روزوں کی فرضیت کا مقصد تقوی

فیروز احمد بلرام پوری رمضانیات

اللہ تعالی کے فرمان کے بموجب روزوں کی فرضیت کا مقصد بنی نوع انسان کے اندرتقوی و پرہیز گاری پیدا کرنا ہے اور یہ ایسی شئ ہے جو تمام اعمال صالحہ و خصائل حمیدہ کو شامل اور شریعت اسلامیہ کو محیط ہے، جو تمام خیر کی کلید ہے، جس کا حکم اللہ تعالی نے ساری انسانیت سمیت تمام انبیاء علیہم السلام کو دیا ہے، جس سے اللہ تعالی کی معیت،محبت، نصرت و مدد، معاملات کے اندر آسانی، دشمنوں کے خلاف فتح، رزق میں کشادگی، حصول علم میں آسانی، رضا و خوشنودی اور آخرت میں باغات و محلات جیسی عظیم نعمتیں حاصل ہوتی ہیں، جس کے لیے نبی محترمﷺنے دعائیں کی ہیں اور اپنی امت کو اس کی تعلیم دی ہے، جسے عملی زندگی میں نافذ کرنا دنیا و آخرت میں سعادت مندی کا باعث ہے اور اسے چھوڑدینا ہلاکت و بربادی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، گویا تقوی و پرہیزگاری کو اپنانے میں دنیا و آخرت میں تمام کامیابیوں کا راز مضمر ہے۔
تقوی و پرہیزگاری کے حصول کا ایک بہترین ذریعہ روزہ ہے، اس طور پر کہ بندہ اللہ تعالی کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے بہت سی چیزوں کو ترک کر دیتا ہے جب کہ وہ چیزیں اس کی نگاہوں کے سامنے ہوتی ہیں اور وہ ان کے استعمال پر قدرت بھی رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس سے دور رہتا ہے کیونکہ اس کا دل اللہ تعالی کے خوف اور اطاعت و فرمانبرداری کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک اپنے آپ کو ان حلال چیزوں سے روکے رکھتا ہے جن سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے ، نیز روزہ ایک ایسی عبادت ہے، جو بندوں کو گناہوں سے روکتی اور اللہ ورسول اللہ ﷺ کے احکامات کا پابند بناتی ہے، رگوں میں شیطان کے چلنے پھرنے کی قوت کمزور کرتی ہے اور اطاعت و فرماں برداری کے پہلو کو غالب کرتی ہے، گویا روزہ انسان کے لیے بہترین تدریب و مشق ہے کہ وہ ایک مہینہ اللہ تعالی کی رضامندی کے لیے جائز چیزوں کو ترک کردیتا ہے۔ ایسے ہی رمضان المبارک کے علاوہ دیگر مہینوں میں بھی اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کرنے اور منہیات سے بازآنے کی ضرورت ہے، رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے یہی مطلوب و مقصود ہے تاکہ حیات فانی تقوی و پرہیزگاری کی زینت سے آراستہ وپیراستہ ہو کر سعادت دارین جیسی عظیم ترین دولت سے مالا مال ہوجائے، رب العالمین ہم سب کو اس کی توفیق بخشے۔ آمین
مثال کے طور پر جب جانور کو کسی خاص عمل کی تربیت دینی ہوتی ہے، تو اسے بھوکا پیاسا رکھاجاتا ہے، اس طرح جب وہ بھوک پیاس کی شدت سے نڈھال ہوتا ہے، تو اپنے مالک و معلم کی بات کو ماننے پر مجبور ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح اللہ تعالی نے روزہ فرض قرار دیا ہے، جو ایک اہم عبادت ہے اور اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، جس کا کوئی بدل نہیں ہے، جس پر بے انتہا اجروثواب کا وعدہ ہے، تاکہ بنی نوع انسان کا دل ودماغ اللہ و رسولﷺکی اطاعت و فرماں برداری کے لیے تیار ہوجائے اور اس سے سابقہ کوتاہیوں کا بھی ازالہ ہوجائے اور انسان تقوی کا سراپا مجسمہ بن جائے، تاکہ دنیاوی بھلائیوں کے ساتھ ساتھ قیامت کے دن بھی اس کا انجام اچھا ہو اور آخرت میں باغ و بہشت جیسی عظیم نعمت کا مالک بن جائے، جسے اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کے لیے تیار کر رکھا ہے، اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالی نے امت مسلمہ پر رمضان المبارک کے روزوں کو فرض قرار دیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُتِبَ عَلَيۡکُمُ الصِّيَامُ کَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَۙ
(البقرہ:۱۸۳)مومنو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بنو۔
امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے حضرت ابی بن کعب ؓسے تقوی کے بارے میں استفسار کیا تو انھوں نے کہا:
کیا آپ کبھی کانٹے دار راستے میں چلے ہیں؟
کہا:’’ہاں‘‘
پھرانھوں نے دریافت کیا:’’ تو آپ نے کیا کیا؟‘‘
عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:’’میں آستین چڑھا لیتا ہوں اور محتاط ہوجاتا ہوں ۔‘‘
ابی بن کعب نے فرمایا:’’بس یہی مثال تقوی کی ہے ۔‘‘
اسی طرح ایک آدمی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی تقوی کے متعلق پوچھا تھا، تو آپ نے بھی حضرت ابی بن کعب ؓ کی طرح جواب دیا تھا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ تقوی کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’هي الخوفُ مِنَ الجليلِ والعَمَلُ بالتَّنزيلِ والقناعةُ بالقليلِ والاستعدادُ لِيومِ الرَّحيل(اللہ تعالی سے ڈرنا،اس کی طرف سے نازل کردہ باتوں پر عمل کرنا،تھوڑی چیزوں پر قناعت کرنا اور موت کے دن کی پوری تیاری کرنا یہ تقوی ہے)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ آیت کریمہ:
اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ
(آل عمران :۱۰۲)کے بارے ميں فرماتے ہیں،اللہ تعالی کی اطاعت کی جائے، اس کے ساتھ معصیت نہ کی جائے، اس کو یاد کیا جائے، بھلایا نہ جائے، اس کی شکر گزاری کی جائے، ناشکری نہ کی جائے۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں:
’’متقی لوگ وہ ہیں جو اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ان چیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں جن کے چھوڑ دینےکا دین کے بارے میں انھیں علم ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے ان چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جو نبی ﷺ لے کر آئے ہیں۔
حضرت ابو درداء ؓ فرماتے ہیں:
’’کامل تقوی یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے ڈرے، یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی اللہ تعالی سے ڈرے یہاں تک کہ بعض حلال چیزوں کو بھی چھوڑ دے اس ڈر سے کہ کہیں حرام میں واقع نہ ہوجائے اوریہ اس کے اور حرام کردہ چیزوں کے درمیان اوٹ ہو، اللہ تعالی نے بندوں کے بارے فرمایا:
فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ
(پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا)
پس تم کسی نیکی کو ہرگز حقیر نہ سمجھو مگر اس کو انجام دو اور نہ ہی کسی گناہ کو حقیر جانو مگر اس سے بچنے کی کوشش کرو۔
حضرت عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
دن میں روزہ رکھنا اور رات میں قیام کرنا اور ان کے درمیان کی چیزوں کو انجام دینا یہ تقوی نہیں ہے، بلکہ تقوی یہ ہے کہ انسان ان تمام چیزوں کو چھوڑ دے جس کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے اور ان کاموں کو انجام دے جنھیں اللہ تعالی نے فرض کیا ہے، پس جسے خیر کی توفیق دے دی گئی تو ایسے شخص کے لیے خیر ہی خیر ہے۔
عربی شاعر ابن المعتز نے بھی اپنے اشعار میں تقوی کا بہترین مفہوم بیان کیا ہے :
خَلِّ الذُّنُوبَ صَغِيرَهَا
وَكَبْيرهَا ذَاك التُّقى
وَاصنَع كَمَاشٍ فَوقَ أرضِ
الشَوكِ يَحْذَرُ مَا يَرى
لاَ تَحْقِرَنَّ صَغِيرةً
إِنَّ الجِّبَالَ مِن الحَصَى

(چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو چھوڑ دو یہ تقوی ہے اور کانٹوں والی زمین پر چلنے والے کی طرح کرو، جو اس سے بچتا ہے، جو کہ وہ دیکھتا ہے، صغیرہ گناہوں کو معمولی نہ سمجھو بلاشبہ پہاڑ کنکریوں سے بنتے ہیں)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنی اور رسول امی ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کی توفیق دے، گناہوں سے بچائے، تقوی کو اپنانے والا بنائے، جنت کے راستوں کو آسان کرے، قبر و جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے۔ آمین تقبل يارب العالمين


مراجع و مصادر:
۱۔تفسیر قرطبی
۲۔تفسیر فتح القدیر
۳۔احسن البیان
۴۔موسوعۃ الرقائق والأدب:ياسر الحمداني
۵۔التقوى في القرآن الكريم:نبيل محمد احمد زهور
۶۔التقوى بركات و أسباب:د. فضل الهي
۷۔معنى التقوى:د. سالم بن ارحمه الشويهي
۸۔ما هى التقوى؟
۹۔تقوى الله فضلها وثمراتها:أبي سالم
۱۰۔التقوى:محمود القاسمي

آپ کے تبصرے

3000