کورونا اور لاک ڈاؤن کے موجودہ حالات نے سماج میں جو نئے مسائل کھڑے کیے ہیں ان میں سے ایک اہم مسئلہ لوگوں کی بگڑتی ذہنی حالت ہے جس پر بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔
کہتے ہیں کہ بسا اوقات بیماری سے زیادہ خطرناک بیماری کا ڈر ہوتا ہے ۔ اور آج کورونا کی دوسری لہر کے بعد لوگ جس طرح سوکھے پیڑ کے گرتے پتوں کی طرح دھڑا دھڑ مررہے ہیں اس چیز نے لوگوں کو اندرونی طور پر خوفزدہ کردیا ہے ۔
ایسی صورت حال میں سماج کے افراد کی ذہنی صحت(مینٹل ہیلتھ) ایک بڑا ہی نازک مسئلہ ہے ۔
ڈپریشن یا ذہنی دباؤ، ذہنی تناؤ،مسلسل خوف کے احساس میں جینا، مسلسل بے اطمینانی کی کیفیت سے گزرنا، ذہنی تھکان اور نہ جانے کیا کیا مسائل ہیں جو انسان کی ذہنی صحت کو درپیش سنگین خطرات کی حیثیت سے سماج کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں ۔
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے سماج میں’مینٹل ہیلتھ‘ سے جڑے مسائل کو ایک بیماری کی حیثیت سے دیکھنے کا رواج بھی بہت ہی کم ہے حالانکہ موجودہ حالات میں بہت سارے لوگ غیر شعوری طور پر ان کا شکار ہیں ۔
ضرورت ہے کہ سب سے پہلے خود کی پھر سماج کے افراد کی گرتی ذہنی صحت کو سہارا دیا جائے اور اسے سنبھالا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ تھوڑی سی بیداری اور تھوڑی سی سمجھداری سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق ذہنی صحت (مینٹل ہیلتھ) کے تحفظ کی کئی بنیادیں ہیں ۔جن میں سے اہم چند ایک درج ذیل ہیں:
۱۔ ایمان کی مضبوطی بالخصوص تقدیر پر ایمان کا مضبوط ہونا۔
یہ یقین کہ مقدر میں جو لکھا ہے وہی ہوگا ۔ میرے گھُلنے سے تقدیر بدلنے والی نہیں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا فَقَالَ : يَا غُلاَمُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ رُفِعَتِ الأَقْلاَمُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ [سنن ترمذی:۲۵۱۶ ۔ صححه الألباني]حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا ، آپ نے فرمایا:”اے لڑکے ! میں تمھیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں : تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو ، وہ تمھاری حفاظت فرمائے گا ، تم اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے ، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو ، جب تم مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو ، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی اکٹھا ہو کر تمھیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمھیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمھارے مقدر میں لکھ دیا ہے ، اور اگر وہ تمھیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے اکٹھا ہو جائیں تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تمھارے مقدر میں لکھ دیا ہے ، قلم اٹھا لیے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہو گئے ہیں۔“
۲۔ ہم و غم میں گھُلنے کے بجائے آدمی کو میسر اسباب کو اختیار کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔خاص طور پر وہ اسباب جو احتیاط کا تقاضہ بھی ہوں اور آدمی کے احساس تحفظ میں اضافہ کا سبب بھی بنیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اعقلها وتوكل[الترمذي] اپنے اونٹ کو باندھو اور اللہ پر توکل اور بھروسہ رکھو ۔
۳-۴۔تعلق باللہ اور یہ حسن ظن کہ اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ زندگی دے گا تو اچھی دے گا۔ اگر موت مقدر ہوگی تو میرا اور میرے اپنوں کا حقیقی سہارا بھی اللہ ہی ہوگا:
فَأَقِیمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُوا۟ ٱلزَّكَوٰةَ وَٱعۡتَصِمُوا۟ بِٱللَّهِ هُوَ مَوۡلَىٰكُمۡۖ فَنِعۡمَ ٱلۡمَوۡلَىٰ وَنِعۡمَ ٱلنَّصِیرُ[الحج:۷۸]پس تمھیں چاہیے کہ نمازیں قائم رکھو اور زکوٰة ادا کرتے رہو اور اللہ کو مضبوط تھام لو، وہی تمھارا ولی اور مالک ہے۔ پس کیا ہی اچھا مالک ہے اور کتنا ہی بہتر مددگار ہے ۔
اللہ تعالى سے مضبوط رشتہ ہر قسم کے خطرات کے احساس کو پوری طرح گھٹا دیتا ہے :
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّـهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ[الرعد:۲۸]جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے متعلق حسن ظن اور تعلق باللہ کے اثر بیان کرتے ہوئے حدیث قدسی بیان فرمائی کہ اللہ نے فرمایا:
أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعهُ إِذَا ذَكَرَني، فَإن ذَكرَني في نَفْسهِ، ذَكَرْتُهُ في نَفسي، وإنْ ذَكَرَني في ملإٍ، ذكَرتُهُ في ملإٍ خَيْرٍ منْهُمْ [متَّفقٌ عليہ]میں اپنے بندے کے ساتھ میرے متعلق گمان کے مطابق ہوں اور جب بھی وہ مجھے یاد کرے میں اس کے ساتھ ہوں۔ اگر وہ تنہائی میں مجھے یاد کرے تو میں بھی اسے یاد رکھتا ہوں اور اگر کسی جماعت میں میرا تذکرہ کرے تو میں اس سے بہتر جماعت کے سامنے اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔
رسول ﷺ نے مزید فرمایا:
قَالَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي ؛ إِنْ ظَنَّ بِي خَيْرًا فَلَهُ ، وَإِنْ ظَنَّ شَرًّا فَلَهُ[صحیح ابن حبان:۶۴۱۔وصححه الألباني أيضا]اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے میرے متعلق گمان کے مطابق ہوں،اگر اس نے میرے ساتھ حسن ظن رکھا تو اس کے لیے خیر ہی ہے اور اگر بدگمانی کی تو اس کے لیے وہی ہے ۔
اللہ تعالی اپنے بندے کے ساتھ اس کے حسن ظن یا سوء ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہے،اللہ تعالی کسی امید لگانے والے کو ضائع نہیں کرتا ہے ۔
ایمان و عقیدہ کی مذکورہ بنیادوں کے ساتھ اسلام ایک مسلمان کو درج ذیل عملی تعلیمات کا بھی پابند کرتا ہے۔
(۱)تجسس انسان کی طبیعت میں ہے، اس کے اندر یہ داعیہ پیدا ہوتا ہے کہ میں سب کچھ جان لوں کسی چیز سے بے خبر نہ رہوں ۔ مگر ایک مسلمان کو یہ معلوم رہنا چاہیے کہ ہر خبر کا جاننا انسان کے لیے ضروری نہیں ۔
موجودہ دور میں سوشل میڈیا فیس بک واٹس اپ کے ذریعے بیماری اور وفات کی خبریں،ہسپتالوں کے مناظر،جنازوں اور قبرستانوں کی تصویریں اور ویڈیو،ساتھ ہی اس وبا سے متعلق مستقبل کے تئیں اندیشوں اور اٹکلوں سے بھری تحریروں اور طرح طرح کی خبروں کی بھرمار۔ یہ سب کچھ خود اپنے آپ میں ذہنی بیماریوں کے پھیلنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ حالانکہ ان میں سے کسی ایک چیز کی بھی جانکاری انسان کے لیے ضروری نہیں ہے ۔ اگر کوئی انسان صرف ان چیزوں سے دوری اختیار کرلے تو خود کی ذہنی حالت کو سدھارنے میں بہت حد تک کامیاب ہوجائے گا۔ آدمی کو یہ بھی کرنا چاہیے کہ جو ذرائع خود یہ خبریں آدمی تک پہنچاتے ہیں ان ذرائع سے دوری بنالے،گروپ چھوڑدے ، کم از کم حالات سدھرنے تک کے لیے فیس بک ڈیلیٹ کردے یا نہ کھولے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لاَ يَعْنِيهِ [سنن الترمذی و ابن ماجة ۔وصححه الألباني]حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی بھی شخص کے اسلام کی خوبی اس بات میں ہے کہ جس بات کا تعلق اس سے نہ ہو اسے وہ چھوڑ دے۔“
(۲) بہت ساری خبریں محض افواہ ہوتی ہیں لہذا آدمی نہ خود ہر خبر کا یقین کرے نہ ہر خبر آگے فارورڈ کرے۔
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:كفى بالمرء كذبًا أن يحدث بكل ما سمع[مسلم في المقدمۃ وصححه الألباني صحيح الجامع :۴۴۸۲]حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو (بلاتحقیق) بیان کردے۔‘‘
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ [سنن ابی داود:۴۹۹۲ -وصححه الألباني]سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”آدمی کے گنہگار ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (بلا تحقیق) بیان کرے۔“
(۳)بہت ساری خبریں صحیح ہوکر بھی صرف خواص کے جاننے کی ہوتی ہیں ۔ عوام میں ان کے عام ہونے کا کوئی فائدہ نہیں الٹا ان کے درمیان خوف و دہشت کے پھیلانے کا سبب بن جاتی ہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا[سورۃ النساء:۸۳]جہاں انھیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انھوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے، تو اس کی حقیقت وه لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوه تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔
(۴) بہت ساری خبریں عوام کے حق میں مفید ہوتی ہیں مگر ان خبروں کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہوتے ہیں ۔ لہذا آدمی کو فائدہ اور نقصان کے تناسب کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔
خبریں جب مذکورہ اسلامی تعلیمات کی چھلنی میں چھنی آتی ہیں تو پھر وہ ذہنی صحت کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔
عصر حاضر میں ایک طرف ایمان کی کمزوری اور دوسری طرف شرعی اعتبار سے غیر تربیت یافتہ لوگوں کی سوشل میڈیا کے متعدد ذرائع تک رسائی نے ان اصولوں کو پامال کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں مختلف و متنوع نقصانات کے ساتھ ساتھ سماج کے مختلف طبقات کی ذہنی صحت کو لاحق خطرات بھی بڑھ گئے ہیں ۔
لہذا دھیان رہے۔۔۔۔!
آپ کم از کم اپنی حد تک مثبت کردار ادا کریں ۔
یادرکھیں ۔۔!
آپ کی فارورڈکردہ خبر سچ ہو کر بھی اگر کسی کی ذہنی صحت(مینٹل ہیلتھ) کو نقصان پہنچا سکتی ہے تو پھر آپ کو اس کی بابت سوچنا چاہیے ۔ کہیں اللہ کے پاس آپ کا مؤاخذه تو نہیں ہوگا ؟
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مسلمان وہ ہے جو مسلمانوں کو اپنی زبان اور ہاتھ سے ( تکلیف پہنچنے سے ) محفوظ رکھے۔‘‘[صحیح البخاری :۶۴۸۴۔ صحیح مسلم :۴۱]
(۵)ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کا معنوی سہارا بننا چاہیے۔ رابطہ رکھے ، تسلی دے، ہمت بندھائے، بے جا خدشات و خطرات کا ازالہ کرے، غلط فہمیاں جو گھر کر گئی ہیں ان کو مٹائے، ایمان و یقین کی دولت ایک دوسرے کے دل میں جگائے۔بالخصوص اپنے ساتھیوں اور متعلقین کی، پڑوسیوں کی، رشتہ داروں کی کی، مسلسل خبرگیری اور دلجوئی کرتا رہے ۔
اور یاد رکھے !
أ۔ المسلم أخو المسلم لا يسلمه ولايخذله (ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ تو وہ اسے دوسرے کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہے نہ اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے)
ب۔ المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا (ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو سہارا دیتا اور مضبوط کرتا ہے)
ج۔من نفس عن مؤمن كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة (جو کسی مومن کی کسی دنیوی پریشانی کو دور کرے گا اللہ اس کی یوم آخرت کی پریشانی کو دور فرمائے گا)
د۔ والله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه (اللہ برابر بندے کی مدد فرماتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہوتا ہے)
دین اسلام زندگی کے ہر میدان کی طرح یہاں بھی ہمارا رہنما ہے :
إِنَّ هَـٰذَا ٱلۡقُرۡءَانَ یَهۡدِی لِلَّتِی هِیَ أَقۡوَمُ وَیُبَشِّرُ ٱلۡمُؤۡمِنِینَ ٱلَّذِینَ یَعۡمَلُونَ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أَنَّ لَهُمۡ أَجۡرࣰا كَبِیرࣰا[الإسراء:۹]حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے جو لو گ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انھیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔
اب یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم خود کی اور سماج کی ذہنی صحت کی فکر کرتے اور ان ہدایات کو اپناتے ہیں یا پھر من مانی کرکے سب کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔
وفقنا الله جميعا لما يحبه ويرضاه۔آمین
Assalamualaikum, alhamdulillah very happy and felt really good after reading the article , hope it can be translated in English as well so we can forward it to all as this will be very helpful to all, may Allah subhanahu wa ta’la reward aalim saahab abundantly aameen
بہت خوب۔ ،احسنتم أحسن الله اليكم