تاریخ کے مختلف ادوار میں قوم یہود کی ذلت ورسوائی

عبدالرحمن شہاب الدین شادی تاریخ و سیرت

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہود ایک ضدی، سرکش اور نا فرمان قوم ہے۔ اس قوم کی نافرمانی وسرکشی جگ ظاہر ہے؛ خیانت کرنا، معاہدہ توڑنا، جھوٹ بولنا، قوموں کو آپس میں لڑانا بھڑانا اور اس سے اپنا ذاتی مفاد حاصل کرنا ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر اپنی خاص رحمتیں اور نعمتیں نازل کی تھیں، دوسری قوموں کی طرف سے ان پر ہونے والی ظلم وزیادتی سے نجات دی تھی۔ لیکن بجائے اس کے کہ ان نعمتوں پر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتی نا شکری پر اتر آئی۔ بہت سے انبیاء کرام ورسل علیہم السلام کا ناحق قتل کیا۔ اللہ کی کتاب توراۃ میں تحریف کرڈالی، پھر جب سرکشی اور روئے زمین پر ان کی ظلم وزیادتی حد سے بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں نہ صرف عبرتناک سزائیں دیں بلکہ وہ دنیا میں ایسے ذلیل وخوار ہوئے کہ رہتی دنیا تک کے لیے سراپا عبرت بن گئے۔ ان کی ذلت ورسوائی کی کہانیاں کوئی افسانہ یا داستان نہیں ہیں جنھیں یوں ہی بھلا دیا جائے بلکہ قرآن وحدیث اور تاریخ کی کتابوں میں بطور عبرت آج بھی اسی طرح ثبت ہیں جس طرح دیگر قوم جیسے عادوثمود کی تباہی وبربادی کے قصے موجود ہیں۔
تاریخ کے مختلف ادوار میں قوم یہود کی ذلت ورسوائی:
(۱)موسی علیہ السلام کو کوہ طور پر اپنے رب سے ملاقات کی دعوت دی گئی، موسی علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون کو قوم کی رہنمائی کے لیےاپنا جانشین بنایا۔ لیکن اس قوم نے ہارون علیہ السلام کو کوئی اہمیت نہیں دی اور سامری کے کہنے پر بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ موسی علیہ السلام جب واپس لوٹے تو ان پر بہت برہم ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس گناہ کی سزا یہ دی کہ وہ ایک دوسرے کا قتل کریں‌۔ فرمایا:
وإذ قال موسى لقومه يقوم إنكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا إلى بارئكم فاقتلوا أنفسكم ذلكم خير لكم عند بارئكم فتاب عليكم إنه هو التواب الرحيم(البقرة:۵۴)
(۲)بیت المقدس پر اس وقت قوم عمالقہ کا قبضہ تھا، اسے آزاد کرانے کے لیے موسی اور ان کی قوم کو جہاد کا حکم ہوا، موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو جہاد پر ابھارا، اس کی فضلیت واہمیت بیان کی لیکن بنو اسرائیل (یہود) نے بزدلی وسرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوے کہا کہ:
فاذہب أنت وربک فقاتلا إنا ههنا قاعدون(المائدہ:۲۴) تم اور تمھارا رب جاکر لڑو ہم تو یہیں بیٹھیں رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اس نافرمانی کی سزا یہ دی کہ وہ چالیس سال تک میدان تیہ میں بھٹکتے رہے، اس درمیان انھیں نہ اپنے گھر جانے کی اجازت ملی اور نہ ہی وہاں کوئی مستقل جائے سکونت حاصل ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قال فإنها محرمة عليهم أربعين سنة يتيهون في الأرض فلا تأس على القوم الفاسقين( المائده:۲۶)
(۳)اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنو اسرائیل کو حکم ہوا کہ وہ ہفتہ کے دن مچھلیاں نہ پکڑیں، بلکہ کوئی بھی دنیاوی کام نہ کریں لیکن انھوں نے ایک حیلہ بہانہ تلاش کر کے رب کی نافرمانی کی، ہفتہ کے دن گڈھا کھود کر مچھلیاں روک لیتے پھر دوسرے دن پکڑتے۔ اس کی سزا اللہ تعالیٰ نے یہ دی کہ ان کو ذلیل بندر بنادیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ولقد علمتم الذين اعتدو منكم في السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين( البقرة:۶۵)
(۴)بنو اسرائیل کی سرکشی اور روئے زمین پر ظلم وطغیان جب حد سے بڑھ گیا، انبیاء ورسل کا ناحق قتل کرنے لگے، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب توراۃ اور اس کے احکام میں تبدیلیاں شروع کردیں تو قدرت کو جلال آیا اور ان پر بخت نصر بابلی کو مسلط کردیا جو ایک مجوسی تھا۔ بخت نصر نے ستر ہزار یہودیوں کا قتل کیا تاکہ انبیاء کے قتل کی دیت ادا ہوسکے۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دیۃ النبی إذا قتلہ قومہ سبعون ألف رجل من خیار قومہ(تنزیل الأنبیاء عما نسب الیہم حثالۃ الأغبياء:۱۰۵)
(۵)قبیلہ بنو قریظہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا، جزیرۃ العرب کی مختلف قوموں اور قبیلوں کو مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے خلاف جنگ پر نہ صرف اکسایا بلکہ ان کی بھر پور مدد کی اور خود بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔
مدینہ پر حملہ کے لیے دس ہزار کی جم غفیر جمع تھی، اوپر سے یہودیوں کا خوف، اسی لیے اس جنگ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام بہت فکرمند تھے۔ بالآخر مسلمانوں کو فتح مبین نصیب ہوئی۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ سے فارغ ہوئے تو انھیں ایسی سزا دی کہ وہ قیامت تک نہیں بھولیں گے؛ ان کے جنگجوؤں کو قتل کیا گیا، ان کے بچوں اور عورتوں کو غلام بنالیا گیا۔ اور یہ عرش والے کا فیصلہ تھا۔ (سیرۃ ابن ہشام:۲/۲۱۴)
(۶)دوسری عالمی جنگ(۱۹۳۹-۱۹۴۴) شروع ہو چکی تھی، پوری دنیا دو خانوں میں بٹ چکی تھی، یا ادھر یا ادھر، ٹھیک اسی موقع سے اڈولف ہٹلر کے ہاتھوں سولہ سے اٹھارہ لاکھ (۱۶۰۰۰۰۰-۱۸۰۰۰۰۰)یہودیوں کا قتل عام کیا گیا۔
اس واقعہ کو ہولوکاسٹ کا نام دیا گیا جس کے بیان کرنے سے یہودیوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، اسی لیے ان کے درمیان اس کا ذکر کرنا جرم ہے۔
اس واقعہ کے بعد امریکہ اور یورپی یونین یہود پر مہربان ہوگئی، ان کی نگرانی میں یہود کو اپنا آبائی وطن فلسطین بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا اور یہیں سے فلسطینی قوم پر یہود کی طرف سے ظلم وستم کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔
گذشتہ تقریبا ستر سالوں سے یہ یہود جس طرح فلسطینی قوم پر ظلم وستم ڈھا رہی ہے۔ ان کا ناحق قتل کیا جا رہا ہے۔ ان کی عورتوں کی عزت وناموس سے کھیلواڑ کیا جاتا ہے، ان کے بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے وہ جگ ظاہر ہے، کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اور یہ سب ہو رہا ہے ان کے سب سے بڑے آقا امریکہ کی سرپرستی میں۔
ابھی جو اس قوم کو چین وسکون نصیب ہوا ہے اس سے یہ نہ سمجھیں کہ تمام ظلم وسرکشی کے باوجود اب ان پر عذاب الہی نہیں آئے گا، ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل نہیں ہوگا بلکہ بہت ممکن ہے کہ جلد ہی کسی قوم یا کسی شخص کو ان پر مسلط کر کے انھیں عبرتناک سزا دی جائےگی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ایک مغضوب قوم ہے۔
غير المغضوب عليهم ولا الضالين۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ تو قوم یہود کو جلد نشان عبرت بنادے، فلسطینی قوم کو صبر جمیل کی توفیق دے اور اس ظالم قوم سے نجات کی کوئی سبیل پیدا کردے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000