برصغیر کے علمی و ادبی افق پر جن یگانہ روزگار شخصیتوں نے اپنے کمال فن کے جوہر دکھلائے اور لمبے عرصے تک عوام وخواص کے دل و دماغ پر راج کرتے رہے ان میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری بھی تھے، جنھیں لوگ شاہ جی اور امیر شریعت کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے۔ شاہ جی مروجہ علوم و فنون میں دسترس رکھنے کے ساتھ بے حد مخلص، محبت پرور اور مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے، وہ تبلیغ دین، اصلاح امت اور قومی سیاست جیسی متضاد اور مصروف کن خدمات انجام دینے کے باوجود شعر فہمی اور سخن سنجی جیسی فراغت طلب چیزوں میں بھی خصوصی ملکہ رکھتے تھے، ہزاروں اشعار ازبر تھے، شاد عظیم آبادی اور دیگر شعراء کی صحبتیں جہاں آپ کی ادبی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھیں وہیں آپ کے مطبوعہ کلام (سواطع الالہام) فارسی و اردو میں گرانقدر ادبی سرمایہ… الغرض آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور انہی ہمہ گیر و ہمہ جہت خصوصیات کی وجہ سے برصغیر میں بے نظیر تھے۔
یہ اور بات ہے کہ آپ سب سے بڑے خطیب کی حیثیت سے متعارف ہوئے، پر سوز تلاوت اور پر زور خطابت کے چلتے تاحیات اس قدر چھائے رہے کہ آپ کے ہر ساختہ پرداختہ پر عوام سر دھنتے، تمام تر خوبیاں بٹورے آپ کے خطاب اعلی معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ طویل ترین بھی ہوتے تھے، بعض دفعہ تو عشاء سے فجر تک بولتے رہتے اور دور دراز سے آئے سامعین ٹس سے مس نہ ہوتے، شورش کاشمیری نے اپنی کتاب “عطاء اللہ شاہ بخاری سوانح وافکار” میں کہیں إجمالا تو کہیں تفصیلا آپ کی سحر خطابت کے ساتھ اس باب میں منجملہ خصوصیات کا ذکر بڑے ہی بھر پور انداز میں کیا ہے۔ اسی ضمن میں واقعہ موجود ہے کہ ایک شب جب شاہ جی لال قلعہ سے متصل اردو پارک میں عوام سے خطاب کر رہے تھے، جواہر لال نہرو ایک عہدے دار انگریز کو اپنے ساتھ لے گئے… جب دونوں مجمع میں پہنچے تو انگریز شخص نے شاہ جی پر گہری نظر ڈالی اور قدرے توقف کے بعد کہا کہ مسٹر نہرو مجھے اس شخص کی بات بالکل سمجھ نہیں آرہی لیکن تقریر کے دوران آواز میں زیر و بم کے ساتھ ہاتھوں سے جو اشارے کررہا ہے اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ جس قوم میں ایسے خطیب موجود ہوں اسے ہم زیادہ دنوں تک غلام نہیں رکھ سکتے۔ غالبا 1946ء کے اخیر یا اوائل 47 کا واقعہ ہے جس کے کچھ ہی مہینوں بعد ہندوستان آزاد ہوگیا..
اسی طرح ہنوز امروہہ اور آگرہ کی تقریریں دنیائے خطابت کی بہترین اور طویل ترین تقریروں میں شمار کی جاتی ہیں۔ ایک مرتبہ گاندھی جی نے آپ کی بابت دریافت کیا کہ کیا وہ ابھی بھی چھ چھ گھنٹے تقریریں کرلیتے ہیں؟؟ جواب دیا گیا کہ، جی! … حیرت میں پڑگئے اور کہا شاہ جی لوگوں پر جادو کرتے ہیں۔ آپ کے زور بیان سے متعلق مدح وثناء اور عقیدت ومحبت کے خول میں لپٹے وقت کے بڑے بڑے عمائدین و قائدین کے اقوال و آراء منقول ہیں جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال، گاندھی جی، جواہر لال نہرو اور ان کے والد، محمد علی جوہر اور شبیر احمد عثمانی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ وہیں دوسری طرف کچھ لوگ اس قدر خوف کھاتے تھے کہ آپ کا علاج گولی بتلاتے تھے… شورش کاشمیری مرحوم نے کالی داس کے حوالے سے لکھا ہے کہ کالی داس نے عورت کے روپ کی تصویر کھینچتے ہوئے کائنات کی جن تصوری اور نظری خوبصورتیوں کو یکجا کیا ہے، ان تمام کا مرقع شاہ جی کی خطابت تھی۔ بہتیروں کی طرح کبھی کبھی میں بھی سوچتا ہوں کہ وہ خطابت کس پائے کی رہی ہوگی جس نے مولانا ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر، نواب بہادر یار جنگ اور نہ جانے کتنے تعلیم و تجربہ سے آراستہ اور “خطاب یافتہ” حضرات کا زمانہ پایا لیکن سب پر فائق رہی۔ حالانکہ اس کے پاس دھرا ہی کیا تھا؟ پٹنہ سے داغ یتیمی، بنارس میں ورق کوٹنے کی مشین اور امرتسر میں ایک چھوٹی سی مسجد…لیکن میدان عمل میں اترے تو “صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے” اور “دعوی ہو جس کو حسن کا وہ آئے تری محفل میں” جیسا منظر رہا… خاص طور سے29/دسمبر 1929ء کے بعد جب مولانا آزاد کی ایما پر انھوں نے مجلس احرار کی بنیاد رکھی اور پھر اسی اسٹیج سے زبان و بیان کی قوت دکھلائی تو کتنے ہی باطل ایوان متزلزل ہونے لگے، نتیجتا پس دیوار زنداں کردیے گئے۔
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں
سرفروشوں کے لیے دار و رسن قائم تھے
خان زاروں کے لیے مفت کی جاگیریں تھیں
قید وبند اور آزادی و رہائی ہوتی رہی، بقول خود کہ آدھی زندگی ریل اور آدھی جیل میں گزری، مزید آپ ہی سے روایت ہے کہ “میں بر صغیر کے گوشے گوشے میں پہنچ کر دعوت الی اللہ اور انگریز حکومت کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ کا مقدس پیغام پہنچا آیا ہوں”۔
اپنا تو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست کہ دشمن کا گھر ملے
لیکن بدلے میں دامن ٹٹولا تو لوگوں کی بہتان تراشیاں اور اپنوں کی “کرم فرمائیاں” ہی ہاتھ لگیں، ویسے سب کچھ لٹانے کے بعد بھی شاہ جی کا اصول “نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پرواہ” کا تھا۔
خیر جلسے جلوس اور تحریکات کے سلسلے اٹھتے اور سرد پڑتے رہے مگر شاہ جی ہر ممکنہ اسٹیج سے انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کے خون گرماتے رہے اور سن شعور سے بڑھاپے کی دہلیز تک جو قیمتی ترین اوقات بلکہ اثاثہ حیات تھے وہ ہر ہر طریقے سے قوم وملک کی بھلائی کے لیے نچھاور کرتے رہے۔
بالآخر کم وبیش دو سو برس کی پیہم جد وجہد کے بعد 15/ اگست1947ء کی شب ہم اہلیان برصغیر آزادی کی نعمت سرفراز ہوئے اور شاہ جی کے سب سے بڑے دشمن انگریز ان کے جیتے جی رخصت ہوگئے، لیکن وہ جاتے ہوئے برصغیر کے نقشے پر اپنا کھیل کھیل گئے، شاہ جی اپنی دور رس نگاہوں سے قبل از وقت بھانپ گئے تھے، سو مجموعی ملی مصلحت اور متوقع قومی مفاد کے چلتے تحریک پاکستان اور تقسیم ہند کے مخالف ہوگئے لیکن حالات کچھ ایسے ناگفتہ بہ ہوئے کہ دوبارہ امرتسر واپس نہ آسکے اور وہیں مستقل طور پر مقیم ہوگئے۔ ویسے بھی واپسی کی راہیں آسان نہ تھیں کیونکہ خدشات کے مطابق تقسیم کے بھیانک فسادات نے شاہ جی کی متاع عزیز قیمتی لائبریری اور مکان ہی نہیں بلکہ سب کچھ جلا کر خاکستر کر ڈالا تھا۔ یہاں یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ مختلف ممکنہ خدشات (جو آگے چل کر کافی حد تک درست بھی ثابت ہوئے) کے پیش نظر ہمارے اکابرین کی ایک بڑی تعداد تقسیم ہند کے مخالف تھی لیکن تقسیم کے بعد جو جہاں تھے وہیں کے لیے نہ صرف سراپا ایثار بنے بلکہ وہاں کے تحفظ کے لیے دائم سینہ سپر بھی رہے، جس کی ایک کڑی شاہ جی بھی تھے۔
قیام پاکستان کے بعد ایک مضبوط اپوزیشن کے کردار کی طاقت و صلاحیت رکھنے کے باوجود جد وجہد آزادی کے اس عظیم مسافر نے عملی سیاست سے دستبردار اور دین کی پاسبانی کے لیے تیار ہو کر میدان عمل میں قادیانیوں سے برسر پیکار رہنے کی ٹھان لی، وہ خود کہتے تھے کہ مرزا غلام احمد کی نبوت اور نظم معری(آزاد نظم) میرے لیے نا قابل فہم ہیں، یہ اس وقت کی بات ہے جب قادیانی اپنے “آقائے نامدار” کی رہنمائی اور بھر پور تعاون سے اسلام کے نام پر بننے والی نئی ریاست کے اندرونی معاملات میں حد درجہ دخیل ہوچکے تھے اور ان کے کچھ لوگ ان اہم عہدوں پر فائز ہوچکے تھے جن کے رسوخ سے بہت سارے معاملات زیر و زبر ہی نہیں بلکہ بنیادی فیصلے تک الٹ پلٹ ہوسکتے تھے… یہی وجہ تھی کہ اسلامی جذبہ سے معمور نوزائیدہ ریاست میں بھی اسلام کے خلاف ہر طرح کے جائز و ناجائز معاملات روا تھے بلکہ قادیانیوں کے خلاف لوگ جن میں شاہ جی بھی تھے، کسی نہ کسی بہانے سے پابند سلاسل کیے گئے… حالانکہ ان میں سے بیشتر قافلہ حریت کے حدی خوانوں میں سے تھے جن کا پہلا اور آخری ہدف تھا کہ کسی طرح برصغیر سے انگریز رخصت ہوجائیں اور لوگ آزاد فضاؤں میں سانس لے سکیں، اور اس کے لیے انھوں نے مشقتیں سہیں، قربانیاں دیں، جانیں لٹائیں، لیکن جب آزادی کی نعمت ملی تو وہی قید کے بام و در ہی حصے میں آئے۔
چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سنیچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
گویا بہار میں خزاں کے سایے تلے زندگی گزارنے پر مجبور رہے اور دنیا کے نقشے پر وجود میں آنے والی نئی اسلامی ریاست میں بھی حق گوئی اور راست بازی کی پاداش میں کئی بار عتاب کا شکار ہوئے، بلکہ ملتان کے “مجرموں” کی فہرست تک میں رہے جس کا ذکر مختار مسعود نے اپنی کتاب “آواز دوست” میں بھی کیا ہے جو باوجود مؤلف کی تنگ نظری کے، پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ شاہ جی سے متعلق پڑھتے اور سنتے ہوئے جب اس باب تک پہنچتا ہوں تو ضبط جواب دینے لگتے ہیں اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں کہ انگریز جن کے دائرہ حکومت میں سورج تک غروب نہیں ہوتا تھا وہ شاہ جی سے کس قدر خائف تھے … اور ایسے عالی ہمت اور عظیم المرتبت مصلح قوم و ملت جنھیں با شعور قومیں پلکوں پر بٹھائے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتی ہیں اور دنیا میں نام پیدا کرتی ہیں، یہاں اپنوں ہی کے ہاتھوں کس قدر بے دردی سے پامال کیے گئے…الاماں والحفیظ۔ شکیل بدایونی نے شاید ایسے ہی وقتوں اور لوگوں کے لیے کہا تھا
مرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا غم نہیں
مجھے خوف آتش گل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے
خیر شاہ جی وہاں قادیانیوں کے خلاف صف آرا رہے اور انہی کی کوششوں اور عوام کی محنتوں کے نتیجے میں قادیانوں کی روز افزوں بڑھتی ترقی اور طاقت میں کچھ حد تک روک تھام کر کے نہ صرف پاکستان بلکہ اسلام کو بھی گوریلا حملوں اور شب خون کی زد میں آنے سے بچا لیا، یہ اور بات ہے کہ بعد کے ادوار میں ان کا نفوذ بتدریج بڑھتا رہا لیکن قادیانیوں کے تئیں عوامی آگہی جس کی بنیاد شاہ جی اور ان کے رفقاء نے رکھی تھی، ذہنوں پر مرتسم تھی، اس وجہ سے ان کی شاطرانہ فکر کم از کم ایک دائرہ تک عارضی طور پر سہی محدود رہی۔ وگرنہ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا کہ قادیانی جس چرب زبانی مع کذب بیانی کے ساتھ تیزی سے سادہ لوح عوام کو اوہام باطل کا غلام بنا رہے تھے اس سے مسلمانوں میں ایک کھلبلی سی مچ گئی تھی اور قریب تھا کہ بہتیرے مسلمان ان کے دام فریب میں آکر دنیا و آخرت برباد کرلیتے لیکن بفضلہ تعالی وقت پر ان کے غلط عقائد اور باطل نظریات سے عوام مطلع ہوگئے اور وہ اپنے مشن میں نا کام ہوگئے۔
ساٹھ کی دہائی ختم نہ ہوئی کہ سلسلہ شام و سحر اور ان کی گردشوں نے شاہ جی کو پیری کی اس دہلیز پر پہنچا دیا جہاں سے ہوکر لوگ راہی عدم کو سدھارتے ہیں، فالج کا حملہ ہوا اور آگے چل کر یہی چل چلاؤ کا باعث ہوا۔
انتقال سے کچھ عرصہ پہلے 1960ء میں مسٹر پر بودھ چندر لاہور آئے اور شاہ جی سے ملاقات کے لیے ملتان گئے، اور کہا کہ پنڈت جی (وزیر اعظم ہند) اور اندرا گاندھی آپ کو یاد کرتے اور سلام کہتے ہیں…شاہ جی لمحہ بھر لیے حسرت بھری مگر گہری خاموشی میں ڈوب گئے، پھر کہا کہ پنڈت جی سے کہنا کہ جس عطاء اللہ شاہ بخاری کو وہ جانتے ہیں وہ 14/اگست 1947 کو وفات پاچکے البتہ اندرا کو دعا و سلام کہنا کہ وہ میری بیٹی ہے۔ اس کے بعد 21/اگست 1961ء کو مذکورہ مرض میں مبتلا رہ کر رہگزار عالم جاودانی ہوگئے۔ رحمه الله رحمة واسعة
اپنے سامعین کو مردہ دل، بنجر زمین….وغیرہ سے پکارنے والے اور لمبے زمانے تک خوابیدہ لوگوں کو بیدار کرنے، مردہ دلوں میں روح پھونکنے اور زندگی کا احساس دلانے والے بے شمار فضائل و محاسن اور کمالات کی ایک کائنات سمیٹے شاہ جی لاکھوں آہوں اور سسکیوں کے درمیان ولیوں کی بستی سے معروف ملتان میں ہمیشہ ہمیش ایسے سوئے کہ بس پکارنے والے پکارتے رہیں… اور اٹھیں بھی تو کیوں جب کہ خود لکھ گئے تھے
وہ اٹھتا ہوا اک دھواں اول اول
وہ بجھتی سی چنگاریاں آخر آخر
قیامت کا طوفان صحرا میں اول
غبار رہ کارواں آخر آخر
چمن میں عنادل کا مسجود اول
گیاہ رہ گلرخاں آخر آخر
ایک ادیب اور خطیب کی موت نہیں بلکہ ہند کے صنم خانوں سے اٹھنے والی اللہ اکبر کی صدا تھی… جو نصف صدی تک گرجی برسی اور اپنے فرض نبھا کر حشر تک کے لیے خاموش ہوگئی
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
بہت شاندار 💐💐💐
بہت ہی بہترین مضمون۔ ماشاء اللہ۔❤🌺🌹
ما شاء اللہ
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ایک عظیم شخصیت کا بہترین تعارف!
ما شاء الله. بہت خوبصورت، معياری اور معلوماتی تحرير. بارك الله فيكم. اب ایسی شخصيات کہاں ہیں! “الرجال في المقابر”.
ما شاء اللہ تبارک اللہ
شاہ جی فن خطابت کے شہسوار تھے اور اپنی خطابت سے دلوں کو مسحور کر دیتے تھے آپ کی تحریر نے دل کو مسحور کردیا
اللہ اللہ یہ بالی عمر اور یہ انداز تحریر
اللہ کرے زور قلم اور ہو زیادہ
ماشاء الله
بارك الله فيكم
ماشاءاللہ
شاندار تحریر بارك الله فيكم