یہ حقیقت ہے کہ علماء کرام کی ایک بڑی تعداد گھروں میں ٹیوشن پڑھاتی ہے، کیونکہ امراء مساجد یا مدارس میں بچوں کو بھیجنے کی بجائے گھروں میں ہی ٹیوٹر سے پڑھوانا پسند کرتے ہیں، یہ ان کےاسٹیٹس کے شایان شان بھی ہوتا ہے، لہذا وہ علماء کو ایک مخصوص رقم دے کر گھروں میں ہی بلاتے ہیں، علماء قلت آمدنی کے پیش نظر اضافی آمدنی کی غرض سے ٹیوشن پڑھانا گوارا کرلیتے ہیں، اس ذریعے سے زندگی کےخزاں رسیدہ چمن میں تھوڑی بہار آجاتی ہے، لڑکھڑاتی زندگی کو ذرا سہارا مل جاتا ہے، شہروں میں تو بعض علماء سائیکل اور بعض بائیک کے ذریعہ گھوم گھوم کر صرف ٹیوشن پڑھاتے ہیں اور ایک خاطر خواہ رقم جمع کرلیتے ہیں، کوئی بہت خوش نصیب ہوا تو بڑے لوگوں کے یہاں موقع پاکر چند ٹیوشن سے ہی پرکشش رقم نکال لیتا ہے جو معقول تنخواہوں کے برابر ہوتی ہے، کہیں کہیں تو طلبہ بھی فارغ اوقات میں ٹیوشن پڑھاتے ہیں اور ٹیوشن کے لیے ایسے ہی غسل اور خوشبو کا اہتمام کرتے ہیں جیسے سلف درس حدیث کے لیے کرتے تھے، لاک ڈاؤن پیریڈ میں جب بہتیرے ائمہ وعلماء کی تنخواہیں روک لی گئی تھیں تو ٹیوشن ہی سے ان کا گھر چل رہا تھا، دیہاتوں میں مکاتب کے طلبہ کو مدرسین ان کے گھروں میں ہی پڑھا رہے ہیں اور لاک ڈاؤن پیریڈ میں جاں بہ لب زندگی کو آکسیجن مل رہی ہے۔
علماء کے ٹیوشن پڑھانے کو بہت سے لوگ معیوب بھی سمجھتے ہیں اور اسے علماء کے وقار کے خلاف قرار دیتے ہیں اور بعض محدثین کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے جنھوں نے بادشاہ وقت کی درخواست کو رد کردیا تھا اور کہا تھا کہ اگر اپنے بچے کو حدیث کا علم دلانا ہے تو اسے چل کر میرے دروازے پر آنا ہوگا، مگر یہ حوالہ دینے والے وہ حوالہ بھول جاتے ہیں کہ بادشاہ وقت کے شہزادے اپنے استاد کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیے جھگڑ پڑتے تھے، لہذا یہ کہنا کہ علماء کسی کے دروازے پر نہ جائیں، ٹیوشن نہ پڑھائیں، معتدل رائے نہیں ہے، بلکہ اصل سچویشن سے صرف نظر کا نتیجہ ہے، ضروری ہے کہ صورتحال کا منصفانہ اور حکیمانہ جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اگر علماء ٹیوشن سے قطع تعلق کرلیں تو اس کے کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے اور کس قسم کے نقصانات سے نئی پود دوچار ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ کیا ٹیوشن پڑھانا واقعی معیوب ہے اور اس سے علماء کے وقار پر حرف آتا ہے؟ کیا تعلیم دینے کے لیے گھروں میں جانا علماء کی شان کے خلاف ہے؟ عزت نفس کو داغدار کرنا ہے؟ ان سوالات پر ایک سوال یہ ہے کہ کیا عصری مضامین پڑھانے کے لیے عصری ٹیچرز گھروں میں نہیں جاتے ہیں؟ اگر ٹیوشن پڑھانا دین کی توہین ہے تو گھروں میں جاکر دعوت دینا یہ کیا کہلائے گا؟ کیا تعلیم دعوت کی قبیل سے نہیں ہے؟ اگر علماء گھروں میں تعلیم دینے جانے سے انکار کردیں اور امراء مسجد یا مدرسے میں بچوں کو بھیجنے سے انکار کردیں تو نقصان کس کا ہوگا؟ کیا اس کے نتائج بد کی ذمے داری علماء پر عائد نہ ہوگی؟
اگر ہم علماء برادری کا بغور مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ علماء بھی دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو اچھی صلاحیتیں لےکر آتے ہیں اور ان کا مطالعہ کسی ایک حد پر ٹھہرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے بلکہ ذوق تجسس انھیں علم و فن کی دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے مہمیز کرتا رہتا ہے، ایسے علماء کو اپنے علم ومطالعہ پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے، ٹیوشن میں پھنس کر جمود کا شکار نہیں بننا چاہیے، ان کے لیے ٹیوشن کے علاوہ بھی باعزت مواقع موجود ہیں اور علم وصلاحیت کے شایان شان امکانات بھی ہیں جہاں سے مادی فائدے بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔
ایک وہ ہیں جو متوسط درجہ کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں، وہ امامت کے کام اور ابتدائی مضامین پڑھانے کی حد تک کارگر ہوتے ہیں، خطبہ بھی ادائے فرض کے طور پر دے لے جاتے ہیں، اس قسم کے علماء سے اس سے زیادہ کی توقع عبث ہے، وہ مطالعہ وتحقیق کی وادی میں آبلہ پا ہونے کی قوت نہیں پیدا کرسکتے، وہ زبان وقلم کی جولانگاہوں کا رخ نہیں کرسکتے، وہ تصنیف وتالیف کا مورچہ سنبھال نہیں سکتے، ان کے لیے اپنے مفوضہ کام کو بحسن وخوبی انجام دینے کے بعد ٹیوشن میں محنت کرنا ذرا بھی معیوب نہیں ہے، کیونکہ مسجد ومدرسہ کی تنخواہ سے یہ اپنے بچوں کی صحیح ڈھنگ سے کفالت نہیں کرسکتے، لہذا آمدنی میں کمی کی بھرپائی ٹیوشن سے کررہے ہیں تو یہ ان لوگوں سے بدرجہا بہتر ہیں جو اہل ثروت کے پاس جا کر اپنی بے چارگی اور غربت کا رونا روتے ہیں اور ہمیشہ عوامی امداد یا تعاون کی راہ دیکھتے ہیں، یا پھر جعلی رسیدوں اور چندے کی چراگاہ کا رخ کرتے ہیں، متوسط صلاحیت کے حامل علماء کا ٹیوشن پڑھانا ذرا بھی معیوب نہیں ہے، لیکن وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنے وقار اور عزت نفس کو کبھی ٹھیس نہ پہنچنے دیں، اپنی عزت کا خیال رکھیں اور دوسروں کی عزتوں کا بھی خیال رکھیں۔
علماء کے ٹیوشن پڑھانے میں دوضروتوں کی تکمیل ہورہی ہے، ایک علماء کی ضروریات پوری ہورہی ہیں، دوسرے دعوتی ضرورت کی تکمیل بھی ہورہی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ اگر کتاب وسنت کے حاملین کے گھروں میں صحیح عقیدے کے لوگ ٹیوشن نہیں پڑھائیں گے تو کوئی اور پڑھائےگا، اگر وہ صحیح عقیدے والا نہ ہوا تو وہ تعلیم کے ذریعے بچوں کے ذہن میں اپنا عقیدہ اور اپنے خیالات اتارے گا، دھیرے دھیرے بچہ اسی رنگ میں رنگ جائے گا جو رنگ اس کے ٹیوٹر کا ہے، یہ تو معلوم ہے کہ بچپن کی پڑھی ہوئی چیز تاحیات دل ودماغ میں نقش رہتی ہے، ایسے نہ معلوم کتنے بچے ہیں جو متاع دین وایمان ضائع کر بیٹھتے ہیں، ضروری ہے کہ حق پرست علماء ایسے گھروں میں ٹیوشن پڑھائیں تاکہ ہماری نسلوں کا فکری ومنہجی تحفظ ہو اور ان گھروں میں بھی موقع تلاش کریں جہاں نئی پود کی فکری ومنہجی اصلاح کا موقع ہو۔
آج کتنے لوگ ہیں جو غیر مسلکی ہوتے ہوئے بھی صحیح العقیدہ گھرانوں میں ٹیوشن پڑھاتے ہیں اور صحیح العقیدہ علماء سے نماز کا طریقہ پوچھتے ہیں تاکہ وہ اہل حق کے بچوں کو اسی طریق پر نماز سکھائیں اور ان کے ٹیوشن پر کوئی آنچ نہ آئے، اب وہ کہاں تک اس بات کا خیال کرے گا کہ بچے کو ہر بات اس کے مسلک ہی کی بتائی جائے، کتنے ہیں جو اہلحدیث بن کر ٹیوشن پڑھاتے ہیں اور غیر محسوس طریقے پر بچے کا ذہن اپنے مسلک کے لیے ہموار کرتے ہیں، ان مشکلات اور الجھنوں کا کوئی معقول حل بتائے بغیر صرف اس بات کی رٹ لگانا کہ علماء کرام کو ٹیوشن نہیں پڑھانا چاہیے اور کسی کے گھر کی کنڈی نہیں بجانی چاہیے، یہ صرف اور صرف یاوہ گوئی اور غیر ذمے دارانہ پروچن ہے اور بس۔
شاندار گفتگو… البتہ ایک چیز رہ گئ کہ گھروں میں ٹیوشن سے جو بعض دفعہ برائی کے راستے جنم لیتے ہیں اس پر بھی اشارہ کرنا چاہیے تھا… ویسے مضمون بہت دلچسپ ہے بارک اللہ فیکم شیخنا
جزاکم اللہ خیرا شیخ محترم
اشارہ کیا ہے شیخ”اپنی عزت کا بھی خیال رکھیں اور دوسروں کی عزتوں کا بھی خیال رکھیں”اتنا اشارہ کافی سمجھا تھا۔
جزاک اللہ خیرا
عمدہ نگارش ہے۔اور وقت کی ضرورت بھی۔
اللہ کرے سب کی سمجھ میں آجائے سبھی بات۔
ٹیوشن کی فیس اگر زیادہ مقدار میں لے جیسا کہ ایک گھنٹہ پڑھانے کے 14000 ہزار ماہانہ تو اس کے متعلق کیا خیال پے۔