کے پاس بیٹھے بیٹھے اور واش بیسن کے نیچے بیگ رکھ کر میں نے سوموار صبح دس بجے سے جمعرات شام چار بجے تک پورے چار دن کا سفر طے کرلیا۔ اور جب گونڈہ ریلوے اسٹیشن پر اترا تو ایسا لگا جیسے یکایک آسودگی ہوگئی۔ ہاتھ منہ دھونے کے بعد دس روپے کی پوری بھاجی کھاکر وہ سکون ملا کہ گونڈہ سے ٹرین میں سویا تو پھر شہرت گڑھ آنکھ کھلی۔
سب یاد ہے مگر سب سے زیادہ آج وہی بات یاد آئی جو مولانا اقبال صاحب نے مجھے روک کر بڑی امیدوں اور شفقت سے کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ تقویۃ الایمان کو آج کل دیوبندی تبلیغی اپنی کتاب بتاتے ہیں، حالانکہ ان کا عمل اس کے خلاف ہے، اس بارے میں ایک کتاب لکھو۔
رات جب حافظ عبدالحسیب صاحب کا میسج پڑھتے ہوئے آنکھیں بھر آئیں تو مولانا اقبال صاحب کی اس بات نے سونے نہیں دیا۔ سحری تک تقویۃ الایمان پر غلام رسول مہراورمولانا ابوالحسن علی ندوی کے مقدمے نیز ابوالحسن زید فاروقی دہلوی کی کتاب ’مولانا اسماعیل دہلوی اور تقویۃ الایمان‘ پڑھتا رہا۔
اللہ رب العالمین مولانا اقبال جامعی صاحب کے نیک اعمال کو قبول فرمائے، ان کی خطاؤں سے درگزر کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے۔ آمین
انا للہ و انا الیہ راجعون اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ
کمال کے آدمی تھے،میں نے کرناٹک میں رہتے ہوئے ان کا ذکر سنا تھا