الحمد لله وكفى وسلام على عباده الذين اصطفى، أما بعد!
ماہ رمضان المبارک کے فرض روزوں کی تکمیل کے بعد یکم شوال کو مسلمانان عالم اللہ تعالی کی جانب سے حاصل ہونے والی ہدایت و توفیق پر اللہ رب العزت کے حضور شکرانہ کی دو رکعت نماز بارہ زائد تکبیروں کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔گویا یہ شوال کی پہلی تاریخ مسلمانوں کی عید، رب کریم کی شکرگزاری اور روزوں کی تطہیر کےلیے فطرانہ کے ذریعہ فقراء ومساکین کے ساتھ احسان اور رواداری کا دن ہے۔ اسی تاریخ سے حج کے مہینوں کا آغاز بھی ہوجاتا ہے۔یہ اللہ تعالی کا فضل وکرم ہے کہ نیکیوں کا ایک موسم گزرا اور دوسرا شروع ہوگیا۔یوں امت مسلمہ وقت کے ساتھ ایک عبادت سے دوسری عبادت کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہے اور اس کا رشتہ اپنے رب سے ہمیشہ قائم اور استوار رہتا ہے۔
ماہ شوال میں بطور خاص چھ روزے رکھنے کی ترغیب حدیث میں آئی ہے۔ارشاد نبوی ﷺہے:
من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر(رواہ مسلم فی صحیحہ عن ابی ایوب رضی اللہ عنہ:۱۱۶۴) جس نے رمضان کا روزہ رکھا پھر اس کے پیچھے شول کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے سال بھر کا روزہ رکھا۔
ایسا اس لیے کہ اللہ تعالی نیکی کا ثواب دس گنا (کم از کم) دیتا ہے جبکہ بندہ کا ایک گناہ ایک ہی لکھا جاتا ہے:
من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها ومن جاء بالسیئة فلا یجزی إلا مثلها وهم لا یظلمون (الانعام:۱۶۰)
رمضان المبارک کے روزے دس ماہ کے اور شوال کے چھ روزے ساٹھ روزے یعنی دو ماہ کے برابر ہوئے۔اس طرح سال بھر اور ہر سال ایسا کرنے پر زندگی بھر روزہ رکھنے کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔اس کوتشبیہ مجازی کہتے ہیں۔
اہل علم نے لکھا ہے کہ ماہ رمضان کے فرض روزوں سے قبل شعبان کے نفلی روزے اور ماہ رمضان کے بعد شوال کے چھ نفلی روزے فرض نمازوں سے قبل اور بعد ادا کی جانے والی سنتوں کی طرح ہیں جو فرض کی تکمیل اور اس کا تتمہ ہیں۔فرض عبادتوں میں پائے جانے والے خلل ونقص کی تلافی بروز قیامت سنتوں سے کی جائے گی۔جیسا کہ اہل سنن نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بہ سند صحیح مرفوع حدیث نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس بندہ کے فرائض اللہ تعالی کے پاس مکمل و مقبول ہوں گے وہ کامیاب وکامران ہوگا لیکن اگر ناقص پائے گئے تو وہ ناکام ونامراد ہوگا۔ایسے میں اللہ تعالی اپنے فرشتوں سے کہےگا :
انظروا هل لعبدي من تطوع( دیکھو میرے بندے نے کوئی نفل بھی ادا کی ہے ؟) تو اس کے ذریعہ نقصان کی تلافی کردی جائے گی۔جس طرح نماز میں یہ چیز قابل لحاظ ہوگی اسی طرح دوسرے فرائض کی تکمیل بھی نفل کے ذریعہ کی جائے گی۔(ابوداود:۸۶۴، الترمذی :۴۱۳، النسائی:۴۶۵)لہذا مسلمانوں کو فرائض کے ساتھ نوافل کی بجا آوری کا بھی اہتمام کرنا چاہیے تاکہ وہ خسران سے بچ سکیں۔
شوال کے چھ روزے:
یکم شوال عید کا دن ہے اور اس دن روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دن یوم الاضحی اور یوم الفطر کے روزے سے منع فرمایا ہے۔(مسلم:۱۱۳۸)
لہذا ۲؍شوال سے۲۹؍ شوال تک کے دورانیہ میں آدمی لگاتار یا وقفہ(Gap) سے چھ روزے رکھ کر حدیث میں مذکور ثواب سے بہرہ ور ہوسکتا ہے۔البتہ لگاتار رکھنا افضل ہے،اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فاستبقوا الخیرات(المائدہ:۴۸) نیکیوں میں سبقت کرو۔
بہت ممکن ہے کہ بیماری یا موت روزے کی راہ میں حائل ہوجائے۔اسی طرح ۲؍شوال کا رکھنا بھی شش عیدی روزوں کےلیے شرط نہیں ہے۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ۲؍شوال کا روزہ رکھنا ضروری ہے اس کے بعد آدمی وقفہ کرکے رکھےگا۔یہ شرط لغو ہے۔آدمی شوال کی کسی بھی تاریخ سے روزہ شروع کرسکتا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی بھی ہے اگر کسی نے ایک سال شوال کے روزے رکھ لیے تو اس کو ہرسال شوال کے روزے رکھنے ہوں گے۔یقینا اعمال صالحہ پر مداومت افضل ہے۔جس عمل پر مداومت کی جائے وہ انقطاع کے ساتھ کیے جانے والے عمل سے افضل ہے۔نبیﷺ کا ارشاد ہے:
أحب الأعمال الی الله أدومها وإن قل( البخاری :۶۴۶۵،مسلم :۷۸۳ عن عائشۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنھا) اللہ کو سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے گرچہ وہ کم ہی ہو۔
لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ایک مرتبہ نفل عمل ادا کرنے سے وہ ہرمرتبہ اور ہر سال واجب ہوجاتا ہے۔کیونکہ جو عمل نفل ہے وہ نفل ہی رہےگا، واجب نہیں ہوسکتا۔آدمی کی مرضی ہے کہ جس سال چاہے روزے رکھے اور جب چاہے چھوڑدے۔اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔تاہم ہمیشگی برتنا اس کے لیے افضل ہے۔اگر کوئی روزے نہ رکھ سکے یا بعض روزے رکھے اور بعض روزے چھوڑدے تو اس کی قضا شوال کے بعد مشروع نہیں ہے۔کیونکہ روزوں کی اضافت شوال کی طرف ہے جو برائے تخصیص ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ نفلی روزے صرف شوال میں رکھے جاسکتے ہیں۔موقع ومحل(شوال) فوت ہوجانے کے بعد اس کی قضا نہیں کی جاسکتی۔البتہ ایک بنیادی بات کی طرف توجہ ضروری ہے، وہ ہے رمضان کے روزوں کی تکمیل۔یعنی جس نے فرض روزے مکمل رکھے ہوں وہ شوال کے روزے رکھے اور جس کے ذمہ فرض روزے بیماری یا سفر کی وجہ سے باقی ہیں وہ پہلے رمضان کے روزوں کی قضا کرے پھر شوال کے روزے رکھے،جیسا کہ حدیث میں ’من صام رمضان ثم أتبعه‘ کا لفظ دلالت کرتا ہے۔ یعنی جس نے مکمل ماہ رمضان کے روزے رکھ لیے پھر ان کے پیچھے شوال کے چھ روزے رکھے۔اور ویسے بھی فرض روزوں کی قضا سنن ونفل کی ادائیگی پر مقدم ہے۔
واضح ہو کہ شش عید کے روزوں کے دوران اگر جمعہ کا دن آ جائے تو روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ایک روز قبل یا ایک روز بعد ملا کر رکھنا جائز ہے ۔ صرف جمعہ کا ایک نفلی روزہ ممنوع ہے ۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
لا تختصوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالى و لا تخصوا يوم الجمعة بصيام من بين الأيام إلا أن يكون فى صوم يصومه أحدكم- وفى رواية أخرى:لا يصم أحدكم يوم الجمعة إلا أن يصوم قبله أو يصوم بعده(رواه مسلم عن أبي هريرة رضى الله عنہ:۱۱۴۴، صحيح البخاری:۱۹۸۵)
حديث کا مفہوم یہ ہے کہ صرف جمعہ کی شب کا قیام(تہجد) اور جمعہ کے دن کا روزہ خصوصیت کے ساتھ ممنوع ہے مگر یہ کہ آدمی اپنی عادت کے مطابق رکھتا ہو، مثال کے طور پر جمعہ کا دن یوم عرفہ ہو یا ایام بیض۱۳،۱۴،۱۵ میں سے کوئی دن جمعہ کا ہو یا آدمی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کا عادی ہو اور روزہ کا دن جمعہ پڑ جائے تو ان تمام صورتوں میں جمعہ کے دن روزہ رکھنا بلاکراہت جائز ہے۔ اسی طرح جمعرات جمعہ یا جمعہ سنیچر کے روزوں کا معاملہ ہے۔جمعہ سے پہلے یا بعد روزہ رکھنے کی شرط کے ساتھ جواز کی ایک صریح حديث أم المؤمنين جویریہ بنت الحارث رضى اللہ عنہا سے بھی مروی ہے ۔ (صحيح البخاري:۱۹۸۶)
جاہلی تصور:
اہل جاہلیت اور آج بھی بعض عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ماہ شوال میں نکاح کرنا یا منکوحہ کی رخصتی کرنا (شب زفاف منانا) مکروہ عمل ہے۔یہ باطل نظریہ ہے۔اسی نظریہ پر رد کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا:
تزوجنی رسول الله ﷺ فی شوال وبنى بي فی شوال(صحیح مسلم:۱۴۲۳،سنن الترمذی :۱۰۹۹) رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شادی بھی شوال میں کی اور میری رخصتی بھی شوال ہی میں کرائی(یعنی شب زفاف منایا)
بھلا مجھ سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی کون سی بیوی خوش قسمت تھی؟ اور عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی رشتہ دار عورتوں کی رخصتی بھی شوال میں مستحب گردانتی تھیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ نکاح اور رخصتی کرنا دونوں شوال کے مہینے میں مستحب ہے۔اس لیے شادی کے سلسلے میں اس مہینے کو منحوس سمجھنا بجائے خود منحوس اور باطل قول واعتقاد ہے۔
والحمد لله رب العالمين
شوال کے روزے رکھنے کے لئے رمضان کے روزں کی قضا شوال کے روزں سے پہلے ضروری نہیں ہے