زکاۃ کے پیسوں سے فوڈ کٹ (food kit) تقسیم کرنے کا حکم؟

ابو احمد کلیم الدین یوسف افتاء

زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے، جسے معاشرے کے غریب، محتاج، ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کے تعاون کے لیے فرض کیا گیا ہے، زکاۃ کا مال کہاں خرچ کرنا ہے اور کس قسم کے لوگوں کو دینا ہے اس کی رہنمائی سورہ توبہ کی آیت نمبر ٦٠ میں کی گئی ہے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ خود سے اپنی زکاۃ غریبوں کے درمیان تقسیم نہیں کر سکتے، ایسی صورت میں وہ کسی کو اپنا نائب بنا دیتے ہیں تاکہ وہ زکاۃ کا مال غریبوں اور فقراء تک پہنچا دے، اس نائب کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اس مال کو فقراء و محتاجین تک ویسے ہی پہنچا دے جیسے اسے دیا گیا ہے، اس میں کوئی تصرف نہ کرے، مثال کے طور پر: کسی نے ایک شخص کو 10000 زکاۃ کے روپے دیے کہ وہ غریبوں کے درمیان تقسیم کر دے، اب اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غریبوں میں روپیہ ہی تقسیم کرے، اپنی صواب دید سے چاول، گیہوں، آٹا، تیل، چینی، مصالحہ اور دیگر اشیاء خوردنی خرید کر غریبوں کو نہ دے، کیونکہ زکاۃ کا مال صرف غریبوں کی ملکیت ہے، اور ان غریبوں سے پوچھے بنا ان کی ملکیت میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے، نیز ان غریبوں کو پتہ ہے کہ ان کی مصلحت کھانے پینے کی چیز خریدنے میں ہے یا پھر دوسری چیزوں میں؟
امام بقاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “زکاۃ غریبوں کے ہاتھوں میں دینا چاہیے، فقراء و مساکین اپنی مرضی سے جیسے چاہیں اس زکاۃ کے مال کو خرچ کریں یا اس میں تصرف کریں”۔ [نظم الدرر:8/ 505]
امام مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “زکاۃ کا مال غریبوں کی ملکیت میں تحویل کرنا شرط ہے، زکاۃ کے مال سے انھیں کھانا وغیرہ کھلانا جائز نہیں”۔ [الإنصاف:3/234]
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: زکاۃ دینے کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ زکاۃ کے پیسے فقراء اور مساکین کے ہاتھ میں دیے جائیں، وہ جیسے چاہیں زکاۃ کے پیسوں کا استعمال کریں، ان پیسوں سے فقیروں کی دوسری ضروریات پوری کرنا جائز نہیں ہے، اور یہی بات کتاب و سنت کے نصوص سے ثابت ہوتی ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا زکاۃ کے مال سے فقراء و مساکین کو ماہ رمضان میں افطار کروایا جا سکتا ہے؟
شیخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے جواب دیا: زکاۃ کے مال سے فقراء و مساکین کو افطار کروانا جائز نہیں ہے، بلکہ زکاۃ کا مال فقراء اور مساکین کو دینا واجب ہے، وہ اپنی ضرورت و مصلحت کے مطابق زکاۃ کا مال استعمال کریں گے، ہر صورت میں فقراء و مساکین کو زکاۃ کا مال ہی دینا ہے، ان کی مرضی ہے وہ اپنے مال کو جہاں چاہیں خرچ کریں (زکاۃ کے مال سے کھانے پینے کی اشیاء یا دیگر چیزیں خرید کر دینا جائز نہیں) جیسا کہ اللہ رب العالمین نے فرمایا: ((إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ…..)) الآیۃ۔
((للفقراء)) میں لام تملیک کے لیے ہے، یعنی زکاۃ کا مال ان فقراء کی ملکیت ہے (دوسرے لوگ ان کے مال میں بایں طور تصرف نہیں کر سکتے)۔ [لقاء الباب المفتوح 50، ص14]
شیخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: کیا زکاۃ کے پیسوں سے اشیاء خوردنی خرید کر غریبوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے؟
شیخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے کہا: ایسا کرنا جائز نہیں ہے، غریبوں کو پیسہ ہی دیا جائے گا، (ان پیسوں سے دوسری چیز خرید کر نہیں دی جائے گی)۔ [اللقاء الشهري:41 /34]
ایک مقام پر شیخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے فرمایا: پیسوں کی زکاۃ صرف پیسوں میں ہی نکالی جائے گی، ان پیسوں سے دوسری چیزیں خرید کر فقراء و مساکین کو دینا جائز نہیں ہے، اگر خود فقراء و مساکین کسی کو اپنا وکیل یا نائب بنا کر انھیں اپنے زکاۃ کے پیسے دے کر کوئی دوسری چیز خریدنے کے لیے کہیں تو ایسا کرنا جائز ہے۔ [مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين:18/303]
محترم قارئین: مندرجہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زکاۃ کا مال فقراء و مساکین کا ہے، ان سے پوچھے بنا اس میں تصرف کرنا کسی کے لیے جائز نہیں ہے، کیونکہ شریعت نے زکاۃ کے مال کا حقدار فقراء و مساکین کو بنایا ہے، اور کسی کے مال میں اس کی مرضی کے بنا کسی بھی قسم کا تصرف جائز نہیں ہے۔
نیز جس طرح زکاۃ نکالنے والوں کے پاس سمجھ اور فہم ہے اسی طرح زکاۃ لینے والوں کے پاس بھی سمجھ اور فہم ہے، جس طرح زکاۃ نکالنے والا اپنی ضرورت اور مصلحت کو خود بہتر جانتا ہے اسی طرح زکاۃ لینے والے فقراء و مساکین بھی اپنی مصلحت و ضرورت کو دوسرے کے مقابلے میں بہتر طور پر جانتے ہیں، اس لیے زکاۃ کا مال فقراء و مساکین کے ہاتھ میں ہی دیا جائے، نہ کہ زکاۃ کے پیسوں سے دیگر اشیاء خرید کر ان غریبوں کو تھما دیا جائے۔
بعض علما کرام نے بعض فقراء و مساکین کی مصلحت کے پیش نظر زکاۃ کے مال سے ان کی ضرورت کی چیزیں خرید کر انھیں دینے کی اجازت دی ہے، جیسے: کوئی فقیر پاگل ہو، یا کم عقل ہو، یا پیسے خرچ کرنے کا طریقہ نہیں جانتا ہو تو اس قسم کے فقراء و مساکین کے لیے زکاۃ کے پیسوں سے ان کی ضرورت کی چیزیں خریدی جا سکتی ہیں۔ [مجلة البحوث الإسلامية:87/ 59]

آپ کے تبصرے

3000