چمپارن،ریاست بہار کا ایک مردم خیز ضلع ہے،جہاں بڑی بڑی علمی،سیاسی اور سماجی شخصیات پیدا ہوئیں،ملک کی آزادی میں بھی چمپارن کا بڑا اہم رول رہا۔ خود گاندھی جی نے آزادی کی تحریک کو تیز گام کرنے کے لےز چمپارن کا دورہ کیا،اس وقت انگریزوں کے خلاف کئی تحریکیں چمپارن کی سرزمین سے اٹھیں۔اس حوالے سے نمک آندولن،ستیہ آگرہ آندولن اور موتیہاری کے بطخ میاں کو کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔
جماعت اہل حدیث کا بھی قدیم رشتہ چمپارن سے رہا ہے۔اس علاقے میں کئی رحمانی علماء ہوئے جن کی تدریسی،تعلیمی،دعوتی اور قومی وملی خدمات سے ایک دنیا متعارف ہوئی۔اس ضمن میں صاحب دیوان گلشن ہدایت مولانا عبد الکریم مسلم رحمانی،مولانا نذیر عالم سعیدی چمپارنی،مولانا عبد الخبیر،مولانا عبدالباری،مولانا حنیف مدنی،مفسر قرآن علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہم اللہ اور مدرسہ منظر العلوم کے بانی مولانا منظور الحق چمپارنی کے اسماء قابل ذکر ہیں۔موجودہ علماء میں مولانا اصغر امام مہدی سلفی، مولانا محمد علی مدنی اور مولانا مجتبی سلفی کے علاوہ درجنوں علماء اس علاقے میں بساط بھر اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔
ادھر تقریبا پچاس سالوں سے چمپارن کی سرزمین پر بالعموم، مغربی چمپارن کے علاقے میں بالخصوص جس عظیم شخصیت نے مسلک اہل حدیث کی دل وجان سے بے لوث خدمت کی ہے اور تاحال کررہے ہیں اس عظیم انسان کا نام مولانا مصطفی کمال اصلاحی ہے۔انھوں نے دعوت وتبلیغ اور افہام وتفہیم کا وہی سادہ انداز اختیار کیا ہوا ہے جو اسلاف کی زندگی میں موجود تھا۔ان کی دعوت خاموش اور اپنے ذاتی صرفہ پر ہوتی ہے۔ہنگامہ آرائی اور شہرت سے دور اس متواضع انسان کو جماعت کے کاز سے جذباتی لگاؤ ہے،صبح و شام جماعت کے افراد اور دعوت اہل حدیث کی انھیں فکر دامن گیر رہتی ہے۔اپنے تجربے اور مطالعے کی بنیاد پر شرک وبدعت کو ناکوں چنے چبواتے ہیں۔جماعت کے اس سپاہی کو اللہ کے علاوہ کسی کا ڈر اورخوف نہیں ہوتا۔ان کی ذات اور خدمات اس بات کی مستحق ہے کہ ان کے کارناموں کو منظر عام پر لایا جائے،ان کی خاموش دعوت وتبلیغ کا اعتراف اور انھیں خراج تحسین پیش کیا جائے۔
ذیل میں مولانا اصلاحی کی حیات مستعار پر سرسری روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے:
آپ کا نام محمد مصطفی کمال بن مولانا نذیر عالم بن صاحب الدین بن چھپسی میاں ہے۔ آپ اپنے گاؤں پرینہ(مغربی چمپارن) میں یکم اگست 1948ء میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم کا آغاز والد ماجد مولانا نذیر عالم سعیدی کے زیر سایہ ہوا۔چونکہ والد صاحب مدرسہ منظر العلوم بلرامپور میں مدرس تھے اس لےر اسی کی آنگن میں آپ نے پڑھنا لکھنا شروع کیا۔الف با سے لے کر پنچ گنج،نحو میر،ہدایۃ النحو، شرح مائۃ عامل، گلستاں،بوستاں وغیرہ کتابیں والد صاحب ہی سے پڑھیں۔
1960ء میں مدرسہ دار السلام،سکٹا میں رہتے ہوئے مدرسہ بورڈ سے وسطانیہ کا امتحان پاس کیا۔آپ کے دار السلام کے اساتذہ میں مولانا محمد ثانی قاسمی اور مولانا عظیم الرحمن إلہ آبادی قابل ذکر ہیں۔1962ء میں مولانا منظور الحق صاحب نے آپ کو ایک رقعہ لکھ کر دیا جس سے آپ کا داخلہ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ میں ہوگیا۔دار العلوم سے بالترتیب آپ نے 1960 سے 1964ء تک فوقانیہ اور مولوی کا امتحان پاس کیا۔آپ کے سلفیہ کے اساتذہ میں شیخ الحدیث عاقل رحمانی،مولانا عین الحق سلفی،صوفی عبد الرحمن،مولانا ظہور رحمانی،مولانا اکمل اعظمی،مولانا رئیس الاحرار ندوی اور بقیۃ السلف مولانا حبیب المرسلین سلفی شیدا(حفظہ اللہ) وغیرہ شہرت رکھتے ہیں۔آپ کے معاصرین میں مشہور نام علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ کا ہے،جو آپ سے کئی سال سینئر تھے۔
1966ء میں آپ دربھنگہ سے پٹنہ مدرسہ اصلاح المسلمین منتقل ہوگئے۔جہاں آپ نے فضیلت میں داخلہ لے کر اس وقت کے ماہرین سے کسب فیض کیا۔آپ کے اصلاح المسلمین کے اساتذہ میں مولانا عبد الغفار سلفی، مولانا صداقت حسین دوستیاوی، مولانا امان اللہ فیضی، مولانا اسماعیل مئوی وغیرہ کے اسماء گرامی قابل توجہ ہیں۔
فضیلت کے بعد بھی آپ نے تعلیم کو جاری رکھا۔ 1966ء میں آپ نے پٹنہ ضلع ہائی اسکول سے میٹرک اور پھر اس کے بعد اورینٹل کالج پٹنہ سے گریجویشن کیا۔1969-1971 میں مدرسہ شمس الہدی،پٹنہ سے بھی عالمیت اور فضیلت کی ڈگری حاصل کی۔ 1973ء میں پٹنہ سے’’سکچھک سکچھا مہا ودھالیہ‘‘سے ٹیچر ٹریننگ بھی کرلی جس کی بدولت آپ سرکاری ملازمت کے اہل ہوگئے۔1974ء میں آپ باضابطہ سرکاری ٹیچر بحال ہوگئے۔اس کے بعد آپ نے ریاست بہار کے مختلف شہروں اور قصبوں میں تدریسی فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا۔اقتصادی طور پر آپ نے ضرور سرکاری ملازمت کو اختیار کرلیا مگر کبھی اسلام وایمان،دعوت وتبلیغ اور جماعتی کاموں سے الگ نہیں ہوئے۔بلکہ ایک عام مولوی سے بڑھ کر آپ کی دعوتی اور جماعتی سرگرمیاں رہیں۔
تدریسی خدمات:
1973ء میں ٹیچر ٹرینگ کرنے کے بعد ایک سال تک مولانا عبد السمیع جعفری کے محلہ ’’میر شکار ٹولی‘‘کے مکتب میں تدریسی فریضہ کا آغاز کیا، یہ مکتب مولانا عبدالخبیر صادقپوری رحمہ اللہ کے زیر اہتمام تھا، گاہے بہ گاہے مولانا صادقپوری خود مکتب کے معائنہ کے لےو تشریف بھی لایا کرتے تھے۔ 1974ء میں بہار حکومت کی طرف سے خاک ٹولہ،سکٹا مغربی چمپارن میں پرائمری اسکول میں استاذ مقرر کردیے گئے۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے آپ کا سلسلہ وار لال پرسا پرائمری اسکول،جھمکار مڈل اسکول، گوری پور مڑلی پرائمری اسکول اور اخیر میں نرکٹیا گنج اردو مکتب سے 2008ء میں تدریسی سفر کا اختتام ہوگیا۔اس پورے چوتیس سالہ تدریسی عمل میں آپ نے پورے جوش وخروش سے قوم وملت کے نونہالوں کو سنوارا۔مسلمان بچوں پر خصوصی توجہ دی، ان کے ذہن ودماغ میں توحید وسنت کا چراغ بھی روشن کیا۔جہاں رہے سلفیت کے ترجمان اور سفیر بن کر رہے۔
دعوتی خدمات:
آپ دعوت توحید کے ایسے شیدائی اور فدائی ہیں کہ دور دراز شہروں تک اس مشن کے لےر سفر کرنے سے گھبراتے نہیں ہیں۔شرک وبدعت اور تصوف سے شدید قسم کی آپ کو نفرت اور گھٹن ہوتی ہے۔آپ اپنے جیب خاص سے حدیث،تفسیر اور مفید دعوتی پمفلٹس تقسیم کرتے ہیں۔اہل حدیثوں کے امتیازی مسائل پر آپ کو کامل دسترس ہے۔بلکہ درجنوں دلائل اور اپنی نوک زبان پر رکھتے ہیں۔نقلی اور عقلی دلیلوں سے اپنے مد مقابل کو بڑی آسانی سے چت کردیتے ہیں۔دعوت کے میدان میں آپ کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کتاب وسنت کے دلائل سے باطل عقائد ونظریات کا رد کیا جائے،اس مقصد کی خاطر آپ نے تقریبا حدیث کی تمام بڑی کتابیں اپنے پاس رکھی ہیں۔دارالسلام سے ایک جلد میں مطبوع کتب ستہ بھی آپ کے پاس ہے۔مناظرات کے باب میں کام آنے والی کتابیں بھی آپ کے ارد گرد اور زیر مطالعہ ہوا کرتی ہیں۔آپ کے پسندیدہ مولفین میں مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا رضاء اللہ ادریس مبارکپوری،مولانا رئیس الأحرار ندوی، مولانا مقتدی حسن ازہری،مولانا رضاء اللہ عبدالکریم مدنی اور محدث عصر شیخ ضیاء الرحمن اعظمی ہیں، ان حضرات کی بہت ساری کتابیں آپ کی ذاتی لائبریری میں موجود ہیں۔
سماجی ورفاہی خدمات:
آپ کا اصل رشتہ چونکہ شروع سے گاؤں سے رہا ہے۔گاؤں کے لوگوں کے دکھ درد میں کام آنا آپ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔آپ نے خود غربت کو قریب سے دیکھا ہے اس لےئ ایسے ہر شخص کے کام آنا آپ کی طبیعت میں شامل ہے۔اللہ کی طرف سے جو روزی آپ کو میسر ہے اسی میں غریبوں اور فقیروں کی داد رسی کرتے ہیں،اپنے پرائے سب آپ سے تعاون کی امید رکھتے ہیں۔مساجد،مدارس اور مکاتب کی مدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔پانی کا انتظام کرنا اور کرانا آپ کی ترجیحات میں داخل ہے۔آپ کے توسط سے اب تک سیکڑوں پائپ سے فقراء مستفید ہوچکے ہیں۔رفاہی کاموں میں آپ کس حد تک دلچسپی لیتے ہیں اس کا اندازہ اس سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ بسا اوقات بجٹ ختم ہوجانے کے بعد اپنا پیسہ بھی اس راہ میں صرف کردیتے ہیں۔ آپ کی آبائی بستی بسنت پور میں تقریبا پچاس سالوں تک ’’دار البنات‘‘ جاری رہا۔جہاں سے ان گنت حوا کی بیٹیوں نے تعلیم وتربیت پایا۔اس دار البنات میں آپ کی والدہ (قمر النساء )پھر آپ کی اہلیہ محترمہ(ہدایت النساء) رضاکارانہ خدمت انجام دیا کرتی تھیں۔
اہل علم کی قدر دانی:
علما،فضلا اور طلبہ سے آپ کو خاص دلچسپی ہے۔آپ کی رہائش گاہ ایک طرح کا ان لوگوں کے لےد سرائے ہے جو دعوت وتبلیغ سے جڑے ہیں۔علماء کی محبت آپ کے دل ودماغ میں پیوست ہے۔ان کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا عمدہ انتظام کرنا آپ کی اولین کوشش ہوتی ہے۔بڑے بڑے علماء اور دعاۃ آپ کی میزبانی سے بہرور ہوچکے ہیِں۔بڑی بڑی جامعات کے محصلین کو آپ اپنا مہمان بناتے اور ان کا تعاون کرتے اور کراتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ رخصت کرتے وقت تحفہ تحائف بھی پیش کرتے ہیں۔اس گئے گزرے زمانے میں علما کی اتنی قدر دانی آپ کی عظمت میں چار چاند لگاتی ہے۔آپ کا مہمانوں کے ساتھ برتاؤ اور اچھا سلوک حدیث کے الفاظ میں ’تھادوا تحابوا‘کا آئینہ دار ہے۔اب تک آپ کے دستر خوان پر شیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی، مولانا مستقیم سلفی، شیخ عبد الرحمن عبدالجبار فریوائی، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی اور ڈاکٹر عبدالحکیم سلفی حفظہم اللہ کے علاوہ بے شمار علماء وطلبہ تشریف لاچکے ہیں۔
شادی:
آپ نے دو شادیاں کیں،دونوں سے چار بچیاں اور ایک بیٹا عبید اللہ موجود ہے۔جو دراصل ان کا وارث ہے۔آپ کا ایک بہت بڑا کمال یہ ہے کہ آپ نے اپنی ساری اولاد کو دینی تعلیم سے مزین کیا ہے،جس کی برکت سے اس وقت سب کی زندگی میں باغ وبہار اور سکون واطمیان ہے۔سب خود کفیل اور اپنے بچوں کی اولین معلمہ اور معلم ہیں۔
رہائش:
چونکہ آپ کی ریٹائرمنٹ نرکٹیا گنج سے ہوئی، آپ کو اس شہر میں ایک مدت تک رہنے کا موقع ملا، اس لےل آپ نے اخیر میں اسی شہر کو مستقل مسکن بنالیا۔ زمین خریدی اور شاندار قسم کی عمارت تعمیر کی، تقریبا ایک دہائی سے آپ مع اہل وعیال اسی شہر میں مقیم ہیں اوردعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔آپ کی رہائش گاہ نرکٹیا گنج ریلوے اسٹیشن سے نصف کیلو میٹر کے فاصلے اور جماعت کی واحد اہل حدیث مسجد سے چند سو قدم سے دور ہے۔ایک اعتبار سے پورے نرکٹیا گنج شہر میں آپ جماعت اہل حدیث کے نمائندہ اور داعی ہیں۔
موجودہ حالت:
اس مرد مجاہد کا دعوتی سفر اب بھی پورے آب وتاب سے جاری ہے۔ بوڑھاپے میں بھی دعوت الی اللہ کو اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ سمجھتے اور اس کے لےر ہر قسم کی توانائی صرف کرتے ہیں۔علاقے میں دعوتی مجالس کو ترتیب دینا، علماء اور دعاۃ کا انتظام کرنا، سواری کا بندوبست کرنا یہ سب آپ کے معمول میں داخل ہے۔اس کے علاوہ مدرسہ انجمن اسلامیہ، پرینہ اور روضۃ البنات،پرینہ کی نظامت بھی بخوبی انجام دے رہے ہیں۔اللہ تعالی مسلک سلف کے اس بے باک سپاہی کو مزید حوصلہ اور صحت مند زندگی عطا کرے، تاکہ سلفیت کو عروج واقبال نصیب ہو۔
آپ کے تبصرے