ابلیس کا دام ہمرنگ زمین

رشید سمیع سلفی تعلیم و تربیت

شیطان کی چالیں اور دسیسہ کاریاں گذرتے دن رات کےساتھ عروج پر ہیں،اللہ تعالی نے شیطان سے بہت زیادہ ہوشیار اور خبردار رہنے کی جو شدید تاکید کی ہے وہ دعوت فکر دیتی ہے،اس کو سمجھنے اور بہت زیادہ گہرائی سے ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔قدم قدم پر ہم شیطان کے بچھائے ہوئے جال اور اس کی کمیں گاہوں کی زد میں ہیں،وہ گھات میں ہے اور ہم غفلت میں ہیں،وہ مسلسل انسانی آبادیوں کو اپنی نوآبادیات میں تبدیل کررہا ہے اور ہم پوری طرح سے اس کی تحویل میں جارہے ہیں،شیطان اپنے مشن اور تحریک کے لیے کتنا سرگرم ہے اس حدیث پاک سے اندازہ کیجیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: قيلوا،فإن الشياطين لا تقيل ![السلسلة الصحيحة للألباني:1647] (تم‌قیلولہ کرو کیونکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا ہے)

یعنی وہ انسانوں کی تخریب کے لیے اس قدر مشغول رہتا ہے کہ اپنا قیلولہ بھی قربان کردیتا ہے،وہ انسان سے ایک چومکھی جنگ دنیا میں لڑرہا ہے،وہ جنگ حق وباطل کی جنگ ہے،وہ خیر وشر کی جنگ ہے،وہ انسانوں کو معصیت کے دلدل میں گہرا اتارتے جارہاہے اور انسانوں پر اپنی فتح کا خاموش اعلان کررہا ہے،اس جنگ کی پلاننگ وہ آسمان سے ہی کرکے آیا تھا،اس نے تخریب اور تزویر کا ایک ماسٹر پلان تیار کیاتھا جو اس نے رب کریم کی بارگاہ میں پیش بھی کیا تھا،اس نے اس گیم کے اپنے پتے کھول دیے تھےاور مہرے بچھادیے تھے،آج اس کے گیم اور چوطرفہ چالوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے،اس جنگ کو جیتنے کے لیے اس کے ہتھکنڈوں کو سمجھنے اور اس کے مطابق دفاعی پوزیشن بنانے کی ضرورت ہے ،قرآن پڑھیے،اللہ جل وعلا ارشاد فرماتا ہے:

قَالَ رَبِّ بِمَآ أَغْوَيْتَنِى لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ(الحجر:39)

(شیطان نے )کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لیے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی ۔

معاصی اور گناہوں کو مزین کرکے انسانوں کے لیے پرکشش بنانا یہ شیطان کا بہت بڑا حربہ ہے،وہ یہ حربہ انسانوں پر بہت کامیابی سے آزما رہا ہے،مزین بنانا یا خوبصورت بناکر پیش کرنا بڑی تفصیلات کا متقاضی ہے،وہ گناہ کو ثواب اور حرام کو حلال اور بدعت کو سنت اور شرک کو توحید کے رنگ میں لے کر آتا ہے،وہ گناہوں کے تعلق سے دل کی نفرت اور شدت کو کم کرتا ہے،تزئین گناہ کے عمل کو کمال باریکی سے انجام کو پہنچاتا ہے،وہ ایسی دور کی کوڑیاں لاتا ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے،وہ غیر محسوس انداز میں وہ ہمارے ذہنی سانچوں کو توڑکر اپنا سانچہ کارگہ فکر میں استوار کررہا ہے جو چیزوں کو اس کی نظر سے دیکھا کریں،یہ حربہ اس نے دادا آدم پر آزمایا اور کامیاب ہوا،اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا تھا، تم اس درخت کے قریب مت جانا،نہیں تو تم ظالم ہوجاؤگے:

وَيَٰٓـَٔادَمُ ٱسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ ٱلْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ

ترجمہ:اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم! تم اور تمھاری بیوی جنت میں رہو پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ اور اس درخت کے پاس مت جاؤ ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔ (اعراف:19)

ابلیس آدم کے لیے درخت کے معاملے کی سنگینی کو کم کرتے ہوئے مسلسل ذہن سازی کرتا رہا،کہا آدم تم اس درخت کو بہت زیادہ سنجیدگی سے مت لو،اللہ نے اس سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ تم دونوں اس کا پھل کھا کر کہیں فرشے نہ بن جاؤ،بس اتنی سی بات ہے،غورکیجیے کیا فرشتہ ہونا گناہ ہے؟ہرگز نہیں،وہ اس گناہ کو مزین کرکے آدم علیہ السلام کی طبیعت کو راغب کررہا تھا ،اس صریح نافرمانی کو ایک دوسرا ہی معنی پہنا رہا تھا،اس نے آگے بڑھ کر اور کہا،اس درخت کے پھل کو کھانے میں بڑے فوائد ہیں،یہ شجرۃ الخلد ہے جس کے پھل کو کھانے سے جنت ہمیشہ کے لیے تمھارے نام‌ہوجائے گی،آدم تم کیا یہ چاہوگے کہ کبھی جنت سے نکال دیےجاؤ،تم ایسا ہرگز نہیں چاہوگے،لہذا اس درخت کے پھل کو کھالو تاکہ تم ہمیشہ کے لیے اس خوبصورت جنت کے وارث ہوجاؤ:

وَقَالَ مَا نَهَىٰكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةِ إِلَّآ أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ ٱلْخَٰلِدِينَ[اعراف:20]

زندگی اور نعمتوں سے کسے لگاؤ نہیں ہے؟وہ انسانی کمزوریوں سے آگاہ تھا، اس لیے اس نے ان کی کمزور رگوں کو چھیڑا،ظاہر سی بات ہے،چٹان‌پر بھی مسلسل پانی گرے گا تو اس میں بھی سوراخ ہوجائے گا،آدم وحوا علیہما السلام نے پھل کھا لیا اور ابلیس نے پہلا ٹارگیٹ حاصل کرلیا۔

دوسری مثال دیکھیے،کئی صدیوں تک دنیا میں شرک نہیں ہوا تھا،بت پرستی نہیں ہوئی تھی،شیطان بت پرستی کے لیے بھی تزئین عمل کے حربے کو آزماتا ہے،اس نےقوم نوح کے صالحین کی عقیدتوں میں لوگوں کو مبتلا کیا اور کہا دیکھو ان کی موت کےساتھ ان کی یادگار ختم ہوتے جارہی ہے،دھیرے دھیرے تمھاری نسلیں ان صالحین کو بھول جائیں گی اور ان کے کمالات اور خوبیاں بھی نسیا منسیا ہوجائیں گی،لہذا‌ ان کی یاد کو باقی رکھنے کے لیے ان کی تصویریں اور مجسمے جگہ جگہ بنا کر رکھ دو،لوگوں نے ایساہی کیا،ایک نسل کو تو اسی منطق اور حوالے سے ان مورتیوں اور مجسموں کےقریب کرکے رکھا،جب یہ نسل گذر گئی پھر وہ نئے منطق اور نئےپینترے کے ساتھ واپس آیا اور کہا تمھارے آباء واجداد نے ان کی مورتیاں اس لیے جگہ جگہ بنا کے رکھی تھیں کہ یہ لوگ اللہ کے مقرب اور چہیتے بندے تھے،اللہ کے یہاں ان کی چلتی ہے،تمھارے باپ دادا ان کی عبادت کرتے تھے،ان کے بغیر ہم اللہ کو راضی نہیں کرسکتے،انھیں راضی کرلیا تو اللہ تو ان سے راضی ہے،یہ خوش تو اللہ خوش، لہذا اس نے اس نئے بیانیے سے شرک کا بند دروازہ انسانیت پر کھول دیا،اب وہ شرک نہیں بلکہ وسیلہ اور شفاعت تھا،ان دونوں دلیلوں سے اس نے شرک کو مزین کردیا اور دنیا اسے توحید کا حصہ سمجھنےلگی۔

سماج اور معاشرے پر ایک سرسری نگاہ ڈالیے اور دیکھیے کہ شیطان کا یہ تیر بہ ہدف نسخہ کتنا کامیاب ہے،آج بھی دنیا شرک کی یہی دلیل پیش کرتی ہے،آگے بڑھتے ہیں ،سود کتنا سنگین جرم تھا،قرآن میں اس جرم کو اللہ سے اعلان جنگ بتایا گیا تھا۔(سورۃ البقرہ: ۲۷۹)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کا ادنی درجہ سگی ماں سےزنا کرنا بتلایا ہے۔(ابن ماجہ:۲۲۷۴)پھر شیطان نے سود کو مزین کرکے خوشنما بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی،اس کی ملمع سازی نے سود پر لپٹے ہوئے قباحتوں اور شناعتوں کے بدنما پردے کو ہٹا دیا،اس لیے آج امت کا ایک بڑا طبقہ سود کےگندے پانیوں میں غوطےلگا رہا ہے،کبھی شیطان انسان کی زبان میں یہ بولتا ہے کہ سود کی پابندی دارالاسلام میں ہے دارالکفر میں نہیں،یہ شیطان کی ماسٹر کی ہے جو امت پر سود کے چوپٹ دروازے کھول دیتی ہے،ساری بندشیں ہٹا دیتی ہے،کتنا مختصر ہوتا ہے حرام و حلال کے درمیان کا فاصلہ؟ ایک ہی جست میں آدمی ادھر سے ادھر پہنچ جاتا ہے،کوئی مسلمانوں کی پسماندگی کا حوالہ لےکر آتا ہے اور کہتا ہے،دنیا میں سودی نظام سے جڑے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے،یہ بڑی بڑی کمپنیاں اور انڈسٹریز کےجو لوگ مالک ہیں انھوں نے بینکوں سے بڑے بڑےقرضےلیے تھے،اور کاروبار کیا اور آگے بڑھ گئے،آج وہ کروڑوں میں کھیل رہے ہیں ،ہم کو مولوی سود اور حرام کا پروچن دےکر معاشی طور پر اپاہج بنارہاہے،سود کا مطلب یہ تھا کہ آپ غریبوں کی مجبوری کا فائدہ نہ اٹھائیں،ان کو قرض دے کر سود در سود نہ وصول کریں،انھیں غریب سے مزید غریب نہ بنائیں،یہاں صورتحال برعکس ہے،اس لیے بڑے بڑےسودی قرضے لےکر کاروبار کرنا،بڑے پروجیکٹس میں پیسے لگانا بالکل سود نہیں ہے،سود کی موجودہ تشریح مولویوں کا وہم ہے اور بس،اب آپ نظر اٹھا کر دیکھیے کہ اس بازار میں کیسی ریل پیل مچی ہوئی ہے؟ کیونکہ نام نہاد مفکرین کے ذریعہ شیطان نے حرام پر حلال کا ملمع چڑھا دیا ہے،لفظی شیشہ گری سے سود کو تجارت اور کاروبار کا رنگ دے دیا ہے اور وہی پرانی شراب نئے بوتل میں تھما دی ہے جس کے بارے میں اس جدید اشکال کا تذکرہ خود قرآن مجید نے بھی کیا تھا،اللہ فرماتا ہے:

قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا(بقرہ)یعنی لوگوں نے کہا کہ تجارت بھی سود کے جیسا ہی ایک معاملہ ہے۔

میوزک اور گانے باجے کی حرمت مسلم ہے،صحابہ کے یہاں اسے شیطان‌کی بانسری سمجھا جاتا تھا جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے ’مزمار الشیطن‘ فرمایا تھا(بخاری ومسلم)تاہم دور جدید میں اس کی حرمت ختم ہوکر رہ گئی ہے،یہاں بھی وہی ابلیسی ذہن کام کررہا ہے،موسیقی روح کی غذا ہے،یہاں تک کہ اس بدنام زمانہ موسیقی کو داؤد علیہ السلام تک دراز کرنے کی‌ناکام کوشش کی‌ گئی،کسی نے آیتوں کو مشق ستم بنایا،کسی نے احادیث کے حلق میں اپنے الفاظ ٹھونسنے کی کوشش کی،کسی نے لفظوں کی جادو گری سے اسے حلال کی سرحد تک پہنچانے کی کوشش کی،ابلیس کے ہرکارے بڑے سحرانگیز لہجے میں گویا ہوتے ہیں کہ ایک آدمی دن بھر کا تھکا ہوا،حیران پریشان،افتاں وخیزاں،افسردہ وملول اپنے رہائش گاہ پہنچتاہے اور چند گانے سن کر تروتازہ ہوجاتا ہے،باغ باغ ہوجاتا ہے،کسلمندی جاتی رہتی ہے،میوزک کی دھنیں اس کے وجود کے پور پور سے تکان کو نچوڑ کر باہر پھینک دیتی ہیں،تو اس میں کیا مضایقہ ہے؟کیا ہمارا دین اتنا تنگ نظر ہوسکتا ہے؟اس کو ہمارے دلآرامی اور تفریح سے پروبلم کیوں ہوسکتی ہے؟کیوں وہ ہرجگہ ڈنڈےلےکر حرام وحلال کا لائسنس بانٹ رہا ہوتا ہے،یہ دراصل مولویوں کا کیا دھرا ہے جو عوام پر اپنی حکمرانی چاہتے ہیں، پھر اس کے بعد وہ تبصروں میں مولوی اور دین اسلام کی جو دھجیاں بکھیرتے ہیں،قلم اس کی تکرار سے قاصر ہے،لیکن اس لفظی پروسیس سےگذرنے کے بعد گانے اور موسیقی حلال ہوچکے ہوتے ہیں کیونکہ ابلیس کا دیا ہوا ملمع اس پر چسپاں ہوچکا ہوتا ہےاور شریعت اپنا سا منہ لےکر رہ جاتی ہےفیاللعجب۔ (جاری)

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالرحمن الشاكر الاثري

بہت جامع اور خوبصورت تحریر اللہ تعالی ہم سب کو شیطانی پھندے سے بچائے اور گناہ کو گناہ کی نگاہ سے دیکھنے کی توفیق بخشے۔ آمین