نصاب تعلیم حرف آخر تو نہیں

رشید سمیع سلفی تعلیم و تربیت

نصاب تعلیم پر بات کرنے کے لیے دماغ کا سائز بڑا اور قلم کا معیار بلند ہونا چاہیے لیکن جب دل ودماغ میں چبھتے ہوئے کانٹوں کا درد برداشت سے باہر ہوجائے تو ہم جیسے بے بضاعت بھی کچھ شوق فرمالیتے ہیں؟ پہلی بات یہ ہے کہ نصاب کو تقدس کا درجہ نہیں دینا چاہیے، یہ کہنا کہ برسوں سے ایسے ہی چلا آرہا ہے، بزرگوں نے کچھ سوچ کر ہی بنایا ہوگا، یہ ہمارا وطیرہ کب سے ہوگیا؟ اصلاح وترمیم کی کاوشیں زندہ قوموں کی علامت ہوتی ہیں، انسانوں کی بنائی ہوئی کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتی، اس میں ترمیم واصلاح کی گنجائش ہوتی ہے، ایک زمانے سے چیخنے چلانے کا ایک فائدہ تو ہوا کہ منطق وفلسفہ کا ہمارے نصاب سے دیس نکالا ہوا، لیکن سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے ایسا بالکل بھی نہیں کہہ سکتے ہیں، ابھی بھی تبدیلی واصلاح اور غور وفکر کی ضرورت ہے۔
یہ تغیر پذیر دنیا ہے، یہاں ہر شعبے میں نئے آئیڈیا اور تدابیر پر تجربہ جاری رہتا ہے، اس لیے مدارس کو بھی عصر حاضر کے مزاج کو دیکھتے ہوئے قدم بڑھانا چاہیے، سب سے پہلے تو یہ دیکھا جائے کہ ہم کس سبجیکٹ کو کتنی جگہ دے رہے ہیں اور اس کے نتائج کیا نکل رہے ہیں؟ نحو وصرف متوسطہ سے شروع ہوتا ہے تو عالمیت تک کورس میں شامل رہتاہے، اس کے باوجود بھی عربی زبان کی وہ مہارت طلبہ میں مفقود ہوتی ہے جس سے وہ عربی زبان میں تقریر و تحریر کے میدان میں قدم رکھ سکیں، جدید عربی تو یہ ذرا بھی نہیں سمجھتے، خامی کہاں ہے؟ کہیں طریقۂ کار میں تو نقص نہیں؟ یہ کیسا مائنڈ سیٹ بن گیا ہے کہ بعض ذہین طلبہ کے بارے میں سنا گیا کہ انھوں نے پوری ھدایۃ النحو عبارت سمیت حفظ کرلی تھی، کسی نے کافیہ نوک زبان کر لیا تھا، کوئی پوری ڈکشنری یاد کرچکا تھا، سوال یہ ہے کہ اتنی لمبی ریاضت کی ضرورت کیا تھی؟ بس یہی نا کہ زمانۂ طالب علمی اور دور تدریس میں لوگوں پر اس حوالے کا رعب طاری رہا، قصیدہ گوئی ہوتی رہی، یہ انرجی اس سے بہتر متبادل میں استعمال کی جاسکتی تھی، مسائل پر منتخب احادیث یاد کرلی جاتی یا بعض موضوعات سے متعلق آیات حفظ کرلیا ہوتا تو پوری زندگی قدم قدم پر کام آتی، حفظ کا شوق تھا تو قرآن مجید حفظ کرلیا ہوتا، یہ کتابیں حفظ کرنے کے لیے نہیں بلکہ سمجھ کر پڑھنے کے لیے تھیں۔
گرامر کسی آسیب کی طرح شروع سے لے کر آخر تک اعصاب پر سوار رہتا ہے، بعض لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ گرامر پر مزیدار لطیفے بھی بنا لیتے ہیں، جسے سن سن کر عجم کے طلبہ لطف اندوز ہوتے ہیں، یہاں تک کہ سیبویہ قبر میں ملک الموت سے گرامر کے داؤ پیچ کھیلتا ہوا نظر آتا ہے، طلبہ کا سر رشتۂ ذہن گرامر میں ہی الجھا ہوتا ہے کہ اسے بحیثیت ایک زبان کے پڑھنا مفقود ہوجاتا ہے اور زبان کے دوسرے تقاضے بھی اوجھل رہتے ہیں، اسی لیے العربیہ للجمیع کے ایک استاد نے کہا تھا کہ عربی دانی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ گرامر ہے، حیرت ہے دن رات عربی کتابیں ڈھونے والے طلبہ عربی بول نہیں سکتے، عربی میں چند جملے صحت کے ساتھ نہیں لکھ سکتے، فراغت کے بعد بھی صورتحال جوں کی توں ہوتی ہے، ہمارے طلبہ ان مزدوروں سے بھی گئے گذرے ہوتے ہیں جو دوسال مملکہ میں رہ کر عربی بول چال سیکھ لیتے ہیں، ہمارے فارغین آٹھ سال کے طویل تعلیمی عرصے میں بھی عربی بول چال سے نابلد رہ جاتے ہیں، اس نقص کو دور کرنے کی ضرورت ہے، نصاب اور طرز تدریس کو ایسا بنایا جائے کہ کتاب وسنت سے براہ راست استفادہ کے ساتھ عربی بول چال میں بھی طلبہ ماہر ہوں۔
آگے جاکر حدیث کی کتابوں کا سفر شروع ہوتا ہے، یہ سفر بھی فضیلت سال آخر تک چلتا ہے، اتنے سالوں تک صبح وشام حدیث کا ورد کرنے والے طلبہ اہم ترین مسائل پر حدیث پیش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ روز مرہ کی عبادت نماز کے مسائل کے لیے دلائل کا استحضار نہیں رہتا، درجۃ الحدیث کا بھی پتہ نہیں ہوتا، کبھی کبھار تو حوالے بھی اتنے کمزور لہجے میں دیتے ہیں کہ سننے والے بھی افسوس کرتے ہیں۔ یہ کہنا کہ حدیث میں آیا ہے یا شاید میں نے کہیں پڑھا ہے، ایک عالم کے شایان شان‌نہیں ہوتا، مختلف فیہ مسائل میں اپنا کوئی شعوری موقف نہیں ہوتا بلکہ مسلک کے ماتحت ہوکر ایک طے شدہ موقف سے ذہن‌و فکر کو باندھ لیتے ہیں، میرا مقصد مسائل میں ذہنی آوارگی کی دعوت دینا نہیں بلکہ صحیح موقف کو دلائل کی روشنی میں شرح صدر کی حد تک ادراک کرلینا اور پیش کرنا ہے۔
نصاب کی بعض کتابیں نہ صرف طلبہ بلکہ مدرسین کے معیار سے بھی بلند ہوتی ہیں، چھوٹے اداروں کو بڑے اداروں کی نصابی غلامی سے بچنے کی ضرورت ہے، بڑے اداروں میں ذہین اور معیاری طلبہ جاتے ہیں، اس لیے ان کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور وہ اس معیار کے متحمل بھی ہوتے ہیں، دوسرے اداروں کو اپنے طلبہ کی ذہنی سطح اور علمی معیار کو دیکھتے ہوئے کتابوں کا انتخاب کرنا چاہیے، وگرنہ طلبہ میں متعلقہ فن کا ادراک تو پیدا ہونے سے رہا البتہ امتحانات کے مرحلے کو سر کرنے کے لیے رٹّا بہترین مشغلہ بن جاتا ہے۔
خطابت وتقریر کی مشق تو کرادی جاتی ہے لیکن صحافت میں کم‌ ہی لوگ مہارت لے کر نکلتے ہیں، اردو زبان میں ہی صحیح ڈھنگ کا ایک مضمون تحریر نہیں کرسکتے۔
ایک طویل زمانہ دینی ادارے میں گذارنے کے بعد جذبۂ دین ودعوت مادیت سے مات کھاتا ہوا نظر آتا ہے، قدم قدم پر معاوضے کی طلب اور معاوضے کے بغیر کسی دینی کام میں دلچسپی نہ لینا مزاج بن جاتا ہے، سات آٹھ سال تک جس دل ودماغ پر کتاب وسنت کا نور برستا رہا ہو وہ مادی مطلب برآری سے اوپر اٹھ کر کار دعوت انجام دینے کا شوق نہ رکھے تو افسوس ناک بات ہے، علوم دینیہ سے انسان آراستہ ہوجاتا ہے لیکن دینی جذبات، دعوتی اسپرٹ، مخلصانہ تڑپ اور مومنانہ فکر سے عاری ہوتا ہے، فارغ ہوتے ہی کم تنخواہوں کا مقدمہ لے کر بیٹھ جانا اور سوشل میڈیا پر چیخ وپکار کرنے والوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے، امامت وتدریس کے میدان میں تنخواہوں کے پست معیار سے انکار نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا بے مقصد پروپیگنڈہ کیا معنی رکھتا ہے؟ ابھی جمعہ جمعہ ایک ہفتہ ہوا مدرسے سے نکلے ہوئے کہ تنخواہوں کے بحران کا رونا رونے لگے، آخر تربیت کے نام پر ایسے عناصر کی شخصیت پر مدارس نے کون سی چھاپ چھوڑی ہے کہ رضاکارانہ طور پر قوم و ملت کے لیے کچھ کرنا گراں گذرتا ہے، شاید یہی بات علامہ اقبال نے اپنے انداز میں کہی ہے؂
اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم‌ ناک
نہ زندگی، نہ محبّت، نہ معرفت، نہ نگاہ!
کہنے کو تو بعض عصری مضامین نصاب میں شامل کرلیے گئے ہیں لیکن طلبہ میں عصری مضامین پر درک نہیں ہوتا، وہ تمام مضامین میں کمزور واقع ہوتے ہیں، انگریزی دانی بھی بہت سرسری ہوتی ہے، آخر کیوں نہیں عصری مضامین کو مؤثر اور معیاری بنایا جاتا ہے؟ محنتی اور ماہر اساتذہ رکھے جاتے ہیں؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے طلبہ ایس ایس سی اور ایچ ایس سی کا امتحان مدارس کی عصری تعلیم کے بل پر دے سکتے، کم ازکم سائنس اتنا تو پڑھ لیتے کہ دنیا انھیں چپٹی نہیں بلکہ گول نظر آتی اور زمین کے سورج کے گرد گھومنے پر انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا، جی ہاں عصری مضامین اس درجہ پڑھادیا جائے کہ وہ اہم اور بنیادی معلومات لے کر مدارس سے فارغ ہوں تاکہ وہ عصری علوم کے لیے جگہ جگہ اجنبی ثابت نہ ہوں۔
تدریس صرف چٹائی توڑنے اور کلاس روم میں یکطرفہ لیکچر دینے کا نام نہیں ہے بلکہ بلیک بورڈ کا استعمال اور مضمون پر ترکیز کے لیے مؤثر طریقۂ تدریس کا استعمال ضروری ہے، طریقۂ تدریس کو جدید اسلوب سے ہم آہنگ کرنا اور سوالیہ انداز میں پڑھانا بہت مفید ہوتا ہے، طلبہ پر دستور زباں بندی ایک غیر سنجیدہ عمل ہے، کلاس میں انھیں کھل کر اپنا مدعا رکھنے کی اجازت ہو، استاد کو کلاس روم میں طلبہ کے ذہنوں سے جڑ کر کلاس لینا چاہیے، مشق وتمرین کے جدید طریقوں سے استفادہ بھی ہو۔
یہ فتنوں کا دور ہے، جدید دور کی ترقی اور افکار ونظریات نے معصوم ذہنوں میں جو گرد و غبار بھرا ہے، اسلامی حقائق کے گرد سوالات اور شکوک وشبہات کا جو تانا بانا پھیلایا ہے، اس کا‌ شعور، تجزیہ اور علمی سطح پر اس سے مقابلے کے لیے تربیت بنیادی کام ہے، ا‌نکار حدیث، الحاد، لبرلزم، تشکیک، جدیدیت، مغرب کے فکری یلغار کے جواب کے لیے طلبہ کو علمی وعقلی ہتھیاروں سے لیس کرنا مدارس کا فرض ہے؟ ذرا ان کو کتابوں کے بالاخانے سے نیچے لاکر فکری یلغار اور حقیقت کی دنیا کے نشیب وفراز سے آگاہ کیا جائے، وگرنہ بعد از فراغت ہمارے طلبہ دنیا کی بھیڑ میں ایسے ہی ہوں گے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے؂
بے رحم سوالات کی بارش میں کھڑے ہیں
اوراق لیے منطق وفلسفہ کے سارے
حیرت ہوتی ہے ان طلبہ پر جو مدارس سے نکل کر یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں تو وہ یکسر بدل جاتے ہیں، وضع قطع، انداز فکر، ترجیحات پہلے جیسی نہیں رہ جاتیں، اسلامی تشخص کا یونیورسٹی کے ماحول میں قلب ماہیت ہوجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مدارس کی آٹھ سالہ تربیت اس قدر غیر مستحکم تھی کہ جو وقتی ہواؤں سے مات کھا گئی، اگر لوگ اسے ترقی اور بیدار مغزی کہتے ہیں تو مجھے بتائیں کہ وہ یونیورسٹی سے نکل کر خدمت دین کے نام پر کیا کررہے ہوتے ہیں؟ صرف مدارس پر اپنا نزلہ گراتے ہیں، دقیانوسی اور فرسودگی کا طعنہ دیتے ہیں، جی ہاں انھی مدارس پر جن کی اسناد پر وہ یونیورسٹی کے لائق بنے تھے، مدارس کے طلبہ یونیورسٹی میں الحاد ودہریت کے حملے سے بھی اپنے عقیدہ وفکر کی حفاظت نہیں کرسکے ہیں، ایسی بھی مثالیں سامنے آتی رہی ہیں، شاعر نے سچ کہا تھا؂
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا اِلحاد بھی ساتھ

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالجبار انعام اللہ سلفی

ماشاءاللہ وبارک اللہ فیکم

خبيب خان رياضي

متفق 👍