یہ تحریر دراصل ایک درس ہے جو کرناٹک کے مقام سرسی کی فاطمہ مسجد میں۷؍۶؍۲۰۱۶ءکو پیش کی گئی، جسے عزیزم دلاور حسین عبدالغفارکلیہ ثالثہ نے ریکارڈر کی مددسے نسخ کیا ہے ، نظرثانی اورحذف واضافہ کے بعد اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہاہے، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالی اسے ہم سب کے لیے مفید بنائے۔آمین
واضح ہو کہ تحریر کی زبان تقریر کی زبان سےبالکل الگ ہوتی ہے اس لیے اگر بعض جگہوں پر اعادہ کی کیفیت محسوس ہوتو انگیز کریں گے۔
زبان کی اصلاح ، معلومات کی توثیق اورحوالہ جات کی تفصیل پیش کرکے مسئلے کو واضح اور منقح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس درس کا بنیادی نقطہ ہے :’’قنوت وتر اور قنوت نازلہ میں تفریق‘‘اوریہ وضاحت کہ یہ دونوں الگ الگ عبادتیں ہیں ایک کو دوسرے پر قیاس کرنا غلط ہے، قنوت وتر کا تعلق اذکارسے ہے جس میں ثابت کی پابندی ضروری ہے جب کہ قنوت نازلہ کا تعلق دعا سے ہے جس میں انسان ضرورت کے مطابق منقول یا غیرمنقول الفاظ کے ذریعہ دعا کرسکتاہے، اس میں رکوع کے بعدرفع یدین کرکے اجتماعی دعا کی جا تی ہے، جب کہ وتر کا معاملہ اس کے برعکس ہے اس میں نہ تو رفع یدین ہےاورنہ اجتماعی دعا ہے اوروہ رکوع سے پہلے ہے ، وتر میں رکوع کے بعد قنوت پڑھنا کسی بھی حدیث میں نبیﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
لہٰذا یہ دونوں عبادتیں ایک دوسرے سےجدا ہیں ، دونوں کے احکام اورمواقع بھی الگ ہیں ، اس لیے ایک کو دوسرے پر قیاس کرنا غلط ہے۔
غزوہ بئر معونہ
یہ صفر سنہ۴ھ کی بات ہے ، اللہ کے رسول ﷺ کے پاس کچھ لوگ آئے اورآپ سے درخواست کیا کہ آپ اپنے علما اورحفاظ کو ہمارے یہاں بھیج دیں، کچھ لوگوں کو قرآن سے دلچسپی ہے، دین کی باتیں سیکھنا چاہتے ہیں ، آپ نے اپنے صحابہ میں سے ستر علما کو بھیجا، قرآن کے سترّ عالموں کو اللہ کے نبیﷺ نے روانہ کیا، مگر ان لوگوں نے غداری کی اور بیچ راستے میں دو پہاڑوں کے بیچ میں گھیر کر ان تمام صحابہ کرام کو شہید کردیا، ان میں سے صرف ایک صحابی کعب بن زیدرضی اللہ عنہ بچے جنھوں نے واپس آکر اللہ کے رسول ﷺ کو پورے واقعے کی خبردی جب کہ جبرئیل علیہ السلام پہلے ہی نبی ﷺ کو اس کی خبردے چکے تھے۔
تاریخ میں اس واقعہ کو ’غزوہ بئر معونہ‘کے نام سے یادکیا جاتاہے، اللہ کے رسول ﷺ کو اس حادثہ کی وجہ سے بہت سخت صدمہ پہنچا، آپ کو بہت تکلیف ہوئی، وجہ اس کی یہ ہے کہ ابھی چارمہینہ پہلے شوال سنہ تین ہجری میں غزوئہ احد کے موقع سے اللہ کے رسول ﷺکے ستر صحابہ کرام شہید کردیے گئے تھے اورپھر اس کے بعد اسی صفر کے مہینہ میں چند روز پیشتر غزوئہ رجیع کے موقع پر آپ کے آٹھ صحابہ کرام کو دھوکے سے قتل کردیا گیا تھا ، جسے تاریخ میں غزوئہ رجیع کے نام سے جانا جاتاہے، اس موقع سے خبیب رضی اللہ عنہ کو لوگوں نے قید کرکے قریش مکہ کے ہاتھوں بیچ دیاتھا جنھوں نے کسی عزیز اورقریبی رشتہ دار کے بدلہ میں انھیں سولی دے دی تھی ، وہ اسلام میں سب سے پہلے شہید مرد ہیں جنھیں سولی پہ چڑھایا گیا۔
تومیں عرض یہ کررہا تھا کہ اللہ کے رسول ﷺکے ساتھ پے درپے حادثات پیش آرہے تھے، غزوہ احدکے موقع پر ، پھر غزوہ رجیع کے موقع پر اورسب سے بڑا سانحہ غزوہ بئرمعونہ میں پیش آگیا، جس میں آپ کے برگزیدہ اورچنیدہ سترصحابہ ٔ کرام کو ناجائز طریقے سے اوردھوکہ سے گھیر کر قتل کردیاگیا، صدمہ بہت شدید تھا اس لیے اللہ کے رسول ﷺنےمسلسل پانچوں نمازوں کی آخری رکعت میں رکوع کے بعدقنوت نازلہ پڑھنا شروع کیا۔
قنوت نازلہ سے متعلق احادیث
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں:
ان النبیﷺ کان لا یقنت إلا إذا دعا لقوم أودعا علی قوم[ابن خزیمہ:۱؍۳۱۴(۶۲۰)، دیکھیں: الصحیحۃ:۶۳۹]آپﷺقنوت اس وقت پڑھتے تھے جب کسی قوم کے لیے دعا یا کسی قوم کے لیے بددعا کرنا چاہتے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
ان رسول اللہﷺ کان إذا أراد أن یدعو علی أحد أویدعو لأحد قنت بعد الرکوع[بخاری:۴۵۶۰] رسول اللہﷺ جب کسی کے لیے دعا اورکسی کے لیے بددعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد قنوت پڑھتے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا:
قنت رسول اللہﷺ شہرابعد الرکوع یدعو علی أحیاء من العرب [بخاری:۴۰۸۹]اللہ کے رسولﷺ نے ایک مہینہ تک رکوع کے بعد قنوت پڑھا اورعرب کے کچھ قبیلوں پر بد دعا کی۔
قنوت نازلہ کے بارے میں صحیح بخاری میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے تمام الفاظ کو امام البانی نے ایک جگہ جمع کردیاہے، جس سے اس کی پوری تفصیل سامنے آجاتی ہے ، اس لیے میں اسے یہاں ذکر کررہاہوں:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا:’’رعل ، ذکوان ، عصیہ اوربنی لحیان والوں نے اپنے دشمن کے خلاف نبیﷺ سے مدد طلب کی ، دوسری روایت میں ہے کہ:انھوں نےگمان کیا کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں اوراپنی قوم کے خلاف نبیﷺسے مدد مانگی، نبیﷺاوران لوگوں کے درمیان معاہدہ تھا ، جن لوگوں سے نبیﷺ کا معاہدہ تھا وہ لوگ آئے تونبیﷺنے سترانصاری سواروں سے ان کی مدد کی، جنھیں ہم ان کے زمانے میں قراء؍علما کہتے تھے، وہ دن میں لکڑیاں جمع کرتے اور رات میں نماز پڑھتے تھے، جب وہ بئر معونہ پر پہنچے تو بنی سلیم کے دو خاندان رعل اورذکوان کے لوگ ان کے سامنے آگئے، صحابۂ کرام نے کہا: اللہ کی قسم! ہمیں تم سے کوئی مطلب نہیں ہے، ہم تو نبیﷺ کے کام کے لیے یہاں سے گزررہےتھے، مشرکوں کا سردار عامر بن طفیل تھا اس نے[نبیﷺ کو] تین باتوں کے درمیان اختیاردیا تھاکہا:
-آپ کے لیے نرم زمین پر رہنے والے اورمیرے لیے مٹی کے گھروں میں رہنے والے ہوں۔
-یا میں آپ کاجانشین بنوں۔
-یا میں قبیلۂ غطفان کے ساتھ مل کر دوہزار کے ساتھ آ پ سے جنگ کروں۔
ام فلاں کے گھر میں عامر کو نیزہ سے مارا گیا ، اس نے کہا: خطرناک بیماری ہے اونٹ کی بیماری کی طرح، آل فلاں کی ایک عورت کے گھر میں [اونٹ کو طاعون کی جو بیماری لگتی ہے اسے غدۃ کہاجاتاہے] میرا گھوڑا لاؤ، پھر وہ اپنے گھوڑے کی پشت پر مرگیا۔
حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے بھائی، ایک لنگڑے آدمی اور ایک بنی فلاں کے آدمی تینوں آگے بڑھے، حرام نے ان دونوں سے کہا: تم دونوں میرے قریب رہو میں ان کے پاس جاتاہوں اگر وہ مجھے امان دیتے ہیں تو تم قریب ہی رہوگے اوراگر مجھے قتل کردیتے ہیں تو تم اپنے ساتھیوں کے پاس چلے جاؤ گے، پھر وہ آگے بڑھے اورکہا: کیا مجھے امان دیتے ہو کہ میں رسول اللہﷺ کا پیغام پہنچا سکوں؟ تو ان لوگوں نے انھیں امان دے دیا، اس لیے وہ ان سے گفتگو کرنے لگے، (دوسری طرف) انھوں نے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کردیا وہ پیچھے سے آیا اورانھیں نیزے سے زخمی کردیا ، انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب حرام بن ملحان کو نیزہ مارکر زخمی کیا گیا-وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ماموں تھے-توانھوں نے اپنا خون اپنے چہرے اورسرپر چھڑک لیا پھر کہا: ’’رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔‘‘ حرام کا قاتل اپنے ساتھیوں سے مل گیا۔ پھردشمن باقی صحابۂ کرام کی طرف آئے اور سب کو قتل کردیا۔
ان کے ساتھ غداری اوربدعہدی کی ، لنگڑے صحابی (یعنی کعب بن زید) چونکہ پہاڑ کی چوٹی پر تھے اس لیے وہ انھیں قتل نہ کرسکے، پھر جبریل علیہ السلام نے نبیﷺ کو خبردی کہ وہ لوگ اپنے رب کے پاس چلے گئےوہ ان سے راضی ہوا اوران کو راضی کردیا، اس پر نبیﷺ ایک ماہ تک نماز فجر میں قنوت پڑھتے اوردعا کرتے رہے۔
ایک سند میں ہے:تیس دن، دوسری روایت میں ہے:چالیس دن تک عرب کے چند قبیلوں رعل، ذکوان، بنی عصیہ اوربنی لحیان پر بددعا کرتے رہےکہ ان لوگوں نے اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کی ، یہیں سے قنوت (نازلہ) کاآغازہوا ، اس سے قبل ہم قنوت (نازلہ) نہیں پڑھتے تھے، میں نے نہیں دیکھا کہ آپﷺ کسی پر اتنا غصہ ہوئے ہوں، جتنا ان لوگوں پر ہوئے تھے۔ اورایک روایت میں ہے : میں نے رسول اللہﷺ کو کبھی بھی اس سے زیادہ غمزدہ نہیں دیکھا، انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کے بارے میں ہم نے قرآن پڑھا،ایک سند میں ہے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ، پھر اسے اٹھالیا گیا، دوسرا لفظ ہے:اسے منسوخ کردیاگیا۔ [قرآن میں تھا] ’’الا بلغوا عنا قومنا أنا قد لقینا ربنا فرضی عنا وأرضانا،، وفی لفظ: ورضینا عنہ‘‘(ہماری طرف سے ہماری قوم کو پہنچادو کہ ہم اپنے رب کے پاس آگئے وہ ہم سے راضی ہوا اورہم کو راضی کردیا اورہم اللہ سے راضی ہوگئے) [مختصر صحیح البخاری:۳؍۴۰۔۴۲،۱۷۲۹]
اللہ تعالیٰ نے ا ن کی دعا سن لی اورجبریل علیہ السلام کے ذریعہ نبیﷺ کو ان کے احوال کی خبربھیج دی۔ [دیکھیں:بخاری:۴۰۹۰،۴۰۹۱،۴۰۹۲،۴۰۹۳،۴۰۹۴،۴۰۹۵]
اس موقع سے اللہ کے رسول ﷺجو دعا کرتے تھے فقہ اسلامی میں اسے ’قنوت نازلہ‘کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔
نازلہ کا مفہوم
نازلہ کی جمع نوازل اورنازلہ کے معنی عربی زبان میں ہوتاہے: پیش آمدہ حادثہ، پیش آنے والا واقعہ، درپیش مصیبت، اسے نازلہ کہاجاتاہے۔
گویا کہ جب مسلمان کسی مصیبت میں پھنس جائیں اوران کے لیے دعا کی جائےتویہ قنوت نازلہ ہے، دشمن مسلمانوں پر یلغار کردیں، دشمنوں کے لیے بددعا کی جائے، یہ قنوت نازلہ ہے، پانچوں نمازوں میں یہ دعا کی جانی چاہیے خواہ جہری نماز ہو یا سری ، ہرنماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت ہے۔
امام البانی نے کہا:
ان السنۃ فی قنوت النازلۃ الدعاء فی الفرائض الخمس[صفۃ صلاۃ النبی:۳؍ ۹۶۲-اصل]
علامہ حسین عوایشہ نے کہا :
فھذا ھو قنوت النوازل الذی لایخص بہ صلاۃ دون صلاۃ ویکون بعدالرکوع وکان لایفعلہ ﷺ إلا إذا دعا علی أحد أو دعا لأحد [الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ:۲؍۱۳۴]
قنوت نازلہ کے ا عمال
یہ قنوت نازلہ جو اللہ کے رسول ﷺپڑھتے تھے اس میں آپ چار کام کرتے تھے:
پہلا کام : آپ رکوع کے بعدقنوت پڑھتے تھے اور رکوع کے بعد پڑھنا یہ بخاری(۱۰۰۲)اور مسلم(۶۷۷) کی روایت میں ثابت ہے۔
امام البانی نے کہا:
السنۃ فی القنوت للنازلۃ فی الصلوات أنہ بعد الرکوع وعلیہ الخلفاء الراشدون…وھو الحق فإنہ لم یرد مطلقا عنہ ﷺ أنہ قنت فی النوازل قبل الرکوع
اورکہا:
یجھر بہ فی الرکعۃ الأخیرۃ بعد الرکوع… [صفۃ صلاۃ النبی:۳؍۹۵۴۔أصل]
دوسرا کام : اس میں آپ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے تھے ، دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے اوربددعا کرتے تھے ۔ [دیکھیں:احمد۳؍۱۳۷، بیہقی۲؍۲۱۱]
امام البانی نے کہا:’’اسناد صحیح‘‘ اورکہا: ’’ویرفع یدیہ‘‘مزید کہا:’’وفی الحدیث استحباب رفع الیدین فی دعاء القنوت‘‘[صفۃ الصلاۃ:۳؍۹۵۷،۹۵۸-أصل]
خلود المھیزع نے کہا:
من خلال ما سبق یترجح -واللہ أعلم-استحباب رفع الیدین فی القنوت[الدعاء وأحکامہ الفقہیۃ:۱؍۳۲۶]
تیسرا کام:یہ تھا کہ آپ جب دعا کرتے تھے توصحابہ کرام آپ کی دعا پر ا ٓمین کہتے تھے۔ [ابوداؤد:۱۴۴۳]
البانی نے کہا:’’والصواب أن الحدیث حسن‘‘ اورکہا: ’’ویؤمن من خلفہ‘‘[صفۃصلاۃ النبی:۳؍ ۹۵۹،۹۶۰]
چوتھا کام: آپ جہری دعا کرتے تھے ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبیﷺ بلند ا ٓواز سے قنوت پڑھتے تھے:’’یجھربذلک‘‘[بخاری:۴۵۶۰]
امام البانی نے کہا:
والحدیث فیہ استحباب الجھر بدعاء القنوت، وفی الجھربالقنوت أحادیث کثیرۃ صحیحۃ[صفۃ صلاۃ النبی: ۳؍ ۹۵۶]
خلود المھیزع نے کہا:
اتفق العلماء علی أنہ یستحب أن یجھر الإمام بالقنوت فی النوازل[الدعاء وأحکامہ الفقھیۃ:۱؍۳۲۳]
یہ ایک مستقل عبادت اور ایک مستقل شریعت ہے، جو اللہ رب العالمین نے مسلمانوں کے لیے مصیبت کے موقع پرمشروع کیا ہے، جب بھی مسلمانوں کودشواریاں پیش آئیں توان کو قنوت پڑھنے کاحکم دیا ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ دن کی پانچوں نمازوں میں ، ہر نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد امام دعا کرے گا اورمقتدی اس پر آمین آمین کہیں گے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
قنت رسول اللہﷺ شہرا متتابعا فی الظہر والعصر والمغرب والعشاء وصلاۃ الصبح فی دبر کل صلاۃ إذا قال: سمع اللہ لمن حمدہ ، من الرکعۃ الآخرۃ یدعو علی أحیاء من بنی سلیم : علی رعل وذکوان وعصیۃ ، ویؤمن من خلفہ[ابوداؤد:۱۴۴۳، احمد:۱؍۳۰۱، بیہقی:۲؍۲۱۲، نووی اورالبانی وغیرہ نے اسے حسن کہا ہے۔ دیکھیں:المجموع:۳؍۵۰۲، ارواء الغلیل:۲؍۱۶۳]
میں نے عرض کیا کہ یہ ایک مستقل شریعت ہے ایک مکمل شرعی حکم ہے، اورجب بھی مسلمانوں کو کوئی آفت، مصیبت اورپریشانی لاحق ہو تو انھیں اس اجتماعی دعا کا اہتمام کرنا چاہیے، قنوت نازلہ ایک اجتماعی دعاہے جو مسلم سماج کی موجودہ تکلیف کو دورکرنے کے لیے سکھائی گئی ہے جس کو قنوت نازلہ کہاجاتاہے۔
قنوت کا مفہوم
قنوت کا معنی اگر عربی لغت میں تلاش کیا جائے تو قنوت کا ایک معنی ملتاہے چپ رہنا اوریہ معنی شریعت میں بھی استعمال ہے۔قنوت کا ایک معنی ہے اللہ رب العالمین کی عبادت کرنا، یہ معنی بھی شریعت میں استعمال ہے۔ اورقنوت کاایک معنی ہے دیر تک کھڑے رہنا، لمباقیام، یہ معنی بھی شریعت میں استعمال ہے، تو قنوت کے جو متعدد معانی لغت میں موجود ہیں شریعت میں بھی مختلف مواقع کے اعتبار سے اللہ اوراس کے رسول نے یہ معانی استعمال کیے ہیں۔
مثال کے طورپر بخاری (۱۴۰۰)اورمسلم (۵۳۹)کی روایت میں ہے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ اللہ کے رسولﷺکے زمانے میں اپنے ساتھیوں سے گفتگو کرتے تھے، اپنی ضرورت کےمتعلق نماز میں تبادلۂ خیال کرتے تھے، اللہ رب العالمین نے جب یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ’’حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی ق وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ‘‘[البقرۃ:۲۳۸](نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اوراللہ تعالیٰ کے لیےباادب کھڑے رہاکرو) انھوں نے کہا:’’فأمرنا بالسکوت ونھینا عن الکلام‘‘(ہمیں چپ رہنے کاحکم دیاگیا اورگفتگو کرنے سے منع کردیاگیا)گویا کہ اللہ رب العالمین نے جو کہا:’’قوموا للہ قانتین‘‘قنوت کرو اللہ کے لیے یعنی چپ رہو،یہاں اللہ رب العالمین نے قنوت کو چپ رہنے کے معنی میں استعمال کیا ہے۔
اوراسی طرح سے لفظ قنوت کو شریعت میں ’عبادت‘کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ابراہیم علیہ السلام کے بارےمیں اللہ رب العالمین نے کہا :’’کان أمۃً قانتا للّٰہ‘‘[النحل:۱۲۰](وہ ہمارا عبادت گزار بندہ تھا)، تو عبادت کے لیے بھی اللہ رب العالمین نے لفظ قنوت استعمال کیا ہے اورقیام اللیل کے لیے بھی قنوت کا لفظ استعمال ہوتاہے۔ مسلم کی روایت میں ہے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھاگیا : افضل نمازکون سی ہے؟ تو اللہ کےرسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’طول القنوت‘‘[مسلم:۷۵۶] سب سے افضل نماز طول قنوت ہے۔
نووی نے مسلم کی شرح کرتے ہوئے اس کا معنی لکھا ہے کہ مجھے جن علما کے اقوال کا علم ہے وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں قنوت سے مراد قیام ہے۔ان کا لفظ ہے:
المراد بالقنوت ھنا القیام باتفاق العلماء فیما علمت[شرح النووی علی مسلم:۶؍۳۵]گویا کہ لمبا قیام کرنا قنوت کاایک معنی ہے۔
تو میں عرض یہ کررہاتھا کہ شریعت اور لغت دونوں میں قنوت کے یہ معانی موجود ہیں،ابن العربی نے کہا:’’قنوت دس معانی کے لیے آتاہے‘‘[فتح الباری:۲؍۵۷۰] ہماری مشکل یہ ہے کہ یہ جو مصیبت وضرورت کی دعاہے یعنی قنوت نازلہ اس کاایک لفظ ہے ’قنوت‘۔ایک دوسری دعاہے جسے قنوت وتر کہاجاتاہے، نماز وتر کی آخری رکعت میں رکوع سے پہلے جو دعا کی جاتی ہے اس دعا کو بھی قنوت کہاجاتاہے۔ قنوت کا لفظ مصیبت والی دعا اوروتر والی دعا دونوں کو شامل ہے اور عربی زبان میں دونوں کو قنوت کہاجاتاہے۔
اسی لیے ہم کودشواری لاحق ہوئی ہےکہ قنوت کے لفظ میں اشتراک کی وجہ سے ہم قنوت نازلہ مصیبت والی دعا اور قنوت وتر یعنی نماز وتر کی دعا کو ایک سمجھ بیٹھے ہیں ۔
قنوت وتر کے اعمال
سردست میں آپ کو بتادوں کہ اللہ کے رسول ﷺوتر کی نماز میں جوقنوت پڑھتے تھے وہ قنوت ہمیشہ رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔
بخاری (۴۰۹۶)کی ایک روایت میں ہے عاصم احول نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا نبیﷺکے زمانے میں نماز میں قنوت ہوتی تھی؟ کہا :ہاں، میں نے کہا: رکوع سے پہلے ہوتی تھی، یا رکوع کے بعد ہوتی تھی؟ کہا: رکوع سے پہلے ہوتی تھی۔ عاصم نے کہامجھ سے فلاں نے بیان کیا ہے کہ آپ نے کہا ہے کہ قنوت رکوع کے بعد ہوتی تھی۔انس بن مالک نے کہا کہ: وہ شخص جھوٹا ہے ، وہ جھوٹاہے جو یہ کہتاہے کہ رکوع کے بعد ہوتی تھی، نبیﷺنے صرف ایک مہینہ رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھی تھی، جب آپ کے صحابہ کے ساتھ ان لوگوں نے غداری کی جن کے ساتھ آپ کا معاہدہ تھا ، انھوں نے آپ کے سترصحابۂ کرام کو شہید کردیا جنھیں قراء؍علما کہاجاتا تھا، نبیﷺنے ان پر بددعا کرنے کے لیےایک ماہ تک رکوع کے بعد قنوت پڑھا۔[ بخاری:۱۰۰۲]
بخاری (۴۰۸۸)کی ایک دوسری روایت میں ہے عبدالعزیز بن صہیب بصری نے کہا: ایک آدمی نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے قنوت کے بارے میں سوال کیاقنوت رکوع کے بعدہے یا قرأت سے فارغ ہونے کے بعدہے؟
انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قنوت تو قرأت سے فارغ ہونے کے بعد ہے۔
ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہﷺ نے نمازِ فجرمیں قنوت پڑھی ہے؟ فرمایا:ہاں،پھردریافت کیاگیا: رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد؟ فرمایا: رکوع کے بعد چنددنوں تک۔[بخاری:۱۰۰۱، ابوداؤد:۱۴۴۴]
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا:
ان رسول اللہﷺکان یوترفیقنت قبل الرکوع[ابن ماجہ:۱۱۸۲،نسائی:۱۶۹۹، ابوداؤد:۱۴۲۷۔ اس کی سند صحیح ہے۔صفۃ الصلاۃ:۳؍۹۶۸]
اسی طرح سے کتاب التوحید ابن مندہ :۲؍۱۹۱(۳۳۸)میں بسند صحیح ثابت ہے ، حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے کہا:
علمنی رسول اللہﷺ أن أقول إذا فرغت من قراءتي فی الوتر(اللہ کے رسول ﷺنے مجھےسکھایا کہ میں وتر میں قرأت سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھوں:یعنی اللھم اھدنی…۔
مصنف ابن ابی شیبہ:۲؍۹۷(۶۹۱۱) کی روایت میں ہے:علقمۃ بن قیس نخعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
إن ابن مسعود وأصحاب النبیﷺ کانوا یقنتون فی الوتر قبل الرکوع( عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اورصحابہ کرام یہ سب وتر کے اندر قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔ گویا کہ نبیﷺ کا عمل اورآپ کے صحابہ کاعمل اورآپ نے اپنے نواسے کو جو سکھایا وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ آپ وتر کی نماز میں دعائے قنوت رکوع سے پہلےپڑھتے تھے۔
امام البانی نے کہا:
یقنت فی رکعۃ الوتر أحیانا ویجعلہ قبل الرکوع ولایخصہ بنازلۃ ، وکذلک لایخصہ بالنصف الأخیرمن رمضان[صفۃ الصلاۃ:۳؍۹۶۸، ۹۶۹]
امام البانی نے کہا:
وبعد الفراغ من القراءۃ وقبل الرکوع یقنت أحیانا….[قیام اللیل:۳۱]
اورفرمایا:
وعلم الحسن بن علی رضی اللہ عنہ أن یقول: إذا فرغ من قراءتہ فی الوتر..[أصل صفۃ الصلاۃ:۳؍۹۷۳، جامع تراث العلامۃ الألبانی فی الفقہ:۷؍۲۳۲]
اورفرمایا:
أما القنوت فی الوتر قبل الرکوع لأنہ ثبت ذلک عن النبیﷺ من حدیث أبی بن کعب فی سنن النسائی وغیرہ[فتاویٰ جدۃ: موقع أھل الحدیث والأثر:۱۴ ، جامع تراث العلامۃ الألبانی فی الفقہ:۷؍۱۹۸]
علامہ حسین عوایشہ نے کہا:
ویجعلہ قبل الرکوع[الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ:۲؍۱۲۸]
شیخ عدنان عرعور نے کہا:
وموضعہ بعد الفراغ من القراءۃ قبل ا لرکوع من الرکعۃ الأخیرۃ[القنوت:۱۶۲]
عنوان قائم کیا ہے :’’یکون موضع قنوت الوتر فی الرکعۃ الأخیرۃ بعد الفراغ من القراءۃ قبل الرکوع‘‘ [القنوت:۱۳۸]
اورکہا:
فتبین من ھذا أن أنسا یری قنوت النازلۃ قبل الرکوع وبعدہ، وأماقنوت الوتر فلایری إلا قبلہ بدلیل قولہ: ’’کذب‘‘وھذا ھو الذی أثبتنا[القنوت:۱۴۲]
شیخ ولید الفریان نے کہا :
ان النبیﷺ کان یقنت فی الوتر قبل الرکوع فلایشرع بعدہ[القنوت فی الوتر:۹۰]
امام البانی نے کہا :
انہ قدصح عنہ ﷺ أنہ کان یقنت فی الوتر قبل الرکوع … ویشھد لہ آثار کثیرۃ عن کبار الصحابۃ…[ارواء الغلیل:۲؍۱۶۴]
اور فرمایا:
وکون قنوت الوتر قبل الرکوع ھو مذھب الحنفیۃ وھو الحق الذی لاریب فیہ، اذ لم یصح عنہ ﷺ خلافہ [صفۃ صلاۃ النبی:۳؍۹۷۰-أصل]
اورکہا:
وأما القنوت فی الوتر بعد الرکوع فلم أرفیہ أثراً عن عمر[الإرواء۲؍۱۶]
اورکہا:
وأما الروایۃ عن علی رضی اللہ عنہ فلا تصح لاقبل الرکوع ولا بعدہ[الإرواء:۲؍۱۶۶]
اورفرمایا:
والخلاصۃ أن الصحیح الثابت عن الصحابۃ ھو القنوت قبل الرکوع فی الوتر وھو الموافق للحدیث الآتی [الارواء۲؍۱۶۶]
اورکہا:
ینتج معنا أن القنوت فی غیر النازلۃ -ولیس ذلک إلا قنوت الوتر-إنما ھو قبل الرکوع کما قال أنس ….ولایمکن حمل القبلیۃ فی قولہ ھذا إلا علی قنوت الوتر کما لایخفی علی من تتبع مجموع روایات أنس المتقدمۃ[الارواء:۲؍۱۶۸]
شیخ عدنان عرعور نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے انکار کی یہ توجیہ امام البانی سے نقل کی ہے اورکہا ہے:
انہ أراد قنوت الوتر لا قنوت النازلۃ و ھو توجیہ وجیہ بدلیل أن أنسا ذکر عقب إنکارہ أن النبیﷺ قنت بعد الرکوع ، فکیف ینکر ثم یثبت؟ إلا أن یقال : إن إنکارہ القنوت بعد الرکوع کان لقنوت الوتر وإثباتہ بعد الرکوع کان لقنوت النازلۃ۔ واللہ أعلم [القنوت:۸۶۔۸۷]
علامہ حسین عوایشہ نے کہا:
فقد نفی أنس أن یکون القنوت بعد الرکوع، فھذا یفھم أن قنوت الوتر یفعل قبل الرکوع، أما بعد الرکوع فإنما ھو قنوت النازلۃ، حین الدعاء علی أحد[الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ:۲؍۱۳۵]
وتر کے اندر نبیﷺجوقنوت پڑھتے تھے کسی بھی روایت میں یہ نہیں ملتا کہ نبیﷺہاتھ اٹھاتے تھے ، کہیں یہ ثبوت نہیں ملتا کہ وتر کی نماز میں نبیﷺ رفع یدین کرکے دعاکرتے تھے۔
اسی لیے علامہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ تحفۃ الاحوذی:۲(۴۶۴) میں لکھتے ہیں :
وأما رفع الیدین فی قنوت الوتر فلم أقف علی حدیث مرفوع فیہ أیضاً( وتر کے اندر رفع یدین کے بارے میں مجھے کوئی بھی مرفوع حدیث نہیں مل سکی)
یعنی ایسی کوئی حدیث نہ پایا جو نبیﷺکے قول وعمل اور تقریر سے متعلق ہو، شیخ عدنان عرعور نے کہا:
ورفع ا لأیدی للدعاء لم یثبت فیھا شیء عن النبیﷺ فی قنوت الوتر..والذی یترجح أن لا یزاد علی قنوت المنفرد لا الصلاۃ علی النبی ﷺ ولا رفع الأیدی
اورکہا:
أما الصلاۃ والسلام علی النبی ﷺ ورفع الیدین للدعاء فکذلک لم یثبت فیھا شیء عن النبیﷺ فی قنوت الوتر
اورکہا:
والذی یترجح عندی أن قنوت الوتر للمنفرد لایزاد علیہ لا الصلاۃ ولا رفع الأیدی۔واللہ أعلم[القنوت:۱۴۴،۱۴۵،۱۶۴]
شیخ ولید بن عبدالرحمن الفریان نے کہا :
انہ لم یثبت عن النبیﷺ أنہ رفع یدیہ فی قنوت ا لوتر أوأمربہ[القنوت فی الوتر:۱۳۰]
اورکہا:
من رأی النبی ﷺ یرفع یدیہ لم یرہ یرفع یدیہ فی قنوت الوتر[القنوت:۱۳۰]
اورکہا:
الراجح-واللہ أعلم-ھو القول الأول، یعنی لایشرع رفع الیدین عند القنوت[القنوت فی الوتر:۱۲۷،۱۳۹]
اورکہا:
لایشرع رفع الیدین عندالقنوت فی الوتر[القنوت فی الوتر:۱۷۵]
شیخ عدنان عرعور نے کہا :
ولقد تتبعت آثار الصابۃ فلم أجد أثرا صحیحا فی رفع الأیدی فی قنوت الوتر، وإنما الثابت رفعھم أیدیھم فی قنوت النازلۃ، فظن من ظن أنہ قنوت الوتر، وماکان من الروایات صریحا فی رفعھم فی قنوت الوتر فلا تخلومن مقال، قد رواھا البیہقی۲؍۲۱۱، وضعفہا[القنوت:۱۴۶]
اورکہا:
فھؤلاء ثلاثۃ من أئمۃ التابعین وکبارھم یرون بدعیۃ الرفع[القنوت:۱۴۷]
اس سے قبل اسے زہری ، حسن بصری، سعید بن المسیب اوراوزاعی رحمھم اللہ اجمعین سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے قنوت وتر میں رفع یدین کاانکار کیاہے ، پھرآگے لکھا ہے کہ: قنوت وتر میں رفع یدین بہت سے سلف سے وارد ہے، جن میں ائمہ کرام بھی شامل ہیں مثلاً: عبداللہ بن مبارک، احمد بن حنبل، ابراہیم النخعی، یہی احناف کا مذہب ہے، گویا کہ ان بزرگوں کاخیال یہ ہے کہ قنوت دعا ہے اوردعا میں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں، رسول اللہﷺ نے قنوت نازلہ میں رفع یدین کیا تھا۔
ایسی صورت میں قاعدہ یہ ہے کہ: جب اہل علم کے درمیان اختلاف ہوتودیکھاجائے کہ اصل کی طرف رجوع کرنے کے بعد راجح کیاہے؟ اصل [یعنی دلیل] اس بات کو ثابت کرتی ہے جسے ہم نے ترجیح دی ہے کہ انفرادی نماز میں رفع یدین نہ کیاجائے کیوں کہ وہ ثابت نہیں ہے…۔[القنوت:۱۴۷۔۱۴۸]
آگے مزید لکھاہے:
أما القنوت فی صلاۃالوترالفردیۃفیبقی علی الأصل وھو المنع من ذلک التزاما بھدیہ ﷺ وعدم ثبوت ذلک عن أحدمن الصحابۃ رضی اللہ عنھم[القنوت:۱۵۰]اگرانفرادی طورپر نماز وتر میں قنوت پڑھی جائے تو [اس کاحکم]اصل پر باقی رہے گا یعنی رفع یدین ممنوع ہوگا ، تاکہ نبیﷺ کے طریقے کی پابندی اوراس کاالتزام کیاجاسکے اور مزید یہ کہ یہ عمل (یعنی قنوت وتر میں رفع یدین) کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں ہے۔
نبیﷺ وتر کی نماز میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھےمگر اس میں رفع یدین کرنا، اللہ کے رسولﷺ سے کسی بھی روایت میں ثابت نہیں ہے۔
اسی طرح سے کسی بھی روایت میں نبیﷺ سے یہ بھی ثابت نہیں ہے کہ آپ وتر کی دعاپڑھتے تھے اورپیچھے آپ کے صحابہ آمین آمین کہتے تھے۔یہ تینوں باتیں کسی بھی روایت میں نبیﷺ سے ثابت نہیں ہیں۔
قنوت وتر اورقنوت نازلہ میں فرق:
اس طرح ان دونوں قنوت یعنی قنوت نازلہ اورقنوت وتر میں جو فرق ثابت ہواوہ اس طرح ہے:
(۱)ایک چیزتویہ کہ قنوت نازلہ رکوع کے بعد پڑھی جاتی ہے اورقنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔
(۲)دوسرا فرق یہ ثابت ہوا کہ: قنوت نازلہ ہاتھ اٹھاکر پڑھی جاتی ہے اورقنوت وتر بغیر ہاتھ اٹھائے پڑھی جاتی ہے۔
(۳)تیسرافرق یہ ثابت ہوا کہ: قنوت نازلہ میں امام دعا کراتاہے مقتدی آمین آمین کہتے ہیں اورقنوت وتر میں امام دعا کرتاہے مقتدی بھی اپنی اپنی دعا کرتے ہیں وہ آمین آمین نہیں کہتے کیوں کہ ایسا کرنا نبیﷺ سے ثابت نہیں ہے۔لہٰذا یہ ایک الگ عبادت ہے اوروہ ایک الگ عبادت ہے۔
خلود المھیزع نے قنوت وتر اورقنوت نازلہ میں فرق بیان کرتے ہوئے کہا: ’’گزشتہ گفتگو کی روشنی میں دونوں قنوتوں کے درمیان نمایاں فرق یہ ہے:
(۱)قنوت وتر کی پابندی اوراس پر مواظبت درست ہے اگرچہ کہ افضل یہ ہے کہ کبھی کبھی ترک کردیا جائے ، رہی بات قنوت نازلہ کی تو اس کی دعا صرف اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ وہ مصیبت برقرار رہے گی۔
(۲)قنوت وتر کی دعا منقول ہے جب کہ قنوت نازلہ میں مصیبت اورحادثہ کی مناسبت سے دعا کاانتخاب کیاجائے گا۔
(۳)قنوت وتر نماز وتر میں محصور ہے جب کہ قنوت نازلہ ہرفرض نماز میں پڑھی جائے گی۔
(۴)قنوت وتر پورےسال مشروع ہے، لیکن قنوت نازلہ صرف مصیبت کے وقت مشروع ہے۔
(۵)قنوت وتر ہر نمازی پڑھے گا لیکن قنوت نازلہ صرف امام ا عظم ؍خلیفہ کے حکم سے پڑھی جائے گی۔ [الدعاء وأحکامہ الفقھیۃ:۱؍۳۶۴]
ہمارے بعض علما نے قنوت وتر کو قنوت نازلہ پر قیاس کرکے قنوت نازلہ کے احکام کو قنوت وتر کے لیے بھی ثابت کیا ہے۔
دلیل کیا ہے؟! دلیل یہ ہے کہ وہ بھی قنوت ہے یہ بھی قنوت ہے اس کانام بھی قنوت رکھا گیا ہے اس کانام بھی قنوت رکھا گیا ہے ، دونوں قنوت ہونے میں مشترک ہیں اس لیے دونوں کا حکم بھی ایک ہوگا، یعنی جس طرح دونوں نام میں مشترک ہیں اسی طرح دونوں حکم میں بھی مشترک ہوں گے۔
انحراف کی اصل بنیاد یہی قیاس ہے، نام میں یکسانیت نے بہت لوگوں کو دھوکہ دیا ہے۔
امام البانی نے کہا:
ھذہ الأحادیث کلہا فی القنوت فی المکتوبۃ فی النازلۃ ، والمؤلف استدل بھا علی أن القنوت فی الوتر بعد الرکوع وما ذلک إلا من طریق قیاس الوتر علی الفریضۃ کما صرح بذلک بعض الشافعیین…. بل ھوالمنقول عن الإمام أحمد،… وذلک علی قیاس فعل النبیﷺ فی الغداۃ[الإرواء:۲؍۱۶۳۔۱۶۴]
شیخ عدنان عرعور نے کہا:
کأنھم رأوا أن القنوت دعاء، والدعاء ترفع فیہ الأیدی وقد رفع رسول اللہﷺ یدیہ فی قنوت النازلۃ [القنوت:۱۴۷]
بعض اہل علم نے کہا:
والقنوت فی الوتر من جنس القنوت فی النوازل[الموسوعۃ الفقہیۃ- الدررالسنیۃ:۱؍۴۸۱]
ولید الفریان نے کہا:
القیاس علی رفع الأیدی فی قنوت النوازل[القنوت فی الوتر:۱۳۶]
مزیدکہا:
القیاس علی القنوت فی الفجر للنوازل[القنوت فی الوتر:۱۸۳،۸۹]
اورکہا:
القیاس علی القنوت فی النوازل[القنوت فی الوتر:۱۱۳]
اسکالر خلود نے کہا :
والقیاس علی فعل النبیﷺ فی الغداۃ، قیاس فیہ نظر لأنہ صح عنہ ﷺ أنہ قنت فی الوتر قبل الرکوع، فیکون القیاس فی مقابلۃ نص[الدعاء وأحکامہ الفقھیۃ:۱؍۳۵۱]
۱۔جب وتر کی نماز اوراس میں پڑھی جانے والی دعا مستقبل عبادت ہے اورمصیبت میں کی جانے والی دعا یعنی قنوت نازلہ ایک مستقل عبادت ہے۔ توایک کو دوسرے پر قیاس کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جب ہمارا دین مکمل ہوچکاہے ، توآج کیا ضرورت ہے کہ وتر کی نماز والی دعا کو نازلہ والی دعا پر قیاس کیاجائے؟ وتر کی دعا کو مصیبت کے وقت والی دعا پرقیاس کرنےکی کیاضرورت ہے؟
جب ہم نے یہ طے کرلیا کہ عبادات کے باب میں قیاس نہیں ہے اور کسی عبادت کو قیاس کے ذریعہ ثابت کرنا درست نہیں ہے، قیاس کے ذریعہ عبادت کا اثبات انحراف کا سبب بنے گا، تو پھر کیا مجبوری ہے کہ ہم قیاس کے ذریعہ قنوت نازلہ کے احکام کو لا کرفٹ کر رہے ہیں وتروالی دعا پر جب کہ دونوں میں فرق واضح ہے:
(۱)قنوت نازلہ کا سبب یہ ہےکہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی واقعہ ، کوئی حادثہ، کوئی مصیبت پیش آجائے تب وہ مشروع ہے۔
(۲)اس کی مشروعیت پانچوں نمازوں میں ہے ۔
(۳)ہرنماز میں آخری رکعت میں رکوع کے بعد ہے جب کہ وتر کی نماز روزانہ سال بھر ہے چاہے کوئی سبب ہو اور چاہے نہ ہو، سفر میں بھی اورحضرمیں بھی ہمیشہ وتر کی نماز مطلوب اورمسنون ہے۔
امام البانی نے کہا:
والحجۃفی ذلک الأحادیث الواردۃ فیہ مطلقۃ غیر مقیدۃ، ومثلہاحدیث الحسن بن علی رضی اللہ عنہ… وقد اعتضدت ھذہ المطلقات بأعمال الصحابۃ[صفۃ الصلاۃ:۳؍۹۶۹، ۹۷۰]
لہٰذ ادعائےقنوت سال بھروتر کی نماز میں پڑھی جائے گی یہ کسی متعین دن اورکسی متعین سبب کے ساتھ خاص نہیں ہے، تواس کاسبب بھی دوسرا ہے اورحکم بھی دوسرا ہے، دونوں کا سبب اورحکم الگ ہے، اب دونوں کو ایک کیسے کہاجاسکتاہے؟ ظاہر ہےکہ ایسا نہیں کہاجاسکتا۔
اس لیے جو قیاس کیا گیا ہے وہ قیاس اصولی اعتبار سے غلط ہے۔
۲۔ایک بات یہ بھی ہے کہ عبادت میں قیا س نہیں ہے،قیاس کے ذریعہ کسی عبادت کو ثابت کرنا یہ شریعت میں درست نہیں ہے، یہ قاعدہ بہت اہم ہے اوراس کے دلائل شریعت میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ یہ شریعت کا ایک اہم ضابطہ اورشریعت کاایک اصول ہے کہ عبادات میں قیاس نہیں ہے۔ (اس کے لیے بہت سی دلیلیں ہیں ان شاء اللہ کبھی موقع ملا توذکرکروں گا)
۳۔تیسری بات یہ ہے اگر قیاس کیاجائے توضروری ہےکہ اصل کی جو علت ہے وہ فرع کے اندر بھی موجود ہو، یعنی جس پر قیاس کیا گیا ہے اس کی جو علت ہے وہ اس فرع میں بھی ہو جس کو قیاس کیا گیا ہے اورجب تک اصل اورفرع میں مشترک علت نہ پائی جائے تب تک قیاس درست نہ ہوگا۔یہاں دونوں کے اندر علت مشترک نہیں ہے، کیوں؟! اس لیے کہ نازلہ مصیبت کے وقت پڑھی جائے گی، مخصوص طریقے سے پڑھی جائے گی اور وتر ہمیشہ پڑھی جائے گی اور پھر وتر کی نماز میں جو دعا پڑھی جائے گی بقیہ دوسری نمازوں میں اس کا پڑھنا درست نہیں ہے۔
ظاہرہے کہ دونوں کاحکم بھی الگ ہے ، دونوں کا سبب بھی الگ ہے اس لیے دونوں کے اندر جو علت ہے وہ علت ایک نہیں بلکہ دونوں کی الگ الگ علتیں ہیں ، قنوت وتر ، یعنی وتر کی جو دعا ہے اس کا سبب وتر ہے اورنازلہ کی جو دعا ہے اس کا سبب مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والی مصیبت ہے۔ اب مصیبت اوروتر دونوں میں کیا جوڑ ہے ؟ کوئی تعلق ہے دونوں کے اندر؟ ظاہرہے کہ نہیں ہے۔
اس لیے یہ قیاس بے اصل اور بے بنیاد ہے ۔
۴۔جس طرح قنوت کے لفظ میں دونوں مشترک ہیں اسی طرح نماز ہونے میں بھی پانچوں نمازیں مشترک ہیں مگر ہر ایک کو الگ الگ کیفیت سے پڑھا جاتاہے، کوئی جہری توکوئی سرّی، کوئی دو، کوئی تین اورکوئی چار، حالانکہ ان پانچوں نمازوں کو نماز ہی کہا جاتاہے، مگر اضافی نام الگ ہے نماز ظہر، نماز عصر وغیرہ۔
اسی طرح استسقا، کسوف ، خوف اوراستخارہ کی نمازیں ہیں، نماز میں سب شامل ہیں مگر اس کے احکام اورطریقے الگ الگ ہیں ، نماز میں اشتراک کی وجہ سے سب کو ایک نہیں قراردیا جاسکتا، بالکل اسی کے مثل دونوں دعائیں قنوت میں شامل ہیں مگردونوں کے احکام الگ ہیں۔
اس لیے یہ قیاس غلط ہے کیوں کہ یہ قیاس مع الفارق ہے، امام البانی نے کہا:
وفی صحۃ ھذا القیاس نظرعندی وذلک أنہ قد صح عنہ ﷺ أنہ کان یقنت فی الوتر قبل الرکوع [الإرواء:۲؍۱۶۴] یعنی جب حدیث نبیﷺ سے ثابت ہے تو پھر اس میں قیاس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، اس لیے وتر میں قنوت رکوع سے پہلے اورنازلہ میں قنوت رکوع کے بعد ہوگی۔
شیخ ولید الفریان نے کہا:
إنہ قیاس والقیاس فی العبادات غیرمعتبر[القنوت فی الوتر:۸۴،۸۹،۹۸،۱۱۱]
اورکہا:
إنہ قیاس مع الفارق لأن قنوت النوازل عارض وبأن القیاس فی العبادات غیرمعتبر[القنوت فی الوتر:۱۳۷]
شیخ عدنان عرعورنے کہا:
والعبادات دلیلہا النص لا القیاس[القنوت:۱۵۶]
رمضان کے دوسرے نصف میں صحابہ کا عمل:ایک شبہ کا ازالہ
قنوت وتر میں رفع یدین کاحکم یہی ہے کہ یہ عمل نبیﷺ اورکسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے، اسی لیے اہل علم کا مذہب ہے کہ قنوت وتر میں رفع یدین سنت کے خلاف ہے، اس کے برعکس کچھ اہل علم نےدعا میں رفع یدین کی عام حدیثوں سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح تمام دعاؤں میں رفع یدین مستحب ہے اسی طرح قنوت وتر میں بھی رفع یدین مستحب ہے کیو ں کہ یہ بھی ایک دعاہے ، دعا ہونے میں قنوت وتر دیگر دعاؤں کی مانند ہی ہے ا س لیے جس طرح دیگر دعاؤں میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے اسی طرح قنوتِ وتر میں بھی ہاتھ اٹھانا مستحب ہوگا۔
مگر یہ بات درست نہیں ہے کیوں کہ دعا میں رفع یدین کا استحباب بالاتفاق نماز کو شامل نہیں ہے بلکہ یہ حکم نماز کے باہر دیگر دعاؤں کے لیے ہے، اسی لیے دعائے سجدہ، دعائے قومہ، دعائے تشہد اورنماز کی دیگر دعاؤں میں رفع یدین مسنون نہیں ہے، بلکہ بالاتفاق نماز کی یہ دعائیں رفع یدین کے بغیر ہی کی جاتی ہیں، توجس طرح دعا میں ہاتھ اٹھانےکا استحباب نماز کی ان دعاؤں کو شامل نہیں ہے اسی طرح قنوت وتر کو بھی شامل نہ ہوگا، کیوں کہ یہ قنوت نماز وتر میں پڑھی جاتی ہے ، شیخ عدنان عرعور نے کہا:
وأما احتجاج بعضھم علی الرفع بالأحادیث العامۃ فی الرفع، فمردود لأن للصلاۃ أحکاما أخص بدلیل عدم رفع الأیدی عند الدعاء قبل السلام‘ فتدبر[القنوت:۱۴۵]
قنوت وترمیں رفع یدین کی مشروعیت کے قائلین نے جب دعا میں رفع یدین کی عام دلیلوں کو استدلال میں پیش کیا:
الأدلۃ العامۃ علی مشروعیۃ رفع الیدین عند الدعاء
تب اس پر نقد کرتے ہوئے شیخ ولید الفریان نے کہا:
ونوقش: بأنہ مخصوص بما لیس فی الصلاۃ للإجماع علی أنہ لا رفع فی دعاء التشہد[القنوت فی الوتر:۱۳۷]
اس لیے دعا میں رفع یدین کی عام دلیلیں اس موقع کے لیے کافی نہیں ہیں کیوں کہ ان کا تعلق نماز کے علاوہ دیگر دعاؤں سے ہے اورقنوت وتر کا تعلق نماز سے ہے لہٰذا وہ احادیث یہاں دلیل نہیں بن سکتیں۔
غلط فہمی:
قنوت وتر میں رفع یدین کی مشروعیت کا دعویٰ بعض دفعہ ایک غلط فہمی پر مبنی ہوا کرتاہے، کیو ں کہ جب آثار میں مطلق طور سے ملتاہے کہ فلاں نے قنوت میں ہاتھ اٹھایا تو بہت لوگ اسے قنوت وترسمجھ کر استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں فلاں نے قنوت میں رفع یدین کیا ہے اس لیے قنوت وتر میں رفع یدین مسنون ہے، حالانکہ اگر سچائی سے اس اثر کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ قنوت وترسے اس کاکوئی تعلق ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو قنوت نازلہ کی دعاہے ، اس لیے قنوت میں رفع یدین کی روایت سے استدلال کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ وہ قنوت کون سی ہے؟ قنوت وتر ہے ؟ یاقنوت نازلہ؟ کیوں کہ یہ تعیین کیے بغیر استدلال محل نظر ہے، اس لیے کہ قنوت وتر میں رفع یدین نہ تو نبیﷺ سے ثابت ہے اورنہ ہی کسی صحابی سے۔
شیخ عدنان عرعور نے کہا:’’میں نے آثار صحابہ کی جستجو کی تو قنوت وتر میں رفع یدین کے بارے میں کوئی صحیح اورصریح اثر مجھے نہ ملا، ان سے صرف یہ ثابت ہے کہ وہ قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھاتے تھے،کچھ لوگوں نے گمان کرلیا کہ یہ قنوت وتر کا معاملہ ہے، اورجو روایات صحابۂ کرام کے قنوت وتر میں رفع یدین کے بارے میں صریح ہیں ان میں سے کوئی روایت کلام سے خالی نہیں ہے ، یعنی سب متکلم فیہ ہیں۔ان آثار کو بیہقی(۲؍۲۱۱) نے روایت کرکے انھیں ضعیف کہا ہے۔‘‘[القنوت:۱۴۶]
قنوت نازلہ ایک مطلق دعاہے:
اس مناسبت سے یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ قنوت وترایک متعین دعاہے جس کا تعلق اذکار سے ہے جب کہ قنوت نازلہ ایک مطلق دعاہے جس میں دعا کی کوئی تعیین نہیں ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بعض جگہوں پر اس کی وضاحت کی ہے ، مثلاً: مجموع الفتاویٰ( ۲۳؍۱۰۹) میں لکھاہے:
فسنۃرسول اللہ وخلفائہ الراشدین تدل علی شیئین:
أحدھما: ان دعاء القنوت مشروع عند السبب الذی یقتضیہ ، لیس سنۃ دائمۃ فی الصلاۃ
الثانی: ان الدعاء فیہ لیس دعاء راتبا بل یدعو فی کل قنوت الذی یناسبہ(نبیﷺ اورخلفائے راشدین کی سنت دوباتوں پر دلالت کرتی ہے:
(۱)دعائے قنوت نماز کی دائمی سنت نہیں ہے بلکہ جب اس کا تقاضا اورسبب پایاجائے تب یہ مشروع ہوگی۔
(۲)قنوت نازلہ کی کوئی متعین دعا نہیں ہے بلکہ ہر نازلہ ؍ حادثہ کے وقت اس کے حسب حال دعا کرے گا)
واضح ہوا کہ قنوت نازلہ کا تعلق دعائے مطلق سے ہے اس کی کوئی متعین دعا اور ذکر نہیں ہے جب کہ قنوت وتر کا تعلق دعائے مقید سے ہے اورمعلوم ہے کہ دعائے مقید میں ثابت کی پابندی ضروری ہے اس میں کسی طرح کا اضافہ ، تبدیلی اورکمی درست نہیں ہے ، جب کہ دعائے مطلق کامعاملہ ایسا نہیں ہے۔
خلود المھیزع نے کہا :
اتفق الفقہاء علی أنہ لایتعین فی القنوت دعاء[الدعاء وأحکامہ الفقھیۃ:۱؍۳۱۸]
قنوت وتر میں اضافہ کا حکم:
اسی لیے امام البانی وغیرہ نے قنوت وتر میں جو دعا ثابت ہے اس پر اضافہ کرنے سے منع کیا ہے اورفرمایا ہے:
لایشرع فی القنوت فی الوتر إلا دعاء القنوت الذی علمہ الرسول للحسن…. أما الزیادۃ علی ھذا الدعاء من باب الإستزادۃ من الدعاء ، ھذا لایشرع، أما إذا کان ھناک عدوھاجم بلاد المسلمین فیجوز الدعاء بمایناسب المقام، أما الدعاء المطلق فلانزید علی تعلیم الرسول۔
مداخلۃ: یعنی : ھذا مثلاً بدعۃ أوکذا،
الشیخ: طبعاً کل ما کان زیادۃ علی تعلیم الرسول ولیس ھناک أمر عارض یجیز لنا الدعاء کما قلنا بالنسبۃ لدعاء النازلۃ، فھوزیادۃ ، والزیادۃ فی العبادۃ بدعۃ[جامع تراث العلامۃ الألبانی فی الفقہ:۷؍۱۹۵](قنوت وترمیں صرف وہی دعا مشروع ہے جو رسول اللہﷺ نے حسن رضی اللہ عنہ کو سکھایا تھا ، اب اس دعا میں طلب مزید کی نیت سے اضافہ کرنا مشروع نہیں ہے، لیکن اگر دشمن نے مسلمانوں کے ملک پر حملہ کردیا تو موقعہ کی مناسبت سے دعا کرنا جائز ہے ، رہی بات مطلق دعا کی تو تعلیم نبوی پر اضافہ نہیں کرسکتے۔
سائل: مثال کے طور پر یہ بدعت ہے کیا؟
شیخ: بالکل ، نبیﷺ کی تعلیم پر جو اضافہ ہے اوراسے جائز قراردینے کا کوئی عارضی سبب نہیں ہے جیسا کہ ہم نے قنوتِ نازلہ کے بارے میں کہا ہےتووہ اضافہ ہے اورعبادت میں اضافہ کرنا بدعت ہے)
امام البانی سے جب پوچھا گیا کہ وترکی دعائے قنوت میں اضافہ کرنے کاحکم کیا ہے؟ تو اس پر شیخ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
أما الزیادۃ فی الوتر فکزیادۃ أی ورد جاء منقولا عن النبیﷺ بالسند الصحیح فلایجوز الزیادۃ علی الأوراد الواردۃ عن النبیﷺ بل لایجوز تغییر لفظ مکان لفظ ولو بدا للمغیرأن المعنی لایتغیر[جامع تراث العلامۃ الألبانی فی الفقہ:۷؍۱۹۷]وہ اوراد واذکار جو نبیﷺ سے بسند صحیح ثابت ہیں ان میں اضافہ کاجو حکم ہے دعائے وتر میں اضافہ کا بھی وہی حکم ہے ، نبیﷺ سے منقول اذکار میں اضافہ کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ایک لفظ کی جگہ دوسرے لفظ کی تبدیلی بھی جائز نہیں ہے اگرچہ تبدیلی کرنے والے کو لگتاہے کہ اس سے معنی میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی۔
اورفرمایا:
إذا کانت أدعیۃ واردۃ یلتزم فیھا النص، إذا کان النص بصیغۃ الجمع لایفردوإن کان بصیغۃ الإفراد لایجمع [جامع تراث العلامۃ الألبانی فی الفقۃ:۷؍۱۹۹]
شیخ عدنان عرعور نے کہا :
والواجب علی من قرأہ أن یلتزم بنصہ[القنوت:۱۳۵]
اورکہا:
کما یمکن الإستدلال علی وجوب الإلتزام بنص الدعاء لمن أراد أن یدعوبہ بحدیث الإستخارۃ،کان یعلمنا الاستخارۃ کما یعلمنا السورۃ من القرآن… الحدیث
فالاستخارۃ لیست واجبۃ ، لکن علی من فعلہا أن یلتزم بنص الدعاء[القنوت:۱۳۶]
علامہ بکر ابوزید نے کہا :
علی الإمام القانت فی صلاۃ الوتر: التزام اللفظ الوارد عن النبیﷺ الذی علمہ سبطہ الحسن بن علی رضی اللہ عنہما فیدعوبہ…[تصحیح الدعاء:۴۶۱]
قنوت وترکاتعلق اذکار سے ہے:
یہ بات کسی بھی شک وشبہ سے بالا تر ہے کہ قنوت وتر کا تعلق اذکار سے ہے اوراذکار کا قاعدہ یہ ہے کہ اس میں کمی ، تبدیلی اوراضافہ وغیرہ درست نہیں ہے ، نووی نے کہا :
إن ألفاظ الأذکار یحافظ علیھا علی الثابت عن النبیﷺ[المجموع:۳؍۴۹۵]امام البانی رحمہ اللہ سے دریافت کیاگیا کہ قنوت نازلہ اورقنوت وتر کے درمیان کیا فرق ہے؟تب انھوں نے جواب دیا :
الوتر ورد ما فیہ غیرہ ، مثل:سمع اللہ لمن حمدہ،ربنا ولک الحمد،سبحان ربی العظیم،سبحان ربی الأعلیٰ ورد ، وقنوت النازلۃ حسب النازلۃ،…. یبتدعوا دعاء یتناسب مع الحادثۃ التی وقعت للمسلمین[جامع تراث العلامۃ الألبانی فی الفقہ:۷؍۱۸۵]قنوت وتر کا تعلق اور اد واذکار سے ہے اس لیے اس میں کوئی دوسری دعا نہیں ہے، جیسے:سمع اللہ لمن حمدہ،ربنا ولک الحمد،سبحان ربی العظیم،سبحان ربی الأ علیٰ وغیرہ اوراد واذکارہیں (ان میں کسی دوسری دعا کا اضافہ درست نہیں ہے) رہی بات قنوت نازلہ کی تو وہ حادثہ اورمصیبت کے اعتبار سے ہے ، اس میں حادثے کی مناسبت سے جو دعا چاہیں اختراع کرسکتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ قنوت وتر کا تعلق اذکار سے ہے جس میں حذف واضافہ اور نقص وتبدیلی کے ذریعہ تصرف کرنا درست نہیں ہے، اس لیے قنوت وتر میں جو وارد ہے اس کی پابندی کی جائے اس پر کسی طرح کااضافہ نہ کیاجائے، لہٰذا قنوت وتر رکوع سے پہلے بغیر رفع یدین کے پڑھی جائےگی اور’اللھم اھدنی فیمن ھدیت‘ والی دعا پر اکتفا کیاجائےگا۔
جب کہ قنوت نازلہ میں رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کی جائے گی اورحادثہ کی مناسبت سے کوئی بھی دعا اختیار کی جاسکتی ہے۔
خلود المھیزع نے کہا:
من خلال ما سبق یترجح…. أن القنوت فی النازلۃ لیس فیہ دعا ء موقت بل یدعی لکل نازلۃ ما یناسبھا [الدعاء وأحکامہ الفقھیۃ:۱؍۳۲۲]
قنوت وترمیں لغزش کا سبب:
البتہ اس سلسلے میں جو غلطی ہے اس کے تین اسباب ہیں:
(۱)قنوت کے لفظ میں مشارکت، یعنی دونوں کو قنوت کہاجاتاہے۔
(۲)قنوت وتر کو قنوت نازلہ پر قیاس، یعنی قنوت نازلہ کے احکام کو قنوت وتر میں نافذکرنا دونوں کو یکساں مان کر۔
(۳)پندرہ رمضان کے بعدصحابہ کا وتر میں قنوت نازلہ پڑھنا۔
صحابہ ٔ کرام کا یہ عمل وتر کی وجہ سے نہیں بلکہ نازلہ کی وجہ سے تھا لہذا مومنوں کے لیے دعا واستغفار اورکافروں کے لیے بددعا ولعنت کااہتمام کیاجاتاتھا۔
البتہ اس میں ایک دوسری چیز لوگوں نے نظر انداز کردی کہ وہ صرف پندرہ دن ، یعنی رمضان کے نصف آخر میں ایسا کرتے تھے، جب کہ قنوت وتر سال بھر مشروع ہے۔ اس لیے صحابہ کرام کے اس عمل سے قنوت وتر کے لیے استدلال بہر حال محل نظر ہے۔ اوراگر بطور تنزل مان بھی لیاجائے تو اس سے صرف جواز ثابت ہوگا ، استحباب وسنت نہیں۔
علامہ البانی نے کہا: قنوت وتر کو نہ تو کسی حادثہ، نازلہ سے خاص کرے اورنہ رمضان کے نصف ثانی سے، کیوں کہ وتر کے بارے میں جو احادیث وارد ہیں وہ مطلق ہیں، ان میں کسی وقت اور مناسبت کی کوئی قید نہیں ہے، ان مطلق نصوص کو اعمال صحابہ سے بھی قوت حاصل ہوتی ہے کیوں کہ عمروعلی اورابن مسعود رضی اللہ عنھم پورے سال وتر میں قنوت پڑھتے تھے۔ [صفۃ صلاۃ النبی:۳؍۹۶۹-أصل- جامع تراث العلامۃ الالبانی فی الفقہ:۷؍۱۸۳]
خلود المھیزع نے کہا:ٖ
یتضح أن الدلیل مع من قال بمشروعیۃ القنوت فی جمیع السنۃ[الدعاء وأحکامہ الفقھیۃ:۱؍۳۴۶]
عبدالرحمن بن عبد قاری رحمۃ اللہ علیہ (یہ کبار تابعین میں سے ہیں جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عبداللہ بن ارقم کے ساتھ بیت المال کے ذمہ دارتھے) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پندرہ رمضان کے بعد قنوت پڑھتےتھے،مسلمانوں کے لیے دعا کرتے تھے، کافروں کے لیے بددعا کرتے تھے، نبیﷺ پردرود بھیجتے تھے اورآخر میں دعا کرتے تھے:
اللھم إیاک نعبد ولک نصلی ونسجد وإلیک نسعی ونحفد ونرجو رحمتک ونخاف عذابک الجد إن عذابک بالکفار ملحق۔اس معنی کی روایتیں ثابت ہیں۔[ابن خزیمہ:۲؍۱۵۵۔۱۵۶(۱۱۰۰)دیکھیں: قیام رمضان:۳۲]
اب آپ بتائیں یہ جو اثر ہے ، اس اثر میں اس بات کی وضاحت ہے کہ پندرہ رمضان تک یہ دعا نہیں پڑھی جاتی تھی، پندرہ رمضان کے بعد صحابہ کرام وتر کی نماز میں یہ دعا پڑھتے تھے، یہ دعا وتر کی دعا ہے؟ یا نازلہ یعنی مصیبت کی دعا ہے؟ کافروں پر بددعا کی جارہی ہے مسلمانوں کے لیے دعا کی جارہی ہے، یا اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تجھ ہی سے لو لگاتے ہیں تیری ہی طرف دوڑکر ہم آتے ہیں اور تیرا عذاب کافروں کو لاحق ہونے والا ہے، اورتیرے علاوہ ہمارا کوئی معبود نہیں، یہ دعا صحابہ کرام وتر کی نماز میں پندرہ رمضان کے بعد سولہویں رمضان سے پڑھتے تھے۔
عبداللہ بن عمر رمضان کے نصف آخر میں قنوت پڑھتے تھے۔[ابن ابی شیبۃ:۶۹۳۳،بسند صحیح] ابی بن کعب ، سعید بن ابی الحسن وغیرہ صحابہ وتابعین سے ثابت ہے کہ وہ رمضان کے دوسرے نصف میں قنوت پڑھتے تھے۔ [ القنوت:۱۵۲۔۱۵۴]
شیخ عدنان عرعور نے کہا:
فھذا شبہ إجماع، بل إجماع سکوتی من الصحابۃ فی عدم القنوت فی النصف الأول من رمضان والقنوت فی الثانی منہ فھذا عمروابنہ وأبي لایقنتون إلا فی النصف الثانی ، ویصلی خلفہ من یصلی من الصحابۃ رضی اللہ عنھم ویقرونہ علی ذلک فما أدری أین أتی الناس بالقنوت فی النصف الأول من رمضان ، والعبادات سبیلہا التوقیف والإتباع، لا الإستحسان والتقلید[القنوت:۱۵۴۔۱۵۵]
اورکہا:
وثبت ذلک أی القنوت فی النصف الثانی من رمضان عن جمھرۃ من أئمۃ التابعین[القنوت:۱۵۳]
یہ قنوت نازلہ ہے نہ کہ قنوت وتر
یہ دعا اگر چہ اپنی جگہ کے اعتبار سے وتر کی نماز میں پڑھی جارہی ہے مگر اپنے معنی کے اعتبار سے یہ دعا قنوت نازلہ ہے ، مصیبت کی دعا ہے کافروں پر بددعا کی جارہی ہے اورمسلمانوں کے لیے دعا کی جارہی ہے۔ یہاں سے کچھ لوگوں کو اشتباہ پیدا ہوا کہ صحابہ کرام نے وتر کی نماز میں دعائے قنوت رکوع کے بعدپڑھی اوراس میں یہ دعا کی ہے ، لیکن جب آپ یہ دعا دیکھیں گے ، دعا کے ان الفاظ پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ دعا وتر والی دعا نہیں ہے، جو نبیﷺ نے اپنے نواسے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو سکھائی تھی بلکہ اس پر زائد ایک دوسری دعا ہے جو قنوت نازلہ کے باب سے ہے صحابہ وتابعین ضرورت کے اعتبار سے اس وقت کافروں کے لیے بد دعا اورمسلمانوں کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔
شیخ عدنان عرعور نے کہا:
ثم بعد متابعۃ الروایات تبین لي أن جھرھم بالقنوت فی النصف الثانی من رمضان لم یکن لأنہ وترجازفیہ القنوت فحسب، بل کان فیہ شبہ بقنوت النازلۃ لأنھم کانوا یلعنون فیہ الکفار ویدعون للمؤمنین [القنوت:۱۵۶]
قنوت کے سلسلے میں مذکورہ اثر ذکرکرنے کے بعد کہا:
فھذا یدل علی أنھم کانوا یجمعون بین قنوت الوتر وبین قنوت الحاجۃ، ولذا جھروا فی النصف الثانی من رمضان وترکواالنصف الأول لأن النبیﷺ لم یکن یداوم علی قنوت الوتر[القنوت :۱۵۷]
اب اگر کوئی رمضان میں صحابہ کے تعامل سے استدلال کرکے قنوت نازلہ کے احکام قنوت وتر کے لیے ثابت کرے تو اسے چاہیے کہ تعامل صحابہ کی پوری پابندی کرے ، یعنی:
۱۔قنوت زورسے پڑھے۔
۲۔رکوع کے بعد پڑھے۔
۳۔رفع یدین کرکے پڑھے۔
۴۔مقتدی آمین کہیں۔
۵۔صرف رمضان کے آخری نصف میں کیاجائے۔
شیخ عدنان عرعور نے کہا:
یشرع للإمام أن یقنت فی رمضان فی النصف الثانی منہ لثبوت ذلک عن بعض الصحابۃ، ویرفع المأمومون أیدیھم ویؤمنون[القنوت:۱۵۱]
اگرکوئی پورے رمضان کرے تو غلط ہے اورکوئی پورے سال کرے تو وہ ا ور بھی غلط ہے۔
شیخ عدنان عرعور نے کہا:
وأما تخصیص القنوت بالنصف الثانی من رمضان وبالجھر، وبتأمین المأمومین، فلما ثبت عن جمھور الصحابۃ وجری علیہ عمل کثیر من أئمۃ السلف رضوان اللہ علیھم جمیعاً[القنوت:۱۵۲]
اورکہاکہ قنوت وتراگر رمضان میں ہو تو بقیہ دنوں کے قنوت وترسے جداگانہ ہے:
(۱)رمضان میں امام جہری قنوت کرے گا جماعت کے ساتھ اورقنوت وتر صرف منفرد کے لیے ہے۔
(۲)قنوت رمضان صرف نصف آخرمیں ہے ، رہی بات قنوت وتر کی تو وہ پورے سال مشروع ہے کبھی قنوت پڑھی جائے اورکبھی ترک کردی جائے۔
(۳)قنوت رمضان میں مقتدی سنتے ہیں اورآمین کہتے ہیں خود قنوت نہیں پڑھتے، جب کہ قنوت وتر میں سب پڑھتے ہیں۔[القنوت:۱۵۱]
جب امام البانی نے بعض آثارذکر کرکے قنوت وتر کے آخر میں نبیﷺ پردرود بھیجنے کو مشروع کیا۔ [الإرواء:۲؍۱۷۶] تواس پر ان کے شاگرد عدنان عرعور نے کہا:
لکن ھذہ الآثار تدل علی أن الصلاۃ علی النبی منھم إنما کان فی القنوت الجماعی لا الفردی لأنہ أشبہ بقنوت النازلۃ، اذ کانوا یدعون للمؤمنین ویدعون علی الکافرین وقد ذکرت فی باب رمضان فلتراجع [القنوت:۱۴۹]
اورکہا:
ورفعھا فی قنوت رمضان لثبوتھا لأنہ دعاء جماعی فأشبہ دعاء النازلۃ[القنوت:۱۴۸]
اورکہا:
وأما قنوت رمضان فی جماعۃ فیصلی فیہ علی النبیﷺ وترفع الأیدي لما ثبت عن بعض السلف… ولرفع رسول اللہﷺیدیہ فی قنوت النازلۃ فأشبہ قنوت رمضان جھراً بالناس قنوت النازلۃ، ولذلک صلی الصحابۃ علی الرسول ﷺ بعد الدعاءورفعوا أیدیھم واللہ أعلم[القنوت:۱۴۵]
امام البانی نے کہا:
ومع ھذا الذی بینتہ بأن القنوت فی الوتر قبل الرکوع فیجوز جعلہ أیضاً بعدالرکوع لأنہ ثبت ذلک عن بعض السلف[فتاویٰ جدۃ-موقع أھل الحدیث:۱۴، جامع تراث العلامۃ الالبانی فی الفقہ:۷؍۱۹۸]
اس سے قبل یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ قنوت وتر رکوع کے بعد نبیﷺ اورصحابۂ کرام سے ثابت نہیں ہے، البتہ رمضان کےدوسرے نصف میں عہد عمر کے ائمہ سے رفع یدین کے ساتھ رکوع کے بعد قنوت پڑھنا ثابت ہے اس لیے ا س خاص وقت میں ثابت ہونے سے عام حالات میں اس کا ثابت ہونا لازم نہیں آتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ قنوت وتر کے بارے میں عمل نبیﷺ اس کے خلاف ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر اس سے استدلال کیاجائے تو صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ رمضان کے دوسرے نصف میں اجتماعی طورسے اگرقنوت پڑھی جائے ،مسلمانوں کے لیے دعا اورکافروں کے لیے بد دعا کی جائے، توچونکہ یہ قنوت نازلہ ہے اس لیے درست ہوگا مگر وترمیں قنوت نازلہ پڑھناسنت نہیں ہے اس لیے صرف جائز ہوگا صحابہ کرام کے عمل کی وجہ سے ۔واللہ أعلم
اسی لیے امام البانی نے ایک جگہ فرمایا ہے:
فقلنا بجواز ذلک فقط[جامع تراث العلامۃ الالبانی فی الفقہ:۷؍۱۹۴] یعنی ہم صرف جائز قرار دیتے ہیں اسے مسنون نہیں کہہ سکتے۔ اورفرمایا:
فالمسلم القانت مخیر بین أن یقنت قبل الرکوع وھذا أحب إلینا لأنہ ثابت عن نبینا ولہ أن یقنت بعد الرکوع وھوجائز لدینا لأنہ ثابت عن بعض سلفنا[جامع تراث العلامۃ الألبانی فی الفقہ:۷؍۱۹۸]
یہ تین باتیں اگر آپ اپنے ذہن میں رکھیں : ایک تو قنوت نازلہ کے احکام جو میں نے بیان کیا ، دوسرے قنوت وتر کے احکام جو میں نے بیان کیا اورتیسرا وتر اورقنوت نازلہ دونوں کو ایک ساتھ جو ملادیاگیا ہے ، تب آپ کو یہ گتھی سلجھانے میں آسانی ہوگی کہ کہاں سے یہ بات پیداہوئی کہ قنوت وتر رکوع کے بعد اوررفع یدین کے ساتھ پڑھی جائے اورپیچھے مقتدی دعائے قنوت پڑھنے کے بجائے زور زور سے آمین آمین کہیں، یہ اصل وجہ ہے۔ اس لیے آپ جب وتر کی نماز پڑھ رہے ہیں اوروتر میں محمدالرسول ﷺ کا طریقہ تلاش کر رہے ہیں تب آپ کے لیے جائز نہیں ہے کہ آپ وتر کی نماز کو قنوت نازلہ میں داخل کرنے کی کوشش کریں یا قنوت نازلہ کے احکام کو آپ وترکی نماز پر منطبق کرنے کی کوشش کریں۔ یہ بات درست نہیں ہے۔
اس لیے قاعدے کی بات یہ بنے گی کہ قنوت وتر میں جو دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے وہ دعائے قنوت جیسے امام پڑھے گا ویسے ہی مقتدی کوبھی پڑھنا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ اللہ کے رسول ﷺنے اپنے نواسے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو سکھایا کہ تم وتر کی نماز میں رکوع سے پہلے قرأت سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھا کرواوراس میں آپ نے استثنا نہیں کیا کہ جب تم رمضان میں ہو،یاجب تم امام کے پیچھے ہو تب نہ پڑھنا، ایسا کوئی ا ستثنا اللہ کے رسول ﷺ نے نہیں کیا۔
معلوم یہ ہوا کہ یہ دعا جیسے امام پڑھے گا ویسے ہی مقتدی بھی پڑھے گااورجب مقتدی دعا پڑھے گا تب یہ سوال پیدا نہیں ہوگا کہ آمین زور سے کہی جائے یا آہستہ کہی جائے، کیوں؟ اس لیے کہ آمین ختم ہوگئی یہی دعا اللہ اوراس کے رسول ﷺنے تمام مسلمانوں کو پڑھنے کاحکم دیاہے، اس لیے ہم کو یہ دعا یادکرکے پڑھنی چاہیے آمین کے چکرمیں ہم کوزیادہ نہیں پڑنا چاہیے، کیو ں کہ وتر کی نماز میں آمین کہنا نبی ﷺ اورصحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے، زیادہ سے ز یادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وتر کی نماز میں چونکہ صحابہ کرام رمضان کے آخری پندرہ دنوں میں ایسا کرتے تھے اس لیے آخر کے پندرہ دنوں میں ایسا کرنا صحابہ کرام کا طریقہ تھا، اسے آپ جائز قراردے سکتے ہیں، آپ اسے بدعت نہیں کہہ سکتے،وہ بھی صرف آدھے رمضان کے لیے! صرف اتنی سی بات ہوسکتی ہے امام البانی نے کہا:
فھی زیادۃ مشروعۃ لعمل السلف بھا فلاینبغی إطلاق القول بأن ھذہ الزیادۃ بدعۃ[صفۃ صلاۃ النبی:۳؍۹۷۸۔أصل]مگر سنت ہوجائے، مستحب ہوجائے، مسنون ہوجائے، ایسا نہیں ہوسکتا اورہم سے مطلوب یہ ہے کہ ہم سنت کا طریقہ اپنائیں، ہم سے مطالبہ یہ ہے کہ محمدرسول اللہﷺ کی سیرت کی جستجو اوراس کی تعمیل کرنے کی کوشش کریں۔
اس لیے میری اس بات کاخلاصہ یہ ہے کہ وتر کی نماز ایک مستقل نماز ہے، اس میں جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ دین کا ایک مستقل حکم ہے۔
مصیبت کے وقت جو دعا کی جاتی ہے وہ ایک مستقل شریعت ہے ، دونوں دومستقل عبادتیں ہیں، ایک عبادت کے ذریعہ دوسری عبادت کا اثبات، ایک عبادت کے احکام کو دوسرے عبادت پرقیاس کرکے ثابت کرنا درست نہیں ہے۔ ایسا بہت سے مسائل میں ہواہے، مثال کے طورپر قربانی اورعقیقہ ،قربانی کے احکام کو عقیقہ والے جانورپر فٹ کردیاگیا، کیوں بھائی؟ قربانی تو ایک مستقل عبادت ہے، عقیقہ ایک دوسری عبادت ہے۔ دونوں عبادتوں میں کیا مماثلت ہے؟ صرف یہی نا کہ اس میں بھی جانور ذبح کیاجاتاہے ،اُس میں بھی جانور ذبح کیاجاتاہے؟ مگر حکم اور سبب کے اعتبار سے دونوں میں کوئی چیز مشترک نہیں ہے کیوں کہ(۱) قربانی آٹھ جانوروں میں ہوگی۔(۲)اوروہ بھی گھر کے تمام افراد کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کافی ہوگی، جب کہ عقیقہ پیدائش سے جڑا ہواہے، ساتویں دن ہوگا اورہرجان کی طرف سے ایک یا دوجان ذبح کرنا ہوگا ، اگر ایک ہی پیٹ سے دولڑکے پیدا ہوں تو چار جانور کا عقیقہ کرنا فرض ہوگا اوراگر ایک گھر میں سولوگ رہتے ہوں قربانی کے لیے ایک بکری ذبح کردی جائے توکافی ہوگی۔ لیکن عقیقے میں ایسا نہیں ہے، وہاں تو جان کے بدلہ میں جان دی جارہی ہے۔ (۳)قربانی مال پر فرض ہوتی ہے، عقیقہ جان پر فرض ہوتاہے ، تو دونوں دو الگ الگ عبادتیں ہیں لیکن جانور ذبح کرنے کو لے کر ایک کو دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی اورگڑبڑی پیداہوئی، یہی غلطی یہاں قنوت وتر اورقنوت نازلہ کے ساتھ بھی ہمارے یہاں پیدا ہوگئی ہے ، اسی لیے ہماری مساجد میں جو رواج چل رہاہے وہ چوں کہ غلط فہمی کی بنیاد پر ہے۔اس لیے تاریخ کے ہرزمانہ میں جو علمائے محققین رہے ہیں ، جو علمائے سلف رہے ہیں، سنت کے علمبردار علما رہے ہیں، ان تمام لوگوں نے ان باتوں کی نشاندہی کی ہےاوریہ ساری باتیں ان کے فتاویٰ میں ان کی تحریروں میں آج بھی موجود ہیں۔
اگر آپ نقل در نقل کریں گے اورکہیں گے: ارے! یہ تو پہلے سے ہوتا آیا ہے، پہلے سے لوگ کرتے رہے ہیں، تب آپ کو حق کی رہنمائی نہیں حاصل ہوگی، آپ پر فرض ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے نام سے اورمحمدرسول اللہﷺ کی سنت کے نام سے اگر کوئی بات آپ کو پہنچتی ہے تو آپ اس کا پتا لگائیں، تحقیق کریں، اس کی چھان پھٹک کریں کہ صحیح کیا ہے؟ جستجوکرکے ماہرین سے دریافت کرکے معلوم کریں، دین کے بارے میں یہ زحمت آپ کیوں نہیں گواراکرتے، دین کے بارے میں یہ شوق اپنے اندر کیوں نہیں پیداکرتے؟
میں عرض یہ کرنا چاہ رہاہوں کہ قنوت وتر کے جو احکام ہیں وہ یہی ہیں جو میں نے آپ سے عرض کیا ہے، نبیﷺ وترکی نماز میں دعائے قنوت ہمیشہ رکوع سے پہلے پڑھتے تھے، کسی بھی روایت میں رکوع کے بعد وتر میں دعا کرنا نبیﷺ سے ثابت نہیں ہے، اوراگر کسی نے کہا تو قنوت نازلہ پر قیاس کرکے ، کسی بھی روایت میں وتر کے بارے میں یہ ثابت نہیں کہ امام دعا کرے اورمقتدی آمین کہیں، اگرکسی نے کہاتوقنوت نازلہ پر قیاس کیا اور میں نے کہا: یہ قیاس نہ تو درست ہے اور نہ ہی قیاس کے ا ندر اتنا دم ہے کہ وہ شرعی نصوص کا مقابلہ کرسکے۔
اللہ رب العالمین سے میری دعا ہے کہ اللہ رب العالمین ہمیں ان باتوں کو سمجھنے اوران کو اپنی زندگی میں برتنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
ماشااللہ ، بہت اچھا اللہ آپ کو جزائے خیر دے،
ماشاءاللہ بہت اچھا لگا کہ آپ نے اس مضمون کو تفصیلی طور پر قلم بند کیا چونکہ بہت سارے لوگ اس مسئلے کو لیکر آج بھی اختلافات کے شکار ہیں اللہ آپ کو جزائے خیر دے آمین
بہُت شُکریہ شیخ
ماشاء الله بارك الله فيكم
أحسن
*السَّـــــــلَامُ عَلَــــــــيْكُمْ وَرَحْــــــــمَةُ اللهِ وَبـَـــــــــرَكَاتُهُ*
شیخ محترم سنن دارقطنی میں کئی احادیث ہیں جن میں نماز فجر میں قنوت نازلہ کو تاحیات پڑھنے کا ذکر ہے ۔۔
مشاالله bahot khob tafseel se bataaiya gaya hai jazakallah khair
مشاالله bahot khob tafseel se bataaiya gaya hai jazakallah khair
ماشاءاللہ ❤️ اسکو رسالہ کی شکل میں شائعہ کرنا چاہیے