ڈاکٹر ذاکر نائک حفظہ اللہ کے متنازعہ بیان’’ میں ہزار ایسی چیزیں گنا سکتاہوں جنھیں اللہ نہیں کرسکتا‘‘ پر چند گزارشات

محمد اجمل عین الحسن شیخ تنقید و تحقیق

مسئلہ کی اچھی طرح وضاحت کے لیے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ان سوالات کی اچھی طرح وضاحت کر دی جائے جن کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے یہ جملہ کہا ہے۔اس کے بعد ہم ڈاکٹر صاحب کے جواب پر توجہ کریں گے پھر اس پر کچھ گزارشات رکھیں گے ۔ اللھم ارنا الحق وارزقنا اتباعہ۔
عصر حاضر میں منکرین خدا( (Atheistsکی جانب سے ایک سوال بکثرت اٹھایا جاتا ہے تاکہ خدا پر ایمان رکھنے والوں کے دل میں شک و شبہ کا کوئی شوشہ چھوڑ دیا جائے۔یہ سوال مختلف الفاظ اور مختلف صورتوں میں مشہور ہے جیسے ’’کیا خدا ایک ایسی چٹان بنا سکتا ہے جسے وہ خود نہ اٹھا سکے؟ کیا خدا ایک ایسی چیز بنا سکتا ہے جو بیک وقت متحرک بھی ہو اور ساکن بھی ہو؟ کیا خدا ایک ایسا دائرہ بنا سکتا ہے جو مربع بھی ہو؟ کیا خدا اپنی طرح ایک اور خدا بنا سکتا ہے؟ ‘‘وغیرہ وغیرہ۔
یہ کوئی نئے سوالات نہیں ہیں بلکہ قدیم زمانے کے فلاسفہ اور منطقیین کے یہاں بھی پائے گئے ہیں۔ اور انھیں omnipotence paradox کا نام دیا جاتا ہے۔اس کی مختلف صورتیں ہیں اور ماہرین فن نے مختلف زاویوں سے بحث کرتے ہوئے اس کا جواب بھی دیا ہے جس کی تفصیلات ویکیپیڈیا پر پڑھی جا سکتی ہیں۔
اب چونکہ ان سوالات کے جواب میں ہاں اور نہ دونوں ہی رب العالمین کے لیے عاجزی کو ثابت کرتے ہیں اس لیے ایک عام مومن کے لیے یہاں معاملہ تشویشناک ہوجاتا ہے۔اسی لیے ڈاکٹر صاحب اس معمہ کو سمجھاتے ہیں اور اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ’ آپ سے پہلا سوال یہ ہوگا کہ کیا اللہ ہر چیز اور کوئی بھی چیز کر سکتا ہے؟ تو ننانوے فیصد لوگ جواب دیں گے کہ جی ہاں اللہ سبحانہ و تعالی ہر چیز اور کوئی بھی چیز کرسکتا ہے۔ پھر وہ آپ سے دوسرا سوال کرےگا کہ کیا اللہ ہر چیز اٹھا سکتا ہے؟ تو ننانوے فیصد لوگ جواب دیں گے کہ جی ہاں اللہ ہر چیز اٹھا سکتا ہے۔ پھر آپ سے تیسرا سوال ہوگا کہ کیا اللہ ایک ایسی چٹان بنا سکتا ہے جسے وہ خود نہ اٹھا سکے؟‘ڈاکٹر صاحب کہتےہیں کہ اب وہ پھنس گئے کیونکہ اگر اب انھوں نے ہاں کہا تو وہ اپنے دوسرے بیان کے مخالف چلے گئے اور اگر نہ کہا تو وہ اپنے پہلے بیان کے مخالف چلے گئے۔
اب اس معمہ کے سمجھانے کے بعد ڈاکٹر صاحب اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل پہلے بیان میں یہ کہنا کہ اللہ ہر چیز اور کوئی بھی چیزکر سکتا ہے، صحیح نہیں ہے۔قرآن و حدیث میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے کہ اللہ ہر چیز اور کوئی بھی چیز کر سکتا ہے بلکہ قرآن میں ہے : ان اللہ علی کل شئ قدیر یعنی اللہ ہر چیز پر powerرکھتا ہے۔یعنی یہ کہ He can do everything and anything غلط ہےاور He has power over all the things درست ہے۔ (اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہےکہ اگر اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے لیکن ہر چیز کر نہیں سکتا تو کیا کرسکتا ہے؟ )تو ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ He can do whatever he wants to do or whatever he intends to do اللہ ہر وہ چیز کر سکتا ہے جو وہ کرنا چاہتا ہے یا جس کے کرنے کا وہ ارادہ کرتا ہے۔
]یعنی پہلے آپ نے ہر چیز کرسکتا ہے اور ہر چیز پر قدرت(power) رکھتا ہے میں فرق کیا پھر ہر چیز مطلقاًکرسکنے کو غلط کہا اور اسے مشیئت الہی کےساتھ مقید کردیا اوراس بات کے لیے فعال لما یرید(سورۃ البروج:۱۶)اورإن اللہ یفعل ما یشاء (سورۃالحج:۱۸) جیسی آیات سے دلیل بھی دی]
پھر ڈاکٹر صاحب اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں ایسی ہزار چیزیں گنا سکتا ہوں جنھیں اللہ نہیں کر سکتا پھر آپ اس کی مثالیں دیتے ہیں کہ ــــ اللہ ایک ایسا انسان نہیں بنا سکتاجو لمبا بھی ہو اور چھوٹا بھی۔آپ ایک چھوٹا انسان لے سکتے ہیں ایک بڑا انسان لے سکتے ہیں لیکن ایک ایسا انسان جو چھوٹا بڑا ہو تو یہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اللہ مجھے اپنی ملکیت سے باہر نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اللہ جھوٹ نہیں کہہ سکتا کیونکہ جھوٹ ungodly چیز ہے اگر خدا جھوٹ کہہ دے تو وہ خدا نہیں رہ جائےگا اسی لیے یہ کہنا کہ اللہ ہر چیز کر سکتا ہے درست نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ اللہ ہروہ چیز کرسکتا ہے جو وہ کرنا چاہےاور جس کے کرنے کا وہ ارادہ کرے لیکن اللہ ungodly things کرنے کا ارادہ نہیں کرتاکیونکہ جس لمحے وہ ایسا کام کرنے کا ارادہ کرے وہ خدا ہونے سے ممتنع ہو جائےگا۔
ہم نے حتی الامکان اختصار کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے جواب کی بنیادی باتوں کو ذکر کر دیا ہے ۔آپ کے ویڈیوز میں اسے مزید تفصیل سے سنا جا سکتا ہے۔
کیا یہ جواب صحیح ہے؟ :
ہماری نظر میں یہ جواب کامن سینس، لوجک اور شرع تینوں کے خلاف ہے۔ کامن سینس کی وضاحت تو ہم ابھی کیے دیتے ہیں۔ لوجک کی وضاحت زیر بحث مسئلہ کے صحیح حل میں آجائے گی اورشرعا ً اس میں کیا غلطی ہے اس کو ہم ان شاء اللہ اخیر میں ذکر کریں گے۔
ڈاکٹر صاحب نے سب سے پہلے ہی ’وہ ہر چیز کرسکتا ہے ‘ اور ’وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘ کے درمیان فرق کیا ہے۔ جبکہcommom sense اس بات کو تسلیم نہیں کرتا۔ اگر آپ کہیں کہ میں اس کام کو کر سکتا ہوں I can do this thing اورکہیں کہ میں اس کام کے کرنے پر قادر ہوں i have power to do thisتو کیا ان دونوں کے معنی میں کوئی بھی شخص فرق کر سکتا ہے؟ عقل اسے قبول ہی نہیں کر سکتی۔تو ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا کہ قرآن میں یہ کہیں نہیں ہے کہ اللہ ہر چیز کرسکتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ایک صریح غلطی ہے۔کیونکہ کام کرسکنا اور کام کرنے پر قدرت رکھنا میں صرف الفاظ کا فرق ہے۔ معنوی فرق تو کام کے انجام دینے اور کام پر قدرت رکھنے میں ہوتا ہے۔جیسے’ میں یہ کام کر سکتا ہوں یا میں یہ کام کرنے پر قادر ہوں لیکن میں یہ کام نہیں کروں گا‘۔
تو ڈاکٹر صاحب کا he can do every thing اور he has power over all things کے درمیان فرق کرنا اور ایک کو صحیح اور دو سرے کو غلط سمجھنا درست نہیں۔بلکہ إن اللہ علی کل شئ قدیر ہی کا معنی ہے کہ اللہ ہر چیز کر سکتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے اور he can do everything کا انکار کر دیا جائے اور صرف he has power over all thingsکو ثابت کیا جائے تو زیر بحث معمہ حل ہی نہیں ہوتا ۔ کیونکہ آپ نے ثابت کیا ہے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اب یہی سوال آپ سے اس طر ح ہوگا کہ ’کیا خدا اس بات پر قدرت (power)رکھتا ہے کہ ایک ایسی چٹان بنا دے جسے وہ خود نہ اٹھا سکے ؟ ‘ اورمعمہ اب بھی باقی ہے ۔ معلوم ہوا کہ اللہ ہر چیز کر سکتا ہے کا انکار لا یعنی اور فضول ہے ۔ اسی لیے ڈاکٹر صاحب کو اس معمہ کے حل کے لیے ایک اور بات کہنی پڑتی ہے ، وہ یہ کہ’ اللہ ہر وہ چیز کر سکتا ہے جو وہ کرنا چاہتا ہے ‘ اور اس کے لیےڈاکٹر صاحب سورۃ البروج کی آیت فعال لما یرید پڑھتے ہیں ۔ جبکہ ان اللہ یفعل ما یشاء اور فعال لما یرید جیسی آیات میں فعل کے انجام دینے کا ذکر ہے فعل کے کر سکنے کا نہیں جسے مبتدی طلبہ بھی سمجھ سکتے ہیں ۔اس لیے صحیح ترجمہ یہ ہوگا کہ he does whatever he wants to do (اللہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے ) نہ کہ he can do whatever he wants to do(جو چاہتا ہے کر سکتا ہے )
اس تجزیے کے بعد امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے جواب میں کیا غلطی ہے وہ واضح ہو گئی ہوگی ۔اب ہم اس معمہ کا صحیح جواب پیش کرتے ہیں جس سے ڈاکٹر صاحب کے جواب میں جو منطقی غلطی ہے وہ از خود واضح ہو جائے گی ۔ إن شا ءاللہ العزیز
جواب :
ہمارے نزدیک دراصل یہ سوال ہی غلط ہے اور اس سوال کو صحیح سمجھتے ہوئے جو بھی جواب دیا جائے گا وہ غلط ہی ہوگا ۔ جسے السوال الخاطی یاsophistry question بھی کہا جا سکتا ہے ۔ جیسے آپ سے سوال ہو کہ کیا آ پ نے اپنی ماں کو مارنا چھوڑ دیا؟ اب اگر آپ نے اپنی ماں پر ہاتھ اٹھایا ہی نہیں ہے تو اس سوال کے جواب میں ہاں یا نہ کہنا آپ کو کوئی فائدہ نہیں دے گا کیونکہ یہ سوال ہی ایسے مفروضے پر کھڑا ہے جو ثابت نہیں ۔ اسی طرح غلط سوال کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ زیادہ ٹھنڈا کون ہے ٹھنڈی کا موسم یا کشمیر ؟ یہاں بھی مقارنہ زمان اور مکان کے درمیان کیا جا رہا ہے اسی لیے یہ سوال بھی غلط ہے ۔
اسی طرح وہ سوال یا بیان جس کی بنیاد اجتماع نقیضین ہووہ بھی غلط ہوگا ۔ اور زیر بحث معمہ بھی اسی قبیل سے ہے ۔ چنانچہ ملحدین کا پہلا سوال کہ کیااللہ ہر چیز بنا سکتا ہے ؟ اللہ کی قدرت مطلقہ کے تعلق سے ہے ۔ اور دوسرا سوال کہ کیا اللہ ایسی چٹان بنا سکتا ہے جسے وہ خود نہ اٹھا سکے ؟یہ عجز کے تعلق سے ہے ۔آسان لفظوں میں اس کا سوال یہ ہے کہ کیا اللہ اس بات پرقادر ہے کہ خود کو عاجز کر سکے ؟ غور کریں کہ قدرت مطلقہ اور عجز دو متضاد صفات ہیں جن کا جمع ہونا عقلاً ہی محال ہے اسی لیے یہ سوال ہی غلط اور بے بنیاد ہے ۔
مزید وضاحت کے لیے اسے ایک اور مثال سے سمجھیں ۔ ایک شخص آپ سےکہے کہ کیاآپ اس ڈھلان سےچڑھ سکتے ہیں ؟ یا کیا آپ اس اونچائی پراتر سکتے ہیں ؟ غور کریں سوال ہی اجتماع نقیضین پر قائم ہے۔ کیونکہ اونچائی لازمی طور پر چڑھنے کا تقاضہ کرتی ہے اور نیچائی لازمی طور پر اترنے کا تقاضہ کرتی ہے ۔
اسی طرح خدا کا خدا ہونا ہی قدرت مطلقہ کا تقاضہ کرتا ہے اور سوال خدا کے عجز کے تعلق سے ہو رہا ہے جو محال اور ناممکن ہے ۔ اس لیے یہ سوال ہی بے بنیاد اور غیر منطقی ہے۔ مزید آسانی سےاس بات کو سمجھنے کے لیے ذیل کی اصطلاحات معاون ہوں گی۔
واجب الوجود: عقل جس کے وجود کا انکار ہی نہ کر سکے جیسے ذات باری تعالی۔
ممتنع الوجود : عقل جس کے وجود کو تسلیم ہی نہ کرسکے یعنی جو خارج اور ذہن ہر دو جگہ محال اور ممتنع ہو اسے مستحیل لذاتہ بھی کہا جاتا ہے۔جیسے ذات باری کا شریک۔
جائز الوجود: جس کا ہونا اور نہ ہونا دونوں جائز ہو۔ جیسے عام مخلوقات
مستحیل لغیرہ :۔ جس کا وجود ذہن میں تو ممکن ہو پر خارج میں نہیں ۔اسے مستحیل طبعی بھی کہا جاتا ہے ۔
مستحیل لغیرہ در اصل مخلوق کےلیے محال اور ناممکن ہے لیکن خالق کے لیے اس کی قدرت کاملہ مطلقہ کے تحت جائز اور ممکن ہے ۔ اور تمام معجزات اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں ۔
جبکہ مستحیل لذاتہ لا شئ اور عدم ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہےاور باتفاق علماء اسے شئی کا نام بھی نہیں دیاجائے گا ۔
یعنی ان سوالات کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ اللہ رب العالمین ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور ہر چیز کر سکتا ہے لیکن جو صورت آپ بیان کررہے ہیں وہ کوئی چیز ہی نہیں ہے ۔یہاں تک اس کا وجود ذہن میں بھی ممتنع ہے۔اب یہ جنون نہیں تو کیا ہے کہ جس چیز کا وجود تصور میں بھی ممکن نہ ہو اسے بنیاد بنا کر کہا جائے کہ کیا اللہ اس عدم پر قادر ہے۔ استغفراللہ العظیم
اسی لیے علماء کرام نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اللہ کی قدرت ممکنات سے تعلق رکھتی ہے اور مستحیل لذاتہ کوئی شئے ہی نہیں ۔ چنانچہ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
واما اھل السنۃ فعندھم ان اللہ تعالی علی کل شئ قدیروکل ممکن فھو مندرج فی ھذا واما المحال لذاتہ مثل کون الشئ الواحد موجودا معدوما فھذا لا حقیقۃ لہ ولا یتصور وجودہ ولا یسمی شیئا باتفاق العلماءومن ھذا الباب خلق مثل نفسہ وامثال ذلک۔(منھاج السنۃ)
ترجمہ :اہل السنۃ والجماعۃکے نزدیک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہےاور ہر ممکن اس قدرت میں داخل ہے رہی بات محال لذاتہ کی جیسے ایک ہی چیز کا موجود ومعدوم دونوں ہونا تو اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے وجود کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور اسے باتفاق علماء شئ کا نام بھی نہیں دیا جائے گا۔
امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں:
لان المحال لیس بشئ فلا تتعلق بہ القدرۃواللہ علی کل شئ قدیر فلا یخرج ممکن عن قدرتہ البتۃ(شفاء العلیل)اس لیے محال کوئی شئ ہی نہیں ہے تو اللہ کی قدرت اس سے متعلق نہیں کیونکہ اللہ ہر شئ پر قدرت رکھتا ہے،لیکن جو ممکن ہے وہ اس کی قدرت سے خارج نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح ان شا ءاللہ عقیدہ کی ہر دوسری کتاب میں آپ کو یہ بحث مل جائے گی۔
ڈاکٹر صاحب کی غلطی :
امید ہے کہ اب تک یہ مسئلہ واضح ہوگیا ہوگاکہ ڈاکٹر صاحب سے غلطی کہاں ہوئی ہے۔ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں ہزار ایسی چیز یں گنا سکتا ہوں جنھیں اللہ نہیں کرسکتا I can list a thousand THINGS that allah cannot doاور پھر آپ مستحیلات عقلیہ NOTHINGS کی فہرست جاری کردیتے ہیں جو منطق کے خلاف ہے۔
اب آپ کے جواب میں شرعاً کیا قباحت ہے اسے بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اللہ ہر وہ چیز کرسکتا ہے جو وہ کرنا چاہتا ہے ۔اور اس تعلق سے آپ جن آیات کا حوالہ دیتے ہیں اس کی وضاحت شروع میں گزر چکی کہ ان میں فعل کے انجام دینے کو مشیت سے مقید کیا گیا ہےنہ کہ فعل پر قدرت رکھنے کو ۔
چنانچہ اپنے اس جملے میں ڈاکٹر صاحب نے اللہ کی قدرت مطلقہ کو اللہ کی مشیت سے مقید کردیا جو اہل السنۃ والجماعۃ کے متفقہ اصول کے خلاف ہے ۔اور اہل بدعت ، معتزلہ کا عقیدہ رہا ہے۔
شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ شرح العقیدۃ الطحاویۃ میں اس کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دو دلیلوں کی بنیاد پریہ عقیدہ پوری وضاحت کے ساتھ باطل ہے۔
پہلی دلیل :۔ قرآن کی وہ تمام آیات جن میں قدرت کو ہر شئ کے ساتھ ذکرکیا گیا ہے ۔ جیسے ان اللہ علی کل شئی قدیر ۔ نہ کہ علی مایشاء قدیر
دوسری دلیل : اللہ کا ارشادہے ’ قل ھوالقادر علی ان یبعث علیکم عذابامن فوقکم او من تحت ارجلکم او یلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض ‘
آپ فرماتے ہیں:
فدلت الآیۃ علی ان قدرۃ اللہ تتعلق بما لم یشأ۔ یعنی اللہ نے اس امت پر ایسا عذاب نہیں چاہاجو اسے اوپر سے یا نیچے سے آ دبوچے اور یہ واقع نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ اس بات پر قادر ہے۔ آپ آگے فرماتے ہیں:
وھذہ من الکلمات التی یکثر عند اھل العصر استعمالھا فلینتبہ انھا من آثار اھل الاعتزال(اور یہ بھی ان باتوں میں سے ہے جن کا استعمال ہمارے زمانہ میں زیادہ ہو گیا ہے تو آپ ہوشیار اور باخبر رہیں کہ یہ معتزلہ ہی کے آثار میں سے ہے)
شیخ عبد الکریم بن عبداللہ الحصین لکھتے ہیں:
والاولی عدم تقیید القدرۃ بالمشیئۃ خشیۃ الایھام لانہ یفھم منہ ان الذی لا یشاؤہ لا یقدر علیہ وھذا لیس بصحیح( بہتر یہ ہےکہ مشیت کو قدرت سے مقید نہ بیان کیا جائے کیوں کہ اس سے وہم میں پڑ جانے کا خدشہ ہے کہ اللہ جو نہیں چاہتا اس پر قدرت نہیں رکھتا،جبکہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔
امام ابن عثیمین فرماتے ہیں:
وللہ ملک السموات والارض وما بینھما یخلق ما یشاء واللہ علی کل شئی قدیر‘ آیت کریمہ میں اللہ نے ملکیت اور قدرت دونوں کو عموم کے ساتھ بیان کیا اور صفت خلق کو مشیئت کے ساتھ خاص کر دیا اس لیے کہ پیدا کرنا فعل ہے اور فعل مشیئت کے بغیر نہیں ہوتا۔ رہا معاملہ صفت قدرت کا تو یہ صفت ازلیہ ابدیہ ہر اس چیز کو شامل ہے جس کے ہونے کو اللہ چاہے یا نہ چاہے۔لیکن اللہ سبحانہ و تعالی جو چاہتا ہے وہی واقع ہو سکتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ واقع نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح یہ مسئلہ بھی ان شاء اللہ عقیدہ کی ہر دوسری کتاب میں مل جائے گا۔
ڈاکٹر صاحب کی دوسری بڑی غلطی یہ ہے کہ آپ بار بارallah cannot do this and that کے جملے استعمال کر رہے ہیں جو کسی بھی صورت میں تسلیم نہیں کیے جاسکتے۔کیونکہ اس میں اللہ رب العالمین کی جانب عجز کی نسبت ہے ( ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ نے اللہ کے لیے عجز کو ثابت کیا ہے لیکن آپ اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب عجز کی نسبت ضرور کر رہے ہیں) اوریہ بھی معلوم ہے کہ یہ نسبت آپ ان امور میں کر رہے ہیں جو مستحیلات عقلیہ میں سے ہیں۔نیز آپ یہ جملے ایک خاص پس منظر میں کہہ رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ آپ اس طرح کی بات ہر موقع پر نہیں کرتےلیکن اس کے باوجود اللہ جل جلالہ کی شان میں اس طرح کے جملے بالکل برداشت نہیں کیے جا سکتےبلکہ زیادہ ٹھوس الفاظ میں یہ ایک طرح کی توہین ہے۔
اگر آپ قرآن و حدیث کے اسلوب اورعلماء عقیدہ کی تصریحات پر غور کریں تو اس مسئلہ کی سنگینی بھی آسانی سے سمجھ آجا ئے گی چنانچہ صفات باری تعالیٰ کے تعلق سے یہ متفقہ اصول ہے کہ اللہ کے لیے صفات کمال کو ثابت کیا جائے گا اور اس کے مقابل صفات نقص کی نفی کی جائے گی ۔اور اس اثبات و نفی کاطریقہ یہ ہے کہ صفات کمال کا اثبات بالتفصیل کیا جائے گا کہ اللہ الملک ،القدوس ،السلام ،المومن ، المہیمن ، العزیز ، الجبا ر ، المتکبر ، الباری ، الخالق ،الغفور ، الرحیم ہے۔( اسی طور پر)جس کے شواہد قرآن و حدیث میں بکھرے ہوئے ہیں ۔ برخلاف صفات نقص کے کہ ان کی نفی اجمالا کی جائے گی (الا عند الضرورۃ )چنانچہ ہر نا مناسب اور رذیل چیز کا نام لے کر اس کی اللہ سے نفی نہیں کی جائے گی ۔ بلکہ کہا جائے گا کہ سبحان اللہ عما یصفون ، تعالی اللہ عما یقولون علو ا کبیرا ۔
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے: لیس کمثلہ شئ۔ تمام صفات نقص کی نفی میں اجمال ، آگے کہا: وھو السمیع البصیر ، صفات کمال کے اثبات میں تفصیل ۔
آپ کسی معمولی بادشاہ کی بھی ایسی تعریف نہیں کرتے کہ ہر رذیل اور گھٹیا چیز کا نام لے کر اس کی ذات کو ان سے بلند قرار دیں ۔اس لیے بار بار ایسے جملے دہرانا جس میں اللہ کی جانب عجز کی نسبت ہو یقیناً بڑی جرأت مندی کی بات ہے ۔
بلکہ ہم قرآن کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ خیر اور شر سب اللہ ہی کی مخلوق ہیں ۔اور بنا مشیئت الہی کے کسی بھی شخص کو کوئی شر اور ضررلا حق نہیں ہوسکتا اس کے باوجود اللہ کی کمال عظمت اور کمال حمد کا تقاضا ہے کہ کبھی بھی شر اور ضررکی نسبت تک اللہ کی جانب نہ کی جائے چہ جائے کہ کسی صفت نقص (عجز )کی ۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کا کلام دیکھیں ۔ اللہ کا ارشاد ہے: الذی خلقنی فھو یھدین ۔ والذی ھویطعمنی و یسقین ،وإذا مرضت فھو یشفین(اسی نے مجھے پیدا کیا پس وہی مجھے ہدایت دے گا اور وہی ہے جو مجھے کھلاتا ہے اور وہی مجھے پلاتا ہےاور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے)خلق ، ہدایت ، اطعام سقاء ، شفاء، ہر خیر کی نسبت اللہ کی جانب کی لیکن مریض ہونے کے ضرر کو اللہ کی جانب منسوب نہیں کیا ۔ ایوب علیہ السلام کا قول دیکھیں اللہ کا ارشاد ہے :
أنی مسنی الضر وأنت ارحم الراحمین (کہ تکلیف نے مجھے آگھیرا ہے اور تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے)ضر کی نسبت اللہ کی جانب نہیں کی ۔ یہاں تک کہ جنات نے کہا: وأنا لا ندری أشر أرید بمن فی الارض ام اراد بھم ربھم رشداً (ہم نہیں جانتے تھے کہ زمین والوں کے ساتھ شر کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے ان کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا ہے) شر کے ارادے کو صیغہ مجہول سے ذکر کیا اور خیر کے ارادے کو بصیغۂ جزم اللہ کی جانب منسوب کیا ۔ جبکہ معلوم ہے کہ ہر خیر اور شر اللہ کی قدرت کے تابع ہے۔ لیکن اس کی کمال عظمت اور کمال حمد کا تقاضا ہے کہ کبھی بھی اس کی جانب شر کی نسبت تک نہ کی جائے ۔جبکہ عجز توصفت نقص ہے جو قدرت کی ضد ہے ۔اس روشنی میں ڈاکٹر صاحب کے ان جملوں کی سنگینی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
وضاحت :
اگر کوئی شخص ممکن الوجود امور میں اللہ کے لیے عجز کو ثابت کردے، تو یقینا یہ کفر صریح ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب مستحیلات عقلیہ امور(nothing)ہی میں اللہ کی جانب عجز کی نسبت کر رہے ہیں اس لیے اسے کفر کہنا ہمارے نزدیک بڑی جرأت کی بات ہے اور ہم اس میں محتاط ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی نئی ویڈیو :
بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا نیا بیان ان غلطیوں سے پاک ہے جبکہ یہ بات درست نہیں ۔ لیکن اس میں پہلے سے زیادہ سدھاریقیناً ہے ۔
۱۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے نئے ویڈیو میں اللہ یہ نہیں کر سکتا اور اللہ وہ نہیں کر سکتا جیسی نا مناسب تعبیرات استعمال نہیں کی ہیں ۔
۲۔ ڈاکٹر صاحب اس میں ملحدین کے ان سوالات کو غیر منطقی کہہ رہے ہیں ۔
۳۔لیکن آپ ابھی بھی اللہ کی قدرت مطلقہ کو اس کی مشیئت کے ساتھ مقید کر رہے ہیں۔اور اس سلسلے کی آیات کو سمجھنے میں اب بھی غلطی پر ہیں ۔
خلاصہ :
ملحدین کے omnipotence paradox کے جواب میں ڈاکٹر صاحب سے بلا شبہ غلطی ہوئی ہے۔اور اس پس منظر میں آپ سے کچھ نا مناسب اور غلط باتیں بھی سرزد ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائک حفظہ اللہ نے بلا شبہ اسلام کے تئیں عظیم خدمات انجام دی ہیں اللہ سے دعا ہے کہ انھیں قبول فرمائے اور آپ کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے ، اور بلا شبہ آپ سے کچھ کم یا زیادہ چھوٹی بڑی غلطیاں بھی ہوئی ہیں ،اللہ ان سے درگزر فرمائے، اللہ ہم سب کو ‘اولٰئک الذین ھداھم اللہ فبھداھم اقتدہ ‘ کے مطابق ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت کی اقتدا کرنے کی توفیق دے اور ان کی غلطیوں کو ہمیں شرح صدر کے ساتھ قبول کرنے اور قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

13
آپ کے تبصرے

3000
9 Comment threads
4 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
11 Comment authors
newest oldest most voted
Nasim Sayeed Taimi

بہت شاندار وجاندار جزاکم اللہ خیرا

Abu hashim

ڈاکٹر صاحب کو بدنام کرنا بند کرو یار پہلے اپنے بگلیں جھانکیں۔آپ حضرات بھی کچھ خدمات کرینگے تبھی نہ کچھ غلطی کریں گے ورنہ خود کو کہتے پھریں گے کہ واہ کیا ہم علامۃ الدھر ہیں کبھی ہم سے غلطی سرزد نہیں ہوئ ، انصاف کی بات تو یہ ہے کہ آپنے اٹھارہ سال مدارس میں پڑھکر دوسروں پر پلکر کچھ کیا ہی نہیں تو کیا آپ غلطی کریں گے ۔ اور ایک بات بھی بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو دوسرے برادرس ساتھ جوڑ کر خوب بدنام کیا جاتا ہے جبکہ بہت سے کبار… Read more »

طالب علم

اتنی خوش اسلوبی اور احترام کے ساتھ ان کا جواب دیا گیا ہے ، اب اسے بدنامی کہنے کا مطلب یہی لگتا ہے کہ پورا مضمون نہیں پڑھا گیا ہے ،
ورنہ مضمون کے مطالعہ کے بعد کوئی شائد اسے بدنامی کا نام نہ دے ، بس فکر و نظر میں تعصب کا امتزاج نہیں ہونا چاہئے

Abu hashim

ڈاکٹر صاحب کی وہ تقریر قدیم زمانے کی ہے اور وہ بھی ڈاکٹر صاحب کا سمجھانے میں الفاظ کا انتخاب کا مسلہ تھا نہ کہ وہ عقیدۃ اس کے قائل ہے، شک ہوتو وضاحت چاہتے ابھی وہ باحیات ہیں ۔ نیز ڈاکٹر صاحب اپنے بے شمار انگیزی تقریروں میں اپنی غلطیوں کو جو پہلے کبھی ہوئ ہو اسکو اسطرح بیان کرتے ہیں کہ گویا وہ اپنے پرانی غلطیوں کو سمجھ چکے اور اپنے ہی زندگی میں خود درست کرلیے پھر بھی قوم سمجھتی نہیں معاف بھی نہیں کرتے اور یہ سب جدید تراجعات کو کبھی قلمبند نہیں کرتے نہ ہی… Read more »

Wadood Shameem

لگتا ہے اس مضمون میں جس بات پر گفتگو کی گئی ہے اسے آپ نے سمجھا ہی نہیں۔ زیر بحث مسئلہ کو زیرو سمجھا۔ جس دن سمجھ جائیں گے، مضمون نگار کو مادری اور معنوی دونوں طرح سے فائدہ پہوچانے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح کی تحریریں بہت گیرائی اور گہرائی کے بعد کسی ماہر فن سے ہی مل سکتی ہیں۔

مامون رشید ہارون رشید سلفی

ما شاء اللہ بڑی زبردست وضاحت ہے اس قدر مشکل مسئلے کو اس خوش اسلوبی اور آسان فہم انداز میں حل کر دیا گیا ہے کہ کسی کے لئے کوئی اشکال باقی نہیں رہ سکتا… اللہ مزید توفیق عطا فرمائے

دور حاضر میں ان مسائل پر اس طرح لکھنے والے بہت کم لوگ ہیں آپ کو شبہات معاصرہ پر اردو میں کتاب لکھنی چاہئے !!!

Obaid Zahid

آپکا بے لاگ تبصرہ اور کمنٹ سے متّفق ہوں ۔ مامون برو

اجمل حسین

ما شاء اللہ ، عمدہ وضاحت لطیف انداز بہترین اسلوب رہا آپ کا ،
مگر گزارش یہ کہ افتراق و انتشار کا شکار نہ ہویا جائے

فیروز احمد

ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر ہے اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے آمین

Wadood Shameem

اللہ مضمون نگار کو مزید علمی قوت سے نوازے اور دنیا میں کامیاب کرے۔ بڑی سنجیدہ اور جامع تحریر

محمد أسلم النذيري

ماشاء الله تبارك الله
اسلوب بہت پیارا ہے
أحسنت بارك الله فيك

Tanwir Ahmed

ماشاءاللہ انتہائی مہذب اور شائستگی نیز علمی بحث سے ہم آہنگ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی خدمات کااعتراف آپ کے وسعت قلب کا آئینہ دار ہے ۔ ملحدین کی عیاریوں کے جوابات میں ڈاکٹر موصوف سے جو چوک ہوئی ہے یا جسے وہ اپنے دعوتی مشن کے مد نظر بیان کرنے پر مجبور ہیں، اس میں قدرے “سدھار” کی نشاندہی ثابت کرتی ہے کہ منصفانہ تجزیہ یا نقد کیا ہوتا ہے اور حاسدین کایا کٹ حجتی تفرقہ بازوں کا “جہل مرکب” ، “گمرہی” اور دعوت توحید کو “گناۃ” باور کرا کر “گناہ کا کفارہ نکالنے ” کا طعنہ کشی کیا ہوتا… Read more »

خطاط خلیل کرناٹکی جامعی‘ بلاری

الحمد للہ الحمد للہ الحمد للہ بہت عمدہ اور بڑی پیاری تحریر اور وضاحت ہوئی ہے۔
یقیناً ان بنیادی شبہات پر اس قدر اپنائیت سے وضاحت کرنے والے احباب کی کمی ہے۔ رب العالمین سب کو جزاء دے۔ اور ہر لمحہ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے۔ آمین آمین آمین