بدعت کی آیرنی

ابوالمیزان منظرنما

کھانے پینے اور پہننے سے زیادہ اہتمام اللہ رب العالمین کی عبادت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہونی چاہیے۔ عبادت کا نمونہ ہمارے نبی کی زندگی اور اطاعت کا صحابہ کرام کی زندگی میں موجود ہے۔ کھانے پینے اور پہننے پر عبادت و اطاعت کو ترجیح دینے کا رویہ تمام نبیوں اور ان کے پیروکاروں کا خاصہ رہا ہے۔
کفر تو دنیا کی سب سے بڑی محرومی ہے مگر شرک سب سے بڑا ظلم اور بدعت سب سے بڑی گمراہی۔
کفر کی راہ پر چلنے والا ’انا ربکم الأعلی‘ کے ہای لیول زعم میں پڑ کر نمرود و فرعون ہوسکتا ہے مگر انجام آخرکارمحرومی کی ایک بڑی مثال کے سوا کچھ بھی نہیں، نمرود کو مچھر نے مار ڈالا اور فرعون کو خشکی نے ڈبودیا۔ ہٹلر نے لوگوں کو مارتے مارتے ایک دن خود کو ہی مار لیا۔
شرک کلمہ پڑھنے والے کریں یا وہ لوگ جو دوسرے مذاہب کے پیروکار ہیں، کہیں بھی جھک جاتے ہیں۔ کلمہ گو مشرک یا تو مزاروں پر قبروں کی پوجا کرتے ہیں یا پھر اپنی عبادت گاہوں میں قبر بناکر انھیں مزاروں میں تبدیل کردیتے ہیں۔ دوسرے مذاہب کے مشرکین یا تو مندروں میں ماتھا ٹیکتے ہیں یا اپنے ہی گھروں میں مورتیاں رکھ کر ان کے سامنے سر جھکاتے رہتے ہیں۔ بیوی اگر حق زوجیت میں کسی کو شریک کرلے تو یہ ظلم برداشت نہیں کرتے اس کے قتل تک پر آمادہ ہوجاتے ہیں مگر خود اللہ کی عبادت میں غیراللہ کو شریک کرکے جو ظلم کرتے ہیں اس کے فساد کو نہیں دیکھ پاتے۔
بدعت اتنی بڑی گمراہی ہے کہ قرآن کریم کو اپنے دن رات کا محور بنالینے والے بھی ’من یطع الرسول فقد اطاع اللہ‘ کا مطلب نہیں سمجھ پاتے اور ان کے بدعتی پیروکار انھیں امام اور مفکر جیسے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ پتہ چلتا ہے ساری زندگی علم و حکمت کا کاروبار کرتے رہے اور مرتے ہی لیکھا جوکھا سامنے آیا تو پورے ڈھیر سے گنتی کی ایک دو کتابیں نکل آئیں جن کی وجہ سے سیکڑوں مسلمان آزمائش میں پڑگئے۔ قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا۔ الذین ضل سعیھم فی الحیاۃ الدنیا وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا۔ بدعتی اور اس کے پیروکار دونوں اسی گمان میں رہتے ہیں کہ یہ دین کی، قرآن کی، مسلمانوں کی بڑی خدمت ہے، بڑا اچھا کام ہے، بہت مبارک سلسلہ ہے۔ حلانکہ بدعت چاہے جتنی حسین نظر آئے سب سے بڑی گمراہی ہے۔ وکل ضلالۃ فی النار
تین صفوں کی شاندار مسجد ہے، قالین بچھی ہوئی ہے، دو دو ٹن کی دو اے سی لگی ہوئی ہے، چار چار پنکھے چل رہے ہیں، ہواؤں میں خوشبو ہی خوشبو بسی ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے سعودی عرب کی کسی مسجد میں آ گئے۔
پہلے لگا شاید ایک بجے اذان ہو، سنتیں ادا کیں، ذکر و اذکار کیے، گھڑی دیکھی ایک بج کر۲۳ منٹ ہورہے تھے۔ سوچا شاید ڈیڑھ بجے خطبہ شروع ہو۔ یہ وقفہ بھی گزر گیا، بے چینی بڑھنے لگی کہ کیا ماجرا ہے، کہیں ایسا تو نہیں الوداعی جمعہ منانے کا معاملہ ہو اور تاخیر کی جا رہی ہو۔ پونے دو بج گئے۔ ایک جگہ ذرا ڈھکا ہوا سا ٹائم ٹیبل نظر آیا۔ فجر پانچ دس، ظہر ڈیڑھ بجے، عصر پانچ پچیس، مغرب سات بیس، عشاء گیارہ بجے اور جمعہ دو بجے۔ اللہ اکبر
بالآخر دو بجے، منبر پر خطیب صاحب چڑھ کر بیٹھے اور ایک نوجوان بالکل ان کے سامنے مشکل سے ایک فٹ کی دوری پر کھڑا ہوکر اذان دینے لگا۔
خطبہ نو منٹ کا تھا عربی میں، خطبہ حاجہ نہیں کچھ اور تھا۔ ہاں درمیان میں ایک جگہ خطبہ حاجہ کی پہلی آیت سے ’یا ایھا الذین آمنوا‘ کاٹ کر صرف ’اتقوا اللہ حق تقاتہ ولاتموتن الا وانتم مسلمین‘ پڑھ دیا تھا۔ ایک جملے پر تو بڑا تعجب ہوا: وتتدبروا فی ھذہ الآیۃ۔ سوچا نماز بعد پوچھوں گا بھائی صاحب اس پیغام میں کیا لاجک ہے؟ جب قرآن و حدیث چھوڑ کر صرف فضائل اعمال پڑھنے پڑھانے اور سننے سنانے کی ترغیب دیتے ہو تو یہ آیت میں غور وفکر کی تلقین کا کیا مطلب ہے؟
تکبیر ہوئی، اللہ اکبر کہنے سے پہلے عربی میں ہی صفیں سیدھی کرنے کی تنبیہ کی، خطبے کے برخلاف اس کا ترجمہ بھی کیا کہ صفیں پر کرلیں، صفوں کی درستگی نماز کی درستگی ہے۔ میں نے پہلی صف پر نظر دوڑائی، اپنے دائیں بائیں دیکھا، پھر تیسری یعنی پچھلی صف کی طرف بھی مڑکر دیکھا صفیں تو صرف خلائیں پر کررہی تھیں۔ سوشل ڈسٹینسگ نہیں تھی یہ کیونکہ پوری مسجد میں صرف ایک تیرہ چودہ سالہ لڑکے نے ماسک لگایا تھا بس۔
قرأت اچھی تھی، خطبے میں لہجے کی جو کرختگی اور آواز کا جو گھن گرج تھا وہ یہاں نہیں تھا۔ پہلی رکعت میں سورہ اعلی اور دوسری میں سورہ غاشیہ کی تلاوت نہیں کی تھی۔ سلام پھیرتے ہی مسنون دعائیں چھوڑ کر فوراً ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور پندرہ منٹ تک ’کچھ باتیں اور کچھ اعلانات‘ کے عنوان سے پہلے تو الوداعی جمعہ کی فضیلت اور صدقہ فطر کی اہمیت پر کچھ بے سر وپا باتیں بتائیں اور پھر عیدالفطر کی نماز کا وقت اور صدقہ فطر ادا کرنے والوں کے لیے مستحق اداروں کی رسیدیں موجود ہونے کا اعلان کیا۔
’سئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘ کہہ کر جب ’ای الأفضل صدقۃ‘ کہا‌ تو میں نے سوچا سبقت لسانی ہوگی مگر ’الفیت‘ (الفت) جیسے آدھا درجن الفاظ سن کر میں نے نماز بعد سوال کرنے کا خیال دماغ سے نکال دیا اور اجتماعی دعا ختم ہوتے ہی مسجد سے باہر نکل آیا۔
صاع، رتل اور سیر کی تشریح کرتے ہوئے بتایا تھا کہ صاع چار کلو، رتل پونے دو کلو اور سیر ایک کلو آٹھ سو گرام کا ہوتا ہے۔ مالداروں کو ایک صاع کشمش، کھجور اور جو نکالنا ہے، کشمش بارہ سو، کھجور چودہ سو اور جو کچھ چار سو روپے میں آتا ہے۔ باقی لوگ (غریب) گیہوں نکال سکتے ہیں یعنی ستر روپے۔ رسیدیں میں لے کر آیا ہوں۔
مسلمان جب سنتوں سے دور ہوتا ہے تو کتنی بڑی گمراہی میں جا پڑتا ہے کہ اس کی زندگی بدعتوں میں ملوث ہوکر رہ جاتی ہے۔
قرآن تو سب کے پاس ہے، تلاوت بھی ہورہی ہے مگر بدعتیوں نے یہ پروپیگنڈہ کررکھا ہے کہ قرآن کریم سمجھنے کے لیے اتنے اور اتنے منتر (علوم) سیکھنا ضروری ہے۔ حدیثوں کے قریب جانے کی تو ضرورت نہیں، چاروں ائمہ میں سے کسی ایک کے پیچھے لگ جاؤ کافی ہے۔
بدعت کی یہ کتنی بڑی آیرنی (irony) ہے کہ دین کے نام پر گمراہیوں کا ایک پلندہ ہے جسے یہ ڈھو رہے ہیں۔ نہ خطبہ حاجہ پڑھنے کی توفیق، نہ نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب سورتیں پڑھنے کی توفیق اور نہ ہی نماز کے بعد مسنون دعائیں پڑھنے کی توفیق۔ بدعت میں پڑ کر سنت سے ہی نہیں دین سے بھی دور ہوگئے ہیں اور دین کے نام پر جو کررہے ہیں اسے بڑا اچھا عمل سمجھ رہے ہیں۔ جبکہ اللہ رب العزت کی عبادت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا اہتمام نہ ہوگا تو سفید کرتے پاجامے اور لمبی ٹوپیاں بھی کسی کام نہ آئیں گی۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
الطاف الرحمن سلفی

کافی عمدہ
جزاکم الله خيرا

Naseem Akhtar

بہترین نقشہ کھینچا ہے