قصۂ درد

قصۂ درد

ایم اے فاروقی

یہ داستان ہے، ان معصوم صفت ، مظلوم جہاں ، بدنام زمانہ سفیروں ، محصلوں اور مچنّدوں کی جو ماہ صیام کے اس تپتے ہوئے دن اور جلتی ہوئی راتوں میں غول بیابانی کی طرح ہندوستان کے طول و عرض میں بکھری ہوئی مسلم آبادیوں میں گھر گھر دستک دیتے ہیں اور چندہ کی رقوم کے ذریعے اپنی دنیا وآخرت دونوں سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں –
قوم کے ان مسکینوں کو ہم چندہ خور کہتے ہیں یعنی چندے کی رقمیں ڈکارنے والے، یہ توہین کسی طرح مناسب نہیں ہے،یہ بھی انسان ہیں، ان کی بھی ضروریات ہیں، بیگم اور بچوں کی فرمائشیں ہیں، عید کے کپڑے بنوانا ہے، اگر چندے کی کچھ رقم بطور حق المحنت وہ ہضم کر لیتے ہیں تو اس میں حرج ہی کیاہے؟
صاحب آپ تصور نہیں کرسکتے ہیں کہ چندے کی راہ میں انھیں کن مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کتنی پرخار راہوں سے گذرنا پڑتا ہے، کسی کی جیب سے رقم نکلوانا کوئی آسان کام نہیں ہے ، اگرچہ وہ صدقہ زکوة ہی کی رقم کیوں نہ ہو، دو تین ہزار تنخواہ پانے والے مدرسین کی تنخواہوں کا سہارہ رمضان کایہی چندہ ہوتا ہے، ان معصوم صفت مولویوں کو حالات سے زیادہ مدارس کے نظما چالاک اور شاطر بنادیتے ہیں، کہیں یہ کتوں کی طرح دھتکارے جاتے ہیں، کہیں مارپیٹ کی نوبت آجاتی ہے، بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ چندہ دینے والے انھیں مکار اور فریبی سمجھتے ہیں، واپس جاتے ہیں تو ناظم مدرسہ معمولی سی رقم بطور اجرت تھما دیتا ہے ،آخر محصل اور مچند بھی انسان ہی ہوتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ اس کی محنت سے لائی ہوئ رقم کو ناظم مدرسہ کتنی بے دردی سے اپنی تعیشات پر خرچ کرتا ہے، لکزری کاروں سے چلتا ہے ، ایر کنڈیشنڈ اور جدید فرنیچر سے آراستہ آفس میں متکبرانہ انداز میں ایزی چیر میں دھنسا ہوا آمریت کا ڈنڈا گھماتا رہتا ہے، ہوائی جہاز سے سفر کرتا ہے، لیکن بےچارے اس غریب کی تنخواہ میں اضافہ کے لئے اس کے پاس بجٹ نہیں ہوتا ہے، آخر مدرسہ کی آمدنی پر اس کا بھی تو حق بنتا ہے،، تنگ آمد بجنگ آمد، ضمیر کو کچل کر مولوی صاحب بھی دو ٹوک کہہ دیتے ہیں کہ ساری محنت ہم کریں اور ملائی آپ اکیلے کھائیں ، یہ نہیں ہوسکتا اس لئے پچاس فیصد کمیشن، سفر کے اخراجات الگ سے،منظور ہو تو رسید لائیے ،ایک مولوی صاحب کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا کہ پندرہ ھزار وصول کر کے لے گئے، اخراجات کی رقم چودہ ہزار نو سو پچاس کاٹ کر ناظم مدرسہ کو بچاس روپیہ تھما دیا، ناظم صاحب غصہ سے بے قابو ہوگئے اور پچاس کی نوٹ پھینک کر کہنے لگے:” لو یہ بھی لے جاؤ” مولوی صاحب نے یہ کہہ کر وہ نوٹ بھی رکھ لیا:” شکریہ جناب یہ میرا حق المحنت ہے”-
چندہ کی مشکلات کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس نے اس کا عملی تجربہ کیا ہو، سرسید اور مدن مالویہ اس میدان کے بڑے کھلاڑی تھے، پہلے انھیں جوتے ملے پھر عزت ملی، ویسے یہ چندہ خوری بڑی ظالم شے ہے، ایک بار منھ کو لگ جائے تو پیچھا چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے، میرے ایک شناسا مولوی صاحب ہیں ، اللہ نے انھیں ہر نعمت سے نوازا ہے، مگر کیا کریں فطرت سے مجبور ہیں رمضان آتے ہی ایسے تڑپتے ہیں جیسے ہجر کا مارا عاشق وصال یار کے لئے تڑپتا ہو، ان کی نالائق اولاد انھیں گھر سے نکلنے ہی نہیں دیتی ، عید کا چاند نکلتے ہی اُدھر شیاطین کی بیڑیاں کھلتی ہیں ، اِدھر مولوی صاحب قید نا اخلاف سے رہائی پاتے ہیں –
چندہ کرنے کا فن ہر ایرے غیرے کو نہیں آتا ہے، یہ صلاحیت بھی فطری اور وھبی ہے،میں نے بھی تجربہ کیا لیکن ناکامی ہاتھ لگی، ہوا یہ کہ میرے خاندانی مدرسے کے قدیمی اور بزرگ سفیر اچانک اس دار فانی سے کوچ کر گئے، وہ جب تک حیات تھے مدرسے کی آمدنی کا کوئی مسئلہ نہ تھا، ان کی وفات کے بعد مدرسہ کا وجود ہی خطرے میں پڑگیا،آخرکار انتظامیہ نے باہمی مشورہ سے مدرسہ کے لئے فنڈ کی فراہمی کا ذمہ دار مجھے بنادیا، میں نے فورا انکار دیا کہ یہ کام مجھ سی نہیں ہوگا،لیکن بزرگوں کا دباؤ اس قدر پڑا کہ بادل نا خواستہ یہ ذمہ داری قبول کرنا پڑی ، مجھ سے کہا گیا کہ اگر یہ مدرسہ تمھارے حصہ میں پڑا تو باپ دادا کی اس میراث کو کیابرباد ہوتے دیکھ سکوگے؟ ہائے مولوی فراست علی مصیبت کی گٹھری میرے سر پر رکھ کر دنیا سے سدھارگئے،وہ ایک لائق و فائق شخص تھے، سر سے پیر تک اس کام کے لئے موزوں تھے،ان کے چہرے پر ہمیشہ یتیمی برستی انھیں دیکھ کر محسوس ہوتا کہ بےچارے پیدائشی زن گزیدہ ہیں ،بات کرنے سے پہلے ان کی آنکھوں کے آٹومیٹک نلکے اسٹارٹ ہوجاتے،چندہ دینے والا ان کی دُکھی صورت اور اشکبار آنکھیں دیکھتے ہی رقم نکال کے دے دیتا، وہ یہ بھی نہ پوچھتا کہ آپ کسی مدَرسہ سے آئے ہیں یا اپنے لئے تعاون چاھتے ہیں، لیکن میرے لئے یہ کام سخت مشکل ثابت ہوا، بہر حال مصیبت آن پڑی تو اس سے بھاگنا کیا، رسید، روئداد اور چند جوڑے کپڑے ایک بیگ میں رکھے اور مہم پر نکل پڑا، سب سے پہلے ایک چھوٹے سے شہر کا انتخاب کیا، اللہ نے یہ کرم کیا کہ وہاں میری ملاقات ایک بزرگ سے ہوگئی، جو میرے والد محترم کے شاگر د تھے، محصلی کے فن میں طاق تھےاور اکیلے دم پر ایک بڑا مدرسہ چلاتے تھے، انھوں نے مجھے حوصلہ دیا:” بھتیجے گھبرانا نہیں، میرے ساتھ رہو، چندہ بھی ہوجائے گا اور چندہ کرنے کی تربیت بھی ہوجائے گی، میں نے اندھوں کی طرح ان کا ہاتھ تھام لیا،
میری فہرست میں پہلا نام ایک دانت کے ڈاکٹر کا تھا، چاچا نے کہا:” چلو یہیں سے ابتدا کرتے ہیں، ” ڈاکٹر صاحب کی کلنک کا وقت تھا، مریضوں کی بھیڑ تھی،کمپاونڈ ر نے ہاتھ میں بیگ دیکھتے ہی کہا:” چندہ لینے آئے ہو تو پچھلے دروازہ پر جا کر لائن لگاؤ،” ہم لوگ پچھلے دروازہ پر آئے دیکھا اپنی برادری کے کئی لوگ کیو میں کھڑے ہیں، ہم بھی کھڑے ہوگئے، اسی درمیان میں نے دیکھا وہی کمپونڈر دو مولویوں کی گردن پکڑ کر باہر نکلا اور انھیں ایک ساتھ ایسا دھکا دیا کہ دونوں زمیں بوس ہوگئے، یہ منظر دیکھ کر میں بھاگنے کے لئے پر تولنے لگا، چاچا نے میراہاتھ پکڑ کر کہا:” پریشان مت ہو، یہ جعلی اور فراڈی چندہ خور تھے،بہر حال باری آنے پر ہم لوگ اندر گئے، میں بے حد ڈرا سہما ہوا تھا، ڈاکٹر صاحب بڑے تپاک سے ملے، پچیس روپئے چندہ دئے۔
افطار مسجد میں کیا، مغرب بعد چاچا نے کہا:” چلو ایک سیٹھ صاحب کے یہاں دعوت ہے، تمھیں بھی چندہ دلاؤں گا،میں تو چاچا ہی کے سہارے تھا، ان کے ہمراہ ہولیا، کھانے میں نہ جانے مردہ یا بیمار بیل کا گوشت تھا، بوٹی ایسی چیمڑ کہ تنتی ہوئی چلی جائے، میں نےتو سالن سے کسی طرح کھا لیا، چاچا جان ہر بوٹی پر ایک قصیدہ کہتے، میں صرف ان کے چہرے کو تکتا رہا، کھانے کے بعد سیٹھ صاحب نے چاچا کو سو روپئے اور مجھے دو روپئے چندہ دیا، باہر نکلے تو چاچا نے کہا:” دیکھا میری قصیدہ خوانی کا کمال؟” میں نے کہا: چاچا! سڑی بوٹی کی ثناخوانی کی مجھ میں ہمت نہیں ہے، آپ مجھ پر ایک کرم کریں، مجھے اسٹیشن کا راستہ بتادیں، ” چچا نے اسٹیشن کے لئے رکشہ کردیا، گھر پہنچا تو جان میں جان آئی۔
وہ مدارس جو اسلام کے قلعے ہیں اور جن کے سفرا رات دن ایک کرکے ایمان داری کے ساتھ فنڈ جمع کرتے ہیں، اللہ ان کے ایثار و قربانی کو قبول فرمائے، میں ان کی بات نہیں کر رہا ہوں، حاشا وکلا، سو بار توبہ ،میرا روئے سخن تو در اصل ان جعلی اور موسمی سفرا کی طرف ہے، جو غول در غول رمضان میں نکلتے ہیں اور مستحق مدارس، مساکین، غربا، یتامی اور فقرا کا حق اپنی چرب زبانی، لفاظی سے غصب کر لے جاتے ہیں،ان پیشہ ور چندہ خوروں کی دو بڑی قسمیں ہوتی ہیں،ایک بین الاقوامی چندہ خور، یہ بڑے ہائی فائی اور وی آئی پی ٹائپ کے ہوتے ہیں ، اچھے مقرر اور کئی زبانوں کے ماہر ہوتے ہیں، یہ صرف ہوائی سفر کرتے ہیں، ان کا سارا پروگرام اور منصوبے ہوائی ہوتے ہیں، اکیلے کام کرنا پسند کرتے ہیں، ان کا کاغذی کام بالکل مکمل ہوتا ہے، مدرسے کی فرضی تاریخ، تعمیرات، مستقبل کے منصوبے خالص ولایتی آرٹ پیپر پر دیدہ زیب نقاشی کے ساتھ کم از کم دو ڈھائی سوصفحات پر شائع کرتے ہیں، سرمایہ داروں سے ان کے خصوصی تعلقات ہوتے ہیں ، رمضان کا موسم سعودیہ، کویت او دبئی میں گذارتے ہیں، اس طرح وہ دنیا کا سارا سامان کر جاتے ہیں، آخرت کس نے دیکھا ہے؟
دوسرے قومی چندہ خور ہوتے ہیں، ان کے عزائم ذرامحدود قسم کے ہوتے ہیں، ان کے پاس ایک یا دو کمروں کا مکتب ہوتا ہے، لیکن وہ جامعہ کہلاتا ہے، خود ہی ناظم، صدر، صدر مدرس، مدرس اور خود ہی طالب علم ہوتے ہیں، ایسے ہی ایک مچند صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ مدرسہ کے سارے قلمدان اپنے پاس رکھتے ہیں، میں نےایک بار ان سےمدرسہ کی ترقی کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے،” کام زیادہ ہوگیا ہے،بڑا لڑکا ایک بڑے مدرسہ سے فارغ ہوگیا ہے، میں نے صرف مالیات کا شعبہ اپنے پاس رکھا ہے، بقیہ سب اس کے حوالہ کردیا ۔خوش قسمت ہیں وہ لڑکے جن کے باپ مدرسہ کھو ل کر مرتے ہیں اور آنے والی تین نسلوں کے لئے معاش کا انتظام کر جاتے ہیں-

پہلے یہ چندہ خور رمضانی سفر پر نکلتے تھے توان کے پاس ایک بڑا سا چرمی یا فوم کا بیگ رہتا تھا، جس میں سفری ضروریات کی ساری چیزیں آجاتی تھیں، لوگ دور ہی سے جان جاتے تھے کہ چندہ والا مولوی آرہا ہے، اب نئی نسل کے سفرا پہلے اچھا سا ہوٹل تلاشتے ہیں، ہاتھ میں صرف ایک پاؤچ رکھتے ہیں ، جسمیں روئداد اور مدرسہ کی رسید ہوتی ہے، صدقہ و خیرات کے فضائل انھیں از بر ہوتے ہیں یہ دوسری بات ہے کہ سفر کے نام پر روزہ ، نماز، تلاوت اور تراویح وقف لله کر دیتے ہیں دن بھر بے چارے بریانی پر گذارہ کرتے ہیں ، افطار کے وقت کسی مسجد کا رخ کرتے ہیں سب سے پہلے دسترخوان پر بیٹھتے ہیں ، پھل پھلاری کی آخری قاش تک چن لیتے ہیں، نہ جانے کس قاش میں الله کی برکت ہو اور وہ دوسرے کے شکم میں چلی جائے،رمضان کی برکتوں سے صحیح معنی میں یہی لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں-

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Abdur rahman

میں نے مکمل مضمون پڑھا، مضمون کسی حد تک ٹھیک ہے، لیکن اصلاحی پہلوں کو اجاگر نہیں کیا گیا، اس میں بہت سے الفاظ اور جملے ایسے استعمال کیئے گئے ہیں، جن سے دینی ارو ملی خدمات کرنے والوں کا مذاق اڑایا گیا ہے، اس طرح کے مضامین اصلاح کے لیئے ہونے چاہیئے، ناکہ عیب جوئی کے لیئے۔
عبد الرحمن شہاب الدین، پی، ایچ، ڈ اسٹوڈنٹ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ۔

مشتاق أحمد بن مختار أحمد

لاجواب تحریر…اللہ شیخ کے علم میں مزید برکت دے..چندہ اور اسکی ہسٹری پر ایک نئ تحریر،ادبیت سے پر…