پہنچا جو حرم کی چوکھٹ پر

خبیب حسن مبارکپوری سفریات

جگہ جگہ صحراؤں میں بسنے والے لوگ گہری نیند کی آغوش میں جاچکے تھے، البتہ دور چھوٹی بڑی پہاڑیوں کے پیچھے پھیلی پھیلی سی روشنی تیزی سے قریب ہوتی جارہی تھی کہ اتنے میں آواز بلند ہوتی ہے “شعیب بھائی اٹھ جائیں” وہ نیند سے بیدار ہوتے ہی آنکھیں ملتے ہوئے سیدھے ہاتھ شیشے سے لگے پردے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اسے ایک کنارے لگاتے ہوئے بولتے ہیں: یہ تو طائف ہے اور ہمیں یہیں سے احرام باندھنا ہے۔ طائف؟؟؟ جی طائف ہے اور ریاض اطراف سے آنے والے یہیں قرن منازل (میقات) سے احرام باندھتے ہوئے عمرہ کی نیت کرتے ہیں۔
گاڑی وہاں موجود پرشکوہ مسجد سے متصل وسیع تر جگہ کے ایک گوشہ میں ٹھہری اور سب عمرہ کے لوازمات کی تکمیل کے لیے مستعد ہوگئے۔ واجبات کی ادائیگی کے معا بعد ہم قدرے بلندی کی طرف ہولیے اور سامنے موجود زمینی نشیب و فراز اور دور تک موجود انسانی آبادی کو دیکھ کر سوچتے رہے کہ بلا شبہ اس جگمگاتے ہوئے روشن طائف کی بقا انسانیت کے سب سے بڑے محسن کی مرہون منت ہے۔ اگر شفقت و محبت، نرم دلی و ہمدردی کے پیکر نے چودہ صدی قبل مکارم اخلاق کا اعلی معیاری نمونہ پیش نہ کیا ہوتا تو شاید ان علاقوں سے آج ویسے ہی گزر جاتے جیسے گزشتہ قوموں کی اجڑی ہوئی ویران بستیوں سے گزرتے ہیں۔ لمحہ بھر کے لیے قلم روکتے ہیں اور تصورات کی ان وادیوں میں چلتے ہیں جب مکہ میں کفر و انکار کی تیز و تند ہواؤں نے توحید کے چراغ کو بجھانے کی کوششیں کی تھیں تب طائف میں شمع امید جلتی ہوئی نظر آئی لیکن وہاں پہنچے تو مایوسیوں کی شام پھیل چکی تھی، پردہ شب میں چھپی ایسی مہیب اور تاریک شام جو بظاہر نہایت خوفناک لگی تھی مگر تقدیر نے اس کی کوکھ سے ایک ایسی روشن صبح کو جنم دیا جس کی تابانی اسلامی تاریخ کے اوراق پر آج تک مدھم نہ پڑ سکی۔
ایسی بھی کوئی شب ہے کہ جس کی سحر نہ ہو

دوبارہ گاڑی میں سوار ہوتے ہی مجھ عاصی سمیت دیگر احباب کو نیت و تلبیہ کی تاکید کی گئی اور کچھ دیر بھی نہ گزرے کہ سوئے حرم روانہ ہوگئے۔ قریب 40 منٹ کی دیری سے نظریں اونچی کیں تو سرنگوں سے ہوتے ہوئے دم بدم منزل سے قریب ہو رہے تھے۔ صبر و تحمل کے بندھن ٹوٹنے لگے، اضطراری و بے قراری سے دھڑکنیں تیز تر ہونے لگیں اور عجیب سی وجدانی کیفیت طاری ہونے لگی، گویا روح کو اذنِ رقص ملا جس سے خوابیدہ جُنوں ایسا بیدار ہوا کہ خیال آیا بس سب کچھ یہیں چھوڑیں اور دوڑتے ہوئے سیدھے حرم کی چوکھٹ پر سر تسلیم خم کردیں۔

قریب دو کلو میٹر کی مسافت کے بعد حرم میں تھے۔ کیا روحانی منظر ہے۔ تراشی ہوئی پہاڑیوں سے متصل دروازہ پر ہی ٹھہر گئے۔ اللہ اللہ کتنی مبارک اور تاریخی زمین ہے، حضرت ابراہیم و اسماعیل اور حضرت ہاجرہ علیھم السلام کی ابتلا و آزمائش اور پھر اس میں سرفرازی کی مقدس جگہ یہی ہے جہاں صدیوں بعد “یا ایھا الناس قولوا لا الہ اللہ تفلحوا” کی صدائے باز گشت گونجی اور دیکھتے دیکھتے ابر رحمت بن کر دہر پر چھا گئی، مجاز لکھنوی کے لفظوں میں:
حکمراں دل پر رہے صدیوں تلک اصنام بھی
ابر رحمت بن کے چھایا دہر پر اسلام بھی

یہاں وہ مقامات بھی ہیں جن میں نبی آخر الزماں کو ہر طرح سے تکلیفیں دی گئیں جس سے ہجرت پر مجبور ہوئے پھر ہجرت کے بعد بھی کیا کچھ نہیں ہوا، صلح حدیبیہ میں اپنے ہی گھر گاؤں سے ہی نہیں بلکہ خدا کے گھر کے دیدار تک سے محروم کردیے گئے لیکن دو ہی سال کے بعد فتح مکہ کے موقع پر اسی جگہ سے کھڑے ہوکر سب کی موجودگی میں لا تثریب علیکم الیوم (تم پر آج کوئی سرزنش نہیں) کا مژدہ جانفزا سنایا۔ ہزارہا ہزار برس کی انسانی تاریخ میں رحم و کرم اور عفو و درگزر کی سب سے بڑی مثال ہے جسے سنگ میل کی حیثیت دے کر دنیا امن و امان کی آماجگاہ اور سکون و اطمینان کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ کتنی تاریخیں لکھی جائیں، کتنے واقعات سنائے جائیں؟ صحابہ کرام کے ایمانی سوز و ساز کا ذکر کریں، حضرت خبیب کے قصہ دار و رسن کو چھیڑیں یا ابو سلمہ کے فقر و غنا کو بیان کریں، کن کن چیزوں کو سامنے لائیں؟؟ ایسی ناگفتہ بہ حالت میں بھی ایک صدائے حق کی اقتدا میں ہزارہا خدا پرستوں کی صداؤں سے آسمان کا جوف لبریز ہوگیا تھا۔ کیسے پاکیزہ لوگ تھے جو خدا کے دین کے تحفظ کے لیے کبھی بھی کسی بھی معاملے میں تذبذب میں نہ پڑے، جب جب جن امور حیات کی طرف اشارہ کیا گیا، بجا لائے۔ اور جن چیزوں سے روکا گیا، باز رہے۔ جس کے پیش نظر ایثار کی ایسی داستان رقم ہوئی کہ جس کی نظیر رہتی دنیا تک نہیں ملے گی، اور ویسے بھی اللہ کی رضا کے سامنے ان مٹی کے زخرفوں کی کیا حیثیت؟ ایک جانب دنیا کی آرائشیں اور زیبائشیں تھیں تو دوسری جانب اللہ کے دین کی تبلیغ میں پیش آمدہ مشقتیں، حرص و طمع اپنی تمام تر خوش نمائیوں اور جلوہ آرائیوں کے ساتھ دعوت استراحت دے رہی تھی لیکن ایمانی حرارت و تازگی ان کے پاؤں کو مطلوبہ مقصد سے متزلزل نہ کرسکی۔ آخری پہر کی میٹھی نیندیں راست بازی کی تڑپتی ہوئی نمازوں اور گریہ و زاری میں ڈوبی ہوئی دعاؤں کی نذر کردی گئیں، آخر کیوں؟ اس لیے کہ مقصد تخلیق کے ساتھ رب کی رضا حاصل کرسکیں۔ یوں ہی خاک نشینوں کو انبیاء کے بعد مقدس جماعت کا اعزاز حاصل نہ ہوا اور “رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ” کی سندیں نا ملیں۔ یہ محض رب کی توفیق تھی ورنہ “ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں”۔ اس لیے دنیا کے کسی گوشے میں جب بھی کسی بھی صحابی پر کسی لعین کی طرف سے انگشت نمائی ہوتی ہے تو بے ساختہ بد دعائیں نکلتی ہیں اور کیوں نہ ایسا ہو بلکہ ایسے لوگوں کے لیے اجتماعی بد دعائیں کرنی چاہئیں تآنکہ ایسے لوگ اپنے انجام کو پہنچ جائیں، لیکن ایسے لوگوں کے تئیں “یا رسول اللہ اور صلو علی الحبیب” پکارنے والوں کی آنکھوں پر بندھی عقیدت کی پٹیاں آپ کے قول “لا تسبوا اصحابی” سے بھی دور رکھ دیتی ہیں۔

آواز آئی کہ آگے آجائیں۔ آرزوؤں اور تمناؤں کے محور حرم کے پاس پہنچے جہاں پہلی نظر پڑتے ہی ہوش و خرد مفلوج ہوجاتے ہیں، تلوؤں کے تقاضے تو یاد رہتے ہیں پر نظروں کے تقاضے بھول جاتے ہیں، جہاں عشق و محبت تمام تر سرو سامانیوں کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیں، حجر اسود کے قریب سے گزرتے ہوئے بندہ اور بندہ نواز ایک جھلک پانے اور بوسہ لینے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ گو کہ اس کی حیثیت ایک پتھر سے زیادہ نہیں لیکن “ان المحب لمن یحب مطیعہ” کا تقاضہ ہے کہ محبوب کے ہر ہر قول و عمل سے محبت اور بغیر کسی پس و پیش کے بسر و چشم پاسداری کی جائے۔
حجر اسود کے بوسے کے بعد جب رحم و کرم کی امید و بیم نے اپنی چادریں تان لیں تو کعبہ کی دیوار پر ہاتھ رکھے کافی دیر تک یہی سوچتے رہے کہ کیا کہیں؟ ایک چھوٹے بچے کی طرح جو دن بھر کے خواب و خیال سمیٹے سر شام والد کے انتظار میں رہتا ہے کہ وہ آئیں تو ساری خواہشوں کی تکمیل کی عرض داشت پیش کروں لیکن وہ بچہ والد کی آمد کی خوشی میں سب کچھ بھول کر ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹنے کو سب سے بڑی سعادت تصور کرنے لگتا ہے، ویسے ہی احساس وجذبات ہوگئے کہ، یاد آ نہ سکا جو سوچا تھا… پر آگے کچھ لوگ آہیں بھر بھر کر دعائیں کررہے تھے اور ہم ان کی دعاؤں پر محض آمین کہہ رہے تھے۔ پہلے سنتے تھے اور اب دیکھ رہے تھے۔ وہی کہ…
پہنچا جو حرم کی چوکھٹ پر
کیا چیز ہے دنیا بھول گیا

نوٹ:- سفر نامہ کا موجودہ حصہ اور آنے والے تمام حصے برادرم ابوالمیزان (ممبئی)، برادرم عطا حیدر اور برادرم غفران دانش کے حکم کی تعمیل ہیں۔ جو انتساب کی رسم دیکھنے کے خوگر ہیں، وہ انہی مخلصوں کی طرف انتساب سمجھیں۔

13
آپ کے تبصرے

3000
13 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
12 Comment authors
newest oldest most voted
رشید ودود

ابے یہ تو نے لکھا ہے؟ مراقبے میں تو نہیں چلا گیا؟ وہابیوں کے دیس میں تجھے تصوف کے جھٹکے لف رہے ہیں، واہ بھئی واہ! جگ جگ جئو! دودھو نہاؤ! پوتوں پھلو! آج بن پئے لٹل بہک رہا ہے، کیف و مستی، جذب، انہماک سب کچھ تو ہے آج

خبیب حسن

ہمیشہ کی طرح رشید ودود بھائی کی محبت وشفقت ہے❤️❤️

سیدہ صبیح گل

۔بہت عمدہ خبیب صاحب،،، بہت ہی شاندار مضمون تشکیل دینے پر ہماری طرف سے بہت داد وصول کیجئے۔
سلامتی کی ڈھیروں دعائیں،
پاکستان سے بہت پیار

مہر عبدالرحمن طارق

بہت عمدہ خبیب ۔۔۔
زبردست لکھتے ھو

محمد ساحل

بے حد عمدہ تحریر!!!! اس خاکسار کی کیا جرأت جو آپ جیسے قلمکار کی تحریر پر تبصرہ کرے ویسے بھی میرے پاس وہ الفاظ ہیں ہی نہیں جن کا تقاضہ آپ کی یہ تحریر کر رہی ہے۔ مزہ آگیا
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔
لکھتے رہو رک کیوں جاتے ہو؟؟

خبیب حسن

جزاک اللہ مہر عبر الرحمن بھائی
سلامت رہیں ♥️♥️

اسرار احمد

ماشااللہ اللہ
اللہ سلامت رکھے آمین

Abdul moid

بہت خوب خبیب

Mohammad Salman

ماشاء اللہ
بہت عمدہ تحریر ہے، اللہ آپ کے علم میں مزید برکت دے آمین

Kashif Shakeel

بہت خوب خبیب بھائی
دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے
اتی سندر

عطا رحمانی

بہت خوب بھائی! عمرے پر جانے کا من کرنے لگا.

Rizwan

Bahot Umdah

محمد محسن جاوید

خبیب بھائ بہت عمدہ