دعوتِ دین، اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے، اس فریضے کی تاکید قرآن وحدیث میں اس قدر شرح وبسط کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اس کا احاطہ مشکل ہے۔ دعوت وتبلیغ کی فضیلت، اس کے وسائل وذرائع، اس کا طریقہ کار، ایسے موضوعات ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنا اور بروئے کار لانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ لیکن آج کے مسلمانان خاص طور سے سلفیانِ برصغیر بہت کم ان امور پر توجہ دیتے ہیں۔ دعوت کے تعلق سے میری نگاہ میں میدانی یا تجرباتی دعوت بہت اہم ہے۔ ایک داعی دعوت کے اصول وضوابط جاننے کے باوجود دعوت کے میدان میں کبھی کبھار اپنے آپ کو ایسا بونا محسوس کرتا ہے جیسے وہ کچھ نہیں جانتا۔ اس کو ایسے پیچیدہ مسائل، شکوک وشبہات، مخالف کی طرف سے جہالت اور نادانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ حیران اور ششدر رہ جاتا ہے، اس کو سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ مدمقابل کو کیسے مطمئن کرے۔ داعی کو یہ پریشانیاں اس وجہ سے بھی لاحق ہوتی ہیں کہ اس کے پاس تجربے اور مشق کی کمی ہوتی ہے۔ وہ کتابی داعی ہوتا ہے عملی نہیں۔اس لیے دعوت کے میدان میں قدم رکھنے سے قبل ضروری ہے کہ دعاة کی مشاقی کرائی جائے، تجربہ کار دعاة ان کی ذہن سازی کے ساتھ دعوت کی نزاکتوں سے انھیں واقف کرائیں۔ اس تعلق سے بعض حلقوں میں اچھی پیش رفت دکھائی دے رہی ہے، اہل حدیث مبلغین کو بھی اس سمت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک بہت ہی خوش آئند بات اس وقت یہ نظر آرہی ہے کہ اہل حدیثوں میں ان مبلغین اور واعظوں کے خلاف آواز اٹھنی شروع ہوگئی ہے جو دعوت وتبلیغ کے نام پر عوام الناس کو بیوقوف بنانے اور ان کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد سامعین کو صرف ہنسانا اور الو بنانا ہوتا ہے۔ دلائل کے نام پر سُریلی آواز میں مختلف زبانوں میں گیت گاتے ہیں۔ کتاب وسنت کا سطحی علم رکھنے والے ان حضرات کی ٹھاٹ باٹ مت پوچھیے لاکھوں اور ہزاروں میں بکتے ہیں۔ ان کے خطرات کو تو علماء راسخین ہی سمجھتے ہیں بیچارے عوام تو سمجھنے سے رہے۔ ان کو تو بس چٹخارے سے مطلب ہے۔دودھ میں زہر ملایا گیا ہے اس کا پتہ تو اسی وقت انھیں چلتا ہے جب اس زہر کا اثر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اللہ بچائے ایسے نیم ملا خطرہ ایمان سے۔ جدید وسائل وذرائع نے کتنے جاہلوں سڑک کے گداگروں کو علامة الدهر اور مسٹر بنادیا ہے۔ انگریزی اور سنسکرت آمیز اردو سے بھی ہمارے سامعین دھوکہ کھا جاتے ہیں اور حقیقی علماء اور صاحبِ صلاحیت خطیبوں کی ناقدری کر بیٹھتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ایسے ضرر رساں خطباء اور مبلغین کا بائیکاٹ کیا جائے یا ان کے لیے ریفریشر کورس رکھا جائے جہاں ان کو دعوت کے صحیح طریقے سکھائے جائیں۔ صوبوں کی جمعیات کو اس نقطہ نظر سے ضرور سوچنا چاہیے۔ ورنہ پانی سر سے اونچا ہوجائے گا اور حقیقی دعوت شور شرابے میں کہیں گم ہوجائے گی۔ اگر ہمارے دعاة علم کے ساتھ تجربہ بھی حاصل کرلیتے ہیں تو یقینا اس لائق ہوں گے کہ باطل افکار وخیالات کا مقابلہ کرسکیں، گمراہ فرقوں میں صحیح عقائد کی ترویج کرسکیں۔ اس وقت دنیا میں شیعوں کا فتنہ بڑا عظیم ہے۔ وہ کسی خاص مسلک کے دشمن نہیں بلکہ علی الاطلاق حاملینِ کتاب و سنت سے نفرت کرتے اور انھیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اس لیے ایسے ماہر دعاة کو ہمیں تیار کرنا چاہیے جو شیعی مبلغین کا منہ توڑ جواب دے سکیں اور ان کی صفوں میں جاکر کتاب وسنت کے پیغام کو عام کرسکیں۔ دوسروں کی دشمنی عام ہے جس کا پہچاننا آسان ہے لیکن شیعوں کی دسیسہ کاریوں کو بھانپنا بہت مشکل ہے۔ تقیہ کی آڑ میں وہ اپنا ہتھکنڈا بڑی آسانی سے استعمال کرلیتے ہیں۔
ایران دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جو اپنے شہریوں کو حج اور عمرہ کے لیے خصوصی رعایت دینے کے ساتھ ساتھ ان کی خاص علمی وذہنی تربیت بھی کرتا ہے تاکہ سعودی عرب جاکر وہ کہیں حق قبول نہ کرلیں، وہاں کے توحید پرست دعاة سے متاثر نہ ہوجائیں۔ اللہ بھلا کرے سعودی عرب کا جو ملک کے کونے کونے میں ٹھوس دعوت کا نظم کیے ہوا ہے، اور وہاں قدم رکھنے والے ہر فرد تک اس کی مادری زبان میں اسلام کی سچی دعوت پہنچانا چاہتا ہے، تاکہ حجت قائم ہوجائے، اللہ رب العزت اس تعلق سے باز پُرس نہ کرے۔
سعودی عرب میں حج اور عمرہ کے موسم میں شیعوں کو قریب سے مجھے دیکھنے کا موقع ملا، وہ بظاہر جتنے بااخلاق اور سیدھے سادے نظر آتے ہیں، اندر سے وہ اتنے ہی ہٹ دھرم اور ضدی ہوتے ہیں۔ ان کو ان کا عقیدہ اس قدر گھٹی میں پلایا گیا ہوتا ہے کہ اس سے ایک رتی ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ تو سعودی حکومت کا چاک چوبند پولسیائی نظام ہے جس کی بدولت وہ وہاں بھیگی بلی بنے رہتے ہیں ورنہ معلوم نہیں وہ روزانہ کیا گل کھلائیں۔ آج تک مملکت سعودی عرب میں موسم حج میں جو بھی بھگڈر یا افراتفری مچی ہے ان سب کے پیچھے شیعوں کا رول رہا ہے۔اللہ بچائے ان شر پسندوں اور سبائی ٹولے سے۔
اس وقت دنیا میں دو مشنری بڑی تیزی سے کام کررہی ہے ایک عیسائی دوسری شیعی دونوں کے کام کرنے کا انداز یکساں اور مقصد اسلام کی بیخ کنی ہے۔ دونوں لابی اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہے۔ روس جب سُپرپاور تھا، اس وقت اس کے ماتحت کئی اسلامی جزیرے تھے جو آج آزاد چکے ہیں؛ جیسے طاجکستان ازبکستان قزاکستان وغیرہ۔ جب تک یہ ممالک روس کے ماتحت رہے وہاں شیعیت کا نام ونشان نہ تھا لیکن جیسے یہ ممالک روس سے آزاد ہوئے ان ملکوں میں شیعیت نے اپنا پنجہ جمانا شروع کردیا، اور آج ان ملکوں میں شیعوں کی خاصی تعداد موجود ہے۔ کچھ ایسی ہی کہانی افغانستان کی بھی ہے جب تک امریکہ کا اس پر تسلط رہا شیعیت نے خوب پر پھیلائے۔ یہاں بھی شیعی مشنری تیزی سے مصروف عمل رہی، ان کی شناخت یہاں اتنی مضبوط ہوئی کہ ایک ادنی شیعی بھی اپنے کو یہاں محفوظ اور نڈر خیال کرنے لگا۔ اب حالات میں کچھ فرق آیا ہے، لیکن تاہم وہاں توحید وسنت کے چراغ کی اشد ضرورت ہے، دعوی تو وہاں خالص کتاب وسنت کا کیا جاتا ہے مگر اس کی دلیل وہاں نظر نہیں آتی۔
اگر پڑوسی ملک پاکستان کی بات کریں تو وہاں شیعہ سنی شانہ بہ شانہ ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے اکثر ملکوں میں خاص طور سے مسلم ملکوں میں شیعیت اپنی پکڑ مضبوط بنانے میں جٹی ہوئی ہے۔ شیعیت کی مضبوطی میں سب سے اہم رول صہیونیت اور ان اقوام کا ہے جو مسلمانوں کی دشمن ہیں۔ باطل قومیں جانتی ہیں کہ مسلمانوں کو سیدھے طور پر ورغلانا آسان نہیں، ان کو اگر قابو میں کرنا ہے تو دین اور مذہب کا سہارا لینا ہوگا، ان کو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آل بیت رسول کی جھوٹی محبت کا جھانسہ دینا ہوگا اور یہ کام بھلا شیعوں سے بہتر کون کرسکتا ہے۔ مسلمانوں میں جہالت بھی ہے اور غربت بھی چنانچہ دونوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مکار روافض اپنا کام کرتے رہے ہیں اور کر بھی رہے ہیں۔ آج مسلمانوں کے پاس شیعیت کے فتنے کو روکنے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے زمانے میں اہل سنت کو کتاب وسنت کی صاف ستھری دعوت کو شیعوں اور دیگر اقوام میں عام کرنے کے لیے بڑی تیاری اور اپنے آپ کو علمی اور عملی اعتبار سے منظم اور مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اس کا انجام بڑا بھیانک ہوگا، لوگ اسی طرح واویلا مچاتے رہیں گے اور صہیونیت اور اس کے دم چلے یک بعد دیگرے تمام اسلامی ممالک کو تاراج کرتے رہیں گے۔ ابھی بھی سوچنے کا وقت ہے کہ مسلمانوں کا حقیقی دشمن کون ہے؟ توحید وسنت کا اصل مخالف کون ہے؟ کیا ایران صرف سعودی عرب کا حریف ہے یا ہمارا اور آپ کا بھی؟ سوچیے اور اس کا جواب تیار کیجیے، یہی وقت کا تقاضا ہے۔
آپ کے تبصرے