استاذ گرامی مولانا عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ
(۱۹۴۰-۲۰۱۳)
شہر دہلیؔ کا تمدّن شہرۂ آفاق تھا
قبلۂ علم و ہنر تھا مرکز أخلاق تھا
یعنی وہ دانش کدہ تھا، معہد اسباق تھا
اس کا شیدائی رہا جو علم کا مشتاق تھا
بزم دہلیؔ ہو گئی ویران آبادی کے بعد
تھا یہ ملت کا اہم نقصان آزادی کے بعد
دہلیؔ علم و ہنر صدحیف اب ویران تھی
یعنی تہذیب و تمدّن کا وہ گورستان تھی
مٹ چکی تھی جو بھی کچھ رحمانیہؔ کی شان تھی
سلفیانؔ ہند متحدہ کی وہ اک آن تھی
کوہ عظمت طالبان دیں پلے آغوش میں
اس کی لے دلی تو بدلی نغمۂ خاموش میں
لٹ گئے دانش کدے تو ایسی ویرانی ہوئی
نفسی نفسی میں نہیں ان کی نگہبانی ہوئی
جب فراواں دہر میں توفیق ربّانی ہوئی
ظلمتوں میں پھر فروزاں شمع رحمانیؔ ہوئی
مدّتوں کے بعد رحمانیؔ اٹھا تھا خاک سے
گفتگو کرنے لگا پھر رفعت افلاک سے
شہرعالم گیر میں علمی ادارے بے شمار
لوٹ لی باد خزاں نے گلستانوں کی بہار
تھا دبستانؔ سلف کا مدتوں سے انتظار
ہے سنابلؔ عظمت رفتہ کی روشن یادگار
ہو گیا دہلی میں ‘مرکز’ کے اداروں کا قیام
اس کی طرز فکر میں ‘رحمانیہؔ’ کا اہتمام
منہج قرآنؔ و سنتؔ کی اشاعت تھا ہدف
نصرت حق کے لیے تھے اس کے بانی جاں بکف
جامعہؔ اسلامیہ یعنی سنابلؔ کا شرف
بن گیا ہے جہد رحمانیؔ سے ایوان سلفؔ
دہلیؔ ویراں بھی اب شایان غازہ ہو گئی
عظمت رفتہ کی پھر سے یاد تازہ ہو گئی
ملک و ملت کے تحفظ کا عَلم بردار ہے
دہر کے ظلمت کدے میں علم کا مینار ہے
معنوی رونق ہے اور حسن در و دیوار ہے
فنّ معماری تو اس کا لائق دیدار ہے
علم میں وہ یثرب و اُم ؔالقری کی شان ہو
قرطبہؔ، زیتونہؔ و ازہرؔ کی وہ پہچان ہو
طرز تحقیق و نظر میں کوئی پابندی نہیں
جستجوے حق تو محتاج رضامندی نہیں
ہو نہ پاس طرز آبا تو یہ فرزندی نہیں
علم بے تحقیق میں کوئی قلاقندی نہیں
اس کی لے میں دعوت آزادی افکار ہے
نغمگی میں طرز بالا دستی آثار ہے
طرز تربیّت کا فطرت پر رہا ہے انحصار
ہو گیا رشک ثریّا اس دبستاںؔ کا وقار
گلشن حکمت میں آئی تھی ابھی باد بہار
باغباں رخصت ہوا، اب باغ بھی ہے سوگوار
’’ہے اسی قانون عالم گیر کا یہ سب اثر
بوے گل کا باغ سے، گل چیں کا دنیا سے سفر‘‘
محو حیرت ہے سنابلؔ پاسبانی کے لیے
فکر مندی بھی اسے ہے باغبانی کے لیے
وقت رحمانیؔ کو کب تھا دار فانی کے لیے
ہو گیا رخصت حیات جاودانی کے لیے
ہیں محافظ اس کے اب پروردگان جامعہؔ
پاسبان جامعہؔ ، پس ماندگان جامعہؔ
٭٭٭
شعبۂ تعلیم و تربیت سے ہی تھا اشتغال
عصر حاضر کے تقاضوں کا رہا اس میں خیال
منہج تعلیم میں کچھ بھی لچک ہو کیا سوال
’’ایں محال است محال است محال است محال‘‘
فکر و فن اور حوصلے میں وہ فراوانی رہی
ماہر تعلیم کی سی شان رحمانیؔ رہی
ان کی ہمت کے مقابل وقت کے دھارے نہ تھے
عزم میں ایسی بلندی تھی جہاں تارے نہ تھے
وہ پس دیوار زنداں اپنی مت مارے نہ تھے
جنگ ہارے بھی کبھی تو حوصلہ ہارے نہ تھے
حوصلہ مندی میں مخفی تھا ظفر یابی کا راز
جادہ پیما مشکلات رہ سے ہوکر بے نیاز
ان کی فطرت میں تہوّر اور بے باکی بھی تھی
اور بسا اوقات اس لے میں خطرناکی بھی تھی
ملک وملت کے تحفظ کے لیے شاکی بھی تھی
اس میں غم ناکی تو تھی ہی اور نم ناکی بھی تھی
ان کی ایمانی بصیرت حال سے راضی نہ تھی
فکر مستقبل میں بھی پابندی ماضی نہ تھی
بحث و تحقیق و نظر میں ان کو حاصل تھا کمال
اپنے مسلک کی ہمیشہ سربلندی کا خیال
امتزاج نرمی گفتار اور جاہ و جلال
باہنر قائد ہوا کرتے ہیں ایسے خال خال
منہج حق کی حمایت میں عجب مصروف تھے
اس حوالے سے عرب میں بھی بہت معروف تھے
خوب آتا تھا پلٹ کر وار کر دینا انھیں
لغزشوں پر بے جھجھک ہوشیار کر دینا انھیں
شبنمی محفل کو شعلہ بار کر دینا انھیں
ہو گیا احساس تو گل زار کر دینا انھیں
اپنی لغزش پر انھیں آتا تھا حسن اعتراف
کہہ بھی دیتے صاف صاف اور سن بھی لیتے صاف صاف
خوف نہ کھائے کبھی بھی وہ کسی جاگیر سے
وہ کبھی غافل نہ تھے تعقیب میں تقریر سے
تھی عیاں علمی لیاقت قوّت تعبیر سے
تھا نہیں آسان بچنا ان کی داروگیر سے
بحث میں ماہر بھی ان کے سامنے ہوتا تھا ماند
اور زباں دانی لگادیتی تھی اس میں چار چاند
اپنے موقف پر،بہت مشہور ہے، ان کا ثبات
اک طرف تنہا، گو دیگرمیں ہوپوری کائنات
مجلسوں میں ہم نے خود دیکھے ہیں ایسے حادثات
ہیں زباں زد ان کے بارے میں بہت سے واقعات
ہو خلاف حق اگر کچھ، تاب لانا تھا محال
اپنے اس وصف تہوّر میں رہے وہ بے مثال
ان میں حق سے دست برداری کی بھی شامت نہ تھی
گو گورنرؔ سامنے ہو، اس کی بھی قامت نہ تھی
وہ صف آخر میں ہوں، ان کو کبھی راحت نہ تھی
اپنے گردو پیش سے غافل ہوں، یہ عادت نہ تھی
ملک و ملت کے حوادث سے وہ رہتے باخبر
ان میں شاہیں کا تجسس اور چیتے کا جگر
تھا انھیں ہر بزم میں اعلی خطابت کا شعور
ان کی تحریروں میں پوشیدہ صحافت کا شعور
ان میں تھا موجود ملت کی قیادت کا شعور
وقت نے دیکھا ہے خود ان کی سیاست کا شعور
وہ سیاست میں، اقلیت کے کارندہ رہے
اور صف اول کے ملت میں نمایندہ رہے
اپنے حق میں وہ کبھی القاب کے قائل نہ تھے
وہ کہیں اپنے لیے آداب کے سائل نہ تھے
یعنی تعریف و ستائش کی طرف مائل نہ تھے
اعتراف فضل دیگر میں کبھی حائل نہ تھے
خوش ہوں تو بتلا دیا کرتے مصاحب کا مقام
وہ تعارف میں بخیلی سے نہیں لیتے تھے کام
آخری دم تک رہا ان کو ضیافت کا خیال
ان کے اس وصف مبارک پر نہیں آیا زوال
ان کو آداب تعلق میں رہا حاصل کمال
دائرہ ان کے روابط کا وسیع و بے مثال
وہ عجمؔ کیا، ان کو حاصل تھا عربؔ میں امتیاز
تھا زباں دانی میں پوشیدہ ظفر یابی کا راز
ان کو آتا تھا، کہیں ہوں، کام کرنے کا ہنر
جادہ پیمائی میں صبح وشام کرنے کا ہنر
ان میں تھا غیروں کو زیر دام کرنے کا ہنر
ہو مخالف بھی تو اس کو رام کرنے کا ہنر
پرکشش تھی گفتگو، پر جوش تھا ان کا خطاب
منحصر ان پر ہوا کرتا تھا محفل کا شباب
سادگی تھی ان میں کوئی بزم آرائی نہ تھی
ان کی طرز زندگانی میں جبیں سائی نہ تھی
ان کے ہم عصروں میں ان کی جیسی گویائی نہ تھی
تھی کوئی محفل جہاں ان کی پذیرائی نہ تھی؟
دل اچک لیتے تھے اپنی شوخی تقریر سے
ماند کر دیتے تھے اپنی قوت تحریر سے
تھے نہیں کوشاں کبھی اپنی امارتؔ کے لیے
کی قدم بوسی مناصبؔ نے مہارت کے لیے
تھا وجود ان کا نظامتؔ اور صدارتؔ کے لیے
دور حاضرمیں اداروں کی ادارتؔ کے لیے
ان اداروں کی ترقی آخری نیّت رہی
منزل مقصود بس تعلیم و تربیّت رہی
کاش! کوئی ان سا اپنی صف میں آیندہ رہے
مجلسوں میں مثل مہروماہ تابندہ رہے
نازش علم و ادب ہو جب تلک زندہ رہے
ہو جہاں بھی، اپنے مسلک کا نمایندہ رہے
ترجمانؔ سلفیان ہند اب خاموش ہے
اس کا کاشانہ جہاں میں قبر کی آغوش ہے
بے تحاشا بے خطر اب بزم میں آئے گا کون؟
قوّت تعبیر سے محفل کو گرما ئے گا کون؟
خرمن باطل پہ شعلہ بار ہوجائے گا کون؟
سلفیانؔ ہند کی تاریخ دہرائے گا کون؟
کون بتلائے گا اب تاریخ اصحاب حدیث؟
بزم سے رخصت ہوا شیداے ارباب حدیث
علم و حکمت، دور اندیشی کا ایسا امتزاج
یہ ہیں اوصاف قیادت جو کہ ہیں مفقود آج
ان کی حکمت سے ملا ان کے اداروں کو رواج
ایک دنیا سے الگ تھا ان کا آفاقی مزاج
منتہا منزل کا، ان کا نقطۂ آغاز تھا
بے تحاشا ان کا طائر خوگر پرواز تھا
حوصلہ اتنا کہ وہ اپنوں میں لاثانی رہے
اپنی رفتار عمل میں ایسے طوفانی رہے
وہ فنا سے قبل اپنے کام میں فانی رہے
حوصلہ مندی میں تو ممتاز رحمانیؔ رہے
قابل تعریف ان کی قوّت اقدام تھی
وقت نے ثابت کیا ہے، رب کا وہ انعام تھی
سخت تر حالات میں کرتے وہ ایسے فیصلے
پیش و پس میں مبتلاکے،اس سے بڑھتے حوصلے
وہ مراحل جن میں تھک جاتے دلاور قافلے
سخت کوشی سے کیا کرتے تھے سر وہ مرحلے
ان کو آتا تھا نمٹنا سختی حالات سے
رام کر لیتے مخالف کو بھی اپنی بات سے
٭٭٭
کم سنی سے جاگزیں تھا دل میں ان کا احترام
مسلکی غیرت، وفا کیشی، حمیّت کو سلام
بس انیغ اوصاف نے بخشا تعلق کو دوام
مجھ کو بھی تھا اہتمام اور ان کو بھی تھا اہتمام
جب مدینہؔ اور کویتؔ کو روانہ ہو گیا
آتے جاتے ان کا گھر مہمان خانہ ہو گیا
ان سے جانا ساری تحریکوں میں وجہ امتیاز
سلفیانؔ ہند کی تاریخ کا باب فراز
منہج حق کی اشاعت میں تگ و دو، سوز و ساز
ان میں پوشیدہ تھا مسلک سے وفا داری کا راز
کچھ ہو باطل کی طرف داری انھیں آتی نہ تھی
اپنے حق سے دست برداری انھیں آتی نہ تھی
جنگ میں کویتؔ سے نکلا تھا بحال خستگی
اور اسی مدت میں ‘مرکز’سے ہوئی وابستگی
بحث و تالیف و تراجم سے بڑھی وارفتگی
ان کی ‘تقریظات’ سے ہوتی رہی دل بستگی
میری تحریروں سے بھی واقف ہوئے ہیں خاص و عام
جب ہوئی ان کی اشاعت ان کے زیر اہتمام
رب کی جانب سے یقینا تھا یہ حسن انتخاب
آج تک باقی ہے اس ‘مرکز’سے اپناانتساب
میں نے دیکھا کرّوفر و شان و شوکت کا شباب
آہ!اب وہ قبر کی آغوش میں ہے محو خواب
بعد توفیق الٰہی اپنا دہلیؔ میں قیام
ہے رہین منّت حضرت ابو عبدالسلام
مختلف تبدیلیاں آتی رہیں حالات میں
مختلف باتیں رہی ہیں مختلف اوقات میں
صفر کر دیتے تعلق کو بھی اپنی بات میں
جب ہوا کرتے تھے وہ غیظ و غضب جذبات میں
بھول جاتے تھے سبھی کچھ جوش آجانے کے بعد
اور بلک پڑتے تھے اس پر ہوش آجانے کے بعد
امر جو ثابت رہا اس میں نہ آیا اہتزاز
دل میں ان کی قدروقیمت، سب میں ان کا امتیاز
ان کی خدمات جلیلہ کا ہے یہ سربستہ راز
موت بھی آئی تو کیا، ان کو ملی عمر دراز
ان کی طرز فکر اوروں سے جداگانہ رہی
اور وہی گویا ظفر یابی کا پیمانہ رہی
عید میں حاضر ہوا ان کی عیادت کے لیے
نیم بے ہوشی میں کوشش تھی سماعت کے لیے
چشم و لب پر تمتماہٹ ایک ساعت کے لیے
اب ترسنا عمر بھرہے اس سعادت کے لیے
گوش بر آواز جن کی بزم میں جاں باز تھے
ان کو دیکھا موت کے آگے سپر انداز تھے
ملک و ملت کے مسائل میں جلالی شان تھی
سلفیانؔ ہند کی تاریخ ان کی آن تھی
مسلکی غیرت ہمیشہ منزل ارمان تھی
بس یہی مقصد تھا جس پر زندگی قربان تھی
اپنا حق لینے میں وہ غیروں سے فریادی نہ تھے
مصلحت بینی کے مسلک میں کبھی عادی نہ تھے
کون مسلک کی حفاظت کے لیے تیار ہے
منہج حق کی اشاعت کا عَلم بردار ہے
اپنے موقف کی حمایت میں وہ شعلہ بار ہے
اس وفا کیشی میں اک عالم سے وہ بے زار ہے
ہو گیا رخصت، نمونہ تھا ابو عبدالسلام
السلامُ، السلامُ، السلامُ، السلام
٭٭٭
علمؔ و حکمت کی نمایاں شان پر زندہ رہے
خانوادہؔ ہر طرح احسانؔ پر زندہ رہے
جو بھی ہو وہ سنتؔ و قرآنؔ پر زندہ رہے
یعنی وہ اسلامؔ پر ایمانؔ پر زندہ رہے
ہو سدا اس مرد با ہمت کی نیّت کا خیال
دین و دنیا کے لیے اس کی وصیّت کا خیال
کس طرح جھیلے تھے مرکزؔ کے لیے وہ مشکلات
تھا اداروں کی ترقی ان کا ارمان حیات
نہ کوئی شغل تجارت اور نہ کوئی اور بات
بس ادارے ہی رہے ہیں ان کی پوری کائنات
ان کا وارث وہ ہے جو مرکزؔ کا دل دادہ رہے
ان اداروں کی سدا خدمت پہ آمادہ رہے
طرز دریوزہ گری یا امر شاہانہ ہوا
جو حقیقت تھا کبھی، اک دن وہ افسانہ ہوا
زندگی کا جس گھڑی لبریز پیمانہ ہوا
خالی رحمانیؔ سے رحمانیؔ کا کاشانہ ہوا
اب کہاں وقت تعلق تھا در و دیوار سے
ان میں بھی الفت نہیں باقی رہی معمار سے
’’اس جہان بے وفا کو یاد رہ جائے گا کون؟
تا ابد اس میں بھلا آباد رہ جائے گا کون؟
بے بس و بے کس ہو یا بے داد ، رہ جائے گا کون؟
محفل ہستی میں اپنی، شاد رہ جائے گا کون؟
کون کاشانہ مکینوں سے نہیں خالی ہوا
ہے چمن؟ جس کا نہیں رخصت کوئی مالی ہوا‘‘
کس سے اٹھ پایا ہے اِس دنیا میں بار زندگی
عنکبوتی تار سے کمزور تار زندگی
ایک دن ہوگی خزاں دیدہ بہار زندگی
زندگی اس کی، جسے حاصل وقار زندگی
پیش رو:اسلاف اپنے کام سے زندہ رہے
در حقیقت خدمت اسلام سے زندہ رہے
زندۂ جاوید ہے دہلیؔ میں رحمانیؔ کا کام
خوش نصیبی کی علامت ہے اداروں کا قیام
محفل ہستی میں حاصل ہے بھلا کس کو دوام
بھول پائے گی نہ دہلیؔ شیخ رحمانیؔ کا نام
ان کو زرّیں کارناموں نے دوامی کر دیا
ان کو نامی کردیا ان کو عوامی کردیا
ان اداروں کی نوازش بے حساب و لاجواب
علم کے پیدائے کیے ہیں آفتاب و ماہتاب
بارگاہ رب میں ہو اک کام بھی جو باریاب
ہوگئے ہر دوجہاں میں کامران و کامیاب
قدر ہمت خیر کا بس ایک دانہ چاہیے
’’رب کی بخشش کے لیے کوئی بہانہ چاہیے‘‘
بات بتلائیں ذرا، کوئی طرف داری نہ ہو
کون؟ جس کو رحمت رب کی طلب گاری نہ ہو
ہو نکو کاری فقط اس سے خطاکاری نہ ہو
یہ اگر ہو جائے رب کی شان غفّاری نہ ہو
یہ خطا کاری خمیر حضرت انساں میں ہے
جوش توبہ ہی سے پیدا رحمت رحماں میں ہے
ہے دعائے غمزدہ:بندے کی نگرانی رہے
حشر کے جملہ مراحل میں بھی آسانی رہے
رحمت رب کی بہر لحظہ فراوانی رہے
جنت الفردوس میں محظوظ رحمانیؔ رہے
حکم سے حاضر ہے بندہ اب ترا، تیرے حضور
تو ہے رحمن و رحیم و مالک و ربّ غفور
آہ!وہ شہر خموشاں کیسا عبرتناک ہے
ساکنان شہر ہیں اور خیمۂ افلاک ہے
یہ زمیں غم ناک ہے چشم فلک نم ناک ہے
عزم و استقلال کا وہ کوہ زیر خاک ہے
’’آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے‘‘
(اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہٗ، وَارْحَمْہٗ، وَعَافِہٖ، وَاعْفُ عَنْہٗ، وَأکْرِمْ نُزُلَہٗ وَوَسِّعْ مُدْخَلَہٗ!)
صلاح الدین مقبول احمد مصلحؔ نوشہروی
۱۸/۲/۲۰۱۴ء
سبحان اللہ!!! جیسی عظیم ہستی تھی ویسے ہی کلام سے ان کی تعریف کی گئی ہے یقینا وہ علم و ہنر ،بحث و تحقیق کے ایک عظیم شہسوار تھے ، مسلکی غیرت و حمیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی،جس میں ادنی سی بھی لچک انہیں ناقابل برداشت تھی، کسی کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے” تنہا تھا جو صحرا میں مسافر کا سہارا چڑیوں کو بہت آس تھی اس بوڑھے شجر سے یقینا آپ کا وجود سلفیان ہند کے لئے ایک فخر کی علامت تھا، اور وہ تاریخ اہل حدیث کے ایک بے تاج بادشاہ تھے اللہ ان کو… Read more »
Allah shaykhe muhtaram par Rahmat ki barkha barsaae, qabr me Jannat ki kyari karde, pasmadgan ko, Abnaae jaamea ko us mission ka hissa karde, aur aise hi kaam ki tawfiq de jo qaumo millat ke liye sarmaya ho, Allah unke liye in sab ko zakhirae aakhirat bnaae, Aameen
ماشاء الله تبارك الله
رحمه الله تعالى و اسكنه الفردوس الأعلى من جناته و شكر سعيه و كتب له الأجر و رفع درجاته….
وبارك الله فيكم و في محياكم شيخنا الغالي المفضال
We can’t forget him. Off course he was a brilliant schollar. Thanks for his effort.to stablish Sanabil in Delhi.