عشرۂ ذی الحجہ کی مطلق ومقید تکبیریں

فاروق عبداللہ نراین پوری عبادات

عربی تحریر: ڈاکٹر عبد الباری بن حماد انصاری حفظہ اللہ (استاد کلیۃ الحدیث الشریف، جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ)
اردو قالب: فاروق عبد اللہ نراین پوری

مطلق تکبیر سے مراد وہ تکبیر ہے جو فرض نمازوں کے بعد پڑھنے کے ساتھ مقید نہ ہو۔
عشرۂ ذی الحجہ شروع ہو جائے تو جب چاہے یہ تکبیر پڑھ سکتا ہے۔ اس کی دلیل ابو ہریرہ وابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل ہے۔ عشرہ ذی الحجہ کو دونوں بازار جاتے اور تکبیریں پڑھتے تھے، دوسرے لوگ بھی ان کی تکبیریں سن کر تکبیریں پڑھتے تھے۔ ان دونوں کے بازار جانے کا یہی مقصد ہوا کرتا تھا۔
فاکہی نے ”اخبار مکہ“ اور مروزی نے ”کتاب العیدین“ میں یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی سند حسن ہے۔
اور مقید تکبیر سے مراد فرض نمازوں کے بعد پڑھی جانے والی تکبیر ہے۔
اس تکبیر کا وقت یوم عرفہ کی نماز فجر سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک ہے۔ اس کی دلیل درج ذیل آثار صحابہ ہیں:
1 – علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ یوم عرفہ کی نماز فجر سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک تکبیر پڑھتے تھے۔ عصر کی نماز کے بعد تکبیر پڑھتے تھے۔
اس اثر کو امام احمد نے ”مسائل عبد اللہ“ میں، ابن المنذر نے ”الاوسط“ میں اور محاملی نے ”کتاب العیدین“ میں روایت کیا ہے اور یہ اثر حسن لغیرہ ہے۔
امام احمد فرماتے ہیں: یہ علی رضی اللہ عنہ کی تکبیر ہے۔ اور اس سے ہم دلیل پکڑتے ہیں۔
2 – ابن ابی شیبہ، ابن المنذر اور محاملی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ وہ یوم عرفہ کی صبح سے لے کر ایام تشریق کے آخر تک (مغرب میں نہیں، یعنی نماز عصر تک) یہ تکبیر پڑھتے تھے: الله أكبر كبيرا، الله أكبر كبيرا، الله أكبر وأجل، الله أكبر ولله الحمد۔
اس کی سند صحیح ہے۔
3 – ابن المنذر نے ”الاوسط“ میں اور فاکہی نے ”اخبار مکہ“ میں نافع سے روایت کیا ہے کہ ابن عمر ان تمام ایام میں منی میں نماز کے بعد تکبیر پڑھتے تھے۔ نیز اپنے خیمے اور گزرگاہوں میں بھی۔
اس کی سند صحیح لغیرہ ہے۔
بعض تنبیہات:
1 – غیر حاجی کے لیے تکبیر مقید کا وقت یوم عرفہ کی نماز فجر سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک ہے جیسے کہ علی رضی اللہ عنہ کے اثر میں گزرا۔
2 – حاجی کے لیے تکبیر مقید کا وقت قربانی (یعنی عید) کے دن کی نماز ظہر سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک ہے۔
3 – عرفہ کے دن حاجی کے لیے تکبیر اور تلبیہ دونوں کو جمع کرکے پڑھنا جائز ہے۔
محمد بن ابو بکر الثقفی سے روایت ہے، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ لوگوں کے عمل کا طریقہ کیا تھا؟ انھوں نے فرمایا: ہم میں سے بعض لوگ اونچی آواز میں تلبیہ پکار رہے تھے اور ان پر نکیر نہیں کی جاتی تھی اور بعض لوگ تکبیر پڑھ رہے تھے اور ان پر بھی نکیر نہیں کی جاتی تھی۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4 – سلام پھیرنے کے بعد تکبیر مقید کو استغفار سے پہلے پڑھےگا یا بعد میں؟
جن کی رائے ہے کہ تکبیر سلام کے فورا بعد پڑھی جانی چاہیے ان کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام سے جو آثار مروی ہیں ان میں ہے کہ وہ نماز کے بعد تکبیر پڑھتے تھے۔ ان آثار کا ظاہر یہی ہے کہ نماز اور تکبیر کے مابین کوئی فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔ اگر وہ کوئی دوسری چیز بھی پڑھتے تو وہ بھی منقول ہوتی۔ چونکہ تکبیر ان ایام کا شعار ہے لہذا اسے استغفار پر مقدم کیا جانا چاہیے۔
جب کہ دوسرے اہل علم کی رائے یہ ہے کہ استغفار کو تکبیر پر مقدم کیا جائے۔ ان کی دلیل ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث کا عموم ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفر اللہ کہتے۔
ان دونوں اقوال میں سے پہلا قول زیادہ قوی ہے کیونکہ ان ایام میں تکبیر کی خصوصیت ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔

آپ کے تبصرے

3000