دن کے جس لمحے سے زوال آفتاب شروع ہوتا ہے وہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے بیچوں بیچ کا ایک لمحہ ہے۔ یعنی سورج کو اگنے اور پورا ہونے میں آدھا دن لگ جاتا ہے تو باقی آدھا دن میں وہ ڈھلتے ڈھلتے ڈھلتا ہے۔ یہی معاملہ افراد و اقوام کے عروج و زوال اور موت و حیات کا بھی ہے۔
سن اور مہینہ تو نہیں یاد مگر نوے کے آس پاس کا کوئی سال ہوگا جب میں نے ہوش سنبھالا تو دیکھا چچا بڑگھر کی دو مالہ سفید کوٹھی اور سامنے کھپریل کی چوکور بکھری میں بیچ آنگن لہلہاتا ہوا امرود کا پیڑ گاؤں کے تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بکھری گملے جیسی اور امرود کا پیڑ اسی میں اگا ہوا بڑا سا پودا لگتا تھا۔ بچپن سے آج تک امرود تو بہت کھائے مگر ویسا میٹھا اور ذائقے دار امرود پہلے کبھی کھایا نہ بعد میں اور اب تو امرود ہی اچھے نہیں لگتے۔
ایسا نہیں ہے کہ بڑگھر کی اماں صرف دودھ دہی بانٹتی ہوں امرود بھی گھر گھر پہنچاتی تھیں۔ پھر بھی صبح و شام امرود کے پیڑ پر چھاپے جاری رہتے تھے۔ صرف لگی اور گھوچی ہی سے نہیں کچھ لوگ تو سیڑھی لگاکر اور کچھ بندروں کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں کا استعمال کرکے چڑھ جایا کرتے تھے۔
اس زمانے میں چچا بڑگھر کو بڑا سج سنور کر گھر سے نکلتے دیکھا۔ پینٹ شرٹ پہن کر کندھے پر انگو نچھا رکھ کر نکلتے تو سائیکل کے ہینڈل کو ایسے پکڑے ہوتے جیسے وہ ہینڈل نہیں گھوڑی کی لگام ہو۔ قد لمبا ہونے کی وجہ سے یہ فیلنگ دیکھنے والے کو بہ آسانی آسکتی تھی۔
اس بات کو تقریبا تین دہائیاں بیت چکی ہیں۔ آج رات انیس مئی دو ہزار اکیس کے پہلے گھنٹے میں جب یہ خبر ملی کہ بڑگھر نہیں رہے تو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کے بعد آدھے گھنٹے تک ایسی کیفیت رہی جیسے اپنے جسم کا کوئی ایک حصہ مرگیا ہو۔
یوں تو میرے سر کے اکا دکا بال سترہویں سال میں ہی رنگ بدلنے لگے تھے۔ اس وقت غالب کی زمین میں جو غزلیں کہی تھیں ان میں سے ایک غزل کا ایک شعر ہمیشہ حافظے کا حصہ رہا؎
نقرئی مو یہ اور میری عمر
میری وقعت بھی وا کرے کوئی
غالب کا ایہام اور فضا کی تعلی دونوں حواس پر چھائے رہتے تھے۔ رگوں میں خون کی گرمی سے زیادہ ارادوں میں آگ سا جنون اور عمل میں بجلی سی رفتار تھی۔ میر و غالب کے پہلے پیدا ہوجانے پر ایک طرف تو یہ خیال تھا کہ؎
وہ تو قدرت کی عہد سازی ہے
ورنہ ہم بھی تو خاص رنگی تھے
دوسری طرف یہ عرفان کہ؎
ہے اصل تقاضا ہنر صیقل پیہم
یوں سوز دروں شعلہ تسکیں نہیں ہوتا
اب تو سر سے زیادہ داڑھی کے بالوں میں چاندی چمکنے لگی ہے۔ آج سے گیارہ سال پہلے جون میں میرے دادا چلے گئے تھے۔ اور آج بڑگھر۔ جب یہ سوال آدھی رات کو کھڑی دوپہریا کی طرح کچھ دیر تک اڑا رہا تو گزشتہ تیس سال کی کہانی جواب میں ڈھلنے لگی۔ سوال ہی ایسا تھا۔ آخر چچا بڑگھر کی موت پر سکتہ سا کیوں طاری ہوا۔ دکھ کا ایسا شدید احساس کیوں؟ اسی سوال کے زیر اثر کچھ باتیں یاد آنے لگیں۔
بڑگھر کی امی گئیں پھر بڑگھر کے ابا چلے گئے۔ کھیت اور گھر کے چار حصے ہوگئے۔ سفید کوٹھی دونوں چھوٹے بھائیوں کے حصے میں آئی۔ بڑگھر کو کھپریل کی گھاری ملی۔ جسے گھر بنانے کے لیے انھوں نے اپنا سب کچھ لگادیا۔ کھپریل کی بکھری گراکر کچے گارے سے اینٹیں جوڑوائیں اور لنٹر لگواکر گھر تیار کردیا۔ اس نئی عمارت کی تعمیر میں آنگن کی قلب ماہیت ہوگئی۔ پردہ چھوڑ چہاردیواری سے نکل کر چھت کی شکل دھار لیا۔ امرود کا پیڑ تو آنگن میں تھا، وہ بھلا چھت پر کیسے چڑھ سکتا تھا سو اسے کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ اس کے کٹنے پر سارے گاؤں والے بہت دکھی تھے۔ اتنے دکھی کہ شاید آج اتنے دکھی بڑگھر کے جانے پر نہ ہوں۔ کیونکہ بڑگھر اپنے آپ میں بڑے لیے دیے سے رہنے والے آدمی تھے۔
کہیں جانے کے لیے ایک بار گھر سے نکلے، کسی نے پوچھ لیا: ‘ارے کہاں’ تو وہیں سے الٹے پاؤں واپس گھر آ گئے۔ کہا: ‘ہولیو ٹوک دیہس، اب کیسے جائی؟’
(حالانکہ ہمارے یہاں اس سوال کا شمار حسن اخلاق میں ہوتا ہے)
ایک مرتبہ سر پر بوجھ (پوال) لیے آرہے تھے، پیچھے سے کسی بائیک والے نے تیز ہارن بجادیا۔ پوال زمین پر پھینک کر چلائے: ‘آ، آ چڑھادے’
ایک گھر (اب چار گھروں میں بٹ چکا ہے) دھوبی کو چھوڑ کر پورا گاؤں مسلمان ہے اور اہل حدیث بھی، پھر بھی کچھ توہمات باقی تھے۔ بارش میں تاخیر ہوتی تو نماز استسقاء کی ادائیگی اور بھنڈارا کرنے سے پہلے ہی گوبری کھیلنا شروع کردیتے۔ سب سے بیسٹ ٹارگیٹ بڑگھر تھے۔ کیونکہ بھڑکتے بہت تھے۔ کچھ لوگ تو بڑگھر کو روزانہ ٹیز کیا کرتے تھے۔
ایک ایسے زمانے میں جب گاؤں کے اکثر لوگ اپنے اپنے جھولے میں دھان، چاول، تیسی، مسری یا گیہوں لے کر بازار جاتے تھے بڑگھر کا جھولا خالی جاتا تھا۔ عموما وہ بازار اکیلے ہی جاتے تھے۔ بہت کم ہی کسی کے ساتھ جاتے یا کسی کو ساتھ لے جاتے۔ لوگ کہتے تھے بڑگھر سیدھا بینک جاتے ہیں پیسے نکالتے ہیں پھر بازار میں داخل ہوتے ہیں۔ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ بڑگھر نے گھر کھیت میں حصہ تو اپنے تینوں چھوٹے بھائیوں کو دے دیا مگر بینک میں جو پیسہ رکھا تھا اسے ہڑپ لیا۔ لاکھوں روپے ہیں بینک میں۔
میرے گھر پر ان کا آنا جانا تو پہلے ہی سے تھا، عموما دن میں دو بار میرے دادا دادی کی خیریت لینے آجاتے تھے۔ مگر جب میں ذرا کچھ پڑھ لکھ گیا، مسجد میں نماز پڑھانے لگا اور پھر جمعہ کا خطبہ بھی دینے لگا تو بڑی محبت سے ملتے، ہنس ہنس کر باتیں کرتے۔ کبھی کبھی کچھ حساب کتاب بھی پوچھتے۔ ایک دن اپنا پاس بک لاکر میرے ہاتھ میں رکھ دیا: ‘مولی صاحب تنی دیکھو کتنا پیسہ بچا ہے؟’
ان کا اکاؤنٹ بیلنس دیکھ کر میری نگاہوں میں ان کی قدر اور بڑھ گئی تھی۔ چودہ سو بتیس روپے تھے۔ لمبے قد والے اس آدمی کو میں نے کبھی اکڑ کر چلتے ہوئے نہیں دیکھا مگر سب انھیں اکڑو سمجھتے تھے، کچھ معاملات میں انھوں نے بھی لوگوں سے مدد چاہی جن معاملات میں ہر دوسرے آدمی کو مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈیہری کوٹھیلا اکیلے بھی اٹھاسکتا ہے آدمی مگر ٹوٹنے کا ڈر ہوتا ہے اس لیے دو چار لوگوں سے ہاتھ لگانے کی درخواست کرتا ہے۔ ایسے معاملات میں تو سب کو مدد کی ضرورت پڑتی ہے بڑگھر کو بھی پڑی۔ مگر محنتی آدمی تھے، عرصہ پہلے شہر چھوڑ چکے تھے، کاشتکاری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اس سورج کے زوال کا وقت شروع ہوچکا تھا۔ جب سے مجھے یاد ہے ڈھلتے ہوئے ہی دیکھا بڑگھر کو۔ دونوں بیٹے بڑگھر کو ادھیڑ عمری میں سنبھالا نہ دے سکے، جس ہمت سے پال پوس کر بڑا کیا تھا اسی حوصلے کے ساتھ دونوں بیٹوں اور اکلوتی بیٹی کی شادیاں کردیں۔ تینوں صاحب اولاد ہیں۔ جب بڑی ذمہ داریاں نہ رہیں تو کمزوریوں نے گھیرنا شروع کیا، وقت سے پہلے ہی بڑھاپا آگیا۔
آدھے دانت خراب ہوئے تو منہ ٹیڑھا ہوگیا تھا، آواز بھی ذرا سی بدل گئی تھی مگر ہمت وہی تھی۔ دو سال پہلے گاؤں جانا ہوا تو اسی فرط محبت سے ملے۔ بدن میں ہڈیاں ہی بچی تھیں لگ رہا تھا جیسے پگھل رہے ہوں۔ پہلے بیوی کو فالج ہوا پھر خود بھی فالج کے شکار ہوگئے۔
میری یادوں میں چچا بڑگھر کا ایک بڑا حصہ ہے، مگر ان سے جو تعلق تھا وہ آج مرگیا۔ دکھ اسی کا ہے اور اس کا احساس بھی گہرا ہے۔ گاؤں چھوڑے ہوئے سات برس گزر چکے ہیں، میرے لیے تو وہ ایسے ہی تھے جیسے نہیں ہوں۔ لیکن آج جو تکلیف ہے وہ امید کی موت پر ہے۔ چچا عبدالحئی عرف بڑگھر سے دوبارہ ملاقات کی امید کی موت۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ
نصف النہار کہو استوائے شمس کہو یا زوال آفتاب یہ آغاز ہے غروب آفتاب کا۔ جیسے طلوع ہونے سے لے کر کھڑی دوپہریا تک لمحہ لمحہ بڑھتا ہے سورج اسی طرح غروب ہونے تک لمحہ لمحہ گھٹتا بھی رہتا ہے۔ عروج ہو یا زوال اچانک نہیں ہوتا وقت لگتا ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس فانی دنیا میں ہر چیز کی اپنی ایک عمر ہوتی ہے۔
ہر انسان کی یادوں میں کئی انسان ہوتے ہیں۔ ان یادوں کی بنیاد پر انسان کے احساسات و جذبات میں الگ الگ فائل بنتی رہتی ہے، ہر تعلق کی فائل۔ مگر ایک ایک کرکے جب وہ تعلق کم ہونے لگتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے زوال آفتاب شروع ہوچکا ہے۔ امرود کا پیڑ کٹے ہوئے زمانہ ہوگیا، جگہ خالی ہوگئی تھی مگر سونی آج ہوئی۔
آہ! بڑگھر چچا آپ اس دنیا میں نہیں رہے آپ سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں،اللہ آپ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین
اللهم اغفر له وارحمه واسكنه فسيح جناته.
اللہ مغفرت فرمائے درجات بلند کرے۔ ہر گاؤں ، ہر خاندان میں ایک “بڑگھر” ہوتا ہے ۔ جو سماج اور رشتوں کے ڈسے ہوئے ہوتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ یہ کردار ہمیں منافقت اور اصول پرستی کے وہ سبق دے جاتے ہیں جسے ہم ساری زندگی بھول نہیں پاتے۔