واما ما ينفع الناس فيمكث فی الارض

نسیم اختر عبدالمجید وصی سلفی تعلیم و تربیت

کسی بھی قوم کا وجود کم از کم دنیا کی حد تک اس بات پر موقوف ہے کہ وہ عالم انسانیت کے لیے کس حد تک مفید ہے، وقت اور حالات سے ہم آہنگی کا جوہر کس قدر اس میں موجود ہے، لیکن یہ ثابت کرنے کے لیے کسی جدل و مناظرہ اور بحث و مباحثہ کی حاجت نہیں بلکہ عمل وکردار سے ،اپنے روشن کارناموں سے ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ واقعی اس میں بقا کا جوہر موجود ہے۔
لیکن جب بات امت محمدیہ کی آتی ہے تو اسے دنیا وآخرت ہر دو لحاظ سے اپنی بقا کا جواز پیش کرنے کے لیے مطلوبہ کردار وعمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے جس سے اقوام عالم نہ صرف اس کے وجود کو تسلیم کریں بلکہ اس کی امامت وسیادت کو باعث شرف خیال کریں۔
بایں معنی امت اسلام کو شجر ثمردار کی مانند ہونا چاہیے جس پر چومکھی حملہ تو ہوتا ہے، سنگ باری تو ہوتی ہے مگر کوئی اسے بیخ وبن سے نہیں اکھاڑتا کیونکہ خلقت اس سے فیض یاب ہوتی ہے۔ اور شجر بے ثمر اپنی عدم افادیت کی وجہ سے اکھیڑ دیا جاتا ہے ،اس کا وجود گوارا نہیں کیا جاتا کیونکہ بقا کا جوہر اس میں موجود ہی نہیں ہے، امت مسلمہ کو اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے بے پروا ہوکر اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں لگے رہنا چاہیے،اپنی نیکیوں کو عام کرنا چاہیے۔
مسلمان کو دنیا پائے تحقیر سے ٹھکراتی رہی،اسے عیاش ،کام چور ،رذیل پنکچر بنانے والا بتاتی رہی مگر اضطراب دہر نے جب اسے کچوکے لگاکر بیدار کیا،اسے اس کا منصب یاد دلایا تو اس کے اندر دبی غیرت کی چنگاری سلگ اٹھی اور وہ اپنے مشن میں بے جھجھک لگ گیا ۔کووڈ ۱۹ کی دوسری لہر آنے کے بعد جس طرح بھارت کے گوشے گوشے سے خوف ناک خبریں آنے لگیں، میڈیکل سسٹم کمزور پڑنے لگا، اسپتالوں میں مریضوں کے لیے آکسیجن کی قلت ہو گئی اور اس کی وجہ سے اموات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا اور معاملہ حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو گیا تو امت کے جیالوں نے اپنی دولت وثروت کا دہانہ کھول دیا۔ کسی نے لاکھوں کی مہنگی کار فروخت کرکے مریضوں میں بلاتفریق ملت آکسیجن سپلائی کی ،تو کسی نے سخاوت وفیاضی کی مثال قائم کرتے ہوئے کروڑوں کی لاگت میں آکسیجن حکومت وعوام کو فراہم کیا ۔جب وبائی مرض کے خوف سے اپنے قریبی رشتے دار مریضوں سے دور بھاگنے لگے تو یہی مسلمان بے غرضی وبے لوثی کے ساتھ لاشوں کو مدفن ومرگھٹ تک پہنچاتے رہے ،ایسی دسیوں مثالیں ہیں۔ حالات پر نظر رکھنے والے غیر مسلم انصاف پسندوں نے اسے خوب سراہا اور اپنے حلقۂ اثر میں اعلان کیا کہ خبردار اس احسان کو مت بھولنا،جس طرح مسلم بھائیوں نے اعلی ظرفی کا ثبوت دیا ہے ان کے ساتھ تعامل میں تمھیں بھی وسیع ظرفی کا ثبوت دینا ہے ایسا نہ ہو کہ حالات نارمل ہونے کے بعد سب کچھ بھول جاؤ ۔
ان سانحات وحوادث میں ہمارے لیے درس عبرت ہے،غور وفکر کا سامان ہے۔ سوئی ہوئی امت کے لیے اس میں یہ پیغام ہے کہ تم خیر امت ہو ،تمھارے وجود کا مقصد محض اپنی ذات کی تعمیر وتزئین نہیں ہے بلکہ کائنات کی رشد وہدایت اور افادیت ہے۔ جب تک تمھارا یہ وصف باقی رہےگا دنیا کی کوئی طاقت تمھیں صفحۂ ہستی سے مٹا نہیں سکتی۔
من بطّأ به عمله لم يسرع به نسبه
(صحيح مسلم) جس کا عمل اسے پیچھے چھوڑ دے اس کا نسب اسے آگے نہیں کر سکتا۔ یہ زریں اصول دین وآخرت کے لیے ہے وہیں دنیا کے لیے بھی ہے کہ فرد ہو یا جماعت اس کا وقار اس کے جہد و عمل سے مربوط ہے، بغیر عمل کے دنیا میں کامیابی مل سکتی ہے نہ آخرت میں۔
آج افراد امت کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی مخالف اس کی شخصیت اور وجود پر سوال کھڑا کر دے، اسے بےثمر بتلائے تو وہ ساری توانائی آباء واجداد کے کارنامے پیش کرنے پر صرف کرتا ہے، فضول بحث میں وقت لگاتا ہے اور کردار وعمل سے عاری اپنی شخصیت کو بھول جاتا ہے۔ شاعر مشرق اقبال نے کہا تھا؎
تھے تو آبا وہ تمھارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
اسلاف سے میراث میں آئی ہوئی امامت کے حق دار ہم ہو نہیں سکتے جب ہم نااہل ہوں، بے عملی کا شکار ہوں، فکری و علمی اعتبار سے یتیم ہوں، ابراہیم علیہ السلام کو منصب امامت عطا ہوا(اني جاعلك للناس اماما) تو انھوں نے چاہا کہ یہ منصب میری ذریت میں بھی باقی رہے ،تو اللہ نے کہا: لا ينال عهدي الظالمين (میرے اس عہد کے سزاوار ظالم نہیں ہو سکتے)
حالیہ سانحے میں افراد امت نے جس طرح مادی نوازش سے برادران وطن کو فیض یاب کیا اسی طرح دینی نوازش سے بھی شادکام کریں کہ یہ امت دینی لحاظ سے خیر کے جوہر سے مالامال ہے اور یہ اپنے تک محدود رکھنے کے لیے نہیں ملا ہے بلکہ ہر سطح پر اسے عام کرنے کے لیے دیا گیا ہے ،ہماری پہنچ جہاں جہاں تک ہے وہاں وہاں تک ادائیگی فرض میں کوشاں رہنا پڑےگا۔پچھلے دنوں آئی آئی سی ممبئی دعوتی سنٹر کی مسجد میں غیر مسلموں کو دعوت دی گئی کہ وہ مسجد کی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھیں ،اذان، وضو اور نماز کے شرعی مقاصد ومعانی کو سمجھیں ۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر مسلموں نے وہاں سے نکلتے ہوئے مسرت آمیز تاثرات پیش کیے۔ انھوں نے کہا کہ ہم پہلے مسجد کے پاس سے گزرتے ہوئے سوچا کرتے تھے کہ پتا نہیں اس میں ملک مخالف کیا کچھ ہو رہا ہوگا مگر آج قریب سے دیکھ کر ساری غلط فہمیاں دور ہو گئیں، ایشورواد کو سمجھنے کا موقع ملا اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے ملک کی سالمیت میں مساجد کا بہت اہم رول ہے کیونکہ یہاں امن وآشتی کی بات کی جاتی ہے، انسان انسانیت کے معراج تک پہنچتا ہے، دیگر مساجد کے ذمے داران کو بھی غیر مسلموں کے لیے اس طرح کا پروگرام کرنا چاہیے۔

آپ کے تبصرے

3000