ایک سوال جو ہمیشہ بہت پریشان کرتا تھا وہ یہ کہ لوگ اسپتالوں میں جاکر ہی کیوں مرتے ہیں؟ یہ وبا جان لیوا ہے تو اس کا اثر اسپتالوں کے علاوہ دوسری جگہوں پر کیوں نہیں دکھائی دیتا؟
ابھی پچیس مارچ ٢٠٢١ کو میرے بدن میں درد ہوا تو دو ہزار پندرہ سے پچھلی تین بار کی طرح سی بی سی اور ٹایفایڈ ملیریا کا چیک اپ کرایا۔ پتہ چلا ٹایفایڈ ہے اور پلیٹلٹ کم ہوگیا ہے، ایک لاکھ اکتیس ہزار۔ اگلے دن دوا لے لی اور ہمیشہ کی طرح گلوکون ڈی بھی پینے لگا۔
ستائیس مارچ کو پھر سی بی سی کرایا، چار ہزار بڑھ چکا تھا۔ ذرا اطمینان ہوا اور وہی دوا کھاتا رہا، ساتھ پلیٹلٹ کے لیے کیوی اور ڈریگن فروٹ کا سیون بھی کرتا رہا۔ چار دن تک لگاتار پپیتہ کے پتے پسواکر پیا، پپیتے بھی کھایا۔ یہ سب اہتمام اتنا ہوا کہ لگنے لگا کہیں پلیٹلٹ بہت زیادہ نہ بڑھ جائے۔
یکم اپریل کو پھر سے چیک اپ کرایا، ٹایفایڈ تو ٹھیک ہوگیا تھا مگر پلیٹلٹ دوسری رپورٹ کی طرح ایک لاکھ پینتیس ہزار ہی رہا۔ رپورٹ پر اعتبار نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی تھی مگر یقین کرنے پر عجیب الجھن ہورہی تھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ پانچ دن کے علاج کے بعد بھی پلیٹلٹ بڑھ کیوں نہیں رہا ہے۔ ایک بار بڑھتا ہے تو بڑھنے لگتا ہے۔ عرفان بھائی کو رپورٹ بھیجی گئی۔ گوتم نگر میں ان کا اپنا لیب ہے ’نعمت ڈایگنوسٹک سنٹر‘۔ انھوں نے جو بتایا وہ اچھا نہیں لگا، اس پر مجھے غصہ بھی آیا۔ کہا: ’’سی آر پی ٹیسٹ کرنا پڑے گا، اگر زیادہ ہوگا تو سمجھو کووڈ پلیٹلٹ بڑھنے نہیں دے رہا ہے۔ اللہ نہ کرے زیادہ ہو، اگر زیادہ نکلا تو دو تین دن کے لیے ایڈمٹ ہونا پڑے گا۔ اپنا ہی ہاسپٹل ہے کوئی ٹینشن کی بات نہیں ہے۔‘‘
زیادہ غصہ تو کووڈ والی بات پر آیا تھا، ایڈمٹ ہونے والا آئیڈیا بھی بہت خراب لگا تھا۔ جب سے کورونا شروع ہوا ہے یہی سنتے آئے ہیں کہ انسان بیمار بھی رہتا ہے تو گھر میں ٹھیک رہتا ہے، جیسے ہی اسپتال جاتا ہے اگلے دن یا دوسرے تیسرے ہی دن موت کی خبر آجاتی ہے۔
انیس بھائی میڈکل اسیسریز بیچتے تھے، پورے لاک ڈاؤن لوگوں کی مدد کرتے رہے، اپنے کمپلیکس والوں کو لا لا کر دوائیں دیتے رہے۔ حالات نارمل ہونے کے بعد ایک دن دست آنے لگا تو ڈاکٹر نے ایڈمٹ کرلیا۔ تیسرے دن سننے میں آیا کہ اپنے بچوں سے کہہ رہے ہیں ڈسچارج کرالو ورنہ یہ ہاسپٹل والے مجھے مار ڈالیں گے۔ چوتھے دن خبر ملی کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ بڑے غیور اہل حدیث تھے، اللہ سے تعلق کی ادائیگی میں بھی اور بندوں سے رشتہ نبھانے میں بھی۔ اہل حدیث مسجد ان کے گھر سے دور تھی مگر وہیں نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ ایک جگہ اپنے لڑکے کا رشتہ بھیجا تھا، بعد میں پتہ چلا لڑکی والے اہل حدیث نہیں ہیں تو رشتہ نہیں کیا۔ تین لڑکے ہیں، دو لڑکوں کی شادیاں اٹھارہ سے بیس سال تک کی عمر میں ہی کردیں، تیسرے لڑکے کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہے تھے دنیا میں ان کا وقت پورا ہوگیا۔ اللہ ان کی نیکیوں کو قبول کرے، ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
۲؍اپریل کو میں نے دوسرے ڈاکٹر سے فون پر کنسلٹ کیا، انھوں نے واٹس اپ پر دوائیں لکھ کر بھیج دیں اور میں پلیٹلٹ بڑھنے کی دوا پھر سے کھانے لگا۔ انھوں نے کہا تھا طبیعت ٹھیک لگے گی تو رپورٹ نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پانچ دن دوا کھانے کے بعد ٹھیک لگنے لگا اور میں اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
دوا ختم ہونے کے تین دن بعد دس اپریل کی رات کو بدن میں ایسا درد شروع ہوا کہ برداشت نہیں ہورہا تھا اور بار بار پہلو بدلنا پڑ رہا تھا۔ ڈولو کھانے کے بعد بھی رات بھر نیند نہیں آئی اور اگلے دن دس بجے ایک ایسے ڈاکٹر کے پاس گیا جو کبھی ٹیسٹ نہیں کرواتے اور بیماری کوئی بھی ہو اکثر ایک بار دوا دے کر بولتے ہیں ٹھیک ہو جاؤگے۔ باذن اللہ شفا بھی ملتی ہے۔ ڈاکٹر نماز کے پابند ہیں اور ڈاکٹری بھی خدمت خلق کے جذبے سے کرتے ہیں۔ ویٹنگ ایریا میں اکثر جگہ کم پڑ جاتی ہے تو مریض باہر گلی میں لائن لگائے کھڑے رہتے ہیں۔
میں نے اپنی تازہ پریشانی بتائی اور مرض کی پرانی ہسٹری بھی بتادی۔ ڈاکٹر نے تین خوراک دوا دیتے ہوئے کہا آج کل میں یہ دو ٹیسٹ کرالینا۔ ون روپی کلینک سے فیضان آیا ہوا تھا، بلڈ سیمپل کلیکٹ کرنے۔ اسی وقت میں نے بھی ٹیسٹ کے لیے سیمپل دے دیا۔ ڈاکٹر نے دو ٹیسٹ لکھے تھے، سی بی سی اور وہی ’سی آر پی‘ جس کا مشورہ عرفان بھائی نے دیا تھا۔
بارہ اپریل کو میں نے فیضان کو فون کیا تو پتہ چلا رات ہی میں رپورٹ ڈاکٹر کے کلینک بھیجی جاچکی ہے۔ میں ڈاکٹر کے پاس گیا تو انھوں نے کہا: ڈرنے کی بات نہیں ہے مگر صاف بولتا ہوں تم کو کووڈ کا ہلکا اثر ہے۔ دوائیں ذرا مہنگی ہیں مگر کھانی پڑیں گی۔ پانچ دن کی دوا لکھ رہا ہوں، یہ ایک ٹیسٹ اور کرالینا۔ پانچ دن کے بعد جب آنا تو رپورٹ لے کر آنا۔ میں نے پوچھا: یہ ٹیسٹ کب کرانا ہے۔ کہا: جب تم کو ذرا اچھا لگنے لگے گا تو کرالینا تیسرے چوتھے دن۔ مجھے امید ہے پانچ دن میں ٹھیک ہوجاؤ گے ان شاء اللہ۔ رپورٹ میں کچھ آیا تو دس دن دوا اور کھانی پڑے گی۔
میڈیکل سے چودہ سو روپے کے ٹیبلیٹ اور کیپسول لے کر لوٹا تو لگنے لگا کہ شاید عرفان بھائی صحیح کہہ رہے تھے۔ ڈر تو نہیں لگ رہا تھا مگر اس بار خود کو کووڈ ہونے پر یقین ہونے لگا تھا۔ پہلے جیسا برا بھی نہیں لگ رہا تھا اور نہ ہی غصہ آرہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق پلیٹلٹ اور کم ہوگیا تھا، بانوے(۹۲) ہزار۔ ڈیڑھ لاکھ سے چار لاکھ دس ہزار تک نارمل ہوتا ہے۔ عرفان بھائی نے کہا تھا گلوکون ڈی پینے کی وجہ سے پلیٹلٹ گھٹ نہیں رہا ہے اور کووڈ کی وجہ سے بڑھ نہیں رہا ہے۔ بیچ میں جب لگا کہ طبیعت ٹھیک ہوگئی اور دوا بند کردی تو پلیٹلٹ پھر کم ہونے لگا۔ پہلے سے زیادہ کم ہوگیا۔
تین دن تک تو حالت خراب رہی، پیٹ میں جیسے آگ لگی ہو اور پیٹھ کہیں بھی ٹچ ہو ایسا عجیب سا درد ہوتا تھا جیسے گھاؤ ہوگیا ہو۔ بستر پر ٹکانے سے پہلے سکون تیل لگانا پڑتا تھا تب کہیں جاکر درد کا وہ احساس ہلکا ہوتا اور نیند آتی۔
چوتھے دن جب آخری ٹیسٹ کرانے کے لیے نکلا تو دیکھا پرچی پر HRCT لکھا ہے۔ سوچا CRP ساڑھے چار سو روپے میں ہوا تھا، یہ بھی ایک ہزار کے اندر ہی ہوگا۔ پہنچ کر پتہ چلا ۳۵۰۰ کا ہے اور یہ چیسٹ کا سی ٹی اسکین ہے۔ دس منٹ کے اندر فلم مل گئی اور شام تک رپورٹ۔ ڈاکٹر نے رپورٹ اور فلم دیکھی تو کہا: آج کی ساری رپورٹوں میں صرف تمھاری رپورٹ اچھی آئی ہے، کووڈ تمھارے بلڈ میں تھا Lung (پھیپھڑے) تک نہیں پہنچا تھا۔ چوتھے ہی دن رپورٹ لے کر پہنچنے کی وجہ دراصل پیٹ اور پیٹھ کی پریشانیاں تھیں، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ دوا سے فائدہ ہورہا ہے یا نقصان۔ ڈاکٹر نے جب کہا کہ اتنا تو ہوگا ہی تو ذرا اطمینان ہوا۔ اور پھر اگلے دن سولہ اپریل سے وہ تکلیف کم ہونے لگی۔ سترہ اپریل کو جب دوائیں ختم ہوگئیں تو ڈاکٹر کے پاس ایک نئی پریشانی لے کر گیا۔ ہر لمحہ سڑے ہوئے کف کی ایسی بدبو آتی تھی کہ برداشت نہیں ہوتا تھا۔ پہلے تو ڈاکٹر نے کہا اب تم ٹھیک ہو، مزید دوائیں کھانے کی ضرورت نہیں۔ پھر ذرا توقف کے بعد رپورٹ پھر سے مانگی اور تھوڑی دیر دیکھ کر کہا: پانچ دن اور کھالو، رسک نہیں لینا چاہیے۔ مگر پہلے کے مقابلے ایک تہائی دوائیں ہی لکھیں۔ آخری بات یہ کہی کہ اب تم کو میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں، تم گڈ (Good) ہو۔
یہ دوائیں بھی۲۳؍اپریل کو ختم ہوگئیں۔ پچیس اپریل تک مکمل اطمینان بھی ہوگیا تب یاد آیا کہ اس پورے چکر میں ایک مہینہ گزر چکا ہے۔ پچیس مارچ کو یہ سلسلہ شروع ہوا تھا۔
کووڈ کی عمر سترے مہینے ہے۔ ہمارے یہاں پندرہ مہینے پہلے شروع ہوا مگر ہمارے اعصاب پر تیرہ مہینے سے سوار ہے۔ شروع سے مجھے لگتا تھا کہ یہ وبا تو ہے مگر اتنی بڑی نہیں ہے جتنی بڑی باور کرائی جارہی ہے۔ میڈیکل مافیا اور کرپٹ سرکاروں نے عوام کا جو برا حال کر رکھا ہے، اس کے پیچھے وبا کم، بدنظمی اور ان کی بدنیتی زیادہ ہے۔ کتنے لوگ تو بھوک سے مرگئے۔ کتنے لوگوں کی نوکری چھوٹ گئی، کاروبار ختم ہوگیا اور شادی وغیرہ جیسے بڑے بجٹ کے کاموں کے لیے رکھی ہوئی جمع پونجی صاف ہوگئی۔
دراصل انفیکشن کے بعد اس بیماری کی علامتیں دو سے بارہ دن کے بعد ظاہر ہوتی ہیں اور یہ بیماری ایک انسان کے اندر عام طور پر پانچ سے چودہ پندرہ دنوں تک رہتی ہے۔ ہاں کچھ شاذ کیسوں میں مہینہ بھر تک بھی رہ سکتی ہے۔
جنھیں بلڈ میں انفیکشن ہوتا ہے پھیپھڑے تک نہیں پہنچ پاتا وہ جلدی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ پھیپھڑے والوں کو تنفس کی شکایت ہوتی ہے۔ بلڈ انفیکشن والا معاملہ پہلی لہر میں زیادہ تھا، اس بار پھیپھڑے کی پریشانی زیادہ ہے اسی لیے آکسیجن کی کمی پڑ رہی ہے، اسپتال میں داخلے نہیں مل رہے ہیں۔ ہمارا ہیلتھ سسٹم اچھا نہیں ہے، اسی لیے وقت پر مناسب علاج نہیں ہورہا ہے تو موتیں زیادہ ہورہی ہیں۔ اس بار موتیں صرف اسپتالوں میں نہیں ہورہی ہیں، اسپتال پہنچنے سے پہلے راستوں میں، گاڑیوں میں بھی ہورہی ہیں۔ داخلے کے انتظار میں اسپتالوں کے باہر بھی پڑے پڑے لوگ مررہے ہیں۔ قبریں کھودنے والے اور لاشیں جلانے والے دونوں تھک چکے ہیں۔ جے سی بی سے قبریں کھودی جارہی ہیں۔ انتم سنسکار کی قیمت بڑھ گئی ہے، ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار میت کو کندھے دینے کے پیسے بھی لیے جارہے ہیں۔ لاش سائیکل پر ڈھوئی جارہی ہے۔ عورتیں اور بچیاں میت کو صرف کاندھا نہیں دے رہی ہیں، چتاوں کو اگنی بھی دے رہی ہیں۔ پہلے جو نہیں دیکھا گیا وہ سب ہورہا ہے۔
پچیس اپریل کو میں نے عرفان بھائی سے پوچھا کہ اگر کسی کا سی آر پی لیول تیرہ(۱۳)ہو تو کیا مطلب ہے؟(زیرو سے۶ تک نارمل ہوتا ہے) کہنے لگے: نمونیہ شروع ہوگیا ہے، اگر کووڈ ٹیسٹ کرایا جائے گا تو نوے(۹۰) پرسنٹ پوزیٹیو رپورٹ ملنے کا چانس ہے۔
عرفان بھائی کا اندازہ صحیح نکلا تھا۔ ڈاکٹر نے بھی وہی کہا تھا مگر میرا کووڈ کا ٹیسٹ نہیں کرایا تھا اور نہ ہی دوائیاں کووڈ کی لکھی تھیں۔ میں نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہ ساری دوائیاں ’سو سال پہلے‘ کی ایک بیماری کی تھیں۔
آپ کے تبصرے