خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

رشید سمیع سلفی قرآنیات

اسلام کی علمی تاریخ میں دلائل کے مزاج کو فروغ منہج سلف سے حاصل ہوا ہے، اس طرز فکر نے ایک ایسا شعوری ماحول پیدا کیا کہ ہر کہ و مہ کی زبان پر “ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین” کا مطالبہ ہوتا ہے، دلائل بھی منطقیانہ و فلسفیانہ نہیں بلکہ کتاب و سنت پر مبنی دلائل مطلوب ہوتے ہیں۔ ایک دور ایسا بھی گذرا کہ لوگ دلائل کی اتباع کی بجائے شخصیات پر تکیہ کرتے تھے، شیخ، عالم، مجتہد اور فقیہ کی زبان سے نکلنے والی بات معیار حق ہوتی تھی، نسبتوں کو کافی سمجھ لیا گیا تھا، دین‌ میں ضلالات و انحرافات کی راہ اس مزاج نے پیدا کیا، منہج سلف کے پاسداروں نے کبھی اس ڈگر سے کجی اختیار نہیں کی، صحیح دین‌ و عقیدہ کا تحفظ بھی دلائل کا مرہون منت ہے، آپ خلافت راشدہ کے دور میں بھی دلائل کا چلن پائیں گے، دلائل کے آجانے پر ہر گردن جھک جاتی تھی، زبان مہر بہ لب ہوجاتی تھی، بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے تھے، شور و ہنگامہ رک جاتا تھا، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد مبارک کی تدفین کا معاملہ ہو، آپ کے ترکے کے بارے میں اختلاف کی بات ہو، خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ ہو، حج تمتع سے اختلاف کرنے والے کو حضرت عبداللہ بن‌ عمر رضی اللہ عنہ کا دوٹوک جواب ہو۔ “امر ابی یتبع ام‌ امر رسول اللہ” میرے والد کی بات قابلِ اتباع ہے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات قابلِ عمل ہے، ایک پورا سلسلہ ہے جو اس فکر و نہج کی آبیاری کرتا ہے۔
موجودہ دور میں بھی ہماری اس علمی روش نے غیروں میں بیداری پیدا کی ہے اور دلیل و برہان کا رجحان پروان چڑھایا ہے۔ اب تو قبوری شریعت کے حاملین بھی اپنے اعمال و عبادات کے لیے دلائل کی تلاش و جستجو شروع کرتے ہیں، اپنے مسلک کو مدلل کرنے کی اک دوڑ شروع ہوگئی ہے، مگر جب موقف کمزور ہوتا ہے تو دلائل میں بھی استقرار نہیں ہوتا ہے، باطل دلیل کی تلاش میں نکلا ضرور لیکن دلیل کے نام پر دھاندلی، تلبیس، خیانت اور ملمع سازی کے خارزار میں ٹامک ٹوئیاں مارنے لگا، کبھی کبھار دلیل کے نام پر مضحکہ خیز حرکتیں بھی کرنے لگتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو باطل دلیل کے معاملے میں تین‌ غلطیاں کرتا ہے، دلیل کے کھوٹ کو جاننے کے لیے یہ بات اصول کا درجہ رکھتی ہے، باطل کی لائی ہوئی دلیل یا تو ثابت نہیں ہوگی یا دلیل تو ثابت ہوگی لیکن اس کا مطلب غلط اخذ کیا گیا ہوگا، لہذا باطل عقائد و اعمال کے ثبوت میں ضعاف و موضوعات کے تن مردہ میں جان‌ ڈال دی گئی، عقیدہ و مسلک کے خشک جڑوں کو سیراب کرنے کے لیے دیانت، امانت اور انصاف کے لہو سے کام لیا گیا، دوسری طرف معنوی تحریف کا جھاڑ جھنکار چاروں طرف پھیل گیا، شریعت علمی سطحیت کی نذر ہوگئی، سندوں کی تحقیق پر بات آئی تو شاذ اقوال و تحقیقات کا خوان سجائے لیے چلے آئے، استدلال و استنباط کے نام پر علم‌ و تحقیق کی مٹی پلید کی جانے لگی، دلیل و مدلول میں ربط کے لیے دور کی کوڑی لائی جانے لگی۔
غور کریں کہ ہم جب علم غیب کی تردید میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اشعار پڑھنے والی بچیوں کو منع کرنے کی دلیل پیش کریں تو کہتے ہیں کہ وہ اشعار بچیوں کو صحابہ نے لکھ کر دیے ہوں گے، مطلب یہ کہ صحابہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب دان مانتے تھے۔ اسی طرح “انا اعطینک الکوثر” میں لفظ “کوثر” سے غیب مراد لے لیا گیا، اذان کے بعد کی دعا میں لفظ “آت محمد الوسیلہ” سے توسل بالاموات کھود لائے ہیں، آج تک کسی ایک مسئلے پر بھی یو ٹرن نہیں لیا، مسلک وحی سے زیادہ مقدس ہوگیا، محکم دلائل کے سامنے گردنیں اکڑی رہیں، بھنویں تنی رہیں، خاموش انداز میں “بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ” والی جاہلانہ اکڑفوں کا اظہار کیا جاتا رہا، استدلال میں تلبیس و ملمع کاری کی مثالیں سیکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں۔
اندازہ کریں کہ کس طرح اپنی بات قرآن کے حلق میں ٹھونسنے کی کوشش کی گئی ہے، آیت {أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى ثُمَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى} میں چار مرتبہ “أولی” سے ایک مقرر نے چار مسلک مراد لیا ہے، تقلید کا نشہ بہت خطرناک ہوتا ہے، اس نشے میں دھت ہوکر لوگوں نے احادیث بھی وضع کی ہیں، حنفیہ نے کہا:
“يكونُ في أُمتي رجلٌ يقالُ له محمدُ بنُ إدريسَ أضرَّ على أمتي من إبليسَ ويكونُ في أمتي رجلٌ يقالُ له أبو حنيفةَ هو سراجُ أُمَّتي”
ترجمہ: میری امت میں ایک شخص پیدا ہوگا جس کا نام محمد بن ادریس ہوگا وہ میری امت کے لیے ابلیس سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا اور میری امت میں ایک شخص ہوگا جس کا نام ابو حنیفہ ہوگا وہ میری امت کا چراغ ہوگا۔
اور شافعیہ نے بھی اس کو الٹ کر یوں کہا:
يكونُ في أُمتي رجلٌ يقالُ له ابوحنیفۃ أضرَّ على أمتي من إبليسَ ويكونُ في أمتي رجلٌ يقالُ له محمد بن ادریس هو سراجُ أُمَّتي
ترجمہ: میری امت میں ایک شخص پیدا ہوگا جس کا نام ابو حنیفہ ہوگا وہ میری امت کے لیے ابلیس سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا اور میری امت میں ایک شخص ہوگا جس کا نام محمد بن ادریس ہوگا وہ میری امت کا چراغ ہوگا۔
اس کے علاوہ اپنے امام کے موقف کے استصواب میں بھی احادیث وضع کی گئیں، اللہ جزائے خیر دے محدثین کرام کو جنھوں نے ہر زمانے اور ہر دور میں اس قسم کے فتنوں کی نقاب کشائی کی ہے، کھرے اور کھوٹے کو الگ کیا ہے، ان کے خود ساختہ دلائل کے تار و پود بکھیر دیے ہیں۔
اس پورے سلسلۂ نامسعود کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ دلیل کے نام پر دلیل سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے، علم کے نام پر جہالت کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے، تحقیق کے نام‌ پر جمود کو فروغ دیا جارہا ہے، گذشتہ آسمانی اقوام نے متن پر ہاتھ صاف کیا تھا، امت مسلمہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وحی کے مطالب میں دراندازی کررہی ہے، اس طرح دین انسانی خواہشات کا مشق ستم کل بھی بن رہا تھا اور آج بھی بن رہا ہے۔ فالی اللہ المشتکی۔

آپ کے تبصرے

3000