کورونا وائرس، ماسک، سوشل ڈسٹنسنگ اور ویکسین پر بہت بات ہوچکی ہے، دوسری کے بعد تیسری لہر بھی دستک دے رہی ہے، ممکن ہے چوتھی کی بھی باری آئے، بات ہونی چاہیے ان احوال کی جو کورونا کے بعد عوام پر مسلط ہوئے ہیں، کورونا میں بے حساب موتوں نے جو خلا پیدا کیا ہے، جو گمبھیر مسائل جنم دیے ہیں، جو گھر ویران ہوئے ہیں، جو کئی کئی افراد کے کفیل اپنے پیچھے بے سہارا افراد کو روتا بلکتا چھوڑ گئے ہیں، ان کا کیا ہوگا؟ کیا وہ بے یارومددگار رہیں گے؟ کیا کوئی بھی ان کا پرسان حال نہ ہوگا؟ کیا وہ در در کی ٹھوکریں کھائیں گے؟ اب جبکہ کورونا کے بعد روتی بلکتی انسانیت غیر محفوظ مستقبل سے پریشان ہے، موہوم وساوس میں ان کا دل غوطےکھارہا ہے، کیا وہ ضائع ہوجائیں گے؟ عام دنوں میں بھی زندگی انواع واقسام کی مصیبتوں میں گھری ہوتی ہے، دنیا جہان کے مسائل درپیش ہوتے ہیں، اب تو کسی کے چلے جانے سے ایک بہت بڑا بحران منہ کھولے کھڑا ہے، یہ بحران کتنا سنگین ہے؟ اس سے اندازہ لگائیے کہ اچھے بھلے لوگ حالات کی مار جھیل رہے ہیں، لاک ڈاؤن کے سبب کوئی خیریت سے نہیں ہے، کتنوں کی ملازمت چلی گئی، کتنوں کا دھندہ بند ہوگیا، کتنے جمع پونجی ختم کرچکے ہیں؟ کتنے ٹوٹے ارمانوں کی کرچیاں سمیٹ رہے ہیں؟ ایسے میں متأثرہ خاندانوں پر کیا بیت رہی ہوگی؟ یہ وہی جانتے ہوں گے، وہ بنیادی ضرورتوں کے لیے ترس رہے ہوں گے، کھانے پینے کی چیزوں کے لالے پڑے ہوں گے، معمول کی دوائیں خریدنے کی استطاعت نہیں ہوگی۔
ضرورتوں کے مارے لوگ کبھی کبھار بازاروں اور راستوں کے کنارے دست سوال دراز کرتے نظر آجاتے ہیں، ایک روپیہ دو روپئے کی خیرات کے متلاشی ہوتے ہیں، چند گھنٹوں کی خواری کے بعد ایک وقت کا کھانا خریدنے کے قابل ہوجاتے ہیں، دن بھر کا مبتلاء آلام جسم رات گذار کر پھر بازاروں اور راستوں میں اپنے رزق کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے، کچھ لوگ اپنے زخموں اور بیماریوں کے نام پر پیٹ کی آگ سرد کرتے ہیں، ان کے نزدیک چند نوالے ان کے زخموں سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں، سچ کہا ہے کسی نے
بدن کے گھاو دکھلا کر جو اپنا پیٹ بھرتے ہیں
سنا ہے وہ بھکاری زخم بھر جانے سے ڈرتے ہیں
زندگی گذارنا بڑا کٹھن ہوتا ہے، ضرورتوں کا پہاڑ انسان کی کمر دوہری کردیتا ہے، تاہم نامراد حسرتیں منہ چڑھاتی رہتی ہیں، سوچیے کہ اس انسانی بحران سے ملک کیسے نمٹے گا؟ جن کے گھروں پر کورونا ستم ڈھا کر گیا ہے، اس کی چہار دیواری میں درد والم کی کیسی لرزہ خیز اور جگر خراش کراہیں بلند ہورہی ہوں گی؟ وہ چہار دیواری کے باہر کی دنیا کیا جانے؟ پل پل کتنا تڑپاتا ہوگا؟ تڑپنے والا ہی جانتا ہوگا، روز کا راشن، بچوں کی فیس، دوائیاں، لائٹ بل، گھر کے کرایے سے کیسے نجات پائیں گے؟ کہتے ہیں وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے لیکن وہ وقت گذرے گا کیسے؟ مصیبت میں ایک ایک لمحہ صدیوں کے برابر ہوتا ہے، لیکن
گذار لیتے ہیں آخر گزارنے والے
حیات جیسی بھی اچھی بری گزرتی ہے
سرکار نے تو اعلان کیا ہے کہ جو متاثرہ خاندان ہیں، ان کی مدد کی جائے گی، ظاہر ہے کہ کہ سرکاری اعلانات درد کا درماں نہیں بن سکتے، ان اعلانات پر تکیہ کرنا سراب کے پیچھے دوڑنے کے مترادف ہے، کوئی لمبی لائنوں کی تاب نہ لاسکے تو کیا کرے گا؟ سرکاری اسکیموں کو پانے کے لیے کسی میں در در کی ٹھوکر کھانے کی طاقت نہ ہو تو کیا کرے گا؟ غم کا فوری تدارک کہاں سے ہوگا؟ عام آدمی کو ہی عام آدمی کے لیے کچھ کرنا پڑے گا، متمول افراد کو بھی آگے آنا ہوگا، فلاحی تنظیموں کو اشک شوئی کرنی ہوگی، بند مٹھیوں میں جھانک کے دیکھنا ہوگا، کیونکہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو دست سوال دراز نہیں کرسکتے، جو کسی سے اپنا دکھڑا بیان نہیں کرسکتے، جو اپنے غم کو ایسے گھونٹ جاتے ہیں کہ مفلسی کا شک بھی نہیں گذر سکتا ہے، وہ مصنوعی مسکراہٹ لبوں پر ایسے سجاتے ہیں کہ کہنا پڑتا ہے
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر
کیا حال ہے کیا دکھا رہے ہو
ایسے غیور اور خوددار نفوس کو پہچاننے کی ضرورت ہے، ان کے دروازوں تک رسائی کیسے ہوپائے گی؟ یہ تدبیر کرنے کی ضرورت ہے، ان ارب پتیوں سے بھی امید نہیں رکھنی چاہیے جو پی ایم کیئر میں کروڑوں روپے دے سکتے ہیں لیکن خود ان کی کمپنی کے مزدور دانے دانے کو ترس رہے ہیں، انسانیت کےحقیقی مسیحا کم ہی ملیں گے، زیادہ تر وہ لوگ ملیں گے جو صرف سیلفی لینے کے لیے راشن کی بوری مزدور کو تھماتے ہیں۔ ع
کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری
ان این جی اوز کا سپورٹ کیجیے جو ماہانہ ضرورت مندوں کے گھروں میں راشن پہنچاتے ہیں، ضرورت مندوں کو تلاش کر ان کی داد رسی کرتے ہیں، اس وقت قدرت انسانیت کے ذریعے انسانیت کا امتحان لے رہی ہے، سخت حالات کی بھٹیوں سے گذار کر جوہر انسانیت کو بیدار کررہی ہے، ابتلا کے اس دور میں ثابت کرنا ہوگا کہ انسانی بستیوں میں ابھی بھی انسان بستے ہیں، ہزار بربادیوں کے باوجود یہ ابھی حیوانات کے جنگل میں تبدیل نہیں ہوئے ہیں
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
Bahut umda allahatala mazeed tarqqi de