مغرب سے قبل کی دو رکعتیں اور امام طحاوی کا غیر علمی اصرار

راشد حسن مبارکپوری تنقید و تحقیق

مغرب کی اذان واقامت کی درمیانی سنت کی تاکید حدیث میں آئی ہے۔ صحیح بخاری کے الفاظ اس طرح ہیں:
صَلُّوا قَبْلَ صَلاَةِ المَغْرِبِ، قَالَ: فِي الثَّالِثَةِ لِمَنْ شَاءَكَرَاهِيَةَ أَنْ يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سُنَّةً
یعنی:مغرب سے قبل نماز پڑھو، (دو بار کہنے کے بعد)تیسری مرتبہ آپ نے (اختیار دیتے ہویے)فرمایا:جو چاہے وہ پڑھے، ایسا اس خوف سے کہا تاکہ کہیں لوگ اسے (لازمی اور ضروری)سنت نہ بنا لیں۔
[یہ اور اس کی ہم معنی روایتیں حدیث کی مختلف کتابوں میں موجود ہیں، یہاں ہم چند مشہور حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں :أخرجه البخارى، كتاب التهجد، باب الصلاة قبل المغرب(۱۱۸۳)،وأبوداود،تفريع أبواب التطوع وركعات السنة، باب الصلاة قبل المغرب (۱۲۸۱)، والبيهقي في السنن الكبرى(۴۱۶۹)، وابن حبان في صحيحه(۱۵۸۸)، والدارقطني في سننه(۱۰۴۲)]
ایک روایت کے عموم سے استدلال ہے:
عن عبدِ اللهِ بنِ مُغفَّلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْه، أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال: بين كلِّ أذانينِ صلاةٌ
حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں ہیں۔[أخرجه البخارى، كتاب الأذان، باب كم بين الأذان والإقامة(۶۲۷)، ومسلم، كتاب المساجد، بين كل أذانين صلاة(۸۳۸)]
ظاہر ہے اس عموم میں مغرب بھی شامل ہے، مزید برآں دیگر احادیث وآثار سے تائید بھی ہوتی ہے۔ایک روایت ہے:
عن أنسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْه، قال:كان المؤذِّنُ إذا أذَّنَ قام ناسٌ من أصحابِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يَبتدرونَ السَّواري حتى يخرُجَ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وهم كذلك، يُصلُّونَ ركعتينِ قبلَ المغربِ، لم يكُن بين الأذانِ والإقامةِ شيءٌ، وفي روايةٍ:إلَّا قليل(حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ (عہد رسالت میں)جب مؤذن اذان دیتا تو صحابہ کرام ستونوں کی طرف لپکتے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے باہر تشریف لاتے تو لوگ اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے ملتے۔ یہ جماعت مغرب سے پہلے کی دو رکعتیں تھیں۔ اور (مغرب میں)اذان اور تکبیر کے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔ ایک روایت میں یوں ہے اذان اور تکبیر میں بہت تھوڑا سا فاصلہ ہوتا تھا۔
[أخرجه البخارى، كتاب الأذان، باب كم بين الأذان والإقامة(۶۲۵) ومسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب استحباب ركعتين قبل صلاة المغرب(۸۳۷)]
ایک اور روایت میں اس طرح ہے:
عن أنسِ بنِ مالكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْه، قال: كنَّا بالمدينة، فإذا أذَّنَ المؤذِّنُ لصلاةِ المغربِ ابتدروا السواري فيَركعون ركعتينِ ركعتينِ، حتى إنَّ الرجُلَ الغريبَ ليدخُلُ المسجدَ فيَحسَبُ أنَّ الصلاةَ قد صُلِّيتْ؛ من كثرةِ مَن يُصلِّيهما(حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ میں ہوتے تھے، مؤذن مغرب کی اذان دیتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ستونوں کی طرف تیزی سے لپکتے، دو دو رکعتیں پڑھتے، لوگ اس کثرت سے یہ نماز پڑھتے کہ مسجد میں آنے والا کوئی اجنبی شخص سمجھتا کہ مغرب کی نماز ہوچکی ہے)
[أخرجه البخارى، كتاب الأذان، باب كم بين الأذان والإقامة(۶۲۵) ومسلم كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب استحباب ركعتين قبل صلاة المغرب(۸۳۷)]
صحیح بخاری ہی کی ایک اور روایت اس طرح ہے:
عن مَرْثَد بْن عَبْدِ اللَّهِ اليَزَنِيّ، قَالَ:أَتَيْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الجُهَنِيَّ، فَقُلْتُ:أَلاَ أُعْجِبُكَ مِنْ أَبِي تَمِيمٍ يَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلاَةِ المَغْرِبِ؟ فَقَالَ عُقْبَةُ:«إِنَّا كُنَّا نَفْعَلُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»، قُلْتُ: فَمَا يَمْنَعُكَ الآنَ؟ قَالَ: «الشُّغْلُ»(حضرت مرثد یزنی کہتے ہیں، میں عقبہ بن عامر جہنی صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا آپ کو ابوتمیم عبداللہ بن مالک کے حوالے سے تعجب خیز بات بتاؤں کہ وہ نماز مغرب سے پہلے دو رکعت نفل پڑھتے ہیں۔ اس پر عقبہ نے فرمایا کہ ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسے پڑھتے تھے۔ میں نے کہا پھر اب چھوڑ کیوں دیا ؟ جوابا فرمایا کہ کاروبار دنیا کی مصروفیات موقع نہیں دیتیں)
[أخرجه البخاري، كتاب التهجد، باب الصلاة قبل المغرب(۱۱۸۴)، وأحمد في مسنده(۱۷۴۱۶)، والطبراني في الاوسط(۹۳۳۶)، والبيهقي في السنن الكبرى(۲/۶۶۸)]
ہندوستان کے مذہبی ماحول کی روشنی میں دیکھا جایے تو یہ متروکہ سنتوں میں سے ہے، یعنی لوگوں نے اسے عموما فراموش کررکھا ہے، مغرب سے پہلے دو رکعت سنتوں کا عمومی رواج نہیں، سنت پر عامل حلقوں میں اس پر باقاعدگی سے عمل بھی ہے، یہ ضرور ہے کہ اسے تسلسل کے ساتھ نہ پڑھنا چاہیے، ہمیشگی نہ برتنی چاہیے، بلکہ آپ ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں ناغہ کر کے پڑھنا چاہیے، لیکن اس اہم سنت کو لوگوں نے وہ اہمیت نہ دی، اس کی طرف توجہ دینے اور مسجدوں میں عوام کو اس حدیث پر گفتگو کرنے اور انںں اس کی اہمیت سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے، حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ اس سنت کی بابت ایک بڑا طبقہ لاعلم ہے، جو عاملین سنت کے لیے بھی افسوس کی بات ہے، اس طرح یہ ذمہ داری ان پر مزید بڑھ جاتی ہے۔
ائمہ محدثین نے اپنی کتابوں میں اسی نام کے ساتھ خاص ابواب قائم کےب ہیں، جن سے نہ صرف اس کی اہمیت کا مزید اندازہ ہو تا ہے، بلکہ ان ائمہ دین کے واضح موقف کا بھی پتہ چلتا ہے کہ انو ں نے نماز مغرب کے باب میں ضمنا تذکرہ نہ کرکے باقاعدہ اس سنت کے لیے مستقل باب قائم کیا۔
امام بخاری نے باب قائم کیا ہے :باب الصلاۃ قبل المغرب(۲؍۵۹-۱۱۸۳)
یہی باب امام ابوداؤد نے بھی قائم کیا ہے:باب الصلاۃ قبل المغرب(۲؍۲۶-۱۲۸۱)
امام ابن حبان نے باب قائم کیا ہے :ذکر أمر المصطفیٰﷺ بالرکعتین قبل المغرب(۴؍۴۵۷-۱۵۸۸)
اسی طرح امام بیہقی نے باب قائم کیا ہے :باب من جعل قبل صلاۃ المغرب رکعتین(مغرب سے پہلے دورکعتیں پڑھنے کا بیان)[السنن الکبری:۲؍۶۶۶-۴۱۶۹]
امام ابوبکر ابن المنذر نیساپوری نے باب قائم کیا ہے:ذکر الصلاۃ بین أذان المغرب وإقامتہ یعنی مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان نماز پڑھنے کا بیان (الوسط فی السنن والاجماع والاختلاف:۳؍۵۶-۱۲۲۶)
امام ابن المنذر نے اس باب کے بعد یہی مذکورہ حدیث ذکر کی اور بڑی اہم بات تحریر فرمائی، لکھتے ہیں :
وفی ھذا الباب أخبارٌ کثیرۃٌ عن أصحابِ رسول اللہ ﷺ، وقد ذکرتھا فی کتاب قیام اللیل(مصدر سابق)
یعنی اس باب میں بہت سی احادیث وآثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے وارد ہیں ، ان کا ذکر میں نے ’قیام اللیل‘میں کردیا ہے ۔
مذکورہ ائمہ کرام نے ایک ایک باب کے تحت متعدد احادیث ’مغرب سے پہلے دورکعت پڑھنے‘ کی بابت ذکر کی ہیں، بلکہ بعض نے دسیوں احادیث اور خود صحابہ کرام کا عمل اور ان کے غیر معمولی اہتمام کے واقعات ذکر کیے ہیں، بعض احادیث میں ہے (جیسا کہ ابھی ہم ذکر کر آیے ہیں) کہ مدینہ میں یہ نماز اس کثرت سے پڑھی جاتی کہ بعد میں آنے والے لوگ سمجھتے کہ مغرب کی نماز ختم ہوچکی ہے ، اس کثرت سے اس بابت احادیث وارد ہونے کے باوجود مسلمانوں کی توجہ کم ہے، خصوصاً ہمارے ہندوستانی ماحول میں لازمی طور سے تین چار منٹ کا وقفہ اذان کے بعد ہونا چاہیے، تاکہ پڑھنے والے یہ نماز پڑھ لیں، اس سے ہماری نمازوں سے معاشرتی بے رغبتی کا بھی اظہار ہوتاہے ۔اللہ توفیق دے ۔
امام طحاوی کا غیر علمی اصرار:
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ’مغرب سے پہلے سنت پڑھنے‘کے برخلاف ایک روایت ، جسے امام طحاوی نے ’مشکل الآثار‘(۱۴؍۱۱۵-۵۴۹۴) میں ، امام دارقطنی نے دسیوں آثار پڑھنے کے سلسلے میں نقل کرنے کے بعد وہی روایت ذکر کی ہے (سنن دارقطنی:۱؍۴۹۷-۱۰۴۰) اسی طرح امام بیہقی نے ’السنن الکبری‘میں (۲؍۶۶۷-۴۱۷۲) ذکر کی ہے ، وہ روایت اس طرح ہے:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ غُلَيْبِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ الْحَرَّانِيُّ أَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنَا حَيَّانُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ رَكْعَتَيْنِ مَا خَلَا صَلَاةَ الْمَغْرِبِ
الفاظ امام طحاوى كےہیں۔
سخت حیرانی کی بات ہے کہ امام طحاوی نے اپنی جلالت علمی کے باوجود اس حدیث کی سند ومتن دونوں کو صحیح اورمعمول بہ ثابت کرنے کے لیے عجیب وغریب تاویلات کا سہارا لیا ہے ، تین باتیں لکھی ہیں:
(۱)دو رکعت سنت جن نمازوں سے پہلے پڑھنے کا حکم ہے ان کا تذکرہ گذشتہ احادیث میں آیا ہے، اس حدیث میں مزید وضاحت کی گئی کہ ان میں سے کس وقت نہیں پڑھنی ہے ،ظاہر ہے وہ مغرب ہے۔
(۲)گذشتہ احادیث میں پڑھنے کا حکم ہے ، یہاں منع ہے، قاعدہ ہے کہ جب حکم اور منع اکٹھا ہوجائیں تو منع کو ترجیح ہوگی ۔
(۳)یہ حدیث گذشتہ احادیث کی ناسخ ہے، لہٰذا عمل اس پر ہوگا ان پر نہیں۔ (شرح مشکل الآثار: ۱۴؍۱۱۶)
وَلَمْ يَخْلُ حَدِيثُ حَيَّانَ هَذَا مِنْ أَحَدِ وَجْهَيْنِ: إِمَّا أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الصَّلَاةِ الْمَأْمُورِ بِهَا فِي الْحَدِيثَيْنِ الْأَوَّلَيْنِ، فَيَكُونَ مَا فِيهِ تِبْيَانَ تِلْكَ الصَّلَاةِ، أَيَّ صَلَاةٍ هِيَ، وَهِيَ سِوَى صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، أَوْ يَكُونَ غَيْرَ ذَلِكَ الْحَدِيثِ، فَيَكُونَ فِيهِ الْمَنْعُ مِمَّا قَدْ أَمَرَ بِهِ فِي ذَلِكَ الْحَدِيثِ، وَإِذَا اجْتَمَعَ الْأَمْرُ وَالنَّهْيُ، كَانَ النَّهْيُ أَوْلَى مِنَ الْأَمْرِ، أَوْ يَكُونُ كَانَ نَاسِخًا لِمَا فِيهَا، فَيَكُونُ النَّاسِخُ أَوْلَى مِنَ الْمَنْسُوخِ. (نفس مصدر)
اولاً:
یہ دلچسپ بات ہے کہ امام صاحب نے بذات خود اس حدیث کی سند اور متن پر واضح انداز میں پہلے اپنے تحفظات کا اظہار فرمایا ہے پھر آخر تاویلات کی ضرورت کیونکر پڑی ۔
ملاحظہ فرمائیں :
خَالَفَ حَيَّانُ كَهْمَسًا، وَالْجُرَيْرِيَّ، وَالْحُسَيْنَ فِي إِسْنَادِ هَذَا الْحَدِيثِ، فَذَكَرَهُ بِمَا يَعُودُ بِهِ إِلَى بُرَيْدَةَ، وَخَالَفَهُمْ فِي مَتْنِهِ عَلَى مَا قَدْ ذَكَرْنَاهُ مِنْ خِلَافِهِ إِيَّاهُمْ فِيهِمَا. (نفس مصدر)
اس حدیث کی اسناد میں ’حیان بن عبیداللہ‘نے تین لوگوں کی مخالفت کی ہے:(۱)کھمس (۲) جُریری (۳)حسین المعلم ، غلطی یہ کی کہ حیان نے بسند ’عن عبداللہ بن بریدۃ اسلمی عن بریدۃ اسلمی‘ ذکر کیا ہے ، یعنی’عبداللہ بن بریدہ کا اپنے والد سے روایت کرنا وہ اللہ کے رسولﷺ سے‘اس طرح (جبکہ بقیہ تمام رواة نے بسند ’عبداللہ بن بریدہ اسلمی عن عبداللہ بن معقل مزنی‘روایت کیا ہے ، یعنی عبداللہ کے والد بریدہ اسلمی کا واسطہ نہیں)
دوسرے یہ کہ’متن حدیث‘پورے طور پر ان رواة کے بیان کردہ متن کے مخالف ہے ۔
امام صاحب کے سند ومتن پر خود اپنے ان واضح تحفظات کے بعد ان تاویلات کی چنداں ضرورت تھی یا نہیں یہ اہل نظر کی خاطر ہم قلم انداز کرتے ہیں، مگر کیا کہیں اس ’مذہبی وارفتگی‘ کو کہ دسیوں صحیح وثابت شدہ احادیث کی موجودگی میں ایک ناقابل حجت حدیث کو ثابت کرکے اس کی دور ازکار تاویلات کے ذریعےصحیح کرنے کی کوشش کی جائے، غالباً اگر ہم یہاں امام ابن کثیر کا وہ مشہور قول نقل کریں جو حسن جاناں کی مذہبی فریفتگی میں بے خود ہوجانے کی قلعی کھولتا ہے تو طبع نازک پر گراں گذرے گا اور وابستگان دامن فقہ کے لیے باعث تشویش ہوگا، ہم اس کے لےق معذرت خواہ ہیں ۔
ثانیاً :
امام بیہقی یہ حدیث نقل کرنے کے بعد بسند امام بخاری امام ابن خزیمہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
حیان بن عبیداللہ نے اس اسناد میں غلطی کی ، کیونکہ کھمس بن الحسن ،سعید بن ایاس الجریری اورعبدالمومن العتکی نے بسند ’عن ابن بریدہ ،عن عبداللہ بن مغفل‘روایت کیا ہے جبکہ اول الذکر نے بسند’عن ابن بریدہ عن ابیہ‘
(۱)حیان بن عبداللہ نے دیگر احادیث جو بسند ’عبداللہ بن بریدہ عن ابیہ‘وارد ہیں انیںن دیکھ کر یہ گمان کرلیا کہ یہ حدیث بھی اسی طرح ہوگی ۔
(۲)یہ بھی ممکن ہے انووں نے اس سنت کا زیادہ اور عمومی اہتمام کرتے ہوئے لوگوں کو نہ دیکھا تو انیںک لگا ہو کہ مغرب سے پہلے سنت پڑھی ہی نہیں جاتی اور اس کلمہ یعنی ’ماخلا المغرب‘(مغرب کے علاوہ)کا اضافہ کردیا ہو۔
(۳)اس روایت میں غلطی ہوئی ہے، اس کا اظہار حضرت امام عبداللہ بن مبارک کے اس قول سے بھی ہوتا ہے:
ابن بریدہ اسلمی مغرب سے پہلے دورکعتیں پڑھتے تھے ، اگر انو ں نے ’بسند بریدۃ عن النبی ﷺ‘یہ استثناء (ماخلا المغرب)اس روایت میں(نبی ﷺ)سے سنا ہوتا، جسے حیان بن عبیداللہ نے اس حدیث کا حصہ بنادیا تو وہ نبی ﷺ کی حدیث مبارک کی ہر گز مخالفت نہ کرتے۔
وَأنبأ أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ثنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، يَعْنِي ابْنَ خُزَيْمَةَ، عَلَى أَثَرِ هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ: حَيَّانُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ هَذَا قَدْ أَخْطَأَ فِي الْإِسْنَادِ؛ لِأَنَّ كَهْمَسَ بْنَ الْحَسَنِ، وَسَعِيدَ بْنَ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيَّ، وَعَبْدَ الْمُؤْمِنِ الْعَتَكِيَّ رَوَوَا الْخَبَرَ عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ لَا عَنْ أَبِيهِ، … فَهَذَا الشَّيْخُ لَمَّا رَأَى أَخْبَارَ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ تَوَهَّمَ أَنَّ هَذَا الْخَبَرَ هُوَ أَيْضًا عَنْ أَبِيهِ، وَلَعَلَّهُ لَمَّا رَأَى الْعَامَّةَ لَا تُصَلِّي قَبْلَ الْمَغْرِبِ تَوَهَّمَ أَنَّهُ لَا يُصَلَّى قَبْلَ الْمَغْرِبِ، فَزَادَ هَذِهِ الْكَلِمَةَ فِي الْخَبَرِ، وَزَادَ عِلْمًا بِأَنَّ هَذِهِ الرِّوَايَةَ خَطَأٌ أَنَّ ابْنَ الْمُبَارَكِ قَالَ فِي حَدِيثِهِ عَنْ كَهْمَسٍ: فَكَأَنَّ ابْنَ بُرَيْدَةَ يُصَلِّي قَبْلَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ، فَلَوْ كَانَ ابْنُ بُرَيْدَةَ قَدْ سَمِعَ مِنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الِاسْتِثْنَاءَ الَّذِي زَادَ حَيَّانُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ فِي الْخَبَرِ مَا خَلَا صَلَاةَ الْمَغْرِبِ لَمْ يَكُنْ يُخَالِفُ خَبَرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [السنن الكبرى للبيهقي:۲/۶۶۷]
ثالثاً :
اب ہم’حیان بن عبیداللہ‘ کی بابت جن کی وجہ سے امام طحاوی ؒ کو اس قدر جاں سوزی اور عر ق ریزی کرنا پڑی ناقدین حدیث اورائمہ جرح وتعدیل کی آراء ذکر کرتے ہیں ،جن سے مسئلہ پوری طرح واضح ہوجایے گا، حالانکہ ائمہ فن ناقدین کی واضح تصریحات کے بعد کہ اضافہ ان کی ہی طرف سے ہے چنداں ضرورت نہیں لیکن یاران نکتہ داں کی تسکین کے لیے غالباً یہ ضروری ہے ۔
امام بخاریؒ فرماتے ہیں :
ذکر الصلت منه الاختلاط[میزان الاعتدال للذھبی :۱/۶۲۳] یعنی الصلت نے ذکر کیا کہ’حیان بن عبیداللہ‘ اختلاط کا شکار ہوگئے تھے۔
امام ابن عدی نے ان کا ذکر ’الکامل فی ضعفاء الرجل‘میں فرمایا ہے اخیر میں لکھا ہے :وعامة ما یرویه إفرادات ینفرد بہا(وہ عموماً اپنی روایت کردہ احادیث وآثار میں منفرد ہوتے ہیں)[الکامل لابن عدی :۳/۳۴۷]
امام دار قطنی نے انیںو ’لیس بالقوی‘ کہا ہے ، یعنی وہ ’قوی‘نہیں ہیں۔[السنن :۱/۲۶۵]
امام ذھبی نے لکھا ہے:
وله مناکیر وغرائب (حیان کے یہاں منکر وغریب آثار واحادیث بکثرت پائی جاتی ہیں)[تاریخ الاسلام:۴/۳۴۷]
حافظ ابن حجر نے ’لسان‘میں ان ائمہ کے اقوال نقل کرنے کے بعد مزید کچھ اقوال نقل کےت ہیں ، لکھتے ہیں: امام بیہقی فرماتے ہیں :تکلموا فیہ(اہل علم نے ان پر کلام کیا ہے)
امام ابن حزم نے انیں ’مجہول ‘قرار دیا ہے ۔
امام ابن حبان نے ان کا تذکرہ’ثقات‘میں کیا ہے۔[لسان المیزان لابن حجر :۳/۳۰۹]
امام دارقطنی نے ایک اورمقام پر’ضعیف‘قراردیا ہے ۔’سنن دارقطنی‘(۱/۲۶۴) میں صرف روایت ذکر کی ہے اور روایت اور جرح دونوں ’تخریج الاحادیث الضعاف:۲۰۷‘میں مذکور ہیں ۔ اسی طرح ’لا یثبت‘ (ثابت نہیں) کے الفاظ موجود ہیں۔
[تفصیل دیکھےر:من تکلم فیه الدارقطنی فی کتاب ’السنن من الضعفاء والمتروکین.. لابن زریق المقدسی الصالحی ت :۸۰۳‘ص:۴۶-رقم :۹۱]
امام سیوطی نے ’اللائی المصنوعة فی الأحادیث الموضوعة‘میں بھی یہ حدیث اضافہ کے ساتھ نقل کرکے علماء کے مذکورہ وغیرہ کے اقوال نقل کےا ہیں ۔ [۲/۱۴]
شیخ النقاد علامہ عبدالرحمن بن یحییٰ المعلمی’الفوائد‘میں فرماتے ہیں :
’’اختلط، وحدیث’’بین کل أذانین صلاۃ‘‘، بریدۃ، عن أبیه، مرفوعاً، وزاد فیہ‘‘ إلا المغرب‘‘ وراجع اللأبی (۲/ ۸)
حیان کو اختلاط ہوگیا تھا،’بین کل اذانین صلاۃ‘والی حدیث ثقہ رواة بسند’ابن بریدۃ عن عبداللہ بن المغفل‘ مرفوعاً روایت کرتے ہیں ۔اور اس حیان نے اسی حدیث کو بسند’ابن بریدۃ عن أبيه‘مرفوعاً روایت کیا اور ’إلا المغرب :سواے مغرب کی نماز کے‘ کا اضافہ کردیا۔ (دیکھےر :النکت الجیاد .. من کلام شیخ النقاد : المعلمی:۱/۲۹۷)
ان تمام ائمہ وناقدان کی تصریحات کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ مغرب سے قبل دورکعت سنت پڑھنا درست اورصحیح ہے اور جس روایت میں ’مغرب میں نماز پڑھنے کی نفی کی گئی ہے‘وہ دراصل حیان بن عبیداللہ کا اضافہ ہے اور’حیان‘ضعیف اورمتکلم فیہ راوی ہیں، مزید برآں انوبں نے متعدد ثقہ رواة کی مخالفت کی ہے اور نہ صرف مخالفت بلکہ حدیث کے مفہوم کو بالکل الٹ دیا، لہٰذا ان کی روایت پر اعتماد کرنا سنت کے متضاد راستہ اختیار کرنا شمارہوگا ۔
فائدہ :
یہاں ایک علمی نکتہ بیان کردینا شاید دلچسپی سے خالی نہ ہوگا، قاری کے ذہن میں یہ خیال آسکتا ہے کہ راوی ’حیان بن عبیداللہ‘کی بابت حافظ ابن حجر کی دونوں مشہور کتابوں ’تقریب التھذیب‘ اور’تھذیب التھذیب‘ سے کوئی رائے نقل نہیں کی گئی، جبکہ حکم کے سلسلے میں اہل علم ان پر اعتماد کرتے ہیں ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ابن حجرؒ کی یہ دونوں کتابیں دراصل ’تھذیب الکمال للمزی‘ کا نچوڑ اورخلاصہ ہیں اورتہذیب الکمال میں صرف کتب ستہ اوران کے ملحقات (یعنی بخاری کے ساتھ الأدب المفرد ، مسلم کے ساتھ مقدمہ مسلم ،ترمذی کے ساتھ شمائل ترمذی، ابوداؤد کے ساتھ مراسیل ابوداؤد، نسائی کے ساتھ ’عمل الیوم واللیلہ‘یہ ان کتابوں کے ملحقات کہلاتے ہیں)کے رواة پر بحث کی گئی ہے ، دیگر کتب احادیث کے رواة کے سلسلے میں دیگر کتب کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ راوی ’حیان‘ کتب ستہ کے علاوہ دیگر کتب کے روای ہیں، اس لےک ان کا تذکرہ تہذیب یا تقریب میں نہیں ہے۔

آپ کے تبصرے

3000