ندی نالے سمندر کی طرف باہم نکلتے ہیں

ابوالمرجان فیضی شعروسخن

ہنر مشاطگی کا لے کے جب پیہم نکلتے ہیں

تبھی جا کر تری زلفوں کے پیچ و خم نکلتے ہیں


ملن ہوجائے گی ہے شرط تیری طبع موزوں ہو

ندی نالے سمندر کی طرف باہم نکلتے ہیں


جہاں جا کر پرندہ فکر کا مفلوج ہوجائے

وہاں تک سوچنے والے ذرا کم کم نکلتے ہیں


سجاؤ میکدہ لوگو! کرو آباد بت خانہ

حرم کو چھوڑ کر سوئے بتاں اب ہم نکلتے ہیں


پدر کی برکتیں شامل ہیں بیٹے کی ترقی میں

وگرنہ پاؤں گھسنے سے کہاں زمزم نکلتے ہیں


جنھوں نے سانس پر پہرے بٹھائے تھے یہاں ثاقب

مکافات عمل ہے آج وہ بے دم نکلتے ہیں

آپ کے تبصرے

3000