جسمانی خارش کی طرح دماغی خارش بھی ایک خطرناک بیماری ہے، یہ بھی انسانوں کو اپنا شکار بناتی ہے، یہ بھی ان خصوصیات سے مالامال ہے جسمانی خارش جن کی سرمایہ دار ہے،۔ جس طرح جسمانی خارش جلد کو متاثر کرتی ہے، یہ مریض کے فکروعمل کو متاثر کرتی ہے، جس طرح جسمانی خارش کا مریض ہمیشہ کھجلانے کے لیے بےچین ہوتا ہے دماغی خارش زدہ انسان بھی بہت کچھ کر گذرنے کے لیے پیچ وتاب کھاتا رہتا ہے، جس طرح متاثرہ جگہ میں شدید کھجلاہٹ ہوتی ہے، اسی طرح آدمی بھی اندرونی طور پر خلجان اور سیمابی کیفیت سے دوچار رہتا ہے، خارش زدہ آدمی جب تک کھجا نہیں لیتا سکون نہیں پاسکتا ہے، ایسے ہی دماغی خارش والا انسان جب تک اچھل کود نہ مچائے، بندر ناچ نہ کرے، سکون سے بیٹھ نہیں سکتا ہے، جس طرح جسمانی خارش میں جسم میں جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں جن کی کلبلاہٹ سے انسان نقل وحرکت پر مجبور ہوتا ہے، اسی طرح دماغی خارش والا انسان بھی دماغ میں الگ طرح کے جراثیم پال کر رکھتا ہے اور وہ ان کی وجہ سے مسلسل مجنونانہ حرکتیں کرتا رہتا ہے، جسمانی خارش کا علاج سہل ہے لیکن دماغی خارش کا علاج نہ صرف مشکل بلکہ بعض دفعہ افزائش مرض بھی ہے۔
مرد خارش پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
موجودہ دور میں جسمانی خارش سے زیادہ دماغی خارش زدہ انسان پائے جاتے ہیں، سروے بتاتا ہے کہ دماغی خارش کے مریض سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر منڈلاتے رہتے ہیں، جس طرح سے کبھی کبھی کھجلی شدت سے آتی ہے بس ایسے ہی خارش زدہ مریض پر ہذیان کا سخت دورہ پڑتا ہے، چند مخصوص مسائل سر میں کھجلی بڑھا کر مریض کو خرمستیاں کرنے پر مجبور کردیتے ہیں، ایسی دھماچوکڑی مچاتے ہیں کہ چند دنوں تک سوشل میڈیا ہنگامہ زار بن جاتا ہے، چاروں طرف بندروں کی طرح اچھل کود کا سماں بندھا ہوتا ہے، بھینس کی قربانی، عرفہ کا روزہ، سعودیہ کی برائی، صدقہ الفطر نقد یا غلہ، یزید پر تبرا وغیرہ موضوعات پر جم کر کھجلی مٹائی جاتی ہے، اگر خارش مٹانے کا کوئی بہانہ نہیں ہے تو اختلافی مسائل میں شاذ موقف اچھال کر زبردستی کھجلی پیدا کی جاتی ہے اور سب کو کام پر لگا دیا جاتا ہے، جیسے سنیچر کے دن عرفہ کا روزہ رکھنے نہ رکھنے کا مسئلہ۔۔۔
مرا مذاقِ جنوں سلامت کہیں بھی تنہا نہیں رہوں گا
ہزار طوفاں ساتھ دیں گے اگر کناروں نے ساتھ چھوڑا
پورا دن سوشل میڈیا پر لوگ اپنی خارش کے جراثیم انڈیلتے رہتے ہیں اور دوسروں کو اپنی بیماری لگاتے رہتے ہیں، ظاہر سی بات ہے بیماری کے جراثیم پھیلتے پھیلتے ایک ایک کرکے بڑی تعداد کو خارش زدہ بنا دیتے ہیں، داد کھجلی کا یہ متعدی کھیل دیکھ کر شعر یاد آجاتا ہے، بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہوگئیں، بظاہر سنجیدہ اور متین نظر آنے والے بھی اپنے دماغ میں جراثیم لیے پھرتے ہیں، کسی میں کم مقدار میں جراثیم ہوتے ہیں اور کسی میں زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں، کوئی اپنی خارش پورے باطن میں پھیلا کر لاعلاج ہوچکا ہوتا ہے اور کوئی ابھی جراثیم کی پرورش کررہا ہوتا ہے، وہ کھجلی کے جراثیم سے اتنا مانوس ہوجاتا ہے کہ ان کی جدائی پر ایسے ہی رنجیدہ ہوتا ہے جیسے شاعر کف پا سے جدا ہونے والے کانٹے پر مغموم ہوتا ہے۔
آبلے روپے ہیں خون رنج بڑا ہوتا ہے
کوئی کانٹا جب کف پا سے جدا ہوتا ہے
کھجلی تو کھجلی ہے، جب ابھرتی ہے تو آدمی آؤ دیکھتا ہے نہ تاؤ، بس شروع ہوجاتا ہے خواہ سڑک ہو یا بازار، ویرانہ ہو یا سبزہ زار، کسی کا خیال نہیں کیا جاتا ہے، کسی کی شرم نہیں رکھی جاتی ہے۔ یہی حال دماغی خارش میں بھی ہوتی ہے، خاموش سطح پر جب کوئی ہلچل ہوتی ہے تو کسی کی لومۃ لائم کی پرواہ ہے نہ سب وشتم کا خیال، جس طرح کھجانے سے کھجلانے والے کو مزہ ملتا ہے ایسے ہی دماغی کھجلی بھی مزہ دیتی ہے، خارش اس وقت تک پر سکون نہیں ہوتی جب تک ناخنوں سے تواضع نہ کی جائے، اسی طرح دماغی کھجلی بھی کھٹے میٹھے تبصروں پر سکون پاجاتی ہے، اس پر مستزاد یہ کہ لفظی قلابازیوں پر داد وتحسین اور تعریف وستائش سے آسودگی اور سرور بھی ملتا ہے، جس طرح خارش زدہ انسان سے لوگ دور رہتے ہیں، دماغی کھجلی بھی لوگوں کو اچھوت بنا دیتی ہے، ان کے ساتھ یا تو خارش زدہ لوگ ہوتے ہیں یا وہ جنھیں دوسروں کا کھجانے میں مزہ آتا ہے یا کھجلاتا ہوا انسان مزہ دیتا ہے، دونوں طرح کی خارش میں بہت کچھ مماثلت پائی جاتی ہے، ایک جسم پر اپنا جلوہ دکھاتی ہے اور ایک دل ودماغ اور بدن کے شریانوں میں خون کے ساتھ سفر کرتی ہے، اسی لیے جب جوش مارتی ہے تو ہنگامے کھڑی کرتی ہے۔
رگ وپے میں جب اترے زہر تب دیکھئے کیا ہو
ابھی تو لذت کام و دہن کی آزمائش ہے
جسمانی خارش کے جراثیم کو مارنے کے لیے دو طرح کی دوائیں رائج ہیں، ایک وہ دوا جو آسان طریقے پر اثر کرتی ہے، مریض کو آرام مل جاتا ہے، چنداں تکلیف کے بغیر اس کو کھجلی سے جانبر کردیتی ہے، یہ دوا کم خارش زدہ لوگوں کے لیے بہت موثر ہے۔
ایک دوا وہ ہوتی ہے جو جلن اور تیزی کے لیے جانی جاتی ہے، وہ لگتے ہی مریض کے وجود مسعود میں کھلبلی مچادیتی ہے، اس کو اچھلنے اور رقص بسمل کرنے پر مجبور کردیتی ہے، یہ دوا زیادہ موثر ہوتی ہے جو جڑ سے جراثیم کا خاتمہ کردیتی ہے، ایسی دوائیں سب کے بس کا روگ نہیں ہوتی ہیں، دماغی خارش زدہ لوگوں کے لیے فوری اور دیرپا آرام کے لیے موخر الذکر ٹائپ کی دوا زیادہ زود اثر ثابت ہوگی، اس قسم کے علاج کے تقاضے پورے کرنے کے لیے مریض پر سختی و سرزنش کرنی ہوگی، اس کے کھجلی کی نوعیت کو مد نظر رکھ کر ضرب کلیمی کے ہنر کو آزمانا ہوگا، تذکیر سے بھی اصلاح ہوجایا کرتی ہے، خارش جب بہت زیادہ “مدمن الخمر” ہوچکی ہو تو ایک فاروقی علاج بھی ہے جس پر عمل جدید دور میں بڑے جگر گردے کا متقاضی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص تھا جس کا نام صبیع بن عسل تھا، وہ بھی دماغی خارش میں مبتلا تھا، وہ متشابہات کے بارے میں عجیب وغریب باتیں کرتا تھا اور اس کا فتنہ بہت بڑھ چکا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے حاضر کرکے کھجور کی ٹہنیوں سے اس کے سر پر اتنی ضرب لگائی کہ سر اور بدن خون آلود ہوگیا، جی ہاں! سر میں جہاں دماغی کھجلی پرورش پائی تھی وہیں پر پے درپے ضربیں لگائی، اور اسے قید کرا دیا، دوسری بار اسے حاضر کرکے پھر اس کے دماغ کی کھجلی نکانے کے لیے اس کے سر پر اتنا مارا کہ خون آلود ہوگیا، تیسری بار جب آپ نے اسے مارنا شروع کیا تو اس نے کہا، بس بس رہنے دیجیے، میرے دماغ کی وہ بوباس اب نکل گئی ہے، پھر آپ نے اسے حضرت ابو موسیٰ اشعری کے پاس بھیج دیا اور کہا اسے مسلمانوں کے مجالس سے دور رکھنا، لہذا اسے دور رکھا گیا۔ جب ابو موسی اشعری نے کہا کہ اس کا دماغ اب درست ہوگیا ہے تب آپ نے اس پر سے پابندی ہٹالی اور مسلمانوں کی مجالس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ دماغی خارش کا یہ بہت موثر علاج ہے جو اظہار ازادی رایے کے اس دور میں نامانوس ہوچکا ہے، اب تو جو جس قدر خارش زدہ ہوکر واہیات تباہیات بکتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ روشن خیال اور دانشور قراردیا جاتا ہے، پس دماغی کھجلی اس دور میں ایک باعزت عمل اور مہذب شغل ہوگیا ہے، زمانے میں ان کا چلن ہے، اس کا مروجہ علاج تو دیرپا نہیں ہے البتہ فاروقی علاج کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے لہذا ایسے دماغی کھجلی والے مریضوں سے دوری بنائے رکھنے میں ہی عافیت ہے اور یہی اس کا علاج ہے۔
hahahahaj
maza aaya
jazakallah khair shaikh