ریاکاری یا طعنے کے خوف سے قربانی کرنا نہ چھوڑیں!

فاروق عبداللہ نراین پوری عبادات

نیک اعمال سے لوگوں کو دور کرنے کے لیے شیطان مختلف حربے استعمال کرتا ہے۔ انھی میں سے ایک حربہ بندے کے دل میں ریاکاری کا خوف بھر دینا ہے۔ بعض لوگ اس شبہے کی بنا پر نیک عمل سے دور ہو جاتے ہیں کہ کہیں میں یہ عمل ریاکاری کے لیے تو نہیں کر رہا۔ بالآخر شیطان جو معصیت اور شہوت کے راستے سے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا تھا خوف الہی کا ڈر دکھا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
اس کے مختلف اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ بعض مقررین حضرات شعوری یا غیر شعوری طور پر لوگوں کے دلوں میں ایسے وسوسے پیدا کر دیتے ہیں۔ مثلًا: جیسے ہی رمضان شروع ہوتا ہے اور مسجد میں نئے مصلی بڑھنے لگتے ہیں تو بجائے اس کے کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، صحیح تربیت کی جائے تاکہ مستقل مصلی بن جائیں انھیں ”رمضانی مصلی“ کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ اس سے بعض لوگ جو شرماتے ہوئے ہی سہی مسجد کا رخ کر رہے تھے متنفر ہو جاتے ہیں اور بالکلیہ نماز ترک کر دیتے ہیں۔
یہی حال قربانی کا بھی ہے۔ قربانی کے موسم میں بعض حضرات لوگوں پر گوشت خوری کا الزام لگاتے ہیں اور یہ طعنہ دیتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ لوگ رضائے الہی کے لیے نہیں بلکہ ریاکاری وگوشت خوری کے لیے قربانی کر رہے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ آپ انھیں قربانی کا اصل مقصد یاد دلائیں، تقوی وپرہیز گاری پر ابھاریں، لیکن یہ کہہ کر انھیں قربانی سے متنفر نہ کریں کہ وہ رضائے الہی کے لیے نہیں، گوشت خوری کے لیے قربانی کر رہے ہیں۔
میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اکثر وبیشتر لوگ رضائے الہی کے لیے ہی قربانی کرتے ہیں۔ گوشت کھانے کی اللہ نے اجازت دی ہے اس لیے کھاتے ہیں۔ اگر پورا کا پورا صدقہ کرنے کا حکم ہوتا تو کوئی ایک بوٹی نہ کھاتا۔ جیسے کہ زکات کا جو مال نکلتا ہے اسے پورا کا پورا اللہ کے راستے میں دے دیتے ہیں، اپنے اوپر خرچ نہیں کرتے۔
اگر لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہو جائے کہ قربانی کوئی نیکی کا کام نہیں تو کوئی قربانی کرنے والا نہیں ملے گا۔
آج سے تقریبا پندرہ سال پہلے بنگال ومضافات میں بعض علما کی طرف سے یہ غلط پرچار شروع ہوا تھا کہ ایک گائے میں سات لوگوں کی شرکت صرف مسافروں کے لیے جائز ہے، مقیم حضرات کے لیے نہیں۔ مقیم کے اوپر ضروری ہے کہ ایک پورے جان کی قربانی کرے۔
بعض علاقوں کے بارے یہ خبر ملی تھی کہ یکّا دُکّا بعض لوگ جو پورے ایک جانور کی قربانی کر سکتے تھے کیے تھے، ورنہ پورے علاقے میں نہ کے برابر کوئی قربانی ہوئی تھی، کیونکہ گائے کے ساتویں حصے میں شرکت کرنا تو ان کے لیے ممکن تھا، ایک پوری گائے یا بکری قربان کرنے کی ان میں استطاعت نہیں تھی۔
اگر گوشت خوری ہی ان کا مقصد ہوتا تو آخر کس چیز نے انھیں قربانی کرنے سے باز رکھا تھا؟
کتنے لوگ سال بھر ایک کیلو گوشت خرید نہیں پاتے، گوشت کے لیے ترستے رہتے ہیں اور عید میں نہ صرف یہ کہ قربانی کرتے ہیں بلکہ کئی کیلو گوشت دوسروں کو دے دیتے ہیں۔
اس لیے برائے مہربانی لوگوں کی نیتوں پر شک نہ کریں۔ ہاں انھیں قربانی کے اصل مقصد کی ضرور تبلیغ کریں۔ تقوی پر ابھاریں لیکن ریاکاری کا الزام نہ لگائیں۔
اسی طرح لوگوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو کسی بھی نیک کام کے کرتے وقت یہ لگتا ہے کہ یہ کام میں ریاکاری کے لیے کر رہا ہوں تو اپنی نیت حتی الامکان درست کرنے کی کوشش کریں، لیکن اس خوف سے اس نیک کام کو ترک نہ کریں۔
آپ کے دل میں یہ خوف آنا کہ”کہیں میں یہ کام ریاکاری کے لیے تو نہیں کر رہا ہوں“ ایمان کی علامت ہے۔ لیکن اگر اس خوف سے آپ نے اس نیک کام کو ہی ترک کر دیا تو یہ شیطان کی جیت ہے۔ اس خوف سے کبھی کسی نیک کام سے پیچھے نہ ہٹیں۔ ہاں ریاکاری کے وسوسے کو دل سے نکالنے کی کوشش کرتے رہیں۔
اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایسے اعمال کرنے کی خوب کوشش کریں جنھیں عموما اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ مثلا: تنہائی میں اللہ کے سامنے رونا، گناہوں سے توبہ کرنا، تہجد پڑھنا، روزے رکھنا، کسی ایسے شخص کی جانی ومالی مدد کرنا اور اس کے ساتھ احسان کرنا جو آپ کو نہ پہچانتا ہو۔ وغیرہ
جب بہ کثرت آپ ایسے خفیہ نیک اعمال کریں گے تو ان شاء اللہ شیطان آپ سے مایوس ہو جائے گا اور رسوا ہو کر دور بھاگ جائے گا۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Luqman

Excellent points

ABDURRAHMAN

زبردست
جزاك الله خيرا