کورونا کی کورونولوجی

ابوالمیزان منظرنما

بدعقیدگی مسلمانوں میں ہی ہے تو اکثریتی طبقے سے کسی اور توقع کا کیا معنی ہے۔ ان کا تو کام ہی بھکتی سے شروع ہوکر اندھ وشواس پر ختم ہوجاتا ہے۔
یکم دسمبر۲۰۱۹ کو ووہان چین میں پیدا ہونے والے کورونا وائرس کو ۱۱؍فروری۲۰۲۰ کو کووڈ-۱۹ نام‌ دے دیا گیا۔ اب تک دنیا بھر میں ٹوٹل چودہ کروڑ نوے لاکھ گیارہ ہزار آٹھ سو انتالیس(۱۴۹۰۱۱۸۳۹) کنفرم کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں سے اکتیس لاکھ چالیس ہزار سات سو نوے(۳۱۴۰۷۹۰)موتیں ہوچکی ہیں۔
انڈیا کے ایک کروڑ چھہتر لاکھ چھتیس ہزار تین سو سات(۱۷۶۳۶۳۰۷) متاثرین میں سے اب تک ایک لاکھ ستانوے ہزار آٹھ سو چورانوے(۱۹۷۸۹۴) لوگ مرچکے ہیں۔ جس ملک چین سے یہ وبا شروع ہوئی تھی اس کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ پچاس ہزار (۱۴۰۰۰۵۰۰۰۰)ہے، متاثرین کی تعداد کے اعتبار سے چین اس وقت دنیا میں ستانوے (۹۷)نمبر پر ہے جبکہ ہمارا ملک انڈیا دوسرے نمبر پر اور ہماری آبادی ایک ارب پینتیس کروڑ چھبیس لاکھ بیالیس ہزار دو سو اسی(۱۳۵۲۶۴۲۲۸۰) ہے۔
ہمارے یہاں کورونا کا پہلا کیس ۳۰؍جنوری۲۰۲۰ کو کیرلا میں ملا تھا۔
فروری میں دلی میں چناؤ اور فساد ہورہا تھا، فساد کے وقت ہی ملک میں ٹرمپ کی میزبانی چل رہی تھی۔
مارچ میں مدھیہ پردیش کا وزیر اعلی بدل رہا تھا اسی بیچ ملک بھر میں ایک دن کا جنتا کرفیو لگا۔ چوبیس مارچ کو اکیس دن کے لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا اور مہینے کی آخری تاریخ کو تبلیغی جماعت کے کورونا پھیلانے کی خبر چلنا شروع ہوئی۔
اپریل میں لاک ڈاؤن پھر سے بڑھادیا گیا اور شہروں سے مزدور ایسے جانے لگے جیسے ۱۹۴۷ میں مسلمان پاکستان جارہے تھے اور ہندو ہندوستان آرہے تھے۔
مئی کے آغاز میں ہی انڈیا چین بارڈر پر فوجیوں کی جھڑپیں شروع ہوئیں، جون کے آخر تک انسٹھ(۵۹)چینی ایپ پر پابندی لگی تو یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
۱۷؍جولائی تک کورونا کے دس لاکھ کیس ہوچکے تھے۔
پانچ اگست کو ایودھیا میں بھومی پوجن ہوا اور نو اگست کو وجے واڑہ آندھراپردیش کے ایک کووڈ-۱۹ سینٹر میں آگ لگ گئی جس میں گیارہ(۱۱) لوگ مرے اور بائیس(۲۲)زخمی ہوگئے۔
تین ستمبر کو پب جی سمیت ایک سو اٹھارہ(۱۱۸) چینی ایپ پر پابندی لگی، چودہ ستمبر کو وہ تین اگریکلچر بل پاس کردیے گئے جو لاک ڈاؤن کے دوران ہی پانچ جون کو پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے تھے اور تیس ستمبر کو بابری مسجد منہدم کرنے والے سارے بتیس(۳۲)مجرموں کو بری کردیا گیا۔
اکتیس اکتوبر کو یوگی نے اعلان کیا کہ یوپی حکومت لو جہاد کے خلاف قانون پاس کرے گی۔
چوبیس نومبر کو اترپردیش اسٹیٹ کیبنٹ نے یہ قانون پاس کردیا جس پر اٹھائیس نومبر کو یوپی گورنر نے دستخط بھی کردیا۔
چھبیس دسمبر کو ایسا ہی قانون مدھیہ پردیش حکومت نے بھی پاس کیا۔ تیس دسمبر کو آسام سرکار نے بھی ایک قانون پاس کیا جس کی وجہ سے سات سو سرکاری اسلامی اسکول ریگولر اسکولوں میں بدل گئے۔
کورونا کی پہلی لہر میں موتیں کم ہوئیں، جو ہوئیں بھی انھیں کورونا کی موتیں کم‌ شمار کیا گیا۔ جب کورونا آیا تو دیش بھر میں سی اے بی اور این آر سی کے خلاف احتجاج چل رہا تھا، لاک ڈاؤن پر ہماری طرف کی عورتیں کہہ رہی تھیں ’کل مودیک چال ہوئے‘۔ احتیاط بھی ہورہا تھا مگر اس سے زیادہ لطیفے بن رہے تھے۔ عوام تو عوام وزیراعظم کو بھی یہی سب سوجھ رہا تھا تھالی بجاؤ دیا جلاؤ۔ این آر سی احتجاجیوں کا مسئلہ تو کورونا نے حل کردیا تھا، بچی کچھی کسر گرفتاریاں کرکے نکال لیں اور پھرحکومت نے کسانوں کی طرف رخ کیا۔ دوسری لہر شروع ہونے لگی تو پھر سے غلط فہمیاں پھیلنے لگیں، ویکسین بیچنے کے لیے یہ ڈرامہ کیا جارہا ہے، کسانوں کے دھرنے ختم کرنا چاہتے ہیں، رمضان سے پہلے دوبارہ لاک ڈاؤن کا سلسلہ ہوا تو کہا جانے لگا کہ مسلمانوں کا روزہ اور عید خراب کرنا چاہتے ہیں۔ اور اب جبکہ قبرستانوں اور شمشانوں کے باہر قطاریں لگی ہیں، پورا ہندوستان سانسوں کے بحران کا شکار ہے تو بہت سارےلوگوں کا گمان‌ یقین میں بدل گیا ہے۔
تین جنوری۲۰۲۱ کو بھارت بایوٹیک کی جن دو ویکسینوں کو انڈیا نے منظوری دی تھی سولہ جنوری سے ہی وہ لگائی جانے لگی تھیں۔ ویکسینیشن سے پہلے ہی سپریم کورٹ نے کسانوں والے بل پر بارہ جنوری کو اسٹے لگادیا تھا۔
سات فروری کو اتراکھنڈ میں سیلاب آیا اور تیرہ فروری کو دہلی سمیت شمالی ہند میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔
مارچ سے کورونا‌ کی دوسری لہر شروع ہوگئی۔ مہاراشٹر کی راجدھانی ممبئی کے ایک کووڈ-۱۹ اسپتال (بھانڈوپ) میں آگ لگی، دس لوگوں کی جان چلی گئی۔
۲۳؍اپریل کو مہاراشٹر کے ضلع پالگھر میں ورار کے ایک اسپتال میں آگ لگی جس میں تیرہ لوگ مرے، سب کورونا کے مریض تھے۔ آج (۲۸؍اپریل) مہاراشٹر کے ایک اور ضلع تھانے کے پرائم ہاسپٹل ممبرا میں آگ لگ گئی، چار لوگوں کی موت ہوئی۔
اب تک سب سے زیادہ ویکسین چین میں لگائی گئی ہے، ساڑھے تیئیس (۲۳) کروڑ سے زائد۔ لیکن آبادی کے اعتبار سے ویکسین لگانے میں نمبر ایک پر اسرائیل ہے، اپنے باسٹھ فیصد لوگوں کو ویکسین لگاچکا ہے، دوسرے نمبر پر انگلینڈ ہے پچاس فیصد اور تیسرے نمبر پر امریکہ بیالیس فیصد۔ ہمارے ملک نے اپنے تقریباً نو فیصد لوگوں کو ویکسین لگایا ہے۔ اسپتالوں میں جگہ نہیں ہے یہ دوسری وجہ ہے کثرت اموات کی۔
جو عوام نے کیا وہی سرکار نے بھی۔ اجتماعی طور پر نہ عوام نے پورا سچ جانا اور نہ ہی سرکار نے مانا۔ مانتی تو علاج ڈھونڈتی۔ اسے تو زوال سے پہلے اپنے سپنے کو ساکار کرنے کی پڑی ہے۔
دوسری لہر میں جانوں کو خطرہ پہلی بار کے مقابلے چار گنا تھا مگر سب جانتے بوجھتے بھی ملک کے کلیدی عہدے دار ریلیاں کرتے رہے، کمبھ میں میلہ چلتا رہا۔ لاکھوں کروڑوں لوگ سیاسی اور مذہبی شو اٹینڈ کرتے رہے۔ الیکشن کے رزلٹ سے پہلے ہی بے احتیاطی کے نتیجے آنے شروع ہوگئے ہیں۔ جتنے لوٹے ہیں ان میں سے کچھ مرگئے اور بہت سارے لوگ کورونا سے متاثر ہیں۔ کنسپریسی تھیوریاں الگ کام کررہی ہیں۔ اندھ وشواس کا اپنا الگ ہی ٹریک ہے۔ فای جی کی ٹیسٹنگ پتہ نہیں کہاں ہورہی ہے، سارا اثر ہمارے ملک کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی لاجک بھی ہے یا ہماری نفسیات ہی تجسس کی ماری ہے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Abdul Rehman Abdul Ahad

بہت عمدہ کرونا کی مختصر ترین تاریخ مع روداد کرونا