21ویں شب کی دہلیز پر چاند کے دستک دیتے ہی آخری عشرے کی شروعات ہوچکی، برکتوں کے نزول کا مہینہ آخری مرحلہ میں ہے، معصیت میں ڈوبی انسانیت سجدہ ریز ہے اورمزید عاصیوں کو دعوت مغفرت دے رہی ہے کہ آو!!! ابھی روح نرخرے تک نہیں پہنچی، زندگی کے صفحات پر پھیلے روسیاہ کارناموں کو روشن کرنوں میں تبدیل کرنے کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے… اب بھی مختصر سی زندگی کی چند سانسیں جسم کے ساتھ پوری رفتار سے چل رہی ہیں…ابھی طاقت ہے، قوت ہے، استطاعت ہے۔
خدارا آجاو!!! روٹھے خدا کو منالو- وہ تمھیں اب بھی سب کچھ دینے کو تیار ہے، وہ تمھاری ذلت بھری زندگی کو عزت کے پیمانے میں ڈالنے کے لیے حاضر ہے:
ادعونی استجب لکم
وہ تم سےکہہ رہا ہے:
ما غرک بربک الکریم
تم کیونکر رب کریم سے جدا ہوکر چاہت کی بیڑیوں کے اسیر ہوگیے؟ رسم اذان و نماز ٹھیک ہے پر سوز وتپش اور راست بازی کی وہ بھی طلب گار ہے…
اے مئے غفلت کے سرمستو! اپنے وجود کی ناپاکی کو پاکی میں تبدیل کرنے کا سنہرا موقع ہے، گناہوں کا دفتر بھر چکا پر آہ! ثواب کے باب کی شروعات بھی نہ ہوسکی، چلتے پھرتے سرزد ہونے والے گناہوں کو حسنات کا پلڑا اب بھی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ اور دامن مراد پھیلائے تمھاری توجہ کا منتظر ہے، مدہوشی اب حد سے بڑھ گئی اور ہوش میں آکر نظریں اٹھانے کا وقت آگیا… مسجدوں میں بھیڑ ضرور ہے لیکن ایسی بھیڑ سے کیا فائدہ جو سراب سے کم نہ ہو، رب کو راضی کرلو اور عہد کرو کہ ہر قدم اور ہرکام اس کی رضا کے لیے کروگے، خواہشات نفسانی کو مار کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے ہوجاوگے جس نے:
“لقد خلقنا الإنسان في أحسن تقویم”
اور
“ولقد کرمنا بني آدم”
کی خوشخبری دے کر تمھارے وجود کو سب سے مشرف بنایا، تمھیں عقل وشعور سے نوازا اور تمھاری پیشانی کو بلند کیا تاکہ تم صرف اسی کو سجدہ کرو، اسی کے سامنے جھکو، سن لو! اگر تم نے آج بھی بیزاری سے کام لیا اور غفلت و انکار کی سنتیں ادا کرنے میں مصروف ہوئے تو جان لو ثریا سے ثری پر آنے کے ساتھ ساتھ حشر کے روز بھی محرومی ہی ہاتھ آئے گی:
“یوم یکشف عن ساق ویدعون إلی السجود فلا یستطیعون”
چاہتے ہوئے بھی سامنے موجود خدا کو سجدہ نہ کرپاؤگے…
یہ مختصر سا وقت ہے، جو ہوچکا سو ہوچکا اب سے ایک توبہ سے نئی پرسکون زندگی کا آغاز کرو جس میں خدا کی محبت ہو اس کا پیار ہو اور اس پر کامل اعتبار…
“استغفروا ربکم إنه کان غفارا”۔ “إن اللہ یحب التوابین………الخ
جزاکم اللہ