انسانی طبیعت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ اچھی بری ہر دو طرح کی خبروں سے متاثر ہوتا ہے۔ اچھی خبر اسے خوش کرتی ہے تو بری خبر غمزدہ۔
اللہ کی سنت کے مطابق انسانی زندگی میں خوشی و غم کا آنا جانا ایک فطری امر ہے :
ونبلوكم بالشر والخير فتنة(الأنبياء:۳۵) ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کرتے رہتے ہیں۔
اسی حقیقت کی ترجمانی غالب نے یوں کی ہے ؎
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
اس لیے ایک انسان کو خوشی و غم ہر دو حالت میں خود پر قابو رکھنا چاہیے جس کا سب سے آسان طریقہ شریعت اسلامیہ نے بتلا دیا ہے۔
عکرمہ فرماتے ہیں:
ليس أحد إلا وهو يفرح ويحزن، ولكن اجعلوا الفرح شكراً والحزن صبراً(تفسير ابن كثير ، سورة الحديد :۲۲)خوشی و غم ہر کسی کی زندگی میں ہوتا ہے، تمھیں کرنا یہ ہے کہ خوشی میں شکر کا اور غم میں صبر کا پیکر بن جاؤ۔
تاہم خوشی و غم کے وہ معاملات جو انسان کے اختیار میں ہیں ان کے سلسلے میں اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ایک مسلمان ہمیشہ اس بات کا خیال رکھے کہ اس کی طرف سے لوگوں کو حتی المقدور خوشی ہی ملے اور اس کی ذات یا اقدامات کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔
موجودہ حالات میں جبکہ کورونا کے سبب بیماری اور وفات کی خبریں بکثرت آرہی ہیں اور لوگوں کے ذہن و دماغ پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں دین اسلام کی اس تعلیم کو زندہ کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
أحب الأعمال إلى الله عزوجل سرور تدخله على مسلم(المعجم الأوسط وحسنه الألباني،الصحيحة:۹۰۶) اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل وہ خوشی ہے جو کسی بھی مسلمان کو تمھارے ذریعے نصیب ہو۔
ایک دوسری روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا:
إدخالك السرور على مؤمن (المعجم الأوسط :۵۰۸۱) کسی مومن کے دل کو خوش کردینا۔
لہذا ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنے بھائی کو خوش کرنے کی کوشش کرے ۔ اور اسے خوش کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ خوش کن خبریں اس تک پہنچائے۔
سوشل میڈیا پر یہ عجیب صورت حال ہے کہ بیماری اور وفات کی خبریں تو بہت اہتمام سے شیئر کی جارہی ہیں لیکن ان میں سے صحت یاب ہونے والوں کی خوش خبری نہیں دی جارہی حالانکہ بیماری سے متاثر ہونے کے بعد شفایاب ہونے والوں کی تعداد نوے فیصد سے زیادہ ہے۔
دعا کی امید میں جس طرح بیماری اور وفات کی خبریں شیئر کی جاتی ہیں اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ اہتمام کے ساتھ اجر و ثواب کی امید میں صحت یابی کی خوش کن خبریں بھی شیئر کی جانی چاہئیں۔
ایک عجیب تصور یہ بھی ہے کہ بہت سارے لوگ کورونا کا شکار ہوکر ٹھیک بھی ہورہے ہیں، تاہم صحت یاب ہونے کے بعد لوگوں کو خبر اس لیے نہیں دینا چاہتے کہ ان کی نظر میں کورونا کا شکار ہونا کوئی معیوب بات ہے یا پھر اس خبر کے پھیلنے سے کسی قسم نقصان کا اندیشہ ہو۔
اس سلسلے میں چند گزارشات ہیں:
۱۔ بیماری اور وفات کی خبریں سوشل میڈیا پر عام نہ کریں۔ بہت ضروری ہوتو اپنے محدود دائرے میں خبردیں۔
۲۔ وبا کا زور جب تک قائم رہے تمام بیماروں کے لیے شفا کی اور وفات پانے والوں کے لیے مغفرت کی عمومی دعا مانگتے رہیں۔ اس سے دعا کا وہ مقصد بھی حاصل ہوجائے گا جس کی خاطر بیماری اور وفات کی خبریں عام کی جارہی ہیں اور لوگوں میں مایوسی اور خوف بھی نہیں پھیلے گا۔
۳۔ جس دائرے میں بھی آپ کسی کی بیماری کی خبر دیں دوبارہ ان کے شفایاب ہونے کی اطلاع بھی اس دائرے میں ضرور دیں۔
۴۔ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ خوشی و غم ہر دو طرح کی خبریں بھی اس قدر زیادہ نہ ہوں کہ گروپ بوجھل ہونے لگیں۔ کیونکہ بالواسطہ طور پر یہ بوجھ انسانی ذہن و دماغ تک بھی منتقل ہوتا ہے ۔
۵۔ اچھی اور امید افزا خبروں کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کو خوش کرنے کے اور بھی بہت سارے طریقے ہیں ان کو بھی خوب عام کریں۔
بالخصوص لاک ڈاون میں موبائل اور سوشل میڈیا جیسے جدید وسائل کا استعمال انھی سب مقاصد کے حصول کے لیے کریں:
أ۔ سلام کو عام کریں۔
ب۔ ایک دوسرے کی خیر خبر لیتے رہیں۔
ج۔ لوگوں سے بات چیت کریں۔
د۔ ایک دوسرے کو ہدیہ دیں۔
ھ۔ ایک دوسرے کی تکلیف میں شریک ہوں ۔
و۔ بیماروں کی بیمار پرسی کریں اور ان کی ہمت بندھائیں اور ان میں شفا کی امید جگائیں ۔
یہ اور اس جیسے دسیوں راستے ہیں جن کو اپنا کر آپ خوشی بانٹ سکتے ہیں۔
یاد رکھیں!
قَالَ رَسُول الله صلى الله عليه وسلم:مَثَلُ المُؤْمِنينَ في تَوَادِّهِمْ وتَرَاحُمهمْ وَتَعَاطُفِهمْ، مَثَلُ الجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الجَسَدِ بِالسَّهَرِ والحُمَّى(متفق عليہ)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے پر رحم اور ایک دوسرے پر ترس کھانے کے معاملہ میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اس کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم بخار اور بے خوابی کا شکار ہوجاتا ہے۔
بہت اہم بہت مفید