ہمیں بھی یاد رکھیں جب لکھیں تاریخ گلشن کی
کہ ہم نے بھی لٹایا ہے چمن میں آشیاں اپنا
صحافت کی اہمیت مسلم ہے، اس کی افادیت سے مجال انکار نہیں، اس فن کے ذریعہ خوابیدہ اشخاص کو بیدار اور ان کے روح و قلب میں جوش، ولولہ اور انقلابی جذبات پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امراء و سلاطین اور ارباب اقتدار ہمیشہ اس سے خائف اور لرزاں و ترساں رہے، جیسا کہ امریکہ کے چھٹے صدر جیفرسن اور فرانسیسی حکمراں نیپولین بونا پارٹ وغیرہ نے کھلے طور پر اس کا اظہار کیا اور بقول اکبر الہ آبادی کہ:
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
گر توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
صحافت ١٧٨٠ء میں ہندوستان کے مطلع پر اس وقت نمودار ہوئی جب سارا ملک غلامی کی بدترین زنجیروں میں کراہ رہا تھا، یہاں انگریزی حکومت تھی اور اس کے مقبوضات کے حدود اتنے دور تک پھیلے ہوئے تھے کہ ان میں کہیں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، یورپ کے گنتی کے چند ملکوں کے سوا عالمی نقشے کے جس حصے پر نظر ڈالو انگریز کے قبضہ میں تھا، اور وہ بڑے دبدبے اور طنطنے کے ساتھ داد حکمرانی دیتا تھا۔ ہندوستان بھی اس کا وہ وسیع و عریض غلام ملک تھا جسے وہ سونے کی چڑیا سے تعبیر کرتا تھا مگر جب اس نے ظلم و استبداد کا سلسلہ شروع کیا اور اہل ہند کے تمام شعبہائے زندگی پر پے در پے حملے شروع کیے تو باشندگان ہند نے ان کے خلاف بغاوتیں شروع کیں، علاقائی حکمرانوں نے استخلاص وطن کے لیے شمسیر و سنان سے کام لیا، علماء و زعماء نے اپنی بساط کے مطابق تگ و تاز کی اور آزادی و حریت کے لیے کوشاں ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ صحافی حضرات بھی اس بنیادی خدمت کی انجام دہی کے لیے مصروف عمل ہوئے یہاں تک کہ لوگ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہندوستان کو غلامی سے آزاد کرانے میں قومی رہنماؤں نے جو اہم رول ادا کیا وہ ہرگز ممکن نہ ہوتا اگر صحافت قومی رہنماؤں کے دوش بدوش نہ رہتی اور حمایت وتائید نہ کرتی:
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
تاریخ کے اوراق پلٹیے! دیکھیے! دنیا میں جہاں کہیں بھی انقلابات رونما ہوئے وہاں کی زبان و ادب اور صحافت نے بھی اس میں نمایاں و کلیدی رول ادا کیا خواہ امریکہ کی جنگ آزادی ہو یا انقلاب فرانس یا یونان کا معرکہ حریت ہر جگہ اس نے دیرپا اور گہرے نقوش چھوڑے۔ اگر ہم ہندوستان کی جد و جہد آزادی میں صحافت کے کردار کا بالاستعیاب مطالعہ کریں تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ صحافت ہر گام اور ہر ڈگر پر آزادی کی نقیب رہی۔ صحافت نے جس جوش و خروش اور گھن گھرج کے ساتھ تحریک آزادی میں حصہ لیا وہ عدیم المثال ہے:
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
جب بھی جنگ آزادی کی تاریخ رقم کی جائے گی تو اس میں پیکر صدق و صفا، خلوص و وفا کے مجسم اہلحدیث زعماء و قائدین حریت اور اہلحدیث اخبار و رسائل مثلا کرزن گزٹ، الجامعہ، الہلال، البلاغ، ہمدرد، ہفت روزہ اہلحدیث، الہادی، مسلمان، انقلاب، اقدام اور اس کے علاوہ مولانا آزاد کے بارہ(١٢) عبد الحلیم شرر کے دس سے زائد، علامہ ثناء اللہ امرتسری کے اخبارات و رسائل پھر ان اخبارات و رسائل کے مدیران مثلا مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان، مولانا داؤد غزنوی، مولانا حسین بٹالوی، علامہ ثناء اللہ امرتسری، مولانا ابراھیم میر سیالکوٹی، مرزا حیرت بیگ دہلوی اور عبد الرزاق ملیح آبادی وغیرہ جو آسمان صحافت کے ایسے تابندہ ستارے تھے جن کی تابانی صحافت کے اوراق پر کبھی مدھم نہیں پڑ سکتی، اگر ان کی تاریخ نہ لکھی جائے تو داستان حریت ناقص خیال کی جائے کیونکہ جب تلوار شکستہ ہوچکی تھی اس وقت اہلحدیث علماء و زعماء اور صحافیوں کی زبان و قلم کی توانائی نے وہ جو جوہر دکھائے کہ غیر ملکی سامراج لرز اٹھا اور یہ بھی کہ اہلحدیث اخبارات نے فرنگی راج کے خلاف اس وقت اختلاف اور صدائے احتجاج بلند کیا جب کوئی سیاسی جماعت اور حریت کی قیادت میدان میں نہیں آئی تھی جس سے لارڈ میکالے اور اس کے حواریوں کی نیندیں حرام ہوگئیں، انھوں نے سرفروشی اور جانبازی کی وہ ولولہ پرور مثالیں قائم کیں کہ رہتی دنیا تک مشعل راہ رہیں گی۔ شورش کاشمیری کے لفظوں میں:
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں
سر فروشوں کے لیے دارورسن قائم تھے
خان زادوں کے لیے مفت کی جاگیریں تھیں
لیکن بڑے ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ جماعت کے صحافتی کارناموں اور قربانیوں کا اعتراف اپنوں نے بہت کم کیا لیکن غیروں نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس کا اعتراف کیا۔ مشہور انگریزی مصنف ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے لکھا ہے کہ “وہابیوں نے نہ صرف اپنی تقریروں کے ذریعے لوگوں کو انگریزوں کے خلاف بھڑکایا بلکہ انگریزی اقتدار کے خلاف کتابیں تصنیف کیں، فتوے صادر کیے، نظمیں لکھیں، پوسٹر اور پمفلٹ شائع کیے اور بعد کے ادوار میں زبردست زور صحافت کا مظاہرہ کیا” آگے یہ بھی لکھا کہ “ان تحریروں کی ضربیں اتنی سخت اور جان لیوا تھیں کہ انگریز ان کی تاب نہ لاسکے… اور ان تحریروں کا اسلوب اس قدر دل کو چھو لینے والا تھا کہ ان کو پڑھ کر لاکھوں سرفروش مجاہدین آزادی انگریزی اقتدار کے قلع قمع کے لیے میدان جنگ میں کود پڑے، گویا “میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر _ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا” کا سماں بندھ گیا۔
یہ وہ اہلحدیث اخبارات و رسائل تھے جن سے فرنگی حکام کی نیندیں حرام ہوگئیں اور انگریزی حکومت نے اسے ناگہانی آفت سمجھ کر دیسی و غیر دیسی تمام اخبارات و رسائل کی آزادی سلب کرنے کی غرض سے وہ قانون نافذ کیا جسے تاریخ صحافت میں”قانون زباں بندی” یا Gagging act کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مگر اہلحدیث صحافیوں نے بھی قلم کی آزادی کی قیمت اپنے سروں کا نذرانہ پیش کرکے ادا کیا جس پر اہل ہند کو ہمیشہ ناز رہے گا:
شہید قوم ہوجانا ہی عمر جاودانی ہے
جو وقف ملک ہو بس وہ مبارک زندگانی ہے
یہ اہلِ حدیث اخبارات و رسائل ہی تھے جنھوں نے عوام کو بیدار کرنے کے فرض سے کبھی غفلت نہیں برتی، گرچہ اس کے افراد کو قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے سر قلم ہوتے گئے، مگر اس عظیم طاقت کے سامنے سر نہیں جھکایا اور نہ ہی قلم کو جھکنے دیا، نہ کبھی مصالحانہ رویہ اختیار کیا اور نہ کبھی آزادئ رائے کے علم کو سرنگوں ہونے دیا۔ ان صحافیوں کی کارکردگی کی دستاویز تحریکِ آزادی ہند کی تاریخ میں ثبت ہے اور کبھی بھی اس کی رونق میں کمی واقع نہیں ہوگی۔ کیونکہ اگر مقصد میں خلوص ہو اور دل فدائیت و جانثاری کے پاکیزہ جذبے سے سرشار ہو تو اس کی قوت تاثیر میں چنداں کلام نہیں ہوسکتا:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
بہر حال اہل حدیث اخبارات و رسائل نے جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کیا جو کہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہ ایک قومی و ملی سرمایہ ہے جس کی بہر طور حفاظت کی جانی چاہیے۔ افسوس کہ آج جب جدوجہد آزادی کا تذکرہ ہوتا ہے تو ان کے کارناموں کو پس پشت ڈالنے کی سعی خام کی جاتی ہے۔ اس لیے اربابِ حکومت، اراکین سلطنت اور تحقیقی اداروں وغیرہ وغیرہ کو اس جانب توجہ مبذول کرنی چاہیے اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی سعی نامسعود پر رد کرتے ہوئے حقائق سے پر نصاب کو فروغ دینا چاہیے تاکہ آئندہ نسلیں منافرت باہمی کی شکار نہ ہوں۔
الغرض اس کا لب لباب یہ کہ آزادی کبھی ایک دروازے اور ایک ہی ذریعے سے نہیں آتی، مختلف دروازوں اور ذریعوں سے صحن چمن میں داخل ہوتی ہے اور اپنی بہار دکھلاتی ہے، وطن عزیز ہندوستان کی آزادی کا بھی یہی حال ہے، یہ بہت سی تحریکوں اور مختلف عناصر کی مسلسل جدوجہد اور جانفشانی کا نتیجہ ہے جس میں مجاہدین کی قربانیوں کے ساتھ اخبار و رسائل خصوصاً اہل حدیث صحافت کی کاوشیں پوری آب و تاب کے ساتھ شامل ہیں۔ ان کاوشوں اور قربانیوں کو ہندوستان کی تاریخ سیاست کے زریں باب کی حیثیت حاصل ہے۔ جن افراد اور جن عناصر نے تحریک آزادی میں شامل ہوکر جو بھی خدمات سر انجام دیں اس دور اور اس ماحول اور اس نقطہ کے پیش نظر وہ بالکل صحیح اور درست تھیں۔ جس کے نتیجے میں ١٥/ اگست ١٩٤٧ء کو وہ دن آیا تقریباً ساڑھے پانچ سو ریاستیں راجاؤں مہاراجاؤں کی مطلق العنانی اور انگریزوں کے تسلط و جبر و استبداد سے نکل کر آزاد ہوئیں اور وطن عزیز میں جمہوری نظام نافذ ہوا، غلامی کا اندھیرا چھٹ گیا اور آزادی کا سورج طلوع ہوا:
کیا ان کو خبر تھی ہونٹوں پر جو قفل لگایا کرتے تھے
ایک روز اسی خاموشی سے دہکیں گی ہزاروں تقریریں
اس طلوع آزادی کے لیے اہل حدیث صحافت نے جو جانفشانی، جگر سوزی اور قربانی کی راہ اپنائی وہ تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔ اس کے کالموں میں آزادی کی جدوجہد کی نہایت اہم تقریریں، قرار دادیں اور یاد داشتیں محفوظ ہیں۔ آزادی کی کوئی صداقت پسند تاریخ اس کی خدمات کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ یہ تھے ہمارے اسلاف اور مجموعی طور پر تحریکِ آزادی میں ان کی جانی، مالی اور صحافتی قربانیاں جن کی طرف شورش کاشمیری نے اپنے اخبار چٹان ١٣/نومبر ١٩٦٧ کے شمارے میں اشارہ کیا ہے کہ “جن لوگوں نے ہندوستان کے مقتل میں جان دی، ان میں پونے دو لکھ افراد وہ تھے جن کا اپنا نام تو اس قتل عام کی زود فراموشی کے باعث محفوظ نہیں رہ سکا لیکن ان کی جماعت کا نام رہ گیا ہے، اب جو ریکارڈ سامنے آرہا ہے اس سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ان کے خون پر جو چھاپ لگائی گئی وہ ان کے وہابی ہونے کی تھی۔ گویا ان لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے یہ کہہ دینا ہی کافی تھا کہ یہ وہابی ہے۔ وہابی گویا انگریزوں کے نزدیک باغی ہونے کا شرعی نام تھا۔ اس لفظ کو بالالتزام رسوا کیا گیا، اس وقت کی اسلامی مملکتوں پر برطانوی استعمار کے تصرفات اور ہندوستانی مسلمانوں کی ذہنی حالت کے ثمرات دو ایسی چیزیں تھیں کہ انگریزی استعمار نے اپنے خنجروں کو جواز مہیا کرنے کے لیے وہابی کے لفظ کو خود مسلمانوں میں قہر و غضب کا نشانہ بنایا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس سے بڑی مصلح جماعت اور اس کے غیرت مند رہنماؤں کو برطانوی استیلا اور بدعتی فضا کے پروردوں نے دشنام و اتہام کا ہدف بناکر اسلام کی طاقت کو کمزور کیا اور اسلام کی حقیقت کو مجروح… ورنہ ایک خاص مرحلہ سے ایک خاص دور تک ہندوستان میں اسلام کی تاریخ وہابی جماعت ہی کی مرہون سپاس ہے۔
میں اہلحدیث کا اس لحاظ سے معترف ہوں کہ مجھے حیریت ہوتی ہے کہ اس قسم کے گوہر یکدانہ بھی مسلمانوں میں موجود رہے ہیں جنھوں نے دین کو صحیح کیا لیکن خود رسوا ہوئے، جنھوں نے اسلام کو بالا کیا لیکن خود غضب کا شکار ہوگیے، جنھوں نے غیر ملکی استعمار کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن اپنوں کے ہاتھوں اور پرایوں کے خنجروں سے گھائل ہوتے رہے”۔
لہذا ہمیں بھی اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صحافت کے ذریعہ اپنے دین اور وطن کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنی چاہیے۔
اخیر میں دعا ہے کہ الہ العالمین ہم تمام لوگوں کو صحافت کے ساتھ ساتھ تمام ممکنہ ذرائع کے ذریعہ دین اور وطن کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین
آپ کے تبصرے