حالیہ انتخابات اور مسلمانوں کے کرنے کے کام

راشد حسن مبارکپوری سیاسیات

(آج (٢٥/٣/٢٠٢٢) کے خطبہ جمعہ جامع مسجد صوفی پورہ مبارکپور میں جو باتیں پیش کی گئیں، افادہ عام کی خاطر ان کی تلخیص پیش کی جاتی ہے)


◾اس میں شک نہیں کہ مسلمان اس وقت نازک اور مشکل حالات سے گذر رہے ہیں، لیکن مایوس اور نروس ہونے کی ضرورت نہیں، ہمت اور حوصلہ کی ضرورت ہے، اس سے قبل اس سے کہیں زیادہ خطرناک حالات امت مسلمہ پر آچکے ہیں، تین مثالوں سے اپنی بات آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں

(۱)اسلامی تاریخ سے مثال:

تاتاریوں کا حکومت اسلامیہ کے دارالخلافہ بغداد پر حملہ تاریخ اسلام کا سب خطرناک حادثہ ہے، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے روافض کی درپردہ سازشوں سے بغداد پر حملہ کیا، خلافت عباسیہ کے خلیفہ معتصم باللہ کو دردناک انداز میں دھوکے سے شہید کرکے لاکھوں علماء، فقہاء، عمائدین ملت اسلامیہ کو تہ تیغ کیا، تقریبا پندرہ لاکھ مسلمانوں کے خون سے سڑکیں سرخ ہوگئیں، سقوط وزوال کی وجہ یہی تھی کہ ان میں وہ خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں جن کے بعد زوال ہی آخری علاج ہوتا ہے، ارشاد باری ہے:

{وَإِن تَتَوَلَّوْاْ يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوٓاْ أَمْثَٰلَكُم} [محمد:۳۸]

پروفیسر آرنلڈ نے (Preaching of Islam) – دعوت اسلام – میں یہ تفصیلات درج کی ہیں۔

اس خون آشام تاریخ کا سب سے زیادہ حیرت انگیز پہلو یہ ہے اسی خاندان کی تیسری نسل میں علماء کی مخلصانہ کوششوں سے تیمور تغلق مشرف بہ اسلام ہوجاتا ہے، اس طرح اسی بغداد میں اسلامی شان وشوکت دوبارہ لوٹ آتی ہے، اقبال مرحوم نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا؎

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گیے کعبے کو صنم خانے سے

یہ مسلمانوں کی نسل کشی کی کوشش تھی جو اس انجام پر تمام ہوئی۔

(۲)ہندوستان سے مثال:

دسویں صدی ہجری کے اواخر اور گیارہویں صدی ہجری کے اوائل میں ہندوستان کے بادشاہ جلال الدین اکبر نے “دین الہی” کی بنیاد رکھی، سارے مذاہب کو ضم کرکے ایک مذہبی ملغوبہ تیار کیا، یہ تاریخ ہند میں مسلمانوں کے عقیدہ وایمان پر خطرناک ترین حملہ تھا، جو ایک حکومت کی سرپرستی میں انجام پارہا تھا، اس کے خطرات ابھی بڑھ ہی رہے تھے کہ مجدد الف ثانی احمد سرہندی اور عہد کے دیگر علماء اسلام نے اس کے خلاف اعلان جنگ کیا، سینہ سپر ہو سامنے کھڑے ہوگیے، انھیں زدوکوب کیا گیا، ایذائیں دی گئیں، لیکن جلد ہی یہ مخلصانہ کوششیں بار آور ہوئیں اور تقریبا دس سال سے کم عرصہ میں یہ فتنہ اپنی موت مر گیا، اس کے شرارے راکھ کا ڈھیر ہوگیے۔

اس طرح دین وایمان اور عقیدہ کے خاتمہ کی خطرناک کوشش اہل علم کے ہاتھوں محض اللہ کی نصرت وتائید سے ختم ہوئی۔

دربار اکبری کے عالم ملا عبدالقادر بدایونی نے یہ تفصیلات “منتخب التواریخ” میں درج کی ہیں۔

(۳)ہندوستان کے سیاسی حالات سے مثال:

۱۸۵۷کے بعد ملک کے جو حالات بنے وہ ہم سے مخفی نہیں، ملک کی آزادی تک تقریبا۵۲ ہزار علما شہید کیے گیے، لاہور سے میرٹھ تک کوئی ایسا درخت نہ تھا جہاں علما اور مسلمانوں کی لاشیں نہ لٹکی ہوں، یہ حالات خصوصا مسلمانوں کی قربانیوں سے ختم ہویے، تقریبا ستر سال تک مسلمان سکون سے رہے، پھر ادھر چند برسوں سے بطور خاص ابتلا کا دور شروع ہوا۔

◾اہم ترین مسئلہ:

اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں ہر دو طرح کی کوششیں ہو رہی ہیں، یعنی مسلمانوں کی ڈیجیٹل نسل کشی اور عقیدہ وایمان کو ختم کرنے سازشیں۔ان دونوں میں زیادہ خطرناک ثانی الذکر ہے، ادھر مسلسل مختلف انداز میں نوجوان نسل کے مرتد ہونے کی خبریں آرہی ہیں، اسکولوں کے نصاب کو مکمل طور سے بدل کر مسلمانوں کے بنیادی عقیدہ توحید سے مکمل متصادم بنا دیا گیا ہے، شرک اور پوجا کو فروغ دیا جارہا ہے، نوجوان بچے بچیاں یہ سب کچھ بڑے شرح صدر سے کر رہے ہیں، مزاحمت وہی کررہے ہیں جن کی تربیت ایمانی اور دیندار گھرانے میں ہو رہی ہے، الحاد کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اس پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔

◾حل:

قرآن مجید کی متعدد آیتیں ہمیں حوصلہ دیتی ہیں اگر ہم ان کے وضع کردہ شرائط پر کھرے اتر جائیں:

۱۔وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ ٱللَّهُ ۖ وَٱللَّهُ خَيْرُ ٱلْمَٰكِرِينَ [آل عمرن:۵۴]

۲۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ [محمد:۷]

۳۔وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ [آل عمران:۱۲۰]

آخر الذکر آیت میں صبر، ثابت قدمی اور تقوی وتعلق مع اللہ کے ذریعہ دشمنوں کی چالوں کو ناکام بنانے کی بات کہی گئی، شرطیں صرف دو ہیں دین پر ثبات قدمی اور اللہ کا ہوجانا۔

◾دینی حوالے سے کرنے کے کچھ کام:

(۱)اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنا:

مسلمان کا تعلق تقوی پر ہے، نفس کو اللہ کے حوالے کردینے پر ہے تو اللہ مشکلات ختم کرکے آسانیاں پیدا کرتا ہے، اس حوالے سے دو آیتیں اہم ہیں :

انفرادی سطح پر:وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا [الطلاق:۲۔۳]

اگر مشکلات کا خاتمہ اور آسانیاں چاہتے ہو تو اللہ کے ہو جاؤ۔

اجتماعی سطح پر:وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ ٱلْقُرَىٰٓ ءَامَنُواْ وَٱتَّقَوْاْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَٰتٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ [الأعراف :۹۶]

اہل بستی پر برکتوں کے نزول کے لیے شرط ایمان اور تقوی کی رکھی گئی، برکتوں کے نزول میں ہر طرح کی آسائش، چین وسکون، مشکلات کا نہ ہونا شامل ہے۔

(۲)ثبات قدمی اور استقامت:

دین پر جمے رہنا، ایمان وعقیدہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنا یہ خوف ومصائب کے خاتمہ کی شرط اساسی ہے، ارشاد باری ہے: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ [فصلت:۳۰]

دین پر ثبات سے خوف جاتا رہے گا۔

الحاد کی لہریں بڑی سخت ہیں، دین وایمان خطرے میں ہے، ایسے حالات میں مسلمان دین پر سختی سے جمے رہنے کے تمام ممکنہ وسائل اختیار کریں، نوجوان نسل کی دینی وایمانی تربیت کی ہر کوشش کی جایے، ورنہ جو حالات ہیں بیس پچیس برسوں بعد جب نسل بدلے گی تو اس کے پاس دین وعقیدہ کے نام پر کچھ نہ ہوگا۔

(۳)جذباتیت اور جلد بازی سے پر ہیز:

حالات کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں، طرح طرح سے اکسانے اور برانگیختہ کرنے کی کوشش کیوں نہ کی جائے، ہمیں جذباتیت اور جلد بازی سے بچنا ہے، صبر اور حوصلہ سے کام لینا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:

إِنَّهَا سَتَكُونُ أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ ، فَعَلَيْكُمْ بِالتُؤَدَةِ..(ایک زمانہ ایسا آیے گا جب صحیح اور غلط کی تمیز نہ ہوسکے گی، معاملات میں الجھاؤ ہوگا اس وقت تم صبر اور سنجیدگی سے کام لینا، جذبات کی رو میں مت بہ جانا۔

تودة کا معنی سنجیدگی، جلد بازی سے اجتناب اور جذباتیت سے پرہیز ہے۔

(۴)علما راسخین سے تعلق:

زندگی کے تمام معاملات میں ہمارے رہنما علما ہیں، معاملے دینی ہوں، یا سیاسی یا سماجی، یا عائلی، علما راسخین سے رہنمائی لی جانی چاہیے، ہم سمجھتے ہیں صرف دین کے مسائل علما سے دریافت کیے جائیں یہ غلط ہے، مسلمان امت کے اصل ذمہ دار اور رہنما علما ہیں، سیاسی لیڈران یا عصری تعلیم یافتہ طبقہ نہیں، علما کو فہم وادراک کی قوت اللہ کی طرف سے خصوصی طور پر عنایت کی جاتی ہے، نور بصیرت سے فیصلے کرتے ہیں، ان کے سامنے پوری اسلامی تاریخ اور شریعت کے نصوص ہوتے ہیں، زندگی کے دس قیمتی سال اسی میں گذار چکے ہوتے ہیں، ایک آیت اس تصویر کو واضح کرتی ہے:

وَإِذَا جَآءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ ٱلْأَمْنِ أَوِ ٱلْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِۦ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى ٱلرَّسُولِ وَإِلَىٰٓ أُوْلِى ٱلْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ ٱلَّذِينَ يَسْتَنۢبِطُونَهُۥ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُۥ لَٱتَّبَعْتُمُ ٱلشَّيْطَٰنَ إِلَّا قَلِيلًا [النساء:۸۳]

یہاں بات دین کی نہیں بلکہ جنگ اور امن کی ہورہی، گویا سیاسی حالات میں بھی رہنمائی علما سے ہی لی جانی چاہیے، بلکہ زندگی کے تمام حالات میں۔مزید بر آں جب دین کے رہنما وہی ہیں جو سب سے اہم چیز ہے تو بقیہ چیزیں جو اس کے تابع ہیں اس کے رہنما بدرجہ اولی ہوں گے۔

اسی طرح علما کا حددرجہ احترام کیا جائے، شریعت کا حکم ہے، ان کی توہین آپ کی ذلت ورسوائی کا پیش خیمہ ہے، تاریخ ابن عساکر میں اس طرح کی متعدد مثالیں درج ہیں کہ جن لوگوں نے علما کے ساتھ بدسلوکی کی انھیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہی ذلیل ورسوا کردیا، بدسلوکی اور بدتمیزی کا ایک مظہر یہ ہے لوگ انٹرنیٹ، گوگل پہ سرچ کرکے، یوٹیوب سے تقریریں سن کر، ایک آدھ اردو کتابیں پڑھ کر خود کو عالم سمجھنے لگتے ہیں، اور طرفہ تماشا یہ کہ فتوے بازی شروع کردیتے ہیں، کتنی عجیب بات ہے، اور یہ دین میں بہت بڑی جرات ہے، اللہ بچایے۔

(۵)دعا:

اللہ کی بارگاہ میں عاجزانہ اور تسلسل کے ساتھ ملک کے حالات اور امن وسکون کی دعا کی جائے، اجتماعی بھی اور انفرادی بھی، اپنی مخصوص دعاؤں میں اسے خاص طور سے شامل کیا جایے۔

◾سماجی حوالے سے کرنے کے کام:

(۱)تعلیم کو عام کیا جائے، ہر گھر میں تعلیم یافتہ افراد کی موجودگی کو یقینی بنایا جایے، بیت المال کا قیام عمل میں لایا جایے جس کے ذریعے غریب اور نادار بچوں کی کفالت ہو سکے، سرکاری اہم اسکولوں اور کالجوں میں اپنی بھر پور شرکت درج کرائی جایے اور ہایر ایجوکیشن میں کامیابی کے امکانات پیدا کیے جائیں، اپنے اسکول بھی قائم کیے جائیں، دینی تربیت کا بھی الگ سے خصوصی انتظام کیا جایے۔

(۲)غیر مسلموں سے تعلقات مختلف محاذوں پر مضبوط کیے جائیں، پڑوس کے غیر مسلموں کو اپنے پروگراموں اور خوشی کے مواقع میں شریک کیا جایے، خیرسگالی اور باہمی ہم آہنگی پر مشتمل پروگرام رکھے جائیں، بھائی چارہ کو فروغ دیا جایے، ایسے رویوں کی پوری مضبوطی سے حوصلہ شکنی کی جایے جو کمیونل اور فرقہ واریت کو بڑھاوا دیتے ہیں، ایک دائرے میں رہتے ہویے اپنے اعلی کردار کے ذریعہ ان کو متاثر کرنے کی کوشش کی جایے۔

(۳)زیادہ سے زیادہ سوشل کاموں میں حصہ لیا جایے، بلا تفریق مذہب سبھی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جایے، خیرالناس من ینفع الناس کے اصول کو پیش نظر کر ممکنہ تگ ودو کی جایے، اپنے رویے میں لچک پیدا کی جایے۔

آخری بات:

انتخابات کے حوالے سے ایک قاعدہ یاد رکھیں، آپ ہمیشہ سیکولر طاقتوں کو سپورٹ کریں، کبھی یکطرفہ بات کرنے والوں کی طرف توجہ نہ کریں، ہندوستان کی بنیاد سیکولرازم اور جمہوریت پر ہے لہذا آئندہ آج بھی اور کل اور تمام معاملات وحالات میں سیکولر طبقہ ہی آپ کا مطمح نظر ہونا چاہیے، نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں، ہم اپنے حصے کے چراغ جلانے پر مامور ہیں؎

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
سعد احمد

عمدہ

سعد احمد

بصارت سے بھرپور مضمون کے لئے مبارکباد!

شریف الاسلام محمد موسی

ما شاء اللہ بہت عمدہ