اختلاف کیجیے مگر سلیقے سے

تسلیم حفاظ عالی متفرقات

چند سالوں سے رمضان المبارک کے ماہ مقدس کی آمد ورفت کے موقعے پر دو اختلافی اور ٹھیٹھ علمی وشرعی مسئلے بڑے ہی زور و شور سے معرض بیان و نگارش میں لائے جاتے ہیں ۔ ایک رویت ہلال اور امت مسلمہ کے مابین اتحاد واتفاق کا مسئلہ اور دوسرا فطرانے میں نقدی کےجواز اور عدم جواز کا مسئلہ۔ظاہر ہے دونوں خالص علمی مسائل ہیں، ہماشما ان میں لب کشائی اور خامہ فرسائی کا مجاز نہیں ہوسکتا ۔ ایسے اوردیگر اختلافی مسائل میں صرف ان علماے دین کو بولنے اور لکھنے کی اجازت ہونی چاہیے جو علمی پختگی، امانت داری، آلۂ تحقیق سے لیس اور مسلکی تحفظات وحزبی تعصبات سے دور ہوں۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ چند سالوں سے جب جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے کچھ نام نہاد محققین سوشل میڈیا کو میدان کارزار بنا ڈالتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف مضمون بازی کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ اپنے ہی نقطہء نظر کی تصویب وتثبیت اور دوسرے کی راے کی تغلیط وتردید کی ہر ممکن کوشش میں دشنام طرازیوں اور ذاتیات پر بھدے تبصروں کا افسوس ناک سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ دعویداران علم و عرفان جہالت کا شکار ہوکر عامیانہ الفاظ اور جملوں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔اللہ کی پناہ!
ایسی بھی بات نہیں ہے کہ ہمارے درمیان علوم اسلامیہ اور اصول فقہ و استنباط میں مہارت واختصاص کے حاملین کی کمی ہے ۔ علم و دانش کی ہمارے درمیان کوئی کمی نہیں ہے۔کئی احباب ماشاء الله داد تحقیق دے رہے ہیں اور دین کی صحیح تعلیمات کی نشر واشاعت میں منہمک ہیں۔اللہ تعالی انھیں جزاے خیر عطا فرمائے ۔ لیکن سب سے اہم مسئلہ جس سے ہماری اکثریت دوچار ہے، وہ یہ ہے کہ صحیح راہنما اصول وضوابط اور آداب علم و اختلاف سے ہم غافل ہوگئے ہیں۔کبر ونخوت اور خودرائی وخودپسندی نے جو کج فہمی پیدا کی ہے وہی آج کے ہمارے اختلافات کی غالبا سب سے بڑی بنیاد ہے۔ تبادلۂ خیالات میں سنجیدگی ومتانت کے فقدان کی وجہ سے اس طرح کے بے مقصد اختلافات نے امت کو باہمی انتشار و خلفشار میں مبتلا کردیا ہے ۔ صوبوں اور ملکوں کی بات تو چھوڑ دیجیے ، اتحاد رویت اور اختلاف رویت کے مسئلے میں غیر سلیقہ مندانہ اختلاف نے ایک گاؤں کے افراد ہی کو باہم منتشر کردیا ہے۔ ایک گھر میں کوئی روزے سے ہوتا ہے تو کوئی بے روزہ۔ یہ کون سا اتحاد ہے، اگر اتحاد کا یہی مطلب ہے تو اللہ تعالی ایسے اتحاد سے امت مسلمہ کو بچائے۔
ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں امت مسلمہ ہر میدان میں فساد واختلاف میں مبتلا ہے ۔ایسے میں ایمانی فراست، دور اندیشی، فکر سلیم اور آداب علم و اختلاف کا لحاظ والتزام ہی ہمارے سارے روابط و تعلقات کی استواری اور تمام شعبہ ہاے زندگی میں مختلف سرگرمیوں کے جواز وافادیت کا حقیقی ضامن اور باہمی اختلاف و انتشار کے تصفیے اور دلوں کی دوریاں ختم کرنے کا آخری ذریعہ ہے۔
اختلاف سلف صالحین کے درمیان بھی تھا اور اس امت میں ہمیشہ رہے گا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا بیشتر اختلاف ذاتی معاملات اور شخصی اغراض ومقاصد کے حصول، علم و فقہ اور تفقہ کے اظہار اور اپنی قابلیت و مہارت کی دھونس جمانے کے لیے ہوتا ہے، جوکہ ہر اعتبار سے معیوب و مذموم اور نقصان دہ ہے، جبکہ سلف کا اختلاف حق تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ہوتا تھا اور اپنے حدود سے ہرگز متجاوز نہیں ہوتا تھا۔ اور ایسا اختلاف نقصان دہ نہیں بلکہ مفید ہے، اس سے کسی مسئلے کے مختلف زاویے وا ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے علمی و فقہی مسائل میں سلیقہ مندانہ اختلاف کی بنا پر امت مسلمہ کو متعدد رجحانات سے باخبری اور مسائل ومعاملات کے سارے گوشوں اور پہلوؤں سے واقفیت ہوئی، اور ان تمام احتمالات کے جاننے کا موقع ملا جن میں کسی بھی رخ سے دلیل دینا ممکن ہو،اسی طرح متعدد حل سامنے آئے جن سے نت نئے امور ومعاملات اور جدید فقہی مسائل میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔
اختلاف تھا،ہے،اور رہے گا ۔ بس ضرورت اس بات کی ہے اختلاف کے اصول و آداب کا التزام کیا جائے ، اختلاف کا مقصد حق کا حصول ہو،اختلاف براے شہرت پسندی، ذاتیات پر حملے اور سوقیانہ جملے بہر حال معیوب ومذموم ہیں۔اختلاف کیجیے مگر عالمانہ شان وسلیقے سے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
ارشادالحق روشاد

👍👍👍🌹🌹🌷🌷