ہلال عید

ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے

رشید سمیع سلفی

رمضان اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے۔عید کی تیاریاں شباب پر ہیں- نبی کا اسوہ بتاتا ہے کہ آپ گزرتے رمضان کے ساتھ پہلے کی نسبت اور زیادہ عبادت و تلاوت میں مشغول ہوجاتے تھے۔ کمر کس لیتے، پوری پوری رات آنکھوں میں کاٹ دیتے اور اپنے اہل وعیال کو بھی بیدار کرتے لیکن ہمارا طرز عمل اس کے برعکس ہے۔

جوں جوں عید ہماری طرف بڑھ رہی ہوتی ہے تقوی کےباغ وبہار چمن پرخزاں طاری ہوتی جاتی ہے۔ دین وایمان کے جوش کا رخ کسی اور جانب پھر جاتا ہے۔ دیکھیے ناں اب مسجدوں کے مقابلے بازار کی رونق دوبالا ہے۔ گھروں اور محلوں کی بھیڑ بازاروں اور دکانوں میں سماگئی ہے۔ عید کی خریداری سب کے حواس پر سوار ہوتی ہے۔ بازار میں خریدنے والوں کی ہاؤ ہو اتنی کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بازاروں میں خواتین کی بھیڑ کی بھیڑ آتی ہے اورجاتی ہے لیکن رش ختم ہونےکا نام نہیں لیتا۔ دکانوں میں محشر کا سماں ہوتا ہے۔ بھیڑ اتنی کہ تل رکھنے کو جگہ نہیں۔ کچھ لوگ توسامان دیکھنے اور پسند کرنے کے مرحلے میں ہیں۔ کچھ پسند کے بعد بھاؤ تاؤ کی گتھی سلجھارہی ہیں اور کچھ چند روپیے کم کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہی ہیں اور کچھ یہ طویل اور دشوار گزار مرحلہ طے کرکے سامان پیک کرارہی ہیں اور کچھ دکان میں انٹری کرنے  کے لیے ان کے نکلنے کا انتظار کررہی ہیں۔ ہر چہار جانب صرف خواتین نظر آتی ہیں ۔اگر کہیں مرد ہیں تو گود کے بچے کو سنبھالنے اور سامان کی تھیلیاں اٹھانے کی خدمات انجام دیتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ خرید وفروخت اور بھاؤ تاؤ کا مورچہ تو اکیلے بیگم صاحبہ سنبھالے ہوتی ہیں۔پسند اور معیار کا معاملہ ہی عجیب ہے کہ ایک سوٹ کے لیے کئی کئی بار بازار جانا پڑتا ہےاور لوازمات وتکلفات کی فہرست اتنی طویل کہ بہ تمام وکمال خریداری کے باوجود بھی کچھ چیزیں رہ جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہر بار اتنا دھیان دینے کے باوجود کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے۔

فیشن ایبل کپڑے، جوتے، چپل اور موزے، آرٹفیشیل جیولری، مہندی اور چوڑیاں، میک اپ کے سامان، مختلف قسم کے پکوانوں اور ڈشوں کے لوازمات کے حصول میں آخری عشرے کی انرجی صرف کردی جاتی ہے۔ یہ ساری دھماچوکڑی چاند رات کے گھمسان کے بعد خاموشی کی نذر ہوجاتی ہے۔ بازار کسی قبرستان کے سناٹے کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ رمضان کا مسلمان تو آنے والی خوشیوں کی رم جھم کا مزہ لینے کے لیے پر تول رہا ہوتا ہے لیکن چاند ہماری اداکاری پر ہنس رہا ہوتاہے۔
پیام عیش ومسرت ہمیں سناتا ہے
ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے
عید اپنی تمام تر رونق سامانیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی ہے اور لوگ اپنے اپنے ڈھب سے مسرت افزا لمحوں سے لطف اندوز ہونے میں لگے ہوتے ہیں۔ فرحت وانبساط کا نشہ ایسا سوار ہوتا ہے کہ باذوق مسلمان رمضان کی تشنگی بجھانے کے لیے  بہت کچھ کرگزرنا چاہتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے خمار زہد میں مدہوش انسان فلم بینی، کھیل کود، سیروتفریح، گانا باجا دنیوی رنگینیوں اور رعنائیوں اور مختلف قسم کےٹی وی شوز سے بھی شغل فرمانے لگتا ہے۔ بدنام زمانہ مقامات کی سیر وتفریح، عریانیت وفحاشی، رنگ برنگ لباس اس پر مستزاد۔ شوق ونگاہ اور لذت کام و دہن کی تسکین میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی۔

رمضان وعید کے بہانے یہ سارے ہنگامے تو چلتے ہی رہتے ہیں مگر رمضان و روزے کے عظیم ترین پیغام اور مقصد سے ہماری زندگیاں ہم آہنگ ہوئیں کہ نہیں۔ روح تقوی ہماری شخصیت میں جلوہ گر ہوئی کہ نہیں ۔اس رخ پر توجہ اور جائزے کی ضرورت ہم چنداں محسوس نہیں کرتے۔ نہ جانے ہماری زندگیوں کے کتنے رمضان، لیل ونہار کی گردشوں میں کھو گئے، کتنی تراویح اور شبانہ روز کی جفاکشی ماضی کے گرد میں تحلیل ہو گئی لیکن وہ اہداف ومقاصد جو رمضانی عبادات کا جوہر وما حصل تھیں دور دور تک اس کی پرچھائیں نظر نہیں آتی۔
مزہ بہار کون کا چکھا ہی جاتی ہے
ہم اہل ہوں کہ نہ ہوں عید آہی جاتی ہے
کاش سنجیدگی کے ساتھ یہ دیکھنے کی زحمت گوارہ کرلیا جاتا کہ ہم میں جذبہ دین وعبادت کی حرارت میں اضافہ ہوا کہ نہیں۔ یقین وایمان کی لو تیز ہوئی کہ نہیں۔ احساس و وجدان کی دنیا میں چھائی ہوئی افسردگی ومردنی پر بہار آئی کہ نہیں۔ اندرون قلب سخاوت و فیاضی کا دریا جوش مار رہا ہے کہ نہیں۔ تلاوت کی زمزمہ سنجی پر ساز دل کے تار نغمہ سنج ہوتے ہیں کہ نہیں۔ مسجد کی صدائے توحید پر بے اختیار قدم رب ذوالجلال کی طرف بڑھتے ہیں کہ نہیں۔ اگر نہیں تو پھر تف ہے ایسی رمضانی زندگی پر جو خالی خولی گزر گئی۔ جس نے ہماری زندگی پر کوئی چھاپ نہیں چھوڑا۔ جس نے ہمارے جمود کو نہیں توڑا۔ جس نے ہمارے وجود کے بے آب وگیاہ سرزمین کو سرسبز وشاداب نہیں کیا۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ تیس دن کا روزہ، عبادت وبندگی، تلاوت و تراویح، ذکروتسبیح کی مشق وتمرین نے روحانی طور پر ہمارے وجود میں کوئی داعیہ پیدا کیوں نہیں کیا؟

سوال یہ ہے کہ فلسفہ رمضان کا یہ پہلو کب تک ہماری نظروں سے اوجھل رہے گا اور یہ ادراک کب ہوگا کہ یہ ایک ہمہ گیر تبدیلی کا مہینہ ہے، غور کیجیے کہ کس طرح قدم قدم پر تبدیلیوں اور انقلابات فکر وعمل سے ہمارے نفوس کو گزارا جاتا ہے۔ ہمارے کھانے پینے کے اوقات میں تبدیلی، سونے جاگنے کے نظام میں تبدیلی، کام اور دھندے کو لے کر تبدیلی، ناجائز اور حرام کاموں کے ساتھ حالت روزہ میں جائز اور حلال کام سے بھی اجتناب، یہاں تک کہ رمضان کا شیڈول کلی طور پر عام دنوں سے یکسر جداگانہ ہوتا ہے۔ یہ ظاہری تبدیلی، معنوی اور روحانی انقلاب کا پیش خیمہ ہوتی ہے لیکن یہ تمام محرکات سماج ومعاشرے کی دینی واخلاقی در و بست کو بدلنے سے قاصر ثابت ہوتی ہیں۔ جمود وتعطل کا خوگر انسان پھر اسی رفتار بے ڈھنگی سے رسم و راہ کرلیتا ہے۔ رمضان کا تعلق باللہ اور مومنانہ ولولہ ایک طویل جھرجھری لے کر خاموش ہوجاتا ہے۔ شیطان مومنوں سے طویل جدائی کا کفارہ ادا کرنے کے لیے بے تاب ہوتا ہے پھر فسق وفجور کے بازار رمضان کے بندوں سے آباد ہو جاتے ہیں، معصیت کی یخ بستہ ہواؤں کے سامنے حرکت وعمل کی شاخیں بے بس ہوجاتی ہیں- اور مرور ایام کے ساتھ گزشتہ عبادات وریاضات خس وخاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں۔ ہر رمضان کے بعد ہماری زندگی میں یہی کہانی دہرائی جاتی ہے۔
نعمتیں مخصوص ہیں سب متقی کے واسطے
زندگی اک اور بھی ہے آدمی کے واسطے
ہو گیا گر حق شناسا کوئی جو رمضان میں
عید لکھی ہے خدا نے بس اسی کے واسطے

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
نسیم سعید

جھنجھوڑ دینے والی تحریر