دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ عالمی شہرت یافتہ ایک عظیم دینی درس گاہ ہے جس نے اپنے قیام سے لے کر اب تک مختلف علوم و فنون میں ماہر،جید اور چنندہ علماء پیدا کیے جنھوں نے ندوۃ کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس تاریخی درس گاہ کے قیام میں روز اول سے ہی علمائے اہل حدیث نے دل جمعی سے شرکت کی اور اس قدر خدمات انجام دیے جن سے نظر پوشی ممکن نہیں اور نہ ہی حاشیہ میں ان کی خدمات کا ذکر معقول اور منصفانہ ہے گر چہ ان کی تعداد اغیار سے کم تھی لیکن ان کی خدمات بنیادی اور ناقابل فراموش ہیں۔
مولانا شمیم احمد ندوی؍حفظہ اللہ( مدیر مجلہ السراج) علمائے اہل حدیث کی اس قلت کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:
’’ندوۃ العلماء کے بابصیرت اور بالغ نظر بانیان میں اگر چہ مسلک حنفی پر کاربند بزرگوں کی اکثریت تھی جو ملک میں ان کی غالب اکثریت کا طبعی نتیجہ تھا لیکن اس کی تاسیس میں علمائے اہل حدیث کا بھی قابل قدر حصہ تھا اور اول روز سے ہی وہ جوش و خروش کے ساتھ اس سے وابستہ رہے اور اپنی خدمات پیش کیں۔‘‘(ماہانہ مجلہ السراج اکتوبر ۲۰۱۰ ص:۱۸)
•ندوۃ العلماء کی تاسیس میں علمائے اہل حدیث کا کردار:
’’ندوۃ العلماء در حقیقت ایک ہمہ گیر علمی، دینی،اصلاحی تحریک کی حیثیت سے قائم ہوا تھا۔‘‘(روداد چمن مرتبہ مولانا محمد الثانی ص:۱)
۱۸۹۴ء میں (سیرت محمد علی مونگیری رحمہ اللہ ص:۱۱۶)’’اس تحریک کی پہلی کانفرنس مدرسہ فیض عام کانپور میں منعقد ہوئی جس میں ہر مسلک کے نمائندہ علماء جمع ہوئے۔اہل حدیثوں کی طرف سے مولانا ابراہیم آروی اور ابو سعید محمد بٹالوی رحمہما اللہ نمائندگی کر رہے تھے۔‘‘(علامہ محمد ابو القاسم سیف بنارسی حیات و خدمات :۸۶)
کتاب’سیرت مولانا محمد علی مونگیری‘میں جن علماء کا ذکر اس بنیادی جلسہ کے ضمن میں ہوا ہے ان میں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کا نام بھی مرقوم ہے۔(سیرت محمد علی مونگیری ص:۱۱۶)
•مولانا ابراہیم آروی رحمہ اللہ:جب۱۸۹۲ء میں ندوۃ العلماء کا پہلا اجلاس کانپور میں منعقد ہوا تو باوجود یہ کہ آپ ندوۃ العلماء سے کہیں بڑا کام مدرسہ احمدیہ آرہ کے نام سے۱۸۷۸ء سے اور مجلس مذاکرۂ علمیہ کے نام سے ۱۸۹۰ء سے پوری دل جمعی سے انجام دے رہے تھے۔اور اپنے لیے باعث شرف سمجھتے تھے پھر بھی آپ نے ندوۃ العلماء کی تحریک کے لیے غیر مشروط طور پر اپنی ساری صلاحیتیں اور توانائیاں صرف فرما دیں،مدرسہ احمدیہ جیسی بے نظیر عظیم الشان درس گاہ کے ہوتے ہوئے آپ نے ’ندوۃ العلماء‘کی طرف سے دار العلوم کے قیام کے سلسلہ میں بھرپور جد و جہد بھی فرمائی۔(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی: ۲/۲۸۸) اس کے علاوہ آپ کے جانشین’’ڈاکٹر عبد الحفیظ سلفی رحمہ اللہ تا حیات ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی کے ممبر رہے۔‘‘(ماہانہ السراج اکتوبر۲۰۱۲ ص:۱۳)
اور ۱۸۹۸ء میں باتفاق آراء آپ دارالعلوم ندوہ کے صدر مدرس منتخب ہوئے ۔(علمائے اہل حدیث اور ان کی تصنیفی خدمات:۱/۱۳۸)
•مولانا حسن بٹالوی رحمہ اللہ:ندوہ کی تعمیر و ترقی میں آپ کی گراں قدر خدمات ہیں۔’’مولانا بٹالوی رحمہ اللہ ہی کی تحریک سے ندوۃ العلماء کے دستور العمل پر غور کرنے کے لیے علماء کی ایک مجلس تشکیل عمل میں آئی۔‘‘(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی:۲/۲۸۴) اور اس کمیٹی میں شرکت بھی کی۔(سیرت مولانا محمد علی مونگیری ص:۱۲۹)
•مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ:آپ رحمہ اللہ اپنے عنفوان شباب سے لے کر اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس تحریک سے وابستہ رہے بلکہ ندوہ کے قیام کی مشاورتی کمیٹی میں بھی شریک رہے۔(مجلہ السراج دسمبر ۲۰۱۱ص:۱۶)
’’شیخ الاسلام علامہ ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ اس(ندوہ)کے اجتماعات اور پروگراموں میں شرکت فرماتے رہے مشورے دیتے رہے تقریریں بھی کرتے رہے ذاتی طور پر مالی تعاون بھی پیش فرماتے رہے اور اپنے حلقۂ احباب سے تعاون کراتے رہے۔‘‘(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی :۲/۱۹۱)
ان کے علاوہ قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ ندوہ کے دیرینہ رکن تھے۔(چالیس علمائے اہل حدیث ص:۱۲۹)
•ندوہ کے اہل حدیث ناظم و مہتمم:
’’دار العلوم ندوۃ العلماء کے مہتم سب سے نازک دور میں طویل مدت تک مولانا حفیظ اللہ اعظمی اور نواب علی حسن بن نواب صدیق حسن خان رحمہم اللہ رہے اور دونوں کا دور ندوہ کے سنہرے ادوار میں سے ہے۔‘‘(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی:۲/۲۸۷۔۲۸۸)
•مولانا حفیظ اللہ اعظمی رحمہ اللہ:یہ بات گزر چکی ہے کہ آپ رحمہ اللہ ندوہ کے قیام کے وقت سے ہی صدارت کے منصب پر فائز رہے اس کے علاوہ’’۱۹۲۱ءمیں مولانا حج کی ادائیگی کے لیے حجاز تشریف لے گئے وہاں سے واپسی کے بعد اراکین انتظامیہ نے بے اصرار سے پھر (حج کی ادائیگی سے قبل ندوہ چھوڑ کر آپ بنگلہ دیش تدریس کی غرض سے گئے تھے)یہ منصب قبول کرنے کی درخواست کی اس طرح یہ اس کے پہلے مہتمم ہوئے۔ ان کے اہتمام کا یہ زمانہ ۱۹۲۱ء سے ۱۹۳۰ء تک محیط ہے۔‘‘(السراج نومبر ۲۰۱۲ءص:۱۷)
’’۱۸۹۸ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء کے لیے مناسب زمین اور مناسب مکان کے انتخاب کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی اس میں مولانا حفیظ اللہ اعظمی اور نواب محمد یونس رئیس دتاؤلی تلمیذ میاں صاحب رحمہم اللہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔‘‘(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی:۲/۲۸۷۔۲۸۸)
•نواب علی حسن خان رحمہ اللہ:
’’آپ رحمہ اللہ عرصۂ دراز تک معتمد مالیات رہے اور دوسرے انتظامی امور میں بھی حصہ لیتے رہے، مولانا سید عبد الحی صاحب رحمہ اللہ ناظم ندوۃ العلماء کی وفات کے بعد نظامت کے لیے متفقہ طور پر ان کا نام تجویز ہوا اور انھوں نے اپنی مصروفیت کے باوجود اسے قبول کیا۔ندوہ کے چار آخری اجلاس عام انھی کے دور نظامت میں منعقد ہوئے اور انھی کے عہد میں اس تحریک کے قدم پنجاب میں پہنچے اور مضبوط ہوئے۔‘‘(تاریخ ندوۃ العلماء:۲/۲۴۱۔۲۴۲)
آپ کی نظامت کا دورانیہ ۱۹۲۳ء سے ۱۹۳۰ء تک ۸ برسوں پر محیط ہے۔(السراج نومبر۲۰۱۲ ص:۱۸)
•ندوہ کے نصاب تعلیم سے متعلق علمائے اہل حدیث کا کردار:
ندوہ اپنے ابتدائی ادوار میں اپنے جدید نصاب کی بنا پر ممتاز گردانا جاتا تھا،ندوہ کے طلبہ عربی زبان کے ساتھ انگلش اور دوسرے عصری علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے، ندوہ کے اس ممتاز نصاب کے تعین میں علمائے اہل حدیث نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
مولانا شمیم ندوی ؍حفظہ اللہ اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں:
’’نصاب تعلیم کے مسئلہ پر کافی غور و خوض اور بحث و مباحثہ کے بعد ایک خاص کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا کام یہ تھا کہ مسئلہ نصاب کے ہر پہلو پر غور کر کے اپنی سفارشات پیش کرے ،اس ۱۱ رکنی کمیٹی میں ۴ قد آور علماء اہل حدیث بھی تھے۔مولانا ابراہیم آروی،مولانا عبداللہ (صدر مدرس آرہ) اور مولانا عبد الوہاب آروی۔مذکورہ بالا تین شخصیات کے علاوہ اس نصابی کمیٹی میں مولانا حفیظ اللہ اعظمی بھی تھے۔‘‘رحمہم اللہ(السراج مئی ۲۰۱۲ص:۲۱۔۲۲)
’’مولانا محمد یونس خان صاحب رئیس دتاؤلی تلمیذ میاں صاحب رحمہ اللہ ان نمایاں اور سر فہرست لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے اصلاح نصاب کی تائید میں پر مغز اور مدلل تقریریں کیں اور اپنے مقالات پیش کیے۔‘‘(السراج جنوری،فروری۲۰۱۲ ص:۲۳)
مولانا حالی رحمہ اللہ کو بھی نصاب تعلیم کے جلسہ میں مدعو کیا گیا لیکن شریک نہ ہو سکے لیکن اپنی تقریر بھیج دی جو دوسرے وقت ارکان کے سامنے پڑھی گئی اس میں جغرافیہ اور تبدیلی نصاب کی اہمیت و ضرورت کے ساتھ عربی ادب کی طرف خاص توجہ دلائی۔(سیرت مولانا علی مونگیری ص:۱۳۱)
’’جب علوم جدیدہ کے اضافے کی بات بعد کے اجلاس میں سامنے آئی تواصلاح نصاب کے مؤیدین اور حامئین میں مولانا ابراہیم آروی اور مولانا حفیظ اللہ اعظمی رحمہما اللہ پیش پیش تھے۔یہی نہیں بلکہ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی کوشش کے نتیجہ میں ندوہ میں سنسکرت کا شعبہ کھل گیا جس پر اپنی دلی مسرت کا اظہار بایں الفاظ کیا:
’’الحمد للہ ہماری آواز سنی گئی ندوۃ العلماء نے اپنے دار العلوم میں اپنے خیال سے یا میری تحریک سے کسی طرح بھی ہو عربی،انگریزی کے ساتھ سنسکرت کی بھی شاخ کھول دی۔‘‘(السراج اکتوبر۲۰۱۱ ص:۱۶)
الغرض نصاب کی تیاری اور اس کی ترتیب و تزئین میں علمائے اہل حدیث کا گراں قدر حصہ ہے ۔
• ندوہ کے اہل حدیث اساتذہ:
دار العلوم ندوۃ العلماء میں روز اول سے ہی علمائے اہل حدیث نے تدریسی خدمات دینا شروع کر دیا تھا۔
’’مولانا حفیظ اللہ اعظمی رحمہ اللہ ۱۸۹۸ء میں متفقہ طور پر صدر مدرس منتخب ہوئے اور مسلسل گیارہ سال تک درس و تدریس میں مشغول رہے۔‘‘(علمائے اہل حدیث اور ان کی تصنیفی خدمات:۱/۱۳۸)
مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ کے والد گرامی سید عبد الحی حسنی رحمہ اللہ کے دور میں مولانا سید امیر علی ملیح آبادی ندوہ میں تین سال بطور مدرس رہے اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔(قافلۂ حدیث از مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ص:۱۴)
اور ۱۹۶۱ء میں مولانا عبد النور ندوی ازہری رحمہ اللہ کی بحیثیت مدرس تقرری عمل میں آئی۔(السراج فروری تا مئی ۲۰۱۳ ص:۲۴)
مذکورہ بالا علماء کے علاوہ شیخ حلیم عطا،علامہ خلیل عرب(السراج جنوری۲۰۱۳ص:۲۴)علامہ محمد عرب،شیخ حسین عرب محدث یمنی (حیات شبلی ص:۳۴۱)علامہ تقی الدین ہلالی (مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی:۲/۱۴۵)شیخ عبد الغفار جیراج پوری (المحدث الشيخ ابو الحسن عبيد الله الرحمانی: مؤلف شيخ أسعد العظمي حفظه الله ص:۱۲۱)،مولانا عبد السلام ندوی رحمہ اللہ (چالیس علمائے اہل حدیث ص:۲۴۵) امیر علی محدث (مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی:۲/۳۰۱)مولانا رئیس احمد ندوی اور مولانا مسعود احمد ندوی رحمہم اللہ مختلف ادوار میں اپنے علم سے اس دانش کدہ کو سیراب کرتے رہے۔
•شعبہ صحافت اور علمائے اہل حدیث:
ندوہ کے اس شعبہ میں بھی علمائے اہل حدیث نے جوش و خروش سے حصہ لیا اور کئی مضامین لکھے۔’’مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ نے تو ’الندوہ‘ کی ایڈیٹری اور اس کی مختلف کمیٹیوں کی رہنمائی کی ۔‘‘(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی:۲/۱۴۵) اکتوبر ۱۹۰۵ء سے مارچ ۱۹۰۶ء تک آپ ایڈیٹر رہے۔(حیات شبلی ص:۳۵۷)
مولانا عبد السلام ندوی رحمہ اللہ’’۱۹۱۰ءمیں جب ندوہ سے فارغ التحصیل ہوئے تو مولانا شبلی نعمانی نے آپ کو ندوہ میں عربی ادب کا استاد مقرر کر دیا اور اس کے ساتھ ندوہ کے آرگن ’الندوہ‘ کا سب ایڈیٹر بھی مقرر کر دیا۔ آپ مارچ ۱۹۱۰ء تا اپریل ۱۹۱۱ء سب ایڈیٹر رہے۔‘‘(چالیس علمائے اہل حدیث ص:۱۴۵)
ندوۃ العلماء سے عربی زبان میں ماہانہ رسالہ کے اجراء کی تجویز ڈاکٹر تقی الدین ہلالی رحمہ اللہ کی تھی۔(السراج فروری ۲۰۱۴ ص:۱۴)اور اولین سرپرست تھے، مولانا مسعود عالم ندوی رحمہ اللہ اس کے ایڈیٹر تھے۔(مولانا مسعود عالم ندوی حیات اور کارنامے ص:۹۳)
نیز ’رابطة الأدب الإسلامي‘ کی ماتحتی میں جو ماہانہ عربی مجلہ شائع ہوا تھا،اس کی ادارت کا فریضہ مولانا نور عظیم(عبد النور) ندوی رحمہ اللہ نے انجام دیا۔(السراج فروری تا مئی۲۰۱۳ ص:۲۶)
•مکتبہ شبلی میں علمائے اہل حدیث کا کردار:
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کے اخلاف نواب علی حسن خان،نواب نور الحسن خان اور ان کے بعد نواب شمس الحسن خاں و غیرہم رحمہم اللہ نے نواب صاحب کا پورا کتب خانہ دار العلوم ندوہ میں استفادہ کے لیے منتقل کر دیا ۔(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی:۲/۲۹۱)
مولانا عبد العزیز میمن راجکوٹی رحمہ اللہ غالبا ایک عظیم کتب خانہ سے بھی ندوہ کا تعاون پیش کیا۔(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی:۲/۲۹۱) آپ رحمہ اللہ نے ندوۃ العلماء میں اہم خطبات بھی دیے ہیں۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں کتاب علامہ عبد العزیز میمن سوانح اور علمی خدمات ص:۹۹)
•مالی تعاون:
’’ندوہ کے مختلف ادوار میں سب سے زیادہ مالی تعاون کرنے والوں میں نواب علی حسن خان،نور الحسن خان اور محمد یونس رئیس دتاؤلی رحمہم اللہ وغیرہ کے نام آتے ہیں۔‘‘(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی: ۲/۲۸۹)
’’مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے تقسیم کے بعد ندوۃ العلماء کو شدید مالی بحران سے نکالنے میں اپنی وزارت تعلیم کے ذریعہ ہر ممکن حصہ لیا۔‘‘(حوالہ مذکور:۲/۲۹۱)
’’مولانا عبد العزیز میمن راجکوٹی رحمہ اللہ نے اپنی وفات سے قبل تقریباً اپنی زندگی بھر کی جمع کی ہوئی پونجی ندوہ کو ہبہ کر دی۔‘‘(حوالہ مذکور:۲/۲۹۱)
’’اکتوبر۱۹۰۵ء میں مولانا شبلی خود بھوپال تشریف لے گئے،سرکار عالیہ سلطان جہاں بیگم فرماں روائے بھوپال(زوجہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ) نے مولانا کو ملاقات کا موقع بخشا۔اس ملاقات کا یہ اثر ہوا کہ سرکار عالیہ نے نومبر۱۹۰۵ء میں مولانا کی موجودگی ہی میں پچاس روپیے ماہ وار کی امداد جاری فرمائی۔‘‘(حیات شبلی ص:۳۵۵)
•ندوہ کے اجلاس میں علمائے اہل حدیث کی شرکت:
ندوہ کے ابتدائی اجلاس سے ہی علمائے اہل حدیث نے اس میں شرکت کی،تقریریں کیں اور مفید مشوروں سے نوازا۔
۱۸۹۲ء میں دستار کے موقع پر جو جلسہ ہوا جس میں علماء کی انجمن کے قیام کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس میں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ شریک تھے۔(روداد چمن ص:۲)
۱۸۹۴ء میں جو اجلاس ہوا تھا اس میں مولانا ابراہیم آروی اور ابو سعید محمد بٹالوی رحمہما اللہ (علامہ محمد ابو القاسم سیف بنارسی حیات و خدمات ص:۸۶)نے شرکت کی۔
ان کے علاوہ دوسرے اہل حدیث علماء نے بھی ندوہ کے متعدد جلسوں میں شرکت کی جن کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں:
نواب علی حسن خان(تاریخ ندوۃ العلماء:۲/۱۷۱)مولانا عبد الحلیم شرر (حوالہ مذکور ص:۲/۲۸۹)مولانا محمد داؤود غزنوی(۲/۳۱۱)مولانا ابو القاسم سیف بنارسی (حوالۂ سابق:۲/۳۴۹)حکیم محمد اجمل خان(حوالۂ سابق:۲/۳۴۸)وغیرہم رحمہم اللہ۔
•ندوہ میں اختلاف اورعلمائے اہل حدیث:
ایک وقت ایسا آیا جس میں ندوہ اپنے اصل اور بنیادی مقاصد سے ہٹ کر تعصب اور تنگ نظری کی روش اختیار کرنے لگا۔ یہ ندوہ کا ایک نازک دور تھا ندوہ کا شیرازہ بکھرنے لگا، آپسی رنجشیں بڑھ گئیں یہاں تک علامہ شبلی رحمہ اللہ کو مستعفی ہونا پڑا ان پر کفر کے فتوے لگائے گئے،طلبہ نے اسٹرائیک کر دی۔ اس صورت حال میں پھنسی کشتی کا سہارا علمائے اہل حدیث بنے جنھوں نے صلح کروائی اور ندوہ کو ایک دوسری زندگی بخشی۔(تفصیل کے لیے دیکھیے کتاب:مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی،حیات شبلی)
اس نازک دور میں مولانا کے ہمدردوں نے ’’مایوس ہونے کے بہ جائے اصلاح ندوہ کی تجویزوں کی طرف متوجہ کیا دوستوں میں خصوصیت کے ساتھ نواب سید علی حسن خان،مولانا ابوالکلام اور شاگردوں میں مولوی مسعود علی صاحب ندوی اور خاکسار (سلیمان ندوی نے)ان کو ندوہ کی اصلاح پر آمادہ کیا۔‘‘(حیات شبلی ص:۵۰۳)
اصلاح کے حامئین نے’’۱۹۱۳ء کی ابتدائی تاریخوں میں مجلس اصلاح ندوہ کی بنیاد ڈالی،نواب سید علی خان مرحوم اس مجلس کے ناظم اور مولوی نظام الدین حسن صاحب صدر قرار پائے۔قصبات اور دیہات میں تقریباً ۵۰ جلسہ مطالبہ اصلاح کی تائید میں مسلسل منعقد ہوئے۔‘‘(حیات شبلی ص:۵۰۴)
اور حق یہ ہے کہ اس وقت اس بلند آہنگی سے ملک میں ندوہ کے انقلاب اور اصلاح کا صور جس نے پھونکا وہ مولانا ابوالکلام رحمہ اللہ کا آتش ریز قلم تھا۔‘‘(حوالہ مذکور)
مسیح الملک حکیم اجمل خان رحمہ اللہ کی مخلصانہ جد و جہد کے نتیجہ میں۱۰ مئی۱۹۱۴ءکو دہلی میں’اصلاح ندوہ‘ کی کانفرنس منعقد ہوئی۔نمائندوں نے بالاتفاق شیخ الاسلام علامہ امرتسری رحمہ اللہ کو اس کانفرنس کی صدارت کی زمہ داری سونپی۔(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی:۲/۲۹۴)
اس کانفرنس میں ندوہ کو اس کے مقاصد پر چلانے کی کوشش کر نے والوں میں نواب علی حسن خان،مولانا ابوالکلام آزاد(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی:۲/۲۹۲)رحمہما اللہ کا نام سر فہرست آتا ہے۔
مذکورہ علمائے اہل حدیث کی مساعی جمیلہ کے نتیجہ میں اختلاف ختم ہوا اور ندوہ بکھرنے سے بچ گیا۔
•دور حاضر میں علمائے اہل حدیث کی خدمات:
دور حاضر میں بھی علمائے اہل حدیث اس تنظیم سے وابستہ ہیں اور گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
حافظ عتیق الرحمان طیب پوری حفظہ اللہ ۵۵ سال سے بحیثیت مسجل خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا یعقوب ندوی حفظہ اللہ اور مولانا عبد الرحمان ندوی حفظہ اللہ تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔(برابطہ: حافظ عتیق الرحمان طیب پوری حفظہ اللہ)
مذکور علماء کے علاوہ’’ندوہ کے ساتھ علمی فکری اور ہمہ جہتی مستقل تعاون کے سلسلہ میں ۔۔۔مولانا علی نعمت پھلواری،استاذ الاساتذہ مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری،مولانا حکیم عبد الحمید صادق پوری،مولانا محمد یوسف رنجور صادق پوری،علامہ شمس الحق عظیم آبادی،مولانا اشرف الحق ڈیانوی،مولانا عبد الجبار عمر پوری،مولانا ضیاء الرحمان عمر پوری،مولانا عبد النور دربھنگوی،مولانا عبد الوہاب صدری دہلوی،شیخ محمد انصار یمانی،مولانا احمد دین سیالکوٹی،علامہ ابراہیم سیالکوٹی،غزنوی خاندان۔۔ مولانا حافظ عبد المنان محدث وزیرآبادی،مولانا الٰہی بخش بڑکری رحمہم اللہ وغیرہ کی شخصیتیں ہیں۔‘‘(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی:۲/۲۸۹۔۲۹۰۔۲۹۱) ساتھ مولوی وحید الزماں خان رحمہ اللہ (حیات شبلی ص:۳۵۵ بحوالہ مکاتیب سلیمان:۵۱) محمد بشیر سہسوانی اور عین الحق پھلواری (مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی: ۲/۳۰۱) کا بھی ذکر ملتا ہے۔
ماشاءاللہ بہت اچھا لگا
ماشاءاللہ میں بھی ندوہ سے پڑھا ہوں اور الحمد اللہ مولانا یعقوب صاحب ندوی حفظہ اللہ سے تفسیر پڑھیں اللَّه تمام اہل حدیث جماعت کی حفاظت اور ترقی فرمائے اور ندوہ کو اور ترقی سے نوازے
مولانا عبد الحفیظ سلفی اور مولانا حفیظ اللہ بندیالوی اعظمی کے درمیان مضمون نگار کو اشتباہ ہو گیا ہے۔