دعوت الی اللہ کا صحافتی مشن

رشید سمیع سلفی تعلیم و تربیت

صحافت بھی ابلاغ وترسیل کا ایک مؤثر ذریعہ ہے، تحریریں زندہ رہتی ہیں، آوازیں فضاؤں میں تحلیل ہوجاتی ہیں، قلم کا اثر باقی رہتا ہے جبکہ لفظوں کا نشان مٹ جاتا ہے، کتنے ہیں جنھیں ہم ان کی تحریروں سے جانتے ہیں، کتنے ہیں جن کو ان کے قلم نے زندہ جاوید بنا دیا ہے، کتنے افکار ونظریات ہیں جو اگر قید تحریر میں نہ آتے تو نسیامنسیا ہوچکے ہوتے، کتنی کتابیں ہیں جو اپنے انمول علمی جواہر پاروں کے سبب دوسری زبانوں میں منتقل ہورہی ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم اور شیخ محمد بن عبدالوہاب، نواب صدیق حسن خان کے فکر ومنہج سے ہم مستفید اس لیے ہوئے کہ انھوں نے اپنا فکری سرمایہ حوالۂ قلم وقرطاس کیا، فتاوی ابن تیمیہ، اعلام الموقعین اور کتاب التوحید وہ قلمی سوغات ہیں جنھیں صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ یہ سب قلم کے ذریعے ممکن ہوا، بساط دہر پر انقلاب واصلاح کا ایک طویل دور ان کی طرف منسوب ہے۔ تقلید، تصوف، تشیع اور انکار حدیث کی دیواروں میں انھوں نے قلم کی نوک سے سیندھ لگائی ہے، فکر وعمل کے صدیوں کے جمود کو انھوں نےتوڑا ہے، شاہراہ کتاب وسنت پر پھیلی کہر کو صاف کیا ہے، قوم وملت کی رگوں میں اصلاح وتجدید کا خون تازہ دوڑایا ہے، کفر وشرک کی تاریکیوں کو اجالوں میں تبدیل کیا ہے، کتنی نابغہ روزگار شخصیات ہیں جن کے فکر ونظر کو قلم کا مرکب نہیں ملا تو ان کا نام مرور ایام کی گرد میں دب گیا، ان کے افکار ونظریات ان کے کارہائے نمایاں شب وروز کی گردشوں میں تحلیل ہوگئیں، آج انھیں کوئی نہیں جانتا، جسے زندہ رہنا ہے وہ لکھنا سیکھے، لفظوں میں اترنا سیکھے، قرطاس کی لکیروں پر چلنا سیکھے۔
نئی نسلوں کے ہاتھوں میں بھی تابندہ رہے گا
میں مل جاؤں گا مٹی میں قلم زندہ رہے گا
دعوت الی اللہ صرف متحرک زبانوں کا مرہون منت نہیں بلکہ یہ قلم کی بھی جولانگاہ ہے، تحریریں دعوت کے پیغام کو نئی دنیاؤں کی سیر کراتی ہیں، قلم کی دعوت نسبتاً زیادہ موثر اور پائیدار ہوتی ہے، اس کے مجال بھی وسیع ہیں، اس کے مواقع بھی ان گنت ہیں، آج صحافت کے میدان میں دعوت الی اللہ کی پیش رفت برائے نام ہے، یہ ایک ویران گذرگاہ ہے جس کی خاک قدموں کی چاپ کی منتظر ہے، خطابت کے کارزار میں گھمسان کا رن ہے، اسٹیج کے مرد میداں بےشمار ہیں، گلی کوچے میں خطابت کا جلوہ ہے لیکن قلم تعطل کا شکار ہے، خطابت وتقریر کے لیے ہر کوئی بے تاب نظر آتا ہے، قلم کا ہتھیار سنبھالنے کی نہ تیاری ہے اور نہ صلاحیت، آج کتنے مجلے نکل رہے ہیں، کتنے جرائد گھروں، دکانوں اور آفسوں میں پہنچ رہے ہیں، صحافتی میدان میں ہماری کاوشوں کا تناسب کتنا ہے؟ منہج سلف کی ترویج واشاعت صحافتی میدان میں کس حد تک ہے؟ ا‌نکار منکر کا قلمی فریضہ کتنے لوگ انجام دے رہے ہیں؟ جواب مایوس کن ہے۔
مجلے اور پرچے دعوت وتبلیغ کے لیے بڑے کارگر ثابت ہوتے ہیں، جب وہ مجلے اور پرچے اسلامی اور اصلاحی رنگ میں رنگے ہوئے ہوں، تربیت اور تزکیہ کے مقاصد سے چل رہے ہوں، کیونکہ سماج میں ایک بڑا طبقہ مطالعہ اور کتب بینی کا شوق رکھتا ہے، علم وتحقیق کا شوقین ہے، وہ اگر دینی مجلے نہیں پاتا ہے تو دوسری میگزین پڑھنے لگتا ہے، شدہ شدہ اسلامی لٹریچر کا شوق تفریحی میگزین کی لت میں تبدیل ہو جاتا ہے، ایسے کتنے لوگ ہیں جنھیں متبادل کی عدم فراہمی دوسرے رخ پر لے کر چلی گئی ہے۔
وقت کے فتنے ذرائع ابلاغ سے نشر کیے جارہے ہیں، صحافت کے میدان میں اس وقت اباحیت اور جھوٹ کا جو طوفان آیا ہوا ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھا، اخبارات اور میگزین ایسے مواد پروس رہے ہیں جس سے برائی پنپ رہی ہے، نسلیں بگڑ رہی ہیں، صحت مند صحافت نزع کی ہچکیاں لے رہی ہے، اس کے اثرات بد سے سماج ومعاشرے کو بچانے کے لیے صحافت کے میدان میں سمند قلم کو ایڑ لگانی ہوگی، خیرونیکی کی تابشوں سے شر کی ظلمتوں کا سینہ چاک کرنا ہوگا، کیا ہوگا؟ اگر اصلاح وتزکیے کی تحریک خاموش ہوگئی، کیا ہوگا؟ اگر نفس وشیطان کی نکیل نہیں کسی گئی، ہر چہار جانب ایک سیلاب آیا ہوا ہے، ایک طوفان کروٹیں لے رہا ہے، ہمارے اردو اخبار بھی ہوا کے رخ پر بہہ رہے ہیں، اشتہار اور آرٹ کے نام پر بےحیائی وفحاشی کو رواج دے رہے ہیں، اس صحافتی زہر کے تریاق کے لیے ہماری تیاریاں کیا ہیں؟ قلم وقرطاس کے محاذ پر فتنوں سے لڑنے کے لیے ہماری منصوبہ بندی کس قدر ہے؟ چند ادارے تھے جو ماہانہ مجلہ جیسے تیسے نکال رہے تھے، وہ یا تو بند ہوچکے ہیں یا پھر بند ہونے کے کگار پر ہیں، دھیرے دھیرے صحافت کی پوری زمین شرپسندوں کی تحویل میں جارہی ہے۔ٹمٹماتے دیوں کی زندگی وقت کی سرکش ہواؤں کی تاب نہیں لاپارہی ہے، سوشل میڈیا کے وسیع وعریض میدان میں اسلامی صحافت کی ہلچل ماند پڑرہی ہے، لکھنے والوں نے ہمت ہار دی ہے، چند جوان سال لکھاری تھے جن کے قلم نے شباب کی دہلیز پر قدم رکھا تو تھا لیکن کثرت مشاغل اور غم روزگار نے ان کے قلم اور فکر کو جمود وتعطل کی نذر کردیا ہے، وہ جن کے قلم سے الفاظ بہتے تھے وہ قلم سے دوری بنا‌ چکے ہیں، امنڈتے جذبوں کا چڑھتا دریا اب اتر چکا ہے، سچ کہا ہے شاعر نے۔
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
ضرورت اس بات کی ہے کہ میدان صحافت میں قدم رنجہ ہونے سے پہلے اسے کار خیر سمجھ کر کیا جائے، ان اجری الا علی اللہ کے پیغمبرانہ خلوص سے لیس ہوکر قلم کی باگ کو حرکت دی جائے، کچھ ایسا بھی سرمایۂ سعادت دامن عمل میں سمیٹ لیا جائے کہ وہ سرتا پا اخلاص کے ریشمی غلاف میں لپٹا ہوا ہو، مال ومنال کی چاہت سے دور دور تک اس کار خیر کا کوئی واسطہ نہ ہو، کسب دنیا کے لیے جائز ذرائع کی بہتات ہے جس سے دولت دنیا سمیٹنے میں کیا حرج ہے؟لیکن دعوت الی اللہ کا بے یار و مددگار مشن ہم سے قربانی چاہتا ہے، دنیا میں کتنے لوگ ہیں جنھوں نے جذبۂ اخلاص سے وہ کام کردیا جو درہم ودینار سے نہیں کیا جاسکتا تھا، سلف کی مایہ ناز تحقیقات کس معاوضے کی رہین منت تھیں؟ 36 جلدوں میں فتاوی ابن تیمیہ کس بادشاہ کے خرچ پر لکھی گئی تھیں؟ مہینوں اونٹ کی پشت کی پر صبح وشام کرنے والوں اور سوکھی روٹیاں دریائے کے پانی میں بھگو کر کھانے والوں نے ہم پر کوئی قرض تو چھوڑا ہوگا؟ آج اسی قرض کو رضاکارانہ اپنے قلم سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
غیرت کی نگاہوں میں یہ آنسو نہیں خوں ہیں
گر پردۂ غفلت پہ ٹپک جائے تو جل جائے
حالات کی گردش نے چلایا ہے جو مجھ پر
اے کاش و ہ نشتر ترے احساس پہ چل جائے

آپ کے تبصرے

3000