مرنے والوں کی تیسری قسم: کون خوش نہیں ہوگا؟

ابوالمیزان منظرنما

پہلی قسم والے مرتے ہیں تو کیا اپنے کیا غیر سب کو بہت دکھ ہوتا ہے اور دوسری قسم والوں کی موت کی خبر سے کسی کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔
امام احمد بن حنبل سے کہا گیا: ابن ابی دؤاد کے سپورٹروں پر جو گزر رہی ہے آدمی اس سے خوش ہوتا ہے، تو کیا اس میں کوئی گناہ ہے؟ انھوں نے کہا: کون خوش نہیں ہوگا؟ (السنۃ للخلال:۵/۱۲۱)
بشر بن حارث کو مریسی کی(۱)، عبدالرزاق صنعانی کو عبدالمجید بن عبدالعزیز بن ابی رواد کی(۲)، عبدالرحمن بن مہدی کو وھب القرشی کی(۳) اور حافظ ابن کثیر کو بدعتیوں کے ایک سردار کی موت کی خبر ملی تو بہت خوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ (۴)
بدعتیوں اور گمراہوں کی موت پر اسلاف کا ایسا ہی رویہ تھا۔نہ صرف خوش ہوتے بلکہ اللہ کا شکر بھی ادا کرتے تھے:
الحمد للہ الذی اماتہ/الحمدللہ اراح امۃ محمد من عبدالمجید/الحمدللہ الذی اراح المسلمین منہ/اراح اللہ المسلمین منہ فی ھذہ السنۃ فی ذی الحجۃ منھا

یہ بالترتیب بشربن حارث، عبدالرزاق صنعانی، عبدالرحمن بن مہدی اور حافظ ابن کثیر کے الفاظ ہیں۔
ایک جنازے کو دیکھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یستریح منہ العباد والبلاد والشجر والدواب
(متفق علیہ عن ابی قتادہ الانصاری- رضی اللہ عنہ)
مولانا وحیدالدین خان کے انتقال پر اہل حدیث مدارس کے فارغین دو گروہوں میں بٹ گئے، ایک اچھا دوسرا برا کہہ رہا تھا۔ ہفتہ بھر گزرا اور لگنے لگا کہ یہ بحث کچھ ٹھنڈی پڑ رہی ہے، یکایک آج ایک اور بڑی خبر آئی:اکتالیس سالہ جرنلسٹ روہت سردانا کی کورونا رپورٹ پوزیٹیو آئی اور ہارٹ اٹیک سے موت ہوگئی۔
آکسیجن کی کمی سے جیسے دل رک جاتا ہے ایسے ہی دماغ بھی کام کرنا بند کردیتا ہے۔ دماغ کی جب خون کی سپلائی رک جاتی ہے یا کم ہوجاتی ہے تو برین ٹشوز کو آکسیجن وغیرہ ملنے میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ پھر منٹوں میں دماغ رک جاتا ہے ۔ اسے اسٹروک (فالج)کہتے ہیں۔
ابن ابی دواد کی موت اسٹروک سے ہوئی تھی۔
ابوعبداللہ احمد بن ابی دواد الایادی کی ولادت ۷۷۶یا۷۷۷ءمیں بصرہ میں ہوئی تھی۔ کم عمری میں ہی اپنے والد کے ساتھ دمشق چلا گیا تھا۔ جہاں فقہ اور کلام کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے استاد ہیاج بن الاعلی السلمی معتزلہ کے بانی واصل بن عطا کے شاگرد تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعدمامون کے عہد خلافت(۸۱۳تا۸۳۳ء) میں چیف جج (قاضی القضاۃ)کے عہدے پر فائزیحی بن اکثم کے ساتھ کام کرنے لگا۔ اسی دوران مامون سے بغداد میں اس کی ملاقات(۸۱۹ء)ہوئی۔ پھر قربت اور بڑھی کیونکہ مامون کا جھکاؤ بھی معتزلہ کی طرف تھا۔اسی خلیفہ نے ۸۲۷ءمیں خلق قرآن کے عقیدے کو سرکاری بنایااور۸۳۳ء میں ’محنۃ خلق قرآن‘ کا سلسلہ شروع کیا۔ جوعلماء خلق قرآن کے عقیدے کو تسلیم نہیں کرتے تھے انھیں سزا دی جاتی، جیل میں بند کیا جاتا اور قتل بھی کردیا جاتا۔۸۳۳ء کے آخر تک ابن ابی دواد خلیفہ مامون کا معاون خاص ہوگیا۔ مامون جب بستر مرگ پر تھا تو اس نے اپنے بھائی اور ولی عہد معتصم باللہ سے کہا کہ ابن ابی دواد کو اپنے مشیروں میں شامل کرلے۔معتصم خلیفہ بنا تو اس نے یحی بن اکثم کو ہٹاکر ابن ابی دواد کو چیف جج بنالیا۔ معتصم کے عہد خلافت (۸۳۳تا۸۴۲ء)کے بعد معتصم کے بیٹے واثق باللہ کے عہد(۸۴۲ تا۸۴۷ء) میں بھی وہ چیف جج رہا۔ ۸۴۷ء میں جب واثق کا بھائی المتوکل علی اللہ (جعفر)خلیفہ بنا تو معتصم اور واثق دونوں کے عہد خلافت کے اہم عہدے داروں کا صفایا کرنا شروع کیا، یا تو عہدے چھین لیے یا پھر قتل کرادیا۔ فتنہ خلق قرآن کوختم کیا، اعتزال پر روک لگائی اور محنۃبھی ساقط کردیاجس کا آغاز ۸۳۳ء سے ہوا تھا۔ ہاں ابن ابی دواد کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، ایک سال کے اندر ہی جب اس پرفالج کا حملہ ہوا تو اس کا بیٹا محمد اس کا قائم مقام ہوگیا۔ ۸۵۱ء میں متوکل نے ابن ابی دواد اور محمد کے سارے اختیارات چھین لیے، ابن ابی دواد اور اس کی فیملی کی تمام جائدادیں ضبط کرلیں۔محمد اور اس کے بھائیوں کو جیل میں ڈال دیا۔ ابن ابی دواد کی جگہ پھر سے یحی بن اکثم کو چیف جج بنادیا گیا۔ابن ابی دواد نے جتنے جج(قاضی) بنائے تھے سب کو برطرف کردیا گیا۔ خلق قرآن کے مسئلے میں جتنے قید کیے گئے تھے مارچ ۸۵۲ء میں سب کو آزاد کردیا گیا۔ چیف جج کا عہدہ چھن جانے کے بعد ابن ابی دواد صرف تین سال زندہ رہا، جون ۸۵۴ء میں اپنے بیٹے محمد کی موت کے بیس دن بعدوہ بھی مرگیا۔
۸۳۳ء میں امام احمد بن حنبل -رحمہ اللہ -۵۳سال کے تھے، معتصم کے زمانے میں انھیں فتنہ خلق قرآن کے مسئلے میں ۲۸ مہینے قید رکھا گیاپھر عوام کے دباؤ میں چھوڑ دیا گیا۔رہائی کے بعد نظربند کردیے گئے، مسجد میں نماز پڑھنے تک کی اجازت نہ تھی۔ واثق خلیفہ ہوا تو اس نے انھیں بغداد بدر کردیا۔ ۸۴۷ء تک یعنی پورے چودہ سال امام احمد بن حنبل نے ایک مسلم حکومت میں اہل حق علماء پر وہ زمانہ دیکھا جس کے بارے میں کہا جا تا تھا:
ھذا زمان السکوت وملازمۃ البیوت
(یہ چپ چاپ گھروں میں بیٹھ رہنے کا زمانہ ہے)
ظلم کی مدت صرف چودہ سال تھی، سترہ سال کے مختصر عرصے میں ابن ابی دواد نے اپنا عروج اور زوال دونوں دیکھ لیا۔ مسلم حکومت تھی، خلافت عباسیہ کا زمانہ تھا۔ فرق کیاتھا، عقیدے کا۔ قرآن کو اللہ کا کلام یا اللہ کی تخلیق ماننے کا جھگڑا تھا۔ حکومت نے قرآن کو اللہ کی تخلیق ماننے والے عقیدے کی سرپرستی شروع کی اور اس عقیدے کی مخالفت کرنے والوں پر ظلم ڈھانا شروع کردیا۔ اسی مسئلے میں امام احمد بن حنبل کو ایک مسلمان خلیفہ کے عہد میں ، ایک مسلمان جج ابن ابی دواد کی زبان اور قلم کی حرکت سےمسلمانوں کے ایک جم غفیر کے سامنے کوڑے لگائے گئے۔ جیل میں ڈالا گیا۔ گھر میں نظربند کردیا گیا۔ شہر بدر کردیا گیا۔
متوکل کے عہد میں ابتدائی چار سالوں کے اندر ابن ابی دواد اور اس کے سپورٹروں کا جوحال ہوا اسے دیکھ کر صرف خوش ہونے والے نہیں تھے، دکھی بھی بہت تھے۔ ابن ابی دواد صرف جج ہی نہیں تھا، شاعر بھی تھا۔ بہت سارے شاعروں اور ادیبوں کی سرپرستی کرتا تھا۔ ادیب زمانہ جاحظ نے ابن ابی دواد کے نام اپنی ایک کتاب کا انتساب کیا تھا۔ جاحظ بھی بصرہ ہی میں ۷۷۶ء میں پیدا ہوا تھا یعنی دونوں ایک ہی شہر اور ایک عمر کے تھے۔ اعتزال کی تبلیغ میں جاحظ نے ابن ابی دواد کی مدد بھی کی تھی۔ ۷۷ یا ۷۸ سال کی عمر میں ابن ابی دواد جب مرا تو جاحظ زندہ تھا۔ بغداد میں پچاس سال سے زائد عرصہ گزار کر جاحظ بصرہ واپس چلا گیا اور ۹۳ سال کی عمر میں اپنی ہی لائبریری میں اپنی کتابوں کے وزن تلے دب کر مرگیا۔
جس کی موت پر سب کو دکھ ہوتا ہے اسے اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ جس کی موت سے کچھ فرق نہیں پڑتا اس کی خبر گھر والوں کے بعد اس کے اپنے گاؤں یا شہر والوں تک پہنچتی ہے اور پھر اس کی تدفین کے بعد زندگی معمول پر آجاتی ہے۔ لیکن تیسری قسم ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کی موت پر کچھ لوگوں کو دکھ ہوتا ہے اور کچھ خوش ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے اپنے ہم خیال وہم قبیلہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہوتا ہے اور اپنے مخالفین پر ظلم۔ یہ اچھا سلوک اور بدسلوکی دنیا میں اللہ کی طرف سے انھیں عطا کی گئی صلاحیت کے ذریعے ہوتا ہے، جیسے ابن ابی دواد چیف جج تھا تو اس نے اپنے اثرورسوخ کا فائدہ اٹھایا، اپنے عہدے کا استعمال کیااور اپنے مخالفین کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا، وہیں اپنے نظریے کی ترویج میں جاحظ جیسے ادیب سے مدد لی، اپنے ہم خیال شاعروں اور ادیبوں کی پذیرائی کی۔ اس نے کچھ لوگوں کا برا کیا اور کچھ لوگوں کا اچھا ۔ اس کی موت کے بعد اس کے ہمنواؤں کو دکھ ہوا اور مخالفین کو خوشی۔ وہ ظالم تھا اس لیے خوش ہونے والے حق پر ہوئے۔ خوشی کا اظہار بھی کیا تبھی توخبر ہم تک پہنچی ورنہ اپنے دل میں رکھتے تو ہمیں کیسے پتہ چلتا۔
یعنی ابن ابی دواد بھی مرنے والوں کی تیسری قسم میں سے تھا، جس کی موت پر کچھ لوگ دکھی ہوئے اور کچھ خوش ،جیسے اس کے سپورٹروں کے انجام پر امام احمد بن حنبل نے کہا تھا: کون خوش نہیں ہوگا؟


حواشی:
(۱)تاریخ بغداد:۷/۶۶، لسان المیزان:۲/۳۰۸
(۲)سیراعلام النبلاء:۹/۴۳۵
(۳)لسان المیزان:۸/۴۰۲
(۴)البدایہ والنہایہ:۱۲/۳۳۸

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
الطاف الرحمن سلفی

جزاکم الله خيرا وبارك فيكم