علامہ فلاح کی یاد میں

فرحان سعید محمد یعقوب بنارسی تذکرہ

گزشتہ سال اور سال رواں میں وبا کے دوران جو علماء ربانی دنیا سے رخصت ہوئے انھی میں علامہ دکتور ابو محمد فلاح بن إسماعیل بن أحمد المندکار رحمہ اللہ بھی ایک تھے۔
دکتور فلاح مندکار رحمہ اللہ نے کویت ہی میں تعلیم حاصل کی جو کہ آپ کی جاۓ پیدائش تھی، وہیں آپ کی نشوونما ہوئی، آپ کا میلان پہلے پہل انگریزی زبان کی طرف زیادہ تھا، اتنا کہ آپ نے ابتدائی مراحل کے بعد فراغت وتحصیل سند بھی انگریزی زبان سے کیا اور چند سال جامعہ کویت میں مسند تدریس کو بھی زینت بخشی، آپ نے بطور مدرس جامعہ کویت میں چند سال خدمات انجام دیں۔
پھر یوں ہوا کہ آپ کے دل میں علوم دینیہ کے حصول کا جذبہ بیدار ہوا اور ایسا کہ آنا فانا ترک وطن کیا اور مدینہ منورہ چلے آۓ، آپ کا یہ عمل سید البشر ﷺ کے قول: مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ کے مصداق تھا، آپ نے ۱۹۷۶ء میں ترک وطن کیا، اس وقت آپ کی عمر ۲٦ سال تھی۔
مدینہ کے علاوہ بھی متعدد جگہ علوم دینیہ کے مراکز تھے لیکن آپ کو مدینہ میں قائم ایک دہائی قدیم یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ میں زیادہ دلچسپی تھی کیونکہ یہ علوم دینیہ کا مرکز ہے۔ چنانچہ جامعہ اسلامیہ میں داخلے کے بعد آپ نے بکالویورس، ماجستر اور دکتوراہ کے مراحل طے کیے، آپ کے تینوں رسالوں کو غیر معمولی قبولیت حاصل ہوئی اور علما نے آپ کے علم و فضل کو سراہا۔
آپ طول قامت، کامل پیکرِ روشنی، اخلاق حسنہ کے مالک، نرم گفتار اور زندہ دل انسان تھے۔ مہذب طالب، شفیق استاد اور ناصح مشفق تھے، مرنجاں مرنج طبیعت کے حامل تھے، ہمہ وقت تبلیغ دین کے لیے کوشاں و افشاءِ سنت کے خواہاں تھے، آپ کا دل سنت کے نور سے منور تھا، آپ سلیم العقیدہ اور منہج سلف کے پیرو تھے۔
علم الاصول میں آپ کو خاصا درک تھا، فرقہ ضالہ و باطلہ کا دندان شکن جواب دیتے، ان کے اصول و فروع کو تار تار کرتے اور سنت کے علم کو بلند رکھتے تھے، آپ بے باک خطیب بھی تھے۔
اشاعرہ و معتزلہ، جہمیہ و قدریہ، صوفیہ و رافضیہ ان تمام فرقوں کے باطل عقائد، مبہم افکار، فاسد خیالات، سنتِ رسول سے دشمنی، صحابہ سے عداوت، ائمہ کو سب و شتم، محدثین پر بہتان تراشی، علماء ربانی پر زبان درازی، ان تمام چیزوں کو کھول کھول کر بیان کرتے اور ان کے فاسد عزائم کو تار تار کرتے، ان کے اصول و فروع کو پاش پاش کرتے اور اپنی ذات کو انھی کے بغض و عناد کا مرکز بناۓ رکھتے۔
اساتذہ و طلبہ کو آپ سے بے انتہا محبت تھی، آپ اساتذہ کے ہر دل عزیز تھے، علما آپ کی لیاقت و صلاحیت اور دانائی و ہوشیاری کے معترف تھے، محدث عصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کو خاصی انسیت تھی، وہ آپ کے دولت کدے پر تشریف بھی لے جایا کرتے تھے۔ شنید ہے کہ آپ دو مرتبہ تشریف لے گئے، پہلے مدینہ پھر کویت میں۔
آپ کے مشاہیر اساتذہ درج ذیل ہیں:
١- سماحة الشيخ عبد العزيز بن باز ؒ
٢- علامه محمد بن صالح العثيمينؒ
٣- علامه صالح بن فوزان الفوزان
٤- عبد القادر بن حبيب الله السنديؒ
٥- محدث حجاز حماد بن محمد الأنصاريؒ
٦- محمد أمين بن علي الجاميؒ
٧- شيخ عبد الكريم المراد
٨- محدث عبد المحسن العباد
٩- محمد أمين بن محمد مختار الشنقيطيؒ
١٠- علامه ربيع بن هادي المدخلي
ان کے علاوہ بھی بڑے بڑے علماء آپ کے اساتذہ کی فہرست میں شامل ہیں، تمام ناموں کا ذکر باعث طوالت ہوگا۔
طلبہ کا بھی جم غفیر آپ کے ارد گرد جمع رہتا، آپ اکثر طلبہ کے جھرمٹ میں نظر آتے، طلبہ بھی کامیابی و کامرانی کے لیے نصیحت کے طلبگار رہتے اور آپ بھی اپنے تجربات سے نوخیز طالب علموں کی حوصلہ افزائی کرتے، حیات فانی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرتے۔
آپ کی خدمات عظیم ہیں، ملت اسلامیہ کے لیے جانفشانی قدر و منزلت کی حامل ہے، ملک و بیرون ملک میں جا بجا آپ علمی نشستوں میں شرکت کرتے، لوگوں کو کما حقہ وعظ و نصیحت کرتے، جہاں جو ضروری سمجھتے تھے اس پر زور دیتے اور اشارہ بھی کر دیتے، جہاں کوئی کمی دیکھتے فورا متنبہ کرتے، حق گوئی میں ذرا لحاظ ملحوظ نہ رکھتے تھے۔
آپ کا شمار بھی صاحب تصانیف کثیرۃ میں ہوتا ہے، نصف درجن سے زائد آپ کی کتابیں علما و عوام کے لیی نفع بخش ثابت ہوئیں، جو آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنیں گی ان شاء اللہ۔
آپ کے تصانیف درجہ ذیل ہیں:

۱ – العلاقة بين التصوف و التشيع

٢ – تحقيق ثلاث من الشعب الإيمان

٣ – نزعة التكفير خطورتها و علاجها

٤ – الرقي الشرعية بين التنزيل و التطبيق

٥ – الاعتقاد الواجب نتنحى الصحابة

٦ – الاعتقاد الواجب نحو القدر

٧ – الأشاعرة ليسوا من أهل السنة و الجماعة

٨ – العقيدة اولاً

٩ – الأخلاق الإسلامية

١٠ – الملل و النحل

١١ -العقیدہ

اس کے علاوہ آپ کے بے شمار علمی مقالات ہیں جو مختلف رسالوں اور جریدوں کی زینت بنے۔
گزشتہ سال لاکھوں لوگ مہلک مرض سے متاثر ہوئے، اس وبا کی زد میں آپ بھی آگئے۔ اور پھر ایک شام وہ چراغ جو چار دہائی تک مشعلِ راہ بنا رہا، بجھ گیا۔
آپ کی وفات ۲۱ اکتوبر۲۰۲۰ ء مطابق ٦ ربیع الاول ۱٤٤٢ھ کو ہوئی۔
شیخ سلیمان بن سلیم اللہ الرحیلی حفظہ اللہ (خطیب و امام مسجد قباء و مدرس جامعہ اسلامیہ، هية من كبار العلماء) آپ کے شاگرد رشید ہیں، آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:
میں کویت کے تمام علماء کو جانتا ہوں لیکن اگر کویت کے پاس صرف شیخ فلاح المندکار ہوتے تو مجھے امید ہے کہ آپ کافی ہوتے، آپ جیسا رقیق القلب اور لوگوں کا خیرخواہ میں نے اب تک نہیں دیکھا، آپ باشندگان کویت اور خصوصا طالب علم کے لیے نعمت ہیں۔
علامہ صالح السحیمی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
آج ایک جلیل القدر عالم، انتہا خاکسار، صاحب السنہ، توحید کے داعی، ہم سے رخصت ہوۓ، جو اپنے علم، حلم، اخلاق، شناخت میں ایک پہاڑ کے مثل تھے-
مزید فرماتے ہیں:
شیخ رحمہ اللہ نے اپنے قلم سے، زبان سے جہاد کیا، توحید کے متلاشی رہے اور جا بجا نشستوں میں توحید کا پرچم لہراتے رہے۔
غفر الله ذنوبه و ارحمه رحمة واسعة وادخله في الفردوس الاعلی

و صل الله علي نبينا محمد خير خلقه و خلقه وعلي أله و صحبه أجمعين

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالرحيم بنارسي

ما شاء اللہ