تاریخ کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ پوری دنیاے انسانیت نزول قرآن سے پہلے ضلالت وگمراہی کی عمیق کھائیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہی تھی۔خصوصاً عرب معاشرہ ہر اعتبار سے ظلمت وجہالت، شرک وبت پرستی اور ظلم وجور کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔مذہبی،معاشرتی،اخلاقی،سیاسی ہرلحاظ سےفسادزدگی وابتری کا شکار تھا۔ہر طرف معبودان باطلہ کی پرستش کا دور دورہ تھا۔کشت وخون،زناکاری وبدکاری،ظلم وتعدی،سلب ونہب،شراب نوشی،منشیات فروشی اور دیگر اعتقادی واخلاقی بیماریوں نے عرب معاشرے کو زوال وادبار،بہیمیت وہمجیت اور ذلت ورسوائی کے بحر ظلمات میں غرق کر رکھا تھا۔لوگوں کے دلوں کی سختی کا یہ عالم تھا کہ وہ لڑکیوں کو زندہ در گور کردیا کرتے تھے، فقرا و مساکین،ایتام وبیوگان اور سماج کے دبے کچلے لوگوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔غلبۂ بداعتقادی و ظلم وجور کے ان تیرہ وتار حالات میں جب قرآن مجید کا نزول ہوا تو محض چند سالوں میں اس کی تعلیمات وہدایات نے عربوں کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔بد عقیدوں نے اپنے عقیدے کی اصلاح کی خاطر جان ومال کی قربانی دینا شروع کردیا۔ مجرمین کو اپنے جرم کا احساس ہونے لگا۔ظالموں کے تن من میں اپنے ظلم کے انجام بد کے خوف سے ارتعاش پیدا ہونے لگا۔عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات پر فخر محسوس کرنے والے خود عزت وآبرو کے محافظ بن گئے۔شب وروز شراب وکباب میں غرق رہنے والے حکمِ حرمتِ شراب کے نزول کے بعد تمام طرح کی نشہ آور اشیا سے اس طرح تائب ودست کش ہوگئے جیسےانھیں جانتے تک نہیں۔وہ معاشرہ جو آخرت فراموشی کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا، اللہ تعالی کے خوف سے ناآشنائی نے اسے بھیانک جرائم کی دنیا میں از فرق تا بہ قدم غرق کر رکھا تھا،تعلیمات قرآن کے نزول کے بعد وہ باہم شیروشکر بن گیا۔کشت وخون کے دلدادے خود محافظ جان بن گئے۔جس معاشرے میں خود غرضی،بے رحمی اور لوٹ کھسوٹ کا چلن عام تھا،قرآن کی تعلیمات نے اس میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ لوگوں نے ایثار وقربانی اور ہمدردی وخیرخواہی کو اپنا جزوِ حیات بنالیا۔غرض کہ قرآنی تعلیمات نے جو ذہنی ،فکری، اعتقادی،روحانی، اخلاقی،نفسیاتی، معاشرتی،اجتماعی اور سیاسی انقلاب برپا کیا ،پوری انسانی تاریخ تاصبح قیامت اس کی نظیر نہیں پیش کرسکتی۔بقول مولانا الطاف حسین حالی رحمہ اللہ
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی انقلاب انگیز تعلیمات نے عقائد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ،اخلاقیات کی درستگی، کردار کی پاکیزگی اور انسانیت سازی میں زبردست رول ادا کرکےانتہائی مختصر مدت میں کوئلے کو کندن بنادیا اور ضلالت وگمراہی کی پرپیچ وادیوں میں بھٹکتی انسانیت کو شاہ راہ مستقیم پر گامزن کردیا۔
قرآن کریم کا نزول سارے انسانوں اور جنوں کی رہنمائی وہدایت کے لیے ہوا ہے۔دیگر آسمانی کتابوں کی طرح یہ کسی مخصوص جگہ یازمانے کے لیے نہیں ہے۔دشمنان اسلام کا یہ تصور باطل وبےبنیاد ہے کہ قرآن عظیم محض ایک تاریخ کی کتاب ہے۔اس کا نزول مخصوص زمانے کے لیے ہوا تھا، اب اس کی حیثیت وافادیت ختم ہوگئی ہے۔کتاب وسنت کی نصوص اور اجماع امت کی روسے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قرآن کی تعلیمات عالمگیر ہیں۔بہت ساری آیتیں قرآن کریم کی آفاقیت کی مظہر ہیں۔ڈاکٹر محمد خلیل جیجک کی تحقیق کے مطابق قرآن کریم کی عالمگیریت پر دلالت کرنے والی آیتیں تین سو پچاس سے بھی زائد ہیں۔(دلالة أسماء سور القرآن الكريم…ص:۱۳۲)یہاں صرف ایک آیت کریمہ بطور استشہاد بیان کی جاتی ہے جو بڑی وضاحت کے ساتھ یہ ثابت کرتی ہے کہ قرآن کریم سارے جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ (يوسف:۱۰۲)یہ تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔
قرآن کریم کو اللہ تعالی نے پوری دنیا کے لیے ضابطۂ حیات بنایا ہے۔اس کا مقصد نزول پوری انسانیت کو معتدل ومتوازن اور دائمی دستور زندگی فراہم کرنا ہے۔اس کی ہدایات پر چل کر ہی لوگ دنیاوی واخروی فوز وفلاح سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔یہاں قرآن کریم کے مقصدِ نزول پر دلالت کرنے والی دو آیتیں پیش خدمت ہیں:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا (النساء:۱۷۴)اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آپہنچی اور ہم نے تمھاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ (يونس:۵۷)اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے، اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے، اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔
اللہ تعالی نے مذکورہ آیات اور ان کے علاوہ متعدد آیتوں میں قرآن کریم کے نزول کے بنیادی مقاصد کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ان تمام آیتوں کا ماحصل یہ ہے کہ قرآن کریم کو دستور حیات بنانے میں ہی انسانیت کی دنیاوی واخروی کامیابی کا راز مضمر ہے۔اسے ضابطۂ حیات بنائے بغیر دنیا امن وسکون کا گہوارہ بن سکتی ہے نہ اخروی زندگی میں خوش بختی میسر ہوسکتی ہے۔اس لیے اس کے معانی ومطالب پر تدبروتفکرکرنا اور اس کے مقصدِ نزول کو صحیح سےسمجھنا بے حد ضروری ہے، تاکہ ہم اس کے مطابق زندگی گزار سکیں اور اس کے برکات وثمرات سے فیض یاب ہوسکیں۔قرآن کے صحیح علم وفہم کے بغیر اس پر عمل کرنا ممکن نہیں اور عمل کے بغیر اس کے فیوض اور بشارت آمیز آفاقی تعلیمات سے محظوظیت کی تمنا کرنا کریلے کی بیل پر خوشۂ انگور کی امید کے مترادف ہے۔
سلف صالحین نے قرآنی ہدایات پر عمل کرکے کم سے کم مدت میں جس قدر عروج وترقی حاصل کی تھی، تاریخ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ہم سلف صالحین کے عروج واقبال کی مثالیں تو خوب دیتے ہیں کہ انھوں نے انتہائی مختصر مدت میں کس طرح حیرت انگیز ترقی وکامرانی کے مدارج طے کیے اور چہار دانگ عالم میں اسلام اور مسلمانوں کی اقبال مندی کا علم بلند کیا۔لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے یہ سب کچھ کیسے کیا۔ظاہر ہے انھوں نے یہ انقلاب انگیز عروج واقبال قرآن کی ہدایات وتعلیمات کو اپنا دستور العمل بناکر حاصل کیا تھا۔اس کے اسرار ورموز اور احکام وقوانین کی باریکیوں اور حکمتوں پر تدبروتفکر کو انھوں نے شب وروز کا شغل شاغل بنا رکھا تھا۔قرآن نے اپنے متبعین کو جو قانونِ کشور کشائی عطا کیا ہے، اس کے وہ پورے طور پر تابعدار تھے۔غرض کہ وہ قرآن کریم کے نزول کے بنیادی مقاصد سے اچھی طرح واقف اور اس کی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل پیرا تھے۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگ نزولِ قرآن کے بنیادی مقصد سے غفلت شعاری کا شکار ہوتے ہوگئے،قرآن کو دستور حیات بنانے کی بجاے اسے زینت طاق بنا دیا،اس کے پیغامات سے روگردانی کرنے لگے، اس کے قوانین سے منحرف ہوگئے۔اور یوں وہ آہستہ آہستہ عروج وترقی کی جگہ زوال وادبار سے دوچار ہونے لگے۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم کو نازل اس لیے کیا ہے تاکہ اس کی حکمتوں اور اسرار وقوانین پر غوروخوض کیا جائے اور اسے دستور حیات بنایا جائے۔اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کی مذمت بیان کی ہے جو قرآن کریم پر تدبر وتفکر نہیں کرتے۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (محمد:۲۴)کیا یہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں۔
تدبر وتفکر محض قرآن کی مجرد تلاوت اور سماع سے نہیں حاصل ہوسکتا،بلکہ تدبر وتفکر کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھا جائے،اس کے معانی ومطالب کو سمجھنے کی کوشش کی جائے،مفسرین کرام نے جو کتب تفسیر لکھی ہیں ان کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے۔ظاہر ہے اس کے لیے عربی زبان کو اس کے اصول وآداب کے ساتھ سیکھنا ضروری ہے،کیوں کہ وہ خالص عربی زبان میں ہے۔گویا تدبر قرآن کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ عربی زبان پر دسترس حاصل کی جائے۔ورنہ طوطے کی طرح رٹنے اور ریڈیو کی طرح قرآن پڑھنے سے تدبروتفکر تو دور کی بات اس کا سادہ سا مفہوم بھی نہیں سمجھا جاسکتاہے۔قرآن کریم کی مجرد تلاوت سے انسانی زندگی میں انقلاب رونما ہوگا اور نہ اس کے اعمال وافعال اور افکار ونظریات میں کسی طرح کی صالح تبدیلی ہی پیدا ہوگی۔بلکہ انسان قرآن کی تلاوت بھی کرےگااور ان تمام ارشادات وفرامین سے انحراف بھی کرے گا جن کا قرآن حکم دیتا ہے۔اسی طرح ان تمام منکرات وسیئات کا ارتکاب بھی کرتا رہے گا جن سے قرآن سختی سے روکتا ہے۔متعدد آیات کریمہ اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ قرآن کریم کا مقصدِ تلاوت یہ ہے کہ ہم اس پر غوروفکر کریں،اسے سمجھیں،بصیرت حاصل کریں،اس کے مطابق اپنی زندگی گزاریں اور جب بھی فتنوں کی تیز وتند آندھی چلے تو اس کی روشن شاہراہ پر اپنا سفر جاری رکھیں۔ارشاد باری تعالی ہے۔
كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (البقرة :۲۴۲)اللہ تعالی اسی طرح اپنی آیتیں تم پر ظاہر فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھو۔
كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (يونس:۲۴)ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو سوچتے ہیں۔
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (يوسف:۲)یقینا ہم نے اس کو قرآن عربی نازل فرمایا ہے کہ تم سمجھ سکو۔
حروف آخریں یہ کہ عظمت رفتہ کی بازیابی،ذلت وخواری سے رستگاری اور عزت وتمکنت کی حصول یابی اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم قرآن کریم کے مقصد نزول کو اچھی طرح سمجھیں، اس پر تدبر وتفکر کریں اور غفلت شعاریوں سے گریزاں ہوکر اس کے احکام و فرمودات اور قوانین وارشادات کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کریں۔اللہ تعالی توفیق ارزانی کرے۔ آمین
جناب مضمون نگار کو شاید قرآن کریم کے الفاظ کی اہمیت کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے، قرآن کریم کی تلاوت، اس کا حفظ، اس کے ذکر کی کتنی اہمیت ہے شاید آپ کے نظروں سے نہیں گزرا ہے، کیا حفاظ کرام اور ان کے والدین کو قیامت کے روز جو انعام ملنے والا ہے وہ فکر وتدبر کے ساتھ مشروط ہے؟ قرآن کریم کی تلاوت ذکر ہے اور اس سے قلب کو سکون حاصل ہوتا ہے کیا یہ فکر وتدبر کے ساتھ مشروط ہے؟ قرآن کریم کے ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیاں ملتی ہیں کیا یہ بھی تدبر… Read more »
جناب اس مضمون میں قرآن کریم کی تلاوت پر ملنے والے ثواب سے کہاں انکار کیا گیا ہے، بھلا اس کی جرات کون کرسکتا ہے؟ فہم و تدبر کی صلاحیت سے محروم انسان قرآن کریم کے مقصد نزول سے آگاہ ہوسکتا ہے؟ آپ کے اس تبصرے میں کبر کی بو پائی جاتی ہے ۔ اللہ تعالی فکر سلیم عطا فرمائے ۔آمین