عید قرباں کے آتے ہی ایک طرف مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا اور ہندوستان جیسے ممالک میں زمین پر بھی نظریاتی اور عملی طور پر اس کی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔ بعض مذاہب نے جانوروں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں مثلاً پیٹا وغیرہ کے ساتھ مل کر تحریک چلانا شروع کردیا ہے کہ یہ وحشت و بربریت ہے، اسے بند ہونا چاہیے۔ قدیم مذاہب میں مانویت اور جین مت و بدھ مت اور موجودہ دور میں ہندو مت قربانی کے خلاف ہیں۔ وزیراعظم عید الاضحٰی کی مبارک باد نہیں دیتے اور کئی تنظیمیں میدان میں اتر کر جانوروں کو آزاد کرانے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہیں بعض جگہوں پر قربانی بھی نہیں کرنے دی جاتی۔ حال یہ ہے کہ اس پروپیگنڈہ سے بعض سادہ ذہن لوگ بھی متاثر ہیں گویا بقول شاعر
یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروز عید قربان
وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
(فراق گورکھپوری)
اس لیے ضروری ہوا کہ عقلی و نقلی دلائل سے اس کی معقولیت کا جائزہ لیا جائے۔
مجموعی طور پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ حسب ذیل ہے:
وہ ایک ذی روح ہے۔ اسے قتل نہیں کرنا چاہیے۔ اسے بھی درد کا احساس ہوتا ہے۔ آخر انسان اپنے بچوں کی قربانی کیوں نہیں کرتا۔ یہ ایک رسم ہے جو اسلام کی دین ہے۔ چونکہ اسلام قتل و غارت گری کا دین ہے اس لیے وہ ایسا حکم دیتا ہے۔
آئیے ان اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں کہ جانوروں کو قتل کرکے ان کا گوشت کھانا اور اسے عبادت کا ذریعہ بنا لینا کہاں تک درست ہے؟:
1-درد کا احساس: جانوروں میں درد کا اتنا احساس نہیں جتنا انسان کو ہوتا ہے۔ ان کی فیلنگ اور وعی ادنی درجے کی ہے، اس لیے اس کی اتنی رعایت ضروری نہیں
نیز درد و تکلیف ایسی چیز نہیں جس کی وجہ سے اہم کام روک دیے جائیں۔ ماں کو بھی درد ہوتا ہے بلکہ بسااوقات موت بھی واقع ہوجاتی ہے تو کیا توالد وتناسل کے عمل کو روک دیا جائے؟ یہاں کسی نہ کسی کو قربانی دینی ہی پڑتی ہے۔ اسی سے دنیا کا کاروبار چلتا ہے۔
2- قتل کا ناگزیر ہونا: قتل اور درد پہنچانے سے کلی طور پر بچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہم پودوں اور سبزیوں کو توڑ کر ان کو ختم کرتے ہیں حالانکہ پودے بھی اپنی زندگی جیتے ہیں۔ بیکٹیریا اور جراثیم کو ہم براز کے ذریعے پیٹ سے باہر نکالتے ہیں اور ان کو قتل کردیتے ہیں۔ پانی ابال کر اور راستے چل کر ہم جراثیم اور کیڑوں مکوڑوں کو مارتے رہتے ہیں.. تو کیا ہم اس سے بچ سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر گوشت والے جانوروں ہی کی اتنی فکر کیوں؟
3- فطرت: جانور بھی اور بعض پودے بھی دوسروں کا گوشت کھاتے ہیں۔ ان کی یہ فطرت ہے اور انھیں اللہ نے ایسا سکھایا ہے۔ انسان کے اندر بھی ایک دانت ایسا ہے جو گوشت کھانے کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ اگر یہ اللہ نے سکھایا ہے تو اس پر اعتراض کیوں؟
4-جانوروں کی نسلی منصوبہ بندی کے لیے ان کا قتل ضروری ہے۔ ورنہ کھیتیوں اور آبادیوں میں تباہی مچے گی.. جہاں مویشیوں کو مارنا ممنوع ہے وہاں کے کسانوں کی حالت قابل رحم ہوجاتی ہے۔
5-جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو اپنے وجود کے لیے انسان کی دیکھ بھال اور رعایت کے محتاج ہیں۔ جیسے مرغیاں اور گھریلو بکریاں۔ اگر انسان ان کو استعمال نہ کرے تو انھیں ہر گز نہیں پالے گا۔ اور اگر پرورش نہ ہوئی تو ان کی نسل کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ یعنی ان کی نسل اسی صورت میں باقی رہ سکتی ہے جب انسان ان کا گوشت کھائے۔
6-انسان ہی کے لیے ساری چیزیں بنی ہیں اور انسان کا نفس بڑا محترم ہے۔ وہ چاہ کر بھی اپنی جان نہیں لے سکتا اس لیے خود کشی حرام ہے۔ پھر نسل انسانی کی بقا کا بھی مسئلہ ہے ایک تو انسان کی جان لینی گناہ کبیرہ ہے۔ دوسرے اگر انسانوں کی قربانی ہونے لگے تو اس کی حرمت پامال ہوجائے اور یہ معمورہ ہستی ویران ہوجائے۔
7-ساری چیزیں انسانوں کے لیے بنی ہیں، اس لیے انسان کچھ اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے جانوروں کا گوشت استعمال کرسکتا ہے:
هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا ثم استوى إلى السماء فسواهن سبع سماوات وهو بكل شيء عليم (البقرة:٢٩) وہ اللہ جس نے تمھارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان کی طرف قصد کیا اور ان کو ٹھیک ٹھاک سات آسمان بنایا اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔
8- سارے مذاہب نے گوشت خوری کی اجازت دی ہے۔ پہلے سے رواج تھا اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں:
ولكل أمة جعلنا منسكا ليذكروا اسم الله على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فإلهكم إله واحد فله أسلموا وبشر المخبتين (الحج:٣٤) اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں دے رکھے ہیں۔ (سمجھ لو کہ) تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہوجاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے!
قربانی کی تاریخ:
یہ رسم ہم نے آج شروع نہیں کی بلکہ یہ تو آدم علیہ السلام کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ قرآن کریم میں ہابیل و قابیل کے قصے میں ہے:
واتل عليهم نبأ ابني آدم بالحق إذ قربا قربانا فتقبل من أحدهما ولم يتقبل من الآخر قال لأقتلنك قال إنما يتقبل الله من المتقين (المائدة:٢٧) آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انھیں سنا دو ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا، ان میں سے ایک کی نذر قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا، اس نے کہا اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔
اس کی تفسیر نقل کرتے ہوئے ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قرب هابيل جزعة سمنة و قرب قابيل حزمة سنبل (ابن كثير) ہابیل نے ایک موٹا اور جوان جانور پیش کیا اور قابیل نے خوشوں کا ایک گٹھا۔
نظریہ ارتقا:
نظریہ ارتقا کے حامی سائنس داں بھی کہتے ہیں کہ انسان نے پہلے پھلوں اور جنگلی جانوروں کے گوشت پر گزارہ کیا ہے اس کے بعد کھیتی باڑی شروع کی ہے۔
یعنی گوشت خوری سماج کا اٹوٹ حصہ ہے جو شروع سے ہی چلا آرہا ہے۔ جانوروں، ان کے گوشت اور دودھ کے بنا انسانی سماج نامکمل ہے۔ مذہب نے اسے فقط منظم کیا ہے، جو مضر تھے ان کا گوشت منع کردیا اور جو مفید تھے ان کو حلال کردیا۔
پھر مذہب جس طرح سے زندگی کے ہر شعبے میں عبادت کا خواہاں ہے۔ مثلاً روپیہ پیسہ غلہ وغیرہ میں اسی طرح اس نے جانوروں کے گوشت سے بھی عبادت کا حکم دیا اور قربانی مشروع کی۔
عام انسانی ضمیر اسے معیوب نہیں سمجھتا اسی لیے ہر مذہب میں قربانی ہے۔
حیرت ہے کہ جو لوگ ہمیشہ اکثریت اور رواج و سماج سے استدلال کرتے ہیں، گوشت خوری کے معاملے میں اتنے بخیل کیسے ہوجاتے ہیں؟
قرآن نے بھی قربانی کی علت کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ایسا پہلے سے چلا آرہا ہے اور یہ ہر مذہب میں ہے: ولكل أمة جعلنا منسكا
یعنی یہ کوئی گناہ کا کام نہیں ہے۔ ہر دور میں انسان کا اجتماعی ضمیر اسے جائز سمجھتا تھا.ض اور یہ عمل احساس جرم تک سے پاک مانا جاتا تھا۔ بلکہ ایسا کرکے خوشی محسوس ہوتی تھی۔
سماج میں جانوروں کو ایک طرح کا مال شمار کیا جاتا ہے اور مال خرچ کرنا لوگوں کو کھلانا پلانا ہمیشہ سے کار ثوابِ رہا ہے۔
آج چند لوگ جو شذوذ کی طرف جاکر اسے گناہ یا وحشیانہ حرکت باور کرا رہے ہیں، ان کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور اکثریت کے مقابلے میں ان کی رائے مردود ہے۔ نیز جانوروں سے ہمدردی کا دعوی فاسد ہے۔
لہذا ثابت ہوا کہ قربانی ایک بہترین رسم ہے اور ایک ایسی سنت ہے جس پر زیادہ سے زیادہ عمل کیا جانا چاہیے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین
بہت عمدہ ماشاءاللہ ۔۔
جزاکم اللہ خیرا
اسکے مقابلے میں ان تنظیموں کو لنچنگ کے واقعات یاد کرائیں جائیں جانوروں پر اتنا رحم اور انسانوں کے لئے انکی دیا کہاں چلی گئی