کیا دعائے قنوت جمع کے صیغے کے ساتھ ثابت ہے؟

فاروق عبداللہ نراین پوری تنقید و تحقیق

دعائے قنوت صیغہ مفرد کے ساتھ معروف ومشہور ہے۔لیکن کیا یہ دعا جمع کے صیغے کے ساتھ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟
واضح ہو کہ اس حدیث کے بعض طرق میں یہ دعا جمع کے صیغے کے ساتھ بھی وارد ہے۔ اگر کوئی اس حدیث کے تمام طرق کو جمع نہ کرے، ان میں وارد الفاظ کے درمیان مقارنہ اور ترجیح کی تکلیف نہ اٹھائے تو بعض اسانید کی ظاہری حالت دیکھ کر اس پر صحیح یا حسن ہونے کا حکم لگا سکتا ہے، جیسا کہ بعض اخوان نے کیا بھی ہے۔لیکن اگر اس کے تمام مؤثر طرق کو جمع کرکے ان میں وارد الفاظ پر غور کیا جائے تو نتیجہ کچھ دوسرا ہی نکلتا ہے۔
اس حدیث کی سند ومتن میں علم حدیث کے بہت سارے مسائل موجود ہیں۔ یہاں اس مضمون میں صرف اس بات پر ترکیز کی گئی ہے کہ یہ دعا جمع کے صیغے کے ساتھ ثابت ہے یا نہیں۔ بقیہ دوسرے مسائل(مثلا: یہ دعا خاص قنوت کے لیے ہے یا عام حالات کے لیے؟ اگر قنوت کے لیے ہے تو اسے رکوع سے قبل پڑھنا ہے یا بعد میں؟ وغیرہ)کا اس مضمون میں کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔
یہ دعا صرف موسی بن عقبہ اور شعبہ بن حجاج کے بعض طرق میں جمع کے صیغے کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔
پہلے موسی بن عقبہ سے وارد طرق کی حالت پر بات کرتے ہیں۔
امام طبرانی نے ’کتاب الدعاء‘(۲/۱۱۳۷-۱۱۳۸، حدیث نمبر۷۳۵) میں اسے درج ذیل سند سے جمع کے صیغے کے ساتھ روایت کیا ہے:
حدثنا الحسن بن علي بن شهريار المصري، ثنا إسماعيل بن عبد الله بن زرارة الرقي، ح وحدثنا علي بن سعيد الرازي، ثنا الحسن بن داود المنكدري، قالا: ثنا محمد بن إسماعيل بن أبي فديك، حدثني إسماعيل بن إبراهيم بن عقبة، عن عمه موسى بن عقبة، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، رضي الله عنهما قالت: أخبرني الحسن بن علي، رضي الله عنهما قال: علمني صلى الله عليه وسلم دعاء القنوت في الوتر: ” اللهم اهدنا فيمن هديت … الحدیث

اسی سند ومتن کے ساتھ انھوں نے’المعجم الکبیر‘(۳/۷۳، حدیث نمبر۲۷۰۰) میں بھی اسے روایت کیا ہے۔
اس میں دار ومدار محمد بن اسماعیل بن فدیک پر ہے۔ امام طبرانی نے اسے دو سند سے ان سے روایت کیا ہے جیسا کہ ظاہر ہے۔
پہلی سند میں ان کے استاد ہیں: حسن بن علی بن شہریار المصری۔یہ ضعیف ہیں۔ [میزان الاعتدال:۱/۵۱۰]
دوسری سند میں ان کے استاد ہیں: علی بن سعید بن بشیرالرازی۔ یہ مختلف فیہ راوی ہیں۔ ابن یونس، مسلمہ بن قاسم اور حافظ ذہبی نے جہاں ان کی مدح کی ہے، وہیں امام دار قطنی اور حافظ ابن حجر نے ان پر کلام کیا ہے۔ [دیکھیں: تاریخ دمشق:۴۱/۵۱۲، میزان الاعتدال:۳/۱۳۱،سیر اعلام النبلاء:۱۴/۱۴۵، اتحاف المہرہ:۵/۳۲۱]
خلاصہ یہ کہ ان کی حالت پہلے استاد سے بہتر ہے۔ اگر انھیں حسن الحدیث مانا جائے پھر بھی یہ روایت جمع کے صیغے کے ساتھ ثابت نہیں ہوتی۔اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ امام طبرانی نے کتاب الدعا اور المعجم الکبیر میں اس بات کی صراحت نہیں کی ہے کہ جمع کے الفاظ حسن بن علی بن شہریار المصری کے ہیں یا علی بن سعید بن بشیرالرازی کے۔ لیکن خود انھوں نے یہ حدیث صرف علی بن سعید بن بشیرالرازی سے اسی سند کے ساتھ المعجم الاوسط میں روایت کی ہے، اور وہاں یہ دعا مفرد کے صیغے کے ساتھ مذکور ہے، جس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ جمع کے الفاظ علی بن سعید بن بشیرالرازی کے نہیں، بلکہ حسن بن علی بن شہریار المصری کے ہیں جو ضعیف ہیں۔
سند ومتن کے ساتھ المعجم الاوسط(۴/۱۶۹-۱۷۰، حدیث نمبر۳۸۸۷)کی روایت ملاحظہ فرمائیں:
حدثنا علي بن سعيد الرازي قال: نا الحسن بن داود المنكدري قال: نا محمد بن إسماعيل بن أبي فديك قال: نا إسماعيل بن إبراهيم بن عقبة قال: حدثني عمي موسى بن عقبة، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، قالت: حدثني الحسن بن علي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمه هذا الدعاء في الوتر «اللهم اهدني فيمن هديت، وبارك لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت، فإنك تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، تباركت ربنا وتعاليت

یہاں بالکل وہی سند و متن ہے، لیکن اس میں حسن بن علی بن شہریار المصری کی روایت نہیں ہے تو صیغہ مفرد کا ہے۔ اس سے مسئلہ بالکل صاف ہو جاتا ہے کتاب الدعا اور المعجم الکبیر میں جو جمع کے الفاظ ہیں وہ حسن بن علی بن شہریار المصری کے ہیں، جو کہ ضعیف ہیں۔ اس لیےموسی بن عقبہ کے طریق سے جمع کا صیغہ ثابت ہی نہیں۔
یہ تو پہلی وجہ ہوئی۔ اب دوسری اور اہم وجہ ملاحظہ فرمائیں:
موسی بن عقبہ کا یہ طریق مُعَل ہے۔ موسی بن عقبہ سے اوپر کی سند یعنی ”هِشَام بن عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عن الْحَسَن بْن عَلِيٍّ“ ثابت ہی نہیں، بلکہ شاذ ہے۔ موسی بن عقبہ سے ثابت شدہ اوپر کی سند اس طرح ہے: ”حدثنا أبو إسحاق عن بريد بن أبي مريم عن أبي الحوراء عن الحسن بن علي“۔ اور اس سند سے مروی الفاظ مفرد کے صیغے کے ساتھ ہیں، جمع کے صیغے کے ساتھ نہیں۔اس علت کی طرف امام حاکم نے ’المستدرک‘میں اشارہ کیا ہے۔آپ نے پہلے ”مُوسَى بن عُقْبَة، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ“کے طریق سے اسے روایت کیا ہے، پھر کہا ہے: ”هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ إِلاَّ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَدْ خَالَفَ إِسْمَاعِيلَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ فِي إِسْنَادِهِ“۔
اور پھر اس حدیث کے معًا بعد انھوں نے محمد بن جعفر بن ابی کثیر کے طریق سے اسے روایت کیا ہے۔
موسی بن عقبہ سے یہ حدیث ایک اور طریق سے بھی مروی ہے۔امام نسائی کی’سنن صغری’(۳/۲۴۸، ح۱۷۴۶) میں یحیی بن عبد اللہ بن سالم نے ان سے ”عن عبد اللہ بن علی عن الحسن بن علی“کے طریق سے روایت کیا ہے۔
ان تینوں طرق میں سے راجح وہ طریق ہے جسے محمد بن جعفر بن ابی کثیر نے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نتائج الافکار (۲/۱۵۵) میں اس اختلاف کو بالتفصیل بیان کیا ہے۔ آخر میں محمد بن جعفر بن ابی کثیر کے طریق کے متعلق فرماتے ہیں:
وهذه الطريق أشبه بالصواب، لأن محمد بن جعفر هو ابن أبي كثير المدني أثبت وأحفظ من إسماعيل بن إبراهيم بن عقبة ومن يحيى بن عبد الله بن سالم، فرجع الحديث إلى رواية أبي إسحاق عن بريد عن أبي الحوراء، وهو المعروف، والله أعلم

شیخ الحدیث عبید اللہ مبارکپوری نے حافظ ابن حجر کی تائید کی ہے۔ اور ”هِشَام بن عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عن الْحَسَن بْن عَلِيٍّ“والی سند کے محفوظ ہونے پر تامل کا اظہار کیا ہے۔[مرعاۃ المفاتیح:۴/۲۸۶]
علامہ البانی اور ڈاکٹر محمد بن عمر بن سالم بازمول نے بھی اس اختلاف کو بیان کیا ہے اورحافظ ابن حجر کی تحقیق پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے ”مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عن الْحَسَن بْن عَلِيٍّ“ کے طریق کو معل قرار دیا ہے۔ [اصل صفۃ صلاۃ النبی:۳/۹۷۲، الأحاديث والآثار الواردة في قنوت الوتر : ص۲۸]
اسی طرح کتاب الدعاء للطبرانی کے محقق ڈاکٹر محمد سعید بن محمد حسن بخاری نے امام حاکم کے بیان کردہ اختلاف کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے:
”قلت: وقد رَجَّحَ ابن حجر رواية محمد بن جعفر على رواية محمد بن إسماعيل بن إبراهيم؛ لأنه أحفظ“۔
[کتاب الدعاء للطبرانی:۲/۱۱۳۷، کا حاشیہ]
افسوس کہ ہمارے ایک بھائی نے اس روایت پر حسن ہونے کا حکم لگایا اور اپنی تائید میں ڈاکٹر محمد سعید بخاری کی تحسین کو نقل کیا حالانکہ خود ڈاکٹر محمدسعید بخاری نے اس کے چار سطر بعد اس طریق کو معل قرار دیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ ”إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَمِّهِ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عن الْحَسَن بْن عَلِيٍّ“کا طریق سرے سے ثابت ہی نہیں۔ لہذا اس طریق میں وارد الفاظ قابل حجت نہیں۔ اس کا ثابت شدہ طریق وہ ہے جسے امام حاکم نے اپنی مستدرک (۵/۴۰۸، ح۴۸۶۵) میں روایت کیا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ، شیخ الحدیث عبید اللہ مبارکپوری، علامہ البانی،ڈاکٹر محمد بن عمر بن سالم بازمول اور ڈاکٹر محمد سعید بخاری نے کہا ہے۔ اور اس میں یہ دعا مفرد کے صیغے کے ساتھ وارد ہے، جمع کے صیغے کے ساتھ نہیں۔ لہذا موسی بن عقبہ کے طریق سے یہ دعا صرف مفرد کے صیغے کے ساتھ ثابت ہے، جمع کے صیغے کے ساتھ نہیں۔
اب شعبہ بن حجاج سے وارد طرق پر بات کرتے ہیں۔
ابو یعلی الموصلی نے اپنی ’مسند‘(۱۲/۱۲۷، ح۶۷۵۹) میں محمد بن خطاب سےاور ابن حبان نے اپنی ’صحیح‘(۲/۴۹۸، ح۷۲۲) میں احمد بن حسن الترمذی کے طریق سے ”حدثنا مؤمل بن إسماعيل، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا بريد بن أبي مريم، عن أبي الحوراء السعدي، قال: قلت للحسن بن علي…“کے طریق سے اسے جمع کے صیغے کے ساتھ روایت کیا ہے۔
مؤمل بن اسماعیل کی جہاں بہت سارے علما نے توثیق کی ہے، وہیں ان کے حفظ وضبط پر ایک جماعت نے کلام کیا ہے۔
معاصرین محققین علما مثلا: علامہ معلمی اور شیخ شعیب ارنووط وغیرہ نے ان اقوال کا دراسہ کرنے کے بعد ان کا درجہ متعین کرتے ہوئے کہا ہےکہ متابعات وشواہد میں ان کی روایت قابل قبول ہے، تفرد یا مخالفت کی صورت میں نہیں۔[دیکھیں: التنکیل:۲/۷۲۲، تحریر تقریب التہذیب:۳/۴۴۲]
جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے متعدد جگہوں پر انھیں ضعیف کہا ہے۔ [مثلا دیکھیں: سلسلۃ الأحاديث الضعيفۃ:۲/۲۹۳،۳/۲۷۷]
اگر انھیں مطلقًا ثقہ یا صدوق کہا جائےپھر بھی ان کی یہ روایت شاذ قرار پائےگی، کیونکہ انھوں نے ایک دو نہیں بلکہ شعبہ بن حجاج کے ثقہ تلامذہ کی ایک جماعت کی مخالفت کرتے ہوئے جمع کے صیغے کے ساتھ اسے روایت کیا ہے۔ جب کہ سب نے مفرد کے صیغے کے ساتھ اسے روایت کیا ہے۔ وہ ثقہ تلامذہ درج ذیل ہیں:
۱۔یحیی بن سعید القطان:
امام احمد نے ان سے روایت کیا ہے۔ [مسند احمد:۳/۲۴۸، حدیث نمبر۱۷۲۳]
۲۔ابو داود الطیالسی۔ [مسند طیالسی:۲/۴۹۹، حدیث نمبر۱۲۷۵]
۳۔محمد بن جعفر غندر:
امام احمد نے ان سے روایت کیا ہے۔ [مسند احمد:۳/۲۵۲، حدیث نمبر۱۷۲۷]
۴۔عبد الملک بن عمرو:
ابو یعلی الموصلی نے اپنی مسند (۱۲/۱۳۲، حدیث نمبر۶۷۶۲) میں ان کے طریق سے روایت کیا ہے۔
۵۔عثمان بن عمر:
امام دارمی نے اپنی سنن (۲/۹۹۲، حدیث نمبر۱۶۳۲) میں ان سے روایت کیا ہے۔
۶۔وہب بن جریر:
امام بیہقی نے ’الخلافیات‘(۳/۳۵۲، حدیث نمبر۲۵۶۴) میں ان کے طریق سے روایت کیا ہے۔
۷۔عمرو بن مرزوق:
امام طبرانی نے کتاب الدعاء (ص۲۳۶، ح۷۴۴) میں ان کے طریق سے روایت کیا ہے۔
ان تمام ثقہ روات نے شعبہ بن حجاج سے اسے مفرد کے صیغے کے ساتھ روایت کیا ہے۔ لہذا مؤمل بن اسماعیل کو مطلقا ثقہ یا صدوق ماننے کی صورت میں بھی ان تمام ثقہ روات کی مخالفت کی وجہ سے جمع کے صیغے والے ان کے الفاظ شاذ قرار پاتے ہیں۔
اس کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ برید بن ابی مریم سے روایت کرنے میں دوسرے تمام روات نے شعبہ بن حجاج کی متابعت کی ہے اور سب نے اس دعا کو مفرد کے صیغے کے ساتھ روایت کیا ہے۔ مثلا:
۱۔ابو اسحاق السبیعی:
ابو داود (۲/۵۶۳، ح۱۴۲۵)، ترمذی (۲/۳۲۸، ح۴۶۴)، نسائی (۳/۲۴۸، ح۱۷۴۵)، ابن ابی شیبہ(۲/۲۸۹، ح۷۸۷)، بزار(۴/۱۷۶، ح۱۳۳۷) اور طبرانی (المعجم الکبیر:۳/۷۳، ح۲۷۰۲، کتاب الدعاء: ص۲۳۵، ح۷۴۱)وغیرہ نے اسے ان کے طریق سے صیغہ مفرد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
۲۔یونس بن ابی اسحاق:
امام احمد نے مسند (۳/۲۴۵، ح۱۷۱۸) میں اور ابن الجارود نے المنتقی (ص۷۸، ح۲۷۲) میں اسے ان کے طریق سے صیغہ مفرد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
۳۔حسن بن عبید اللہ:
طوسی نے اپنے ’مستخرج‘(۲/۴۲۷، ح۳۱۰/۴۴۳) میں اور طبرانی نے ’کتاب الدعاء‘(ص۲۳۶، ح۷۴۵) میں اسے ان کے طریق سے صیغہ مفرد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
۴۔علاء بن صالح:
امام بیہقی نے ’الدعوات الکبیر‘(۱/۵۵۴، ح۴۳۱) اور ’السنن الصغیر‘(۱/۱۶۸، ح۴۳۵) میں اسے ان کے طریق سے صیغہ مفرد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
لہذا ان تمام دلائل سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف مفرد کے صیغے کے ساتھ ہی ثابت ہے۔ جمع کے صیغے کے ساتھ بعض جن طرق میں یہ وارد ہوئی ہے تمام کے تمام شاذ ہیں، ان میں سے کوئی بھی طریق محفوظ نہیں۔ واللہ اعلم،و علمہ اتم واحکم۔

5
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
عبد الرحمن صدیقی

ہم جیسے عاامی شخص کے لئے یہ سر کے اوپر سے چلا گیا۔
شیخ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قنوت میں ہاتھ اٹھانا،ظاہر ہے ۔۔؟ کیا تراویح کے وتر کی نماز میں دعاے قنوت اور نازلی کو ملانا ثابت ہے؟ ان آسان سوالوں پر رہنمائ درکار ہے

رفيع الدين نجم الدين

السلام عليكم ورحمة الله
علامه الباني كا حكم صحيح
إرواء الغليل ٤٢٩

Parwez Alam

ماشاء الله جزاكم الله خيرا يا شيخنا الفاضل
بحث قيم ومفيد جدا

عبید اللہ محمدی خان

شیخ محترم. اکثر قراء وحفاظ نماز وتر میں دعاء قنوت کو جمع کے صیغہ سے پڑھتے ہیں حرمین شریفین کو ہی لے لیں. اس ضمن میں کہاں تک گنجائش ہے

عبد المعین

لَا يَؤُمُّ رَجُلٌ قَوْمًا فَيَخُصُّ نَفْسَهُ بِالدُّعَاءِ دُونَهُمْ ، فَإِنْ فَعَلَ فَقَدْ خَانَهُمْ “