زیر نظر مقالے کا تعلق گزشتہ مضمون ‘صاحب قلم عالم دین: مولانا محمد خالد فیضی’ میں مذکور ایک غیر مطبوعہ کتاب ‘برسر محفل’ کے موضوع سے ہے۔ تصور سے تصویر تک اور خواب سے تعبیر تک مرکزی دارالعلوم یعنی جامعہ سلفیہ بنارس کی ایک تاریخ ہے۔ اس تاریخ کے بیانیے میں ایک موڑ پر اختلاف در آیا ہے۔ فریقین اپنے اپنے بیانیے پر مصر ہیں اور دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ اختلاف کا آغاز مولانا محفوظ الرحمن فیضی صاحب کی تحریر سے ہوا ہے جو کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکی ہے۔ مولانا عبدالرزاق صاحب کے اعتراض اور جواب پر یہ معاملہ ختم نہیں ہوا ہے، ‘برسر محفل’ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ایسی کتنی ہی ‘محفلیں’ ہر ایک فریق کے ساتھ ہوں گی۔ اللہ جانے
مرکزی دارالعلوم کی تاریخ میں یہ موڑ اب تحقیق طلب ہوگیا ہے، انکار و اصرار کے بیچ ایک ایسے اظہار کی سخت حاجت ہے جس کو کریڈٹ سے زیادہ حقائق سے مطلب ہو اور جس کا انحصار دلائل ہی پر ہو۔ بیانیہ آبجیکٹیو ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ مسئلہ تحقیق سے سلجھے گا، بحث سے بات پھیلے گی اور فریقین کا وقت ضائع ہوگا۔ اللہ رب العالمین ہمیں ایسے مسائل میں الجھنے سے بچائے۔ (مدیر)
ارشاد ربانی ہے:
’’وَمَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا‘‘ (النجم:۲۸)
غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
(غالب)
پندرہ روزہ جریدہ ترجمان دہلی کے شمارہ ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء میں محترم بزرگ مولانا محفوظ الرحمن فیضی حفظہ اللہ کا مضمون ’’بہ سلسلہ تاریخ مرکزی دارالعلوم بنارس‘‘ نظر سے گزرا۔ پڑھا تو کئی عقدے کھلے اور کتنی ہی گرہیں مضبوط ہوتی چلی گئیں۔ اس سے قبل جب میں نے محترم فیضی صاحب کی کتاب کا حقیقی جائزہ لیا اور اس کتاب کی بعض کمزوریوں کی نشاندہی کی، تو مجھ پر بعض حلقوں سے بعض احباب کی جانب سے تیر برسائے گئے، میں کسی کی نیت پر حملہ نہیں کرتا، دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے، لیکن جس طرح چہروں پر بسااوقات خوشی اور غم کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اور دیکھنے والے حضرات ان کو با آسانی پڑھ لیتے ہیں اسی طرح بعض تحریریں خود بولنے لگتی ہیں کہ لکھنے والے کا مقصد کیا ہے اور وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔محترم شیخ فیضی صاحب کے دونوں مضامین (شائع شدہ درماہنامہ محدث بنارس دسمبر۲۰۱۴ء اورجریدہ ترجمان دہلی ۱۶؍مارچ ۲۰۱۵ء و ۱۵؍اکتوبر۲۰۱۶ء) اور مطبوعہ کتاب از اول تا آخر پڑھ جائیے ان میں ذرابھی اس بات کا اعتراف نہیں کیا گیا ہے کہ ’’مرکزی دارالعلوم بنارس‘‘ کے قیام میں نوگڑھ کانفرنس کا کوئی بھی رول رہا ہے۔
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
ہم کچھ نہیں کہتے ہیں، کوئی کچھ نہیں کہتا
تم کیا ہو، تمھیں سب سے کہلوائے چلو ہو
(کلیم عاجز)
شیخ فیضی صاحب کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنی تحقیق کو حرف آخر سمجھتے ہیں اور اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جہاں وہ ’’انا ولاغیری‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ حالانکہ انصاف پسند حضرات جن کی نظر جماعتی تاریخ کے نشیب و فراز پر رہی ہے، وہ کل بھی اس کا اعتراف کرتے تھے اور آج بھی صمیم قلب سے وہ اس بات کے معترف ہیں اور نوگڑھ کانفرنس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اس کے شکر گزار ہیں کہ مرکزی دارالعلوم بنارس کے قیام میں نوگڑھ کانفرنس کا بہت اہم رول رہا ہے۔حالانکہ میں نے اپنی کتاب ’’مرکزی دارالعلوم (جامعہ سلفیہ) بنارس نوگڑھ کانفرنس کی ہی دین ہے‘‘ میں بائیس علمائے کرام کے اقوال ذکر کیے ہیں اوران کی تحریریں پیش کی ہیں اور اس مضمون میں بھی بعض علمائے کرام کے اقوال پیش کروں گا، ان شاء اللہ۔
کیا ایک غلط اور غیر مصدقہ بات پر اتنے علمائے کرام کا اجماع ہوسکتا ہے، جب کہ اس فہرست میں وہ حضرات بھی شامل ہیں جو باہوش و گوش اور چشم دید گواہ تھے، اور آئندہ سطور میں ان شاء اللہ مرکزی دارالعلوم بنارس کے سابق نائب صدر کی چشم کشا تحریر پیش کروں گا جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مثبت سوچ کیا نتائج پیدا کرتی ہے اور منفی انداز فکر انسان کو کس سمت میں لے جاتا ہے۔
فیضی صاحب نے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں آٹھ دلائل دیے ہیں، ہر دلیل کا جواب ان شاء اللہ عقلا و نقلا کافی و شافی دیا جائے گا۔ سب سے پہلے مفکر ملت مولانا عبدالجلیل رحمانی رحمہ اللہ کی دو تحریریں پیش کی جائیں گی، جن پر فیضی صاحب کے استدلال کا اصل مدار ہے لیکن اس سے پہلے میں فیضی صاحب کی وہ تحریر و تبصرہ جو انھوں نے مفکر ملت رحمانی رحمہ اللہ کی خدمات اور فکر و نظر پر فرمایا ہے، پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں، رحمانی صاحب کے بارے میں فیضی صاحب بجا طور پر اعتراف کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں:
’’مولانا آروی کے دوش بدوش اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ جماعت و جمعیت میں بیداری اور حرکت و عمل کی روح پھونکتے رہے۔ اس سلسلے میں آپ کی مساعی جلیلہ و جمیلہ نہایت اہم اور ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس اور مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے نشیب و فراز کو قریب سے دیکھا ہے اور مجلس عاملہ کے اجلاسوں اور کاروائیوں میں شریک رہے ہیں، اس لیے جماعت و جمعیت کے متعلق آپ کے کسی بیان اور تحریر کی بڑی اہمیت ہے اور اس کو دستاویزی حیثیت حاصل ہے۔‘‘(جریدہ ترجمان دہلی ،ص:۱۴، ۱۶؍مارچ ۲۰۱۵ء)
یہ ہے فیضی صاحب کا وہ اعتراف حقیقت کہ اب اس کے بعد ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ان کے کسی بیان کو رد کریں، ’’لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا‘‘۔ جب مفکر ملت مولانا عبدالجلیل رحمانی صاحب کا کوئی بھی بیان دستاویزی حیثیت رکھتا ہے، تو اب مرکزی دارالعلوم بنارس کے قیام کے بارے میں ان کی جو بھی تحریر ہوگی، اس کی حیثیت ایک دستاویز کی سی ہوگی، اب اس سے کوئی بھی غلط مطلب کشید کرنا جائز نہیں ہوگا، لیکن فیضی صاحب نے رحمانی صاحب کی عبارت کا جو مطلب نکالا ہے وہ سراسر مغالطہ پر مبنی ہے، آئیے سب سے پہلے مولانا رحمانی کی عبارت پڑھ لی جائے۔
مولانا عبدالجلیل رحمانی صاحب فرماتے ہیں:
’’ایک وقت آیا کہ مرکزی درسگاہ کے لیے اراضیات دینے کی پیش کش ہونے لگی۔ اکبر پور (جمنی) ضلع بستی اور جامعہ رحمانیہ بنارس نے اراضیات کی پیش کش کی، مالیگاؤں، دہلی اور بنارس کی میٹنگوں میں مرکزی عاملہ نے ان پیش کشوں پر غور کرکے بنارس کو ترجیح دیا، یہ ۱۹۵۷ء تا ۱۹۶۰ء کے درمیانی سالوں کی بات ہے یہاں تک کہ نومبر ۱۹۶۱ء میں اجلاس عام نوگڑھ منعقد ہوا، عمائدین بنارس کے قلوب میں اللہ نے حوصلہ پیدا کیا کہ مرکزی دارالعلوم کے لیے زمین کی جو پیش کش کی گئی تھی، اسے خود اپنے ہاتھوں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے زیرسرپرستی قائم کریں، اجلاس نوگڑھ کے نتیجے میں پوری جماعت میں نیا ولولہ پیدا ہوگیا تھا۔ آخر اعیان بنارس و عمائدین کانفرنس کی مشترکہ کوششوں سے مرکزی دارالعلوم قائم ہوگیا۔‘‘ (مفکر ملت، ص:۲۵۸۔۲۵۹)
فیضی صاحب مولانا عبدالجلیل رحمانی کی اس عبارت پر تبصرہ فرماتے ہوئے یوں لکھتے ہیں:
’’مولانا رحمانی نے بصیغۂ ماضی بصراحت لکھا ہے کہ ’’بنارس کو ترجیح دیا‘‘ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ’’بنارس میں اہل بنارس کی پیش کردہ زمین پر مرکزی دارالعلوم بنانے کو ترجیح دیا، اس کو پاس کیا ،اس کا فیصلہ لیا اور پھر اس کے لیے اقدامات بھی شروع ہوگئے جیسا کہ اوپر بیان ہوا اور یہ سب ۱۹۵۷ء تا ۱۹۶۰ء کے درمیانی سالوں کی بات ہے، یعنی نومبر ۱۹۶۱ء نوگڑھ کانفرنس سے پہلے کی بات ہے۔‘‘ (جرید ترجمان دہلی، ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء، ص:۸؍۱۰)
یہ فیضی صاحب کا اصل تبصرہ ہے۔
یامردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے
(اقبال)
حالانکہ اسی میں وہ مدت بھی شامل ہے یعنی مارچ ۱۹۵۹ء سے ۱۹۶۰ء تک اہل بنارس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی، وہ اس طرح خاموش تھے کہ جیسے ان کو کوئی ذمہ داری دی ہی نہیں گئی ہے، تفصیل آئندہ سطور میں ان شاء اللہ۔
فیضی صاحب عام قاری کو یہاں ایک بڑا مغالطہ دے رہے ہیں کہ مولانا عبدالجلیل رحمانی نے ’’بصیغۂ ماضی بصراحت لکھا ہے کہ بنارس کو ترجیح دیا‘‘ یقینا بنارس کو ترجیح دیا گیا، اس میں کسی کو کلام نہیں ہے، لیکن رحمانی صاحب کی عبارت کا آں جناب جو مطلب بیان کرتے ہیں اس کا ہرگز ہرگز وہ مطلب نہیں ہے کیونکہ رحمانی صاحب کی یہ عبارت خود ہی تشریح بھی کرتی ہے کیا تشریح کرتی ہے؟ آگے پڑھتے ہیں۔
رحمانی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’یہاں تک کہ نومبر ۱۹۶۱ء میں اجلاس عام نوگڑھ منعقد ہوا، عمائدین بنارس کے قلوب میں اللہ نے حوصلہ دیا کہ مرکزی دارالعلوم کی زمین کی جو پیش کش کی گئی تھی خود اسے اپنے ہاتھوں ’’آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس‘‘ کے زیر سرپرستی قائم کریں۔‘‘ (جریدہ ترجمان دہلی ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء، ص:۸)
در اصل رحمانی صاحب کی عبارت کا یہ مطلب ہے کہ فیصلہ لینے، ترجیح دینے، پاس کردینے اور قدرے اقدامات شروع ہونے کے باوجود، عمائدین بنارس اپنے اندر نوگڑھ کانفرنس کے انعقاد نومبر ۱۹۶۱ء تک وہ حوصلہ نہیں پا سکے تھے کہ مرکزی دارالعلوم کی بنیاد ڈال دیتے، انھیں یہ حوصلہ نوگڑھ کانفرنس نے ہی دیا اور یہاں بھی رحمانی صاحب بصیغۂ ماضی ہی تعبیر کر رہے ہیں، یعنی نوگڑھ اجلاس کے بعد یا دوران ہی میں عمائدین بنارس کے قلوب میں اللہ نے حوصلہ دیا، گویا کہ ہزار فیصلے کے باوجود ابھی تک وہ حوصلہ نہیں ملا تھا جس سے مرکزی دارالعلوم کا قیام ہوجاتا، یہ حوصلہ نوگڑھ کانفرنس نے ہی عطا کیا، رحمانی صاحب کی عبارت کی اصل تشریح یہ ہے نہ کہ وہ جو فیضی صاحب اپنی افتاد طبع سے فرمارہے ہیں۔
اور اسی حوصلے کی مزید تشریح کرتے ہوئے رحمانی صاحب آگے یہ بھی لکھتے ہیں:
’’اجلاس عام نوگڑھ کے نتیجہ میں پوری جماعت میں نیا ولولہ پیدا ہوگیا تھا، آخر اعیان بنارس و عمائدین آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کی مشترکہ کوششوں سے مرکزی دارالعلوم قائم ہوگیا۔‘‘ (مفکر ملت، ص:۲۵۹)
مفکر ملت مولانا رحمانی کی عبارت آپ بار بار پڑھیں، اس میں ایک لفظ بڑی ہی اہمیت کا حامل ہے اور وہ لفظ ہے ’’یہاں تک کہ‘‘ یہ ایسا لفظ ہے جس کے دو معانی ہیں، اگر اس سے آپ ظرف مکان مراد لیتے ہیں تو اس کا مطلب ’’اس جگہ‘‘ یا ’’اس جگہ تک‘‘ ہوگا اور اگر آپ اس سے ظرف زمان مراد لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا ’’اس وقت تک‘‘، اب فیضی صاحب کو اختیار ہے کہ وہ کیا معنی مراد لیتے ہیں، مگر مطلب وہی ہوگا جو اصلا میں نے تشریح میں عرض کر دیا ہے۔
فیضی صاحب عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں کے استاذ ہیں اور ان کو ان پر پورا عبور حاصل ہے، لیکن اس کے باوجود یہ برا دن دیکھنا تھا کہ علامہ شبلی، مولانا عبداللہ شائق، مولانا مجاز اعظمی، استاذ محترم ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری، اقبال سہیل اور فضا ابن فیضی رحمہم اللہ کی سرزمین سے وابستگی رکھنے والوں کے لیے لغوی و نحوی اور صرفی تشریح مجھے کرنی پڑی، اللّہم عفوا۔
مفکر ملت مولانا عبدالجلیل رحمانی کی عبارت کی یوں بھی تشریح کی جا سکتی ہے کہ پہلی عبارت مبتدا ہے اور دوسری عبارت خبر ہے یا یہ کہہ لیجیے کہ پہلی عبارت حالت فاعلی میں ہے اور دوسری عبارت مفعول بہ ہے، آپ جس زاویے سے بھی دیکھیں گے رحمانی صاحب کی عبارت دو ٹوک فیصلہ دے رہی ہے کہ ترجیح دی جا چکی تھی، فیصلہ ہو چکا تھا، مگر حوصلہ نہیں مل پارہا تھا، حوصلہ نوگڑھ کانفرنس نے ہی دیا، جماعت کے افراد اور مرکزی دارالعلوم کے ذمہ داران میں ابھی تک بلوغت اور پختہ شعور کے احساس نہیں پیدا ہوئے تھے، ارادے تھے مگر خام اور ناپختہ تھے، جیسا کہ خطیب الاسلام مولانا رحمانی جھنڈا نگری نے بھی لکھا ہے۔(ماہنامہ محدث جنوری فروری۱۹۹۱ء ص:۱۱)
حادثۂ دیوبند کے بعد ارباب جماعت کو چاک پیرہن کے رفو کی فکر دامن گیر ضرور ہوئی، مگر کانٹوں میں الجھنے کی خو پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اور ابھی تک ارباب جماعت مذاق جور گلچیں سے ناآشنا تھے، اسی لیے اس کے نفاذ اور عملی قدم اٹھانے کی بجائے رجعت قہقری کے شکار تھے، لیکن جب نوگڑھ کانفرنس نے ان کو للکارا تو میدان عمل میں کود پڑے، یہی مطلب ہے کہ اللہ نے عمائدین بنارس کے قلوب میں حوصلہ پیدا کیا، یعنی نوگڑھ کانفرنس کی وجہ سے حوصلہ ملا اور اسی لیے اسی موقع پر اراکین انجمن جامعہ رحمانی بنارس نے مع زمین دو لاکھ کی گرانقدر پیش کش بھی کر دی، اس سے پہلے پیش کش کیوں نہیں کی گئی تھی؟ جب کہ عملا وہی ذمہ دار تھے، حیرت بالائے حیرت ہے کہ فیضی صاحب اس پیش کش کو بھی ’’بے تکی‘‘ بات سے تعبیر کرتے ہیں، فیضی صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’مولانا عبدالمبین منظر رحمہ اللہ نوگڑھ کانفرنس نمبر (ترجمان یکم جنوری ۱۹۶۲ء) میں شائع شدہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: اراکین انجمن جامعہ رحمانیہ نے مرکزی دارالعلوم کے لیے معہ قیمت زمین دو لاکھ روپیے کی گرانقدر پیش کش اس موقع پر فرمایا (ص:۳۸) حالانکہ زمین تو پہلے ہی سے انجمن جامعہ رحمانیہ کی ملکیت تھی جسے اراکین انجمن جامعہ رحمانیہ ۵۸۔۱۹۵۹ء ہی میں مرکزی دارالعلوم کے لیے وقف کرچکے تھے تو پھر یہ نوگڑھ کانفرنس کے موقعہ پر اس زمین کی قیمت کی پیش کش کا کیا مطلب؟ یہ بالکل بے تکی بات ہے۔‘‘(جریدہ ترجمان ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء، ص:۱۲)
فیضی صاحب کی یہ منطق بھی عجیب و غریب ہے، کیا کوئی شخص اپنے کسی سابقہ ارادے کا اعادہ نہیں کرتا ہے؟ اپنے کسی عہد و پیمان کی تجدید نہیں کرتا ہے؟ اپنے کسی قول و قرار کو مزید پختہ نہیں بناتا ہے؟ کل شاید فیضی صاحب قرآن کی اس آیت پر بھی اپنے شک کا اظہار فرمانے لگیں گے کہ ’’ ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘(النساء:۱۳۶) کہ ایمان والوں سے ایمان کا مطالبہ یہ بات تو ماورائے عقل ہے، والعیاذ باللہ، فیضی صاحب کے ذاتی خیالات یقینا یہ نہیں ہوں گے، مگر ان کے استدلال کی انتہا یہی ہے۔
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
(غالب)
جو بات مولانا عبدالمبین منظرؔ صاحب نے لکھی ہے اسی بات کو رحمانی جھنڈا نگری صاحب دوسرے پیرائے میں لکھتے ہیں (محدث جنوری فروری ۱۹۹۱ء، ص:۱۱) اور اسی بات کو بنارس کے ایک معتبر عالم دین مولانا محمد یونس بنارسی اپنے ایک مضمون ’’مولانا عبدالمتین بنارسی‘‘ میں یوں لکھتے ہیں:
’’مولانا عبدالمتین رحمۃ اللہ علیہ علم اور اہل علم دونوں کے قدراں تھے چنانچہ جامعہ رحمانیہ کے دور نظامت میں طلبہ کا بڑا خیال رکھتے تھے اور علماء کی قدر کرتے تھے آپ کو دینی علوم اور مدارس دینیہ سے بڑا لگاؤ تھا، شوق اور لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ جب آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس نے ۱۹۶۱ء میں نوگڑھ کے تاریخی اجلاس میں یہ تجویز پاس کی کہ ملک میں ایک مرکزی ادارہ اور تعلیمی درس گاہ قائم کی جائے تو آپ اور آپ کے بھائیوں نے فوراٍ زمین کی پیش کش کی جسے آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس نے منظور کیا۔‘‘ (ماہنامہ محدث بنارس، اگست ۱۹۹۴ء، ص:۲۶)
فیضی صاحب اپنے مضمون میں ابتدائے تحریک نوگڑھ کانفرنس کے تعلق سے یوں لکھتے ہیں:
شروع میں ایک جگہ جو یہ لکھا گیا ہے کہ بنارس میں مرکزی دارالعلوم قائم کیے جانے کا فیصلہ اور اس کے لیے ابتدائی اقدامات، نوگڑھ میں کانفرنس کرنے کے تصور و تحریک سے بھی پہلے کا ہے تو یہ بے دلیل نہیں ہے اس کی میرے پاس واضح اور قوی دلیل موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا رحمانی تحریر فرماتے ہیں:
’’ستمبر ۱۹۶۰ء کا آخری عشرہ تھا اطلاع ملی کہ دہلی میں اکتوبر ۱۹۶۰ء کے پہلے ہفتے میں کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوگا۔۔۔۔۔۔ (میں نے) صدر جمعیت (بستی و گونڈہ مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری) اور دوسرے ذمہ دار رفقاء کو پرزور خط لکھا کہ فورا کسی کو دہلی بھیجا جائے اور اجلاس عام کی دعوت دی جائے۔۔۔۔۔ تمام دوستوں نے لبیک کہا، ضلعی جمعیت کے جنرل سیکریٹری (مولانا عبدالمبین منظر) درخواست لے کر دہلی گئے اور مجلس عاملہ سے اجلاس عام کی منظوری لے کر آئے۔‘‘ (علامہ عبدالجلیل رحمانی حیات و خدمات، ص:۲۴۴)
یہ ہے نوگڑھ کانفرنس کے تصور و تحریک کی ابتدا یعنی ستمبر ۱۹۶۰ء۔
فیضی صاحب مزید آگے لکھتے ہیں:
’’ہمارے قارئین کرام اور خود مولانا (محمد مستقیم) سلفی بھی غور و فکر کریں اور فیصلہ فرمائیں کہ بنارس میں مرکزی دارالعلوم بنانے کا قطعی فیصلہ اور اس کے لیے جلد از جلد نقشہ بنوانے اور اس کو کارپوریشن سے پاس کرانے کی ہدایت و تاکید جو مارچ ۱۹۵۹ء کی بات ہے یہ پہلے ہے یا نوگڑھ کانفرنس کے لیے ابتدائے تحریک جو ستمبر ۱۹۶۰ء کی بات ہے یہ پہلے ہے، ستمبر۱۹۶۰ء پہلے ہے یا مارچ ۱۹۵۹ء پہلے ہے۔‘‘ (جریدہ ترجمان دہلی ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء، ص:۱۳)
واہ! فقہ البخاری فی تراجمہ کی طرح فیضی صاحب نے بڑے ہی پتے کی بات کی ہے اور کیا ہی باریک نکتہ پیدا کیا ہے یعنی بڑے ہی پُرزور انداز میں لکھتے ہیں کہ نوگڑھ کانفرنس کے تصور و تحریک کی ابتدا کب ہوئی؟ یعنی مارچ ۱۹۵۹ء میں یا ستمبر۱۹۶۰ء میں؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرکزی دارالعلوم کے لیے فیصلہ مارچ ۱۹۵۹ء میں ہوا اور نوگڑھ کانفرنس کا تصور و تحریک ستمبر۱۹۶۰ء میں ہوئی، گویا دونوں کے درمیان تقریبا ڈیڑھ سال کا فاصلہ ہے، اس میں کسی کو بھی کلام نہیں ہے مگر یہاں فیضی صاحب نے رحمانی صاحب کی عبارت نقل کرنے میں ڈنڈی ماری ہے۔ فیضی صاحب یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ نوگڑھ کانفرنس کا تصور کیوں کر پیدا ہوا؟ اور نوگڑھ کانفرنس کی تحریک کی آواز کیوں کر شروع ہوئی؟ فیضی صاحب اس سے پردہ نہیں اٹھاتے ہیں، بلکہ اس بات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ان کا مدعا ثابت رہے اور حقیقت لوگوں کے سامنے نہ آسکے۔ آئیے اب میں نوگڑھ کانفرنس کے تصور و تحریک سے پردہ اٹھاتا ہوں کہ نوگڑھ کانفرنس کی تحریک کی آواز کیوں کر بلند ہوئی؟ فیضی صاحب نے مولانا عبدالجلیل رحمانی صاحب کی آدھی عبارت نقل کی ہے تاکہ حقیقت کا انکشاف نہ ہوسکے، آئیے مولانا عبدالجلیل رحمانی صاحب کی پوری عبارت پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں اور فیضی صاحب کو خوب خوب داد دیتے ہیں۔
رحمانی صاحب صاف صاف لکھتے ہیں:
’’ستمبر۱۹۶۰ء کا آخری عشرہ تھا، اطلاع ملی کہ دہلی میں اکتوبر۱۹۶۰ء کے پہلے ہفتے میں کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوگا، حسنِ اتفاق سے جمعیت کے سرگرم مبلغ مولوی علیم الدین ریاضی دارالعلوم میں تشریف فرما تھے، صدر جمعیت اور دوسرے ذمہ دار رفقاء کو پرزور خط لکھا کہ فورا کسی کو دہلی بھیجا جائے اور اجلاس عام کی دعوت دی جائے، کانفرنس کی عاملہ کے اجلاس بہت ہوتے رہے، ان سے کیا نتائج نکلتے رہے وہ پوشیدہ نہیں، ضرورت ہے کہ اجلاس عام کی دعوت منظور کرائی جائے اور کل ہند اجلاس کی تیاری کی جائے، ریاضی صاحب خط لے کر گئے، تمام دوستوں نے لبیک کہا، ضلع جمعیت کے جنرل سیکریٹری دہلی گئے اور کانفرنس کی عاملہ سے اجلاس عام کی منظوری لے کر آئے، سولہ سال کے بعد جماعت اہل حدیث ہند کی قسمت خفتہ بیدار ہوتی نظر آئی۔‘‘(مفکر ملت علامہ عبدالجلیل رحمانی حیات و خدمات، ص:۲۴۴۔۲۴۵)
یہ ہے مفکر ملت مولانا عبدالجلیل رحمانی کی اصل عبارت، اس پوری عبارت میں غور طلب یہ جملہ ہے ’’کانفرنس کی عاملہ کے اجلاس بہت ہوتے رہے، ان سے کیا نتائج نکلتے رہے وہ پوشیدہ نہیں، ضرورت ہے کہ اجلاس عام کی دعوت منظور کرائی جائے اور کل ہند اجلاس عام کی تیاری کی جائے۔‘‘
فیضی صاحب نے رحمانی صاحب کی عبارت نقل کرنے میں جان بوجھ کر ڈنڈی ماری ہے، دراصل یہ ہے نوگڑھ کانفرنس کے تصور و تحریک کی اصلی وجہ اور اصلی بات، کہ کانفرنس کی مجلس عاملہ کے اجلاس بہت ہوئے مگر ان سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو پارہے تھے، اب ضرورت ایک فیصلہ کن قدم اٹھانے کی تھی اور یہ فیصلہ کن قدم نوگڑھ کانفرنس کا انعقاد ہی تھا، سب کو معلوم ہے کہ مارچ ۱۹۵۹ء پہلے ہے اور ستمبر ۱۹۶۰ء بعد میں ہے لیکن مارچ ۱۹۵۹ء کے نتیجہ میں ستمبر ۱۹۶۰ء کی تحریک پیدا ہوئی اور ستمبر۱۹۶۰ء کے نتیجہ میں نومبر۱۹۶۱ء میں نوگڑھ کانفرنس کا انعقاد ہوا اور نومبر۱۹۶۱ء نوگڑھ کانفرنس کے نتیجہ میں نومبر۱۹۶۳ء میں مرکزی دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا، گویا اب سلسلۂ کلام یوں ہوگا: مارچ ۱۹۵۹ء میں فیصلہ ہوچکا تھا ترجیح دی جا چکی تھی، نقشہ کی بات بھی سامنے آئی تھی مگر ستمبر۱۹۶۰ء تک خاموشی طاری تھی، لوگ چادر تان کر سوئے ہوئے تھے کہ ستمبر۱۹۶۰ء میں نوگڑھ اجلاس عام کی تحریک چل پڑی اور پھر اس تحریک کی وجہ سے پورے ہندوستان میں پوری جماعت اہل حدیث میں بیداری کی ایک لہر دوڑ گئی، پھر نوگڑھ کانفرنس کا انعقاد ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں مرکزی دارالعلوم کا قیام ہوتا ہے، جیسا کہ مسیح جماعت مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’یوں تو جمعیت اہل حدیث کی جماعتی، علمی اور تنظیمی زندگی برسہابرس سے محض برائے نام چل رہی تھی، لیکن حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی جھنڈا نگریؒ کی نگرانی و سرپرستی میں جب اچانک نوگڑھ ضلع بستی میں اہل حدیث کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ہوا، تو پورے بر صغیر ہندو پاک میں جماعت اہل حدیث ہند میں ایک نئی زندگی پیدا ہوگئی اور بلا شبہ جماعت اہل حدیث کی تاریخ میں یہ ایک یادگار کانفرنس ہوئی، جس کی یاد آج تک تازہ ہے اس کانفرنس کے بعد ہندوستان کی جماعت اہل حدیث ہند میں ایک نئی زندگی اور حرکت و عمل کا ایک نیا دور شروع ہوا۔‘‘ (البلاغ فروری ۲۰۰۶ء ص:۳۲)
اگر میں ندوی صاحب کی پوری عبارت نقل کر دوں تو ہم سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی، آئندہ سطور میں ان شاء اللہ ضرور بالضرور نقل کروں گا۔
اب کوئی فیضی صاحب سے یہ پوچھے کہ بے شک مارچ ۱۹۵۹ء پہلے ہے، اورستمبر۱۹۶۰ء اور نومبر ۱۹۶۱ء بعد میں ہے، مگر حرکت و عمل میں تیزی کہاں سے پیدا ہوئی؟ اور لوگ اپنی نیند سے کب بیدار ہوئے؟ اور افراد جماعت اہل حدیث میں ایک نئی زندگی کب پیدا ہوئی؟ اور حرکت و عمل کا نیا دور کب شروع ہوا؟ جس کے نتیجہ میں مرکزی دارالعلوم قائم ہوا، اگر آپ انصاف پسند ہوں گے تو یقینا آپ کہیں گے کہ نومبر۱۹۶۱ء نوگڑھ کانفرنس کے نتیجہ میں مرکزی دارالعلوم کا قیام ہوا۔ دیکھیے جو بات مولانا عبدالجلیل رحمانی صاحب اشارے اور کنایے میں کہہ رہے تھے ندوی صاحب نے اسی بات کو واشگاف الفاظ میں بیان کر دیا ہے، اللہ ہمارے ان دونوں بزرگوں کو جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین۔ فیضی صاحب کو عبارت چھپانے کی پرانی عادت ہے۔
مولانا عبدالجلیل رحمانی صاحب کی یہ عبارت صاف صاف بتا رہی ہے کہ نوگڑھ کانفرنس کی ضرورت کیوں کر پیش آئی اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ جب لوگوں نے جمعیت و جماعت کی بدحالی، اور مرکزی دارالعلوم کے قیام سے بے توجہی برتی اور عدم رغبتی کا اظہار کیا، تب جاکر نوگڑھ اجلاس عام کا تصور پیدا ہوا اور اس کی تحریک چلی، جب چاروں طرف غفلت فروشیاں تھیں، اداسیاں تھیں، مایوسیاں تھیں، باتیں خوب ہوتی تھیں، نتائج نہیں نکلتے تھے، اعلانات ہوتے تھے، نفاذ کوسوں دور تھا، شاعری ہوتی تھی، لیکن عملی جامہ پہنانے والے خواب خرگوش میں تھے، نقشہ بن رہا تھا مگر نقشہ میں خونِ جگر کی ضرورت تھی اور اس کے لیے دل آمادہ نہ تھے، فیصلے ہوگئے، ترجیح دے دی گئی، زمین کا فیصلہ ہوگیا اور نقشہ بھی بن گیا، اور بقول فیضی صاحب پاس بھی کروا لیا گیا، اور آویزاں بھی کر دیا گیا، نقشہ خیالوں میں، دیواروں پر، اور ٹینٹوں پر آویزاں تھا، اور ایک نقشہ کیا؟ شاید ایسے ہزاروں نقشے آویزاں ہی رہ جاتے اگر نوگڑھ کانفرنس کا انعقاد نہ ہوتا، جب نوگڑھ کانفرنس کی شمع روشن ہوئی تب جاکر مرکزی دارالعلوم کے پروانوں کو پر لگے۔
حسن کی جلوہ گری سے ہے محبت کا جنوں
شمع روشن ہوئی، پر لگ گئے پروانوں کے
(جگر)
جیسا کہ مسیح جماعت مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ندوی صاحب کی بات آئندہ سطور میں نقل کروں گا ان شاء اللہ۔ میں یہاں پر مولانا عبدالجلیل رحمانی صاحب کے دو اقتباسات اور نقل کرنا چاہتا ہوں جس سے مرکزی دارالعلوم کے قیام میں نوگڑھ کانفرنس کا کیا رول تھا ،مزید نکھر کر سامنے آجائے گا، رحمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’اس اجتماع عظیم (نوگڑھ اجلاس) کے نتیجہ میں احساس کہتری کے بہت سے امراض تھے جو دور ہوگئے، جماعت میں اپنی علمی، مالی اور عددی قوت کا شعور بیدار ہوگیا، ایک بار جماعت اہل حدیث کے اندر زندگی کی لہر دوڑ گئی، اور وقت آگیا کہ کانفرنس کے دستور کی دفعہ ۳، ج۴ کے تحت ایک مرکزی دارالعلوم کا قیام عمل میں آئے اور تعلیمی مصارف کے لیے کم و بیش ۲۰؍لاکھ روپیہ کی فراہمی کا منصوبہ تیار کیا جائے، اہل بنارس (اللہ ان کے دین، علم اور دولت میں برکت دے، آمین) اجلاس عام میں مرکزی دارالعلوم کا تصور اور خاکہ لے کر آئے۔ نومبر ۱۹۶۳ء میں اس کا سنگ بنیاد بنارس میں پڑگیا اور مارچ ۱۹۶۶ء میں افتتاح تعلیم کی تاریخی و مثالی تقریب منائی گئی۔‘‘ (پندرہ روزہ ترجمان دہلی، ص:۳، ۱۵؍ستمبر ۱۹۶۷ء کا اداریہ بحوالہ جریدہ ترجمان ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء، ص:۱۷)
اسی طرح ۱۵؍جون ۱۹۶۹ء کے اداریہ میں ’’مسئلے کا حل اور تجزیہ‘‘ کے زیر عنوان یوں لکھتے ہیں:
’’تقسیم ملک کے بعد سے لے کر اب تک اخوان اہل حدیث ہند کا ربط خاطر خواہ اور مطلوبہ طریق پر مرکزی کانفرنس سے قائم نہ ہوسکا، ۱۹۶۱ء میں اجلاس عام نوگڑھ کے موقع پر پوری جماعت کے اندر حرکت و ارتعاش پیدا ہوا اور احساسات خفتہ بیدار ہوئے، مسلکی جذبات، عددی و مالی قوت کا بھی احساس ہوا، ایک مرکزی درس گاہ کے قیام کی راہ کھلی اور حیرت انگیز طریق پر ایک مرکزی دارالعلوم منصۂ شہود پر آگیا، جہاں یہ بات انتہائی مسرت خیز ہے ساتھ ہی یہ داستان نہایت الم انگیز ہے کہ ’’آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس‘‘ کو بہرنوع جو استحکام ہونا چاہیے وہ نہ ہوسکا۔‘‘ (ترجمان دہلی، ص:۳، ۱۵؍جون ۱۹۶۹ء، بحوالہ جریدہ ترجمان ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء،ص:۱۷)
رحمانی صاحب کی دونوں تحریروں میں غور طلب یہ الفاظ اور جملے ہیں ’’اس اجتماع عظیم کے نتیجے میں احساس کہتری کے بہت سے امراض تھے جو دور ہوگئے، شعور بیدار ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جماعت اہل حدیث کے اندر زندگی کی لہر دوڑ گئی اور وقت آگیا۔۔۔۔۔۔ کہ ایک مرکزی دارالعلوم کا قیام عمل میں آئے۔۔۔۔۔ اہل بنارس اجلاس میں مرکزی دارالعلوم کا تصور اور خاکہ لے کر آئے۔۔۔۔۔ ۱۹۶۱ء میں اجلاس عام نوگڑھ کے موقع پر پوری جماعت کے اندر حرکت و ارتعاش پیدا ہوا۔۔۔۔۔۔ ایک مرکزی درسگاہ کے قیام کی راہ کھلی اور حیرت انگیز طریق پر ایک مرکزی دارالعلوم منصہ شہود پر آگیا وغیرہ وغیرہ۔
ایک طرف فیضی صاحب رحمانی صاحب کی بات اور بیان کو دستاویزی حیثیت دیتے ہیں دوسری طرف مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں رحمانی صاحب کی بات کو ’’بعد ازوقت‘‘ اور ’’بے تکی‘‘ نہ کہہ بیٹھیں۔
میری ان تصریحات اور تشریحات کے بعد فیضی صاحب کے دلائل کی کوئی قیمت، وقعت اور اہمیت نہیں رہ جاتی ہے مگر آئیے پھر ان کے دلائل کا جائزہ لے ہی لیا جائے تاکہ ان کو شکایت کا موقع نہ ملے کہ ان کے دلائل کے جواب نہیں دیے گئے، لیکن ان کے دلائل کا جائزہ لینے سے پہلے ایک بات عرض کر دی جائے تو بہتر ہوگا، دراصل نوگڑھ کانفرنس سے پہلے ’’ترجمان‘‘ یا ’’اہل حدیث‘‘ میں جتنے بھی اشتہارات، اعلانات یا اشعار شائع ہوئے ہیں فیضی صاحب ان کو اصل مصدر اور منبع قرار دیتے ہیں، اور فیضی صاحب کی تحریر کی یہی سب سے بڑی خامی اور کمزوری ہے، وہ کوئی اعلان دیکھ لیتے ہیں تو اس کو بس مرکزی دارالعلوم قائم ہوگیا، قرار دے دیتے ہیں، اور حاطب اللیل کی طرح رطب و یابس جمع کر بیٹھے ہیں اس کی مثال یوں جان لیجیے۔
’’ترجمان یکم فروری ۱۹۶۰ء کے شمارہ میں محمد جعفر سلیم پرتاپ گڑھی کی ایک نظم بعنوان ’’ہو بنارس کو مبارک مرکزی دارالعلوم‘‘ شائع ہوتی ہے اب فیضی صاحب اس نظم کو پڑھنے کے بعد یہ خیال کر بیٹھتے ہیں کہ اب تو مرکزی دارالعلوم قائم ہوگیا حالانکہ اسی شمارہ یکم فروری ۱۹۶۰ء میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے جنرل سیکریٹری کا مضمون ’’احتساب نفس‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں:
’’۱۵؍دسمبر کے ترجمان میں جنرل سیکریٹری آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا مضمون ’’احتساب نفس‘‘ کے عنوان سے نکل چکا ہے جس میں اطراف ملک کے لوگوں سے درخواست کی گئی ہے کہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور ممبرسازی کو تیز کریں، بہت سی جگہوں کے لوگوں نے رکنیت سازی کی کاپیاں لے کر اپنے پاس رکھ لی ہیں نہ رکن بناتے ہیں اور نہ کاپیاں واپس کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے دل میں احساس زیاں مٹ چکا ہے اور اپنی ذمہ داری کا ذرا سا پاس نہیں تو کس طرح جماعت اہل حدیث ہند مرکزی دارالعلوم کی طرف قدم اٹھائے گی۔‘‘(مقالہ خورشید احمد ’’مرکزی دارالعلوم۔۔۔۔‘‘، ص:۱۹۷)
اب یکم فروری ۱۹۶۰ء کے بعد ۱۵؍جولائی ۱۹۶۰ء کے ترجمان دہلی کا شمارہ اٹھا لیجیے اس میں ناظم دفتر کی طرف سے جو مضمون شائع ہوا ہے وہ دل دہلا دینے والا ہے، آئیے اس کو پڑھتے ہیں، ناظم دفتر لکھتے ہیں:
’’بنارس کی زمین کی پیش کش پر غور کرنے کے لیے یکم مارچ۱۹۵۹ء کو بنارس میں مجلس عاملہ کی نشست ہوئی تھی اس میں عمائدین بنارس کے مشورہ اور اتفاق سے دوسب کمیٹیاں بنائی گئی تھیں، ایک عمارت کے نقشہ کی تیاری کے لیے اور اس کو بنارس میں میونسپلٹی سے منظور کرانے کے لیے اور دوسری عمارت کے لیے فراہمی سرمایہ کے لیے، ان دونوں سب کمیٹیوں میں بنارس کے عمائدین و احباب بھی ہیں اور ان دونوں کے کنوینر بھی، سب کے مشورہ اور اتفاق سے مولانا نذیر احمد رحمانی منتخب ہوئے، دونوں سب کمیٹیوں کے ارکان کے اسمائے گرامی ترجمان میں شائع ہو چکے ہیں، اب بنارس کے تازہ مکتوب سے معلوم ہوا کہ نقشہ کی تیاری اور اس کو میونسپلٹی سے منظور کرانے اور فراہمی سرمایہ کے سلسلے میں اب تک کوئی کام نہیں ہوا ہے، مجلس عامہ کا اجلاس جو عنقریب ہونے والا ہے اس اہم معاملہ پر خصوصی طور سے غور کرے گا۔‘‘ (ترجمان دہلی ۱۵؍جولائی ۱۹۶۰ء، بحوالہ مقالہ خورشد، ص:۲۰۳)
آئیے ہم سب مل کر غور کریں کہ یکم مارچ ۱۹۵۹ء سے لے کر جولائی ۱۹۶۰ء تک، تقریبا سترہ اٹھارہ ماہ کی ایک طویل مدت گزر گئی مگر مرکزی دارالعلوم کے لیے کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوئی اور فیضی صاحب جیسے محقق اس نظم سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ سب کچھ ہو چکا ہے اور اس کو بطور دلیل اپنی کتاب میں پیش کر دیتے ہیں۔ (تاریخ مرکزی دارالعلوم، ص:۳۹)
اسی طرح ان کی ساری دلیلیں لچرپوچ، بے وقعت، بے وزن اور بے معنی ہیں۔ اس لیے کہ وہ تمام اشتہارات، اعلانات، فیصلے، ترجیحات اور اقدامات بے روح و بے جان تھے اور اسی لیے نوگڑھ کانفرنس کی تحریک چلی، اس کا انعقاد ہوا پھر وہ اقدامات جو دم توڑ رہے تھے ان میں جان پڑی اور ان میں جان نوگڑھ کانفرنس نے ہی ڈالی، اسی لیے پچاس سالوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ مرکزی دارالعلوم بنارس نوگڑھ کانفرنس کی دین ہے اور یہی سچ اور حق ہے۔ انصاف پسند حضرات نے اس کا اعتراف ماضی میں بھی کیا ہے اور آج بھی کرتے ہیں، ہم آئندہ سطور میں ان شاء اللہ چند اقتباسات نقل کریں گے۔
آئیے اب فیضی صاحب کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں، فیضی صاحب لکھتے ہیں:
دلیل نمبر۱:۔ ترجمان دہلی شمارہ ۱۵؍نومبر ۱۹۵۹ء کے ٹائٹل پیج پر یہ واضح اعلان شائع کیا گیا تھا ’’مرکزی دارالعلوم بنارس کی عمارت کا نقشہ ترجمان کے اگلے شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں‘‘ کیا جماعت اہل حدیث اور آل انڈیا اہل حدیث کا آرگن ’’ترجمان‘‘ میں یہ اعلان و اشتہار عمائدین جماعت و اہل حدیث کانفرنس کے بنارس میں مرکزی دارالعلوم بنانے کا قطعی فیصلہ لیے بغیر کر دیا گیا تھا؟ اور کیا یہ فیصلہ اور اعلان نوگڑھ کانفرنس نومبر ۱۹۶۱ء سے پہلے کا نہیں ہے؟
جواب: آپ کا فرمانا بے شک درست ہے ۱۵؍دسمبر کے شمارہ میں ایک غیر مکمل دھندلا سا نقشہ شائع ہوا، لیکن کیا آپ نے اس نقشہ کو نومبر ۱۹۶۱ء تک کسی دوسرے شمارہ میں مکمل اسٹیمیٹ کے ساتھ دیکھا؟ یہاں تک کہ نومبر ۱۹۶۱ء میں نوگڑھ کانفرنس منعقد ہوتی ہے؟ آپ کا جواب یقینا نفی میں ہوگا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فقط ایک بے جان اعلان تھا، نفاذ نہیں، نفاذ نوگڑھ کانفرنس کے بعد ہی ہوا۔
ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ نومبر ۱۹۵۹ء کے شمارہ میں نقشہ کا اعلان دیا جاتا ہے دوسری طرف ترجمان کے شمارے بتاتے ہیں کہ یکم مارچ ۱۹۵۹ء سے ۱۵؍جولائی ۱۹۶۰ء تک کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوتی ہے۔ تو پھر ان اعلانات و اشتہارات کی حیثیت و اہمیت کا تعین کیسے کیا جائے گا؟ اور ان کا وزن کیوں کر قبول کیا جائے گا؟ پھر ان کو بطور دلیل کیوں کر پیش کیا جا سکتا ہے؟ کیا فیضی صاحب اس کا کوئی تسلی بخش جواب دیں گے؟ یا ان مردہ اعلانات سے صرف استدلال ہی کرتے رہیں گے۔
مثل کلیم مجھ کو نہ اے برق طور چھیڑ
میں غش ہوا، تو ہوش میں لایا نہ جائے گا
(سہیل)
دلیل نمبر ۲:۔ اخبار اہل حدیث دہلی شمارہ ۱۵؍اپریل ۱۹۵۹ء میں اس کے معاون مدیر مولانا عبدالشکور صاحب اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں:
’’اہل حدیث کانفرنس جو ایک عرصہ دراز سے مرکزی درسگاہ کی تحریک اپنے آرگن یا ترجمان میں کرتی آرہی ہے۔۔۔۔ اخبارات سے معلوم ہوا، کہ بنارس کے احباب مرکزی دارالعلوم کے لیے آراضی وقف کر چکے ہیں اور اب وہاں مرکزی مدرسہ کی بنیاد ڈالی جانے کی خبر ہے۔‘‘
مذکورہ بالا اعلان کی طرح یہ تحریر بھی ۱۹۵۹ء ہی کی ہے، کیا یہ تحریر بھی نوگڑھ کانفرنس نومبر ۱۹۶۱ء سے پہلے بنارس میں مرکزی دارالعلوم بنانے کے فیصلہ پر دلالت نہیں کرتی ہے؟
جواب: بے شک دلالت کرتی ہے لیکن کیا بنیاد ڈال دی گئی تھی؟ آپ کا جواب یقینا نفی میں ہوگا، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فقط ایک آرزو تھی جس کی ابھی تکمیل باقی تھی اور تکمیل نوگڑھ کانفرنس کے بعد ہوئی جب نوگڑھ کانفرنس سے حوصلہ ملا، مولانا عبدالجلیل رحمانی کے سابقہ تمام بیانات یہی بتاتے ہیں، فتدبر!
دلیل نمبر۳:۔ یہ نوگڑھ کانفرنس سے پہلے کی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بنارس میں مرکزی دارالعلوم کے قیام کے قطعی فیصلہ کے بغیر اعیان بنارس دارالعلوم کی تعمیر کے لیے اقدامات کرنے لگے تھے؟
جواب:مجھے اعتراف ہے قطعی فیصلے ہو چکے تھے، قدرے اقدامات بھی ہوئے، مگر ڈیڑھ سال کی طویل خاموشی کے بعد اور کیا اس کے بعد بھی کوئی بات پایۂ تکمیل کو پہنچی، اور بنارس والوں نے کوئی دولاکھ کی پیش کش کی؟
اور کیا اس فیصلہ پر عمل در آمد ہوا؟ آپ کا جواب یقینا نفی میں ہوگا۔
دلیل نمبر ۴،۵؍اور ۷، مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔
’’اس ظلم و بربریت کے خلاف بڑا کہرام مچا، بالآخر چند ہی دنوں بعد بنارس میں مرکزی دارالعلوم کے قیام کا فیصلہ کر لیا گیا۔۔۔۔۔۔ مولانا کے چند دنوں کو چند برسوں میں تبدیل کر لیجیے اور تین کے بجائے پانچ برس کر لیجیے تب بھی یہ فیصلہ ۱۹۵۹ء کا ہوگا نوگڑھ کانفرنس ۱۹۶۱ء سے بہر حال پہلے کا ہوگا، ۔۔۔۔۔۔ ۱۹۶۱ء میں نوگڑھ ضلع بستی یوپی میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا ایک تاریخی اجلاس ہوا جس کے اسٹیج پر دارالعلوم کا نقشہ آویزاں تھا، وغیرہ وغیرہ۔
جواب:یہ تینوں دلیلیں فیضی صاحب کے لیے ’’لنکا‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں، کیونکہ یہ تینوں دلیلیں مسیح جماعت مولانا مختار احمد ندوی صاحب کے اقتباسات سے ماخوذ ہیں اور براہ راست ندوی صاحب سے متعلق ہیں، البتہ فیضی صاحب کے اس ’’لنکا‘‘ کو ڈھانے کے لیے ’’گھر کے بھیدی‘‘ کی ضرورت تھی اور وہ ’’گھر کا بھیدی‘‘ خود مولانا مختار احمد ندوی صاحب کی ذات گرامی ہے۔ فیضی صاحب کہتے ہیں کہ مولانا مختار احمد ندوی صاحب کے ’’چنددنوں‘‘ کو ’’چند برسوں‘‘ میں تبدیل کر لیجیے اور تین کے بجائے ’’پانچ برس‘‘ کر لیجیے لیکن مجھے فیضی صاحب کا اتنا قیمتی مشورہ قبول نہیں ہے، فیضی صاحب کو تھوڑی سی تکلیف ہوگی، اس لیے کہ میں پانچ کے بجائے ’’سات برس‘‘ تسلیم کروں گا اور اس وقت نوگڑھ کانفرنس کا انعقاد ہو رہا تھا، اور میری یہ تاویل ندوی صاحب کے ارشادات کے عین مطابق ہے۔
آئیے ’’گھر کے بھیدی‘‘ مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کے ارشادات گرامی سے سیرچشم ہوا جائے، شاید فیضی صاحب کو قرار آنے کی بجائے، کہیں ان کی بے چینی میں اضافہ نہ ہو جائے، فیضی صاحب کی یہ عادت شریفہ بہت پرانی ہے کہ وہ اپنے مطلب کی باتیں لے لیتے ہیں اور جو باتیں ان کے خلاف جاتی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہیں یا ان کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، میں حیران ہوں اپنی جرأت گفتار دیکھ کر۔۔۔۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ ۔۔۔۔۔۔۔ کی صفت ہے تو عظیم گستاخی ہوگی، اگر یہ کہوں کہ یہ علمی خیات ہے تو مجھ پر لعن طعن اور ناراضگی کے تیر برسائے جائیں گے، اگر یہ کہوں کہ یہ بات تحقیق کے خلاف ہے تو کہیں گے کہ ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطاء است‘‘ اور ’’چھوٹا منہ بڑی بات‘‘ آخر کون سی راہ اپنائی جائے، امید ہے کہ فیضی صاحب کوئی بیچ کی راہ ضرور نکالیں گے، بات لمبی ہوگئی ’’دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے‘‘۔
فیضی صاحب کی مذکورہ بالاتینوں دلیلیں ندوی صاحب کے اقتباسات سے دی گئی ہیں، ندوی صاحب اپنے الفاظ ’’چند دنوں‘‘ اور ’’نقشہ آویزاں تھا‘‘ کی تشریح خود کرتے ہیں، آئیے ندوی صاحب کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی باتوں کو دل تھام کر پڑھ لیتے ہیں اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، اللھم اغفر لہ وارحمہ۔
ندوی صاحب ’’نوگڑھ میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا انعقاد‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں:
’’یوں تو جمعیت اہل حدیث ہند کی جماعتی، علمی اور تنظیمی زندگی برسہابرس سے محض برائے نام چل رہی تھی لیکن حضرت مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگریؒ کی نگرانی و سرپرستی میں جب اچانک نوگڑھ کے ضلع بستی میں اہل حدیث کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ہوا، تو پورے برصغیر ہندو پاک میں، جماعت اہل حدیث ہند میں ایک نئی زندگی پیدا ہوگئی، میں ان دنوں کلکتے میں تھا چوں کہ مجھے وہاں علمی ادبی و مذہبی زندگی کا بڑا آزاد ماحول ملا تھا اور میں نے اس وقت اپنی جواں عمری کی ہمت و طاقت سے کام لے کر زندگی کے یادگار علمی، ادبی و تجارتی فرائض انجام دیے، جو میری پوری زندگی کے لیے زاد راہ بنا، حق تو یہ ہے کہ اس وقت جتنے بھی علمی و جماعتی موڑ آئے ان کو بڑی خوش اسلوبی سے طے کیا، ان ہی میں سے مرکزی جمعیت اہل حدیث کی عظیم الشان ’’آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس بمقام نوگڑھ‘‘ ہے جو تاریخی نوعیت کے اعتبار سے بڑی یادگار موثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوئی، میری اپنی ذاتی رائے میں میرے لیے اپنی زندگی کی سب سے بڑی یادگار تھی خصوصا میرا وہ خطاب جو میں نے اپنی جوانی میں اس کانفرنس کے اسٹیج پر کیا تھا اس کی لذت خطاب میں آج تک محسوس کر رہا ہوں۔
اس کانفرنس کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس میں سعودی عرب کے سفیر معالی الشیخ محمد حمد الشبیلی بطور خاص شریک اجلاس ہوئے، اور بلا شبہ جماعت اہل حدیث کی تاریخ میں یہ ایک یادگار کانفرنس ہوئی جس کی یاد آج تک تازہ ہے اس کانفرنس کے بعد ہندوستان کی جماعت اہل حدیث میں ایک نئی زندگی اور حرکت و عمل کا ایک نیا دور شروع ہوا، جن میں قابل ذکر تاریخی یادگار عمل ’’مرکزی دارالعلوم‘‘ کے قیام کا بڑا عظیم تاریخ ساز فیصلہ ہوا، اور جلد ہی تقدیر کے فیصلے نے اسے بنارس کی سرزمین میں ایک عظیم یادگار سلفی درسگاہ مرکزی دارالعلوم (الجامعۃ السلفیہ) سے موسوم و مشہور کر دیا، جو بلاشبہ ہندوستان میں سلفی درسگاہ کا عظیم خواب پورا ہوا، اور جس کی تعبیر برصغیر ہندوپاک میں عظیم یادگار درسگاہ کی شکل میں وجود میں آئی۔‘‘ (البلاغ فروری ۲۰۰۶ء، ص:۳۲)
کچھ قمریوں کو یاد ہیں کچھ بلبلوں کو حفظ
عالم میں ٹکڑے ٹکڑے مری داستاں کے ہیں
(جمیل)
یوں تو ندوی صاحب کا ایک ایک لفظ پلکوں پر سجانے اور دلوں میں بسانے کے لائق ہے مگر یہ عبارت ’’جن میں قابل ذکر تاریخی یادگار عمل ’مرکزی دارالعلوم‘‘کے قیام کا بڑا عظیم تاریخ ساز فیصلہ ہوا‘‘ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
فیضی صاحب! کچھ ارشاد فرمائیں گے؟ ندوی صاحب یہ باتیں ہوا میں نہیں کر رہے تھے، نہ ہی کسی خلا و فضا میں مرکزی دارالعلوم قائم کرنے کی باتیں کررہے تھے وہ اسی ’’مرکزی دارالعلوم‘‘ کی باتیں کر رہے تھے جو ہم سب کے سامنے ہے۔
اور تو اور یہ اس شخص کا بیان ہے جو نوگڑھ کانفرنس کے اسٹیج سے خطاب کر چکا ہے اور پینتالیس سال کے بعد بھی اس خطاب کی لذت سے لطف اندوز ہو رہا ہے اس خطاب کی مٹھاس محسوس کر رہا ہے اس خطاب کی شیرینی سے شاد کام ہو رہا ہے اور اس کی یاد دل میں تازہ کیے ہوئے ہے، اور علی الاعلان کہہ رہا ہے ’’جن میں قابل ذکر تاریخی یادگار عمل ’’مرکزی دارالعلوم‘‘ کے قیام کا بڑا عظیم تاریخ ساز فیصلہ ہوا۔‘‘
فیضی صاحب کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں!!
کچھ توپڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا
(غالب)
اس شعر میں اگر ’’غالب‘‘ کی جگہ ’’فیضی‘‘ رکھ دیں تو شعر کی معنویت دو چند ہو جائے گی۔
اتنا سب ثبوت فراہم کرنے کے باوجود مجھے ڈر ہے کہ فیضی صاحب کہیں ندوی صاحب کی باتوں کو ’’بعد از وقت‘‘ اور ’’بے تکی‘‘ بات سے تعبیر نہ کر بیٹھیں، کیونکہ مارچ ۱۹۵۹ء پہلے ہے اور فروری ۲۰۰۶ء بعد میں ہے، فیضی صاحب کی تحقیق پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے حیرت ہے کہ ’’البلاغ‘‘ کے اسی شمارہ کے اسی مضمون میں آدھی سطر ان کے کام کی بات مل گئی تو اس کو لے کر دلیل بنا لیا، اور اس سے پہلے تقریبا پورا صفحہ ندوی صاحب کے درد و کرب اور ذوق و شوق کی کہانی سے بھرا ہوا ہے، اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں، فیضی صاحب نے اپنی دلیل ’’البلاغ‘‘ کے صفحہ ۳۳ سے لی ہے اور میں نے ندوی صاحب کی عظیم و طویل عبارت صفحہ ۳۲ سے نقل کی ہے۔ اب اس تحقیق کو کیا نام دیا جائے گا صفحہ ۳۲؍پہلے ہے؟ یا صفحہ نمبر ۳۳ پہلے ہے؟
کرنے کی باتیں دل میں بہت ہیں پڑی ہوئی
حسرت کی بات، شوق کی بات، آرزو کی بات
(عاجزؔ)
آئیے مسیح جماعت مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کا دوسرا بیان بھی پڑھ لیتے ہیں۔
ندوی صاحب اپنے ایک دوسرے مضمون میں یوں لکھتے ہیں:
’’غالبا ۱۹۶۰ء میں بنارس ٹاون ہال میں آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کا اجلاس ہو رہا تھا، میں بھی اس میں شریک ہوا، اس اجلاس میں مولانا عبدالوحید نے مرکزی دارالعلوم کے قیام کی مہم میں مجھے باضابطہ اپنا شریک بنا لیا تھا، اب میں عملی طور پر مولانا مرحوم کا رفیق بن کر مرکزی دارالعلوم کے قیام کی مہم میں شریک ہوگیا، ۱۹۶۱ء میں جب نوگڑھ میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا تاریخی اجلاس ہوا تو اس میں مولانا کے شانہ بشانہ مل کر ہم لوگوں نے مرکزی دارالعلوم کے قیام کی عملی جدو جہد شروع کردی۔‘‘ (مولانا مختار احمد ندوی حیات و خدمات، ص:۴۵۷۔۴۵۸)
گیا ساقی تو کیا، بیخود ہیں اس کے جرعہ خوار اب تک
سروں میں ہے اسی صہبائے دوشیں کا خمار اب تک
(سہیل)
اب فیضی صاحب سے میں پوچھنا چاہوں گا کہ آپ بار بار جو کہتے ہیں کہ یہ نوگڑھ کانفرنس نومبر ۱۹۶۱ء سے پہلے ہوا، یہ نومبر ۱۹۶۱ء سے پہلے ہوا، یہ نومبر ۱۹۶۱ء سے پہلے ہوا، مجھے آپ کی ہر بات تسلیم ہے لیکن میری بھی ایک گزارش ہے کہ آپ اس بات کو تسلیم کرلیں کہ اصلاً مرکزی دارالعلوم کے قیام کی عملی جدو جہد نوگڑھ کانفرنس کے بعد ہی شروع ہوئی، جیسا کہ ندوی صاحب فرماتے ہیں جو مرکزی دارالعلوم کے اولین نائب صدر بھی رہ چکے ہیں اور نوگڑھ کانفرنس کے اسٹیج سے خطاب بھی کر چکے ہیں اور تو اور آپ کے ہم وطن بھی ہیں، ان کا بیان اور ان کی روایت تو آپ کے نزدیک قابل قبول ہونی چاہیے، آخر ندوی صاحب آپ سے جونیر تو نہیں ہیں، بلکہ اکابر قدمائے جماعت میں ان کا بھی شمار ہوگا اور ان کا ہر بیان صریح و قطعی مانا جائے گا۔
اب ان کی ’’چند دنوں‘‘ والی بات کو پانچ کے بجائے سات سال پر ہی منطبق کرنا پڑے گا اور وہ سال نومبر ۱۹۶۱ء ہی قرار پائے گا جس میں کہ نوگڑھ کانفرنس منعقد ہوئی اور ندوی صاحب کے اس بیان کہ ’’مرکزی دارالعلوم‘‘ کے لیے عملی جدو جہد نوگڑھ کانفرنس ۱۹۶۱ء کے بعد شروع ہوئی، اس کی تائید میں مولانا عبدالجلیل رحمانی کے اداریہ کی وہ عبارت بھی پیش کی جا سکتی ہے جو انھوں نے ترجمان دہلی یکم نومبر ۱۹۶۸ء کے اداریہ بعنوان ’’اجتماعات‘‘میں لکھا تھا۔
رحمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’سولہ سال پر آل انڈیا اہل حدیث کا اجلاس عام جمعیت اہل حدیث بستی و گونڈہ کے زیر اہتمام نوگڑھ بستی میں ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ ایک اہل حدیث یونیورسٹی یا مرکزی دارالعلوم کے قیام کی دیرینہ تمنا کی تکمیل کے لیے افراد جماعت میں تڑپ پیدا کرنا آسان نہ تھا یہ ’’اجلاس عام‘‘ہے جس نے احساسات خفتہ کو بیدار کیا۔‘‘ (ترجمان دہلی یکم نومبر ۱۹۶۸ء، بحوالہ جریدہ ترجمان ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶، ص:۱۷)
اور اسی طرح رحمانی صاحب ۱۵؍جون ۱۹۶۹ء کے اداریہ میں یوں لکھتے ہیں:
’’تقسیم ملک کے بعد سے لے کر اب تک اخوان اہل حدیث ہند کا ربط خاطر خواہ اور مطلوبہ طریق پر مرکزی کانفرنس سے قائم نہ ہوسکا، ۱۹۶۱ء میں اجلاس عام نوگڑھ کے موقع پر پوری جماعت کے اندر حرکت و ارتعاش پیدا ہوا، اور احساس خفتہ بیدار ہوئے۔۔۔۔۔۔ ایک مرکزی درسگاہ کے قیام کی راہ کھلی اور حیرت انگیز طریق پر ایک مرکزی دارالعلوم منصہ شہود پر آگیا۔‘‘ (مفکر ملت، ص:۲۵۰، ایضا جریدہ ترجمان ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء، ص:۱۷)
مولانا عبدالجلیل رحمانی صاحب کی ان مذکورہ دونوں تحریروں کا بغور مطالعہ کریں اور تدبر کریں کہ نوگڑھ کانفرنس سے پہلے ارباب جماعت کس طرح پلان بناتے تھے، اعلانات کرتے تھے اور پھر گہری نیند میں کھوجاتے تھے، ان کو ان کی گہری نیند سے جھنجھوڑ کر جگانے والا نوگڑھ اجلاس عام ہے۔ افراد جماعت کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا، اور میدان عمل کی طرف پکارا، پھر جاکر ایک اہل حدیث یونیورسٹی یا مرکزی دارالعلوم کی راہ کھلی، اور جماعت اہل حدیث کی دیرینہ تمنا پوری ہوئی اور حیرت انگیز طریق پر مرکزی دارالعلوم منصہ شہود پر آگیا۔
اب مولانا ندوی و مولانا رحمانی صاحبان کی مذکورہ بالا تحریروں کی روشنی میں رحمانی صاحب کی پہلی تحریر باآسانی سمجھ میں آجائے گی جس کو فیضی صاحب بھی پیش کرتے رہے ہیں، رحمانی صاحب کی وہ تحریر یہ ہے:
’’ایک وقت آیا کہ مرکزی درسگاہ کے لیے اراضیات دینے کی پیش کش ہونے لگی اکبر پور (جمنی) ضلع بستی اور جامعہ رحمانیہ بنارس نے اراضیات کی پیش کش کی، مالیگاؤں، دہلی اور بنارس کی میٹنگوں میں مرکزی عاملہ نے ان پیش کشوں پر غور کرکے بنارس کو ترجیح دیا، یہ ۱۹۵۷ء تا ۱۹۶۰ء کے درمیانی سالوں کی بات ہے، یہاں تک کہ نومبر ۱۹۶۱ء میں اجلاس عام نوگڑھ منعقد ہوا، عمائدین بنارس کے قلوب میں اللہ نے حوصلہ پیدا کیا کہ مرکزی دارالعلوم کے لیے زمین کی جو پیش کش کی گئی تھی اسے خود اپنے ہاتھوں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے زیرسرپرستی قائم کریں، اجلاس نوگڑھ کے نتیجے میں پوری جماعت میں نیا ولولہ پیدا ہوگیا تھا، آخر اعیان بنارس و عمائدین کانفرنس کی مشترکہ کوششوں سے مرکزی دارالعلوم قائم ہوگیا۔‘‘ (مفکر ملت مولانا عبدالجلیل رحمانی، ص:۲۵۸۔۲۵۹)
اب شاید فیضی صاحب کے لیے رحمانی صاحب کی یہ عبارت معمہ نہ رہے گی کہ ’’مرکزی عاملہ نے ان پیش کشوں پر غور کرکے بنارس کو ترجیح دیا یہ ۱۹۵۷ء تا ۱۹۶۰ء کے درمیانی سالوں کی بات ہے یہاں تک کہ نومبر ۱۹۶۱ء میں اجلاس عام نوگڑھ کانفرنس منعقد ہوا۔
گویا تمام جدو جہد اور تگ و دو نوگڑھ کانفرنس میں مدغم ہو جاتی ہیں، اور اب عمائدین بنارس کے قلوب میں اللہ حوصلہ دیتا ہے کہ وہ مرکزی دارالعلوم قائم کر دیں، یعنی نوگڑھ کانفرنس کی وجہ سے وہ حوصلہ مل رہا ہے، اور افراد جماعت میں ایک مرکزی دارالعلوم کے قیام کے لیے تڑپ پیدا کرنا آسان نہ تھا یہ اجلاس عام نوگڑھ ہے جس نے احساسات خفتہ کو بیدار کیا، اور نومبر ۱۹۶۱ء سے پہلے کے وہ سارے اقدامات بروئے کار آنے لگے جو اب تک سرد خانہ میں پڑے ہوئے تھے۔
راز ہے راز ہے تقدیر جہانِ تگ و تاز
جوشِ کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز
(اقبال)
دلیل نمبر ۶؍اور ۸:فیضی صاحب نے ان دونوں میں صرف ایک بات کہی ہے نقشہ بن جانا اور ان کا پاس کروا لینا نوگڑھ کانفرنس سے قبل، اس لیے دونوں کا جواب ایک ہی ہوگا۔
جواب:اس سلسلے میں اتنا ہی عرض کرنا کافی ہوگا کہ نقشہ بنوانے اور پاس کروانے کے بارے میں مولانا عبدالوحید سلفیؒ ناظم اول مرکزی دارالعلوم بنارس کی بات ہی آخری اور قطعی مانی جائے گی، کیونکہ ان کا اعلان اور ان کی تحریر نوگڑھ کانفرنس کے بعد، نوگڑھ کانفرنس نمبر میں شائع ہوئی جو دو اور دو چار کی طرح واضح طور پر بتا رہی ہے کہ نقشہ نوگڑھ کانفرنس کے بعد بنا اور کارپوریشن میں پاس کرانے کے لیے داخل کیا گیا، اس لیے ان کی بات اور ان کی تحریر سابقہ تمام بیانات و اعلانات کے لیے ناسخ ہوگی۔
آئیے مرکزی دارالعلوم کے ناظم اول کی تحریر پڑھ لی جائے، مولانا عبدالوحید صاحب ناظم اعلی ’’انجمن رحمانیہ بنارس‘‘ اہل حدیث ہند کا مرکزی دارالعلوم‘‘ کے عنوان کے تحت یوں لکھتے ہیں:
’’اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اب بھی مکمل دینی تعلیم کے خواہش مند اہل حدیث طلباء کے لیے ایک ایسی بڑی اور جامع دینی درسگاہ کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے جو اپنے نصاب تعلیم اور نظام تربیت کے لحاظ سے مرکزیت کی حامل ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جامعہ رحمانیہ بنارس اگر چہ ایک عرصہ سے محدود پیمانے پر دینی تعلیم کی خدمت میں مصروف ہے، مگر مذکورہ بالا ضرورت کے احساس کی بناپر اب اس کے اراکین و معاونین ایک نئے ولولے اور منصوبے کے ساتھ اعلی پیمانے پر اس کی توسیع کرنا چاہتے ہیں، جس سے یہ جامعہ جماعت اہل حدیث کی مرکزی دینی درسگاہ کی تمام ضروریات کی کفیل ہو جائے، اس مقصد کی تکمیل کے لیے ایک انجمن بنام ’’انجمن جامعہ رحمانیہ‘‘بنادی گئی ہے، جس نے اس سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ کیا ہے کہ مہینوں غور و خوض کے بعد مرکزی دارالعلوم کی شایان شان ایک نہایت شاندار عمارت کا نقشہ تیار کیا اور آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے مقتدر اراکین اور جماعت کے دوسرے اصحاب رائے حضرات سے مشورے کے بعد اس کو بنارس کارپوریشن میں منظوری کے لیے داخل کر دیا ہے کوشش کی جارہی ہے کہ یہ نقشہ جلد منظور ہو جائے، اس نقشہ کا خاکہ مع دیگر تفصیلات عام اطلاع کے لیے اخبارات و غیرہ میں بھی ان شاء اللہ جلد ہی شائع کیا جائے گا ہمیں امید ہے کہ جماعت پورے جوش و ہمت اور حوصلہ کے ساتھ اس نیک مقصد میں ہمارے ساتھ تعاون کرے گی۔‘‘ (ترجمان نوگڑھ کانفرنس نمبر، ص:۵۱)
اس پوری تحریر میں ذرا ان الفاظ اور جملوں پر غور کریں تو حقیقت خود بخود واضح ہو جائے گی :
’’کہ مہینوں غور و خوض کے بعد مرکزی دارالعلوم کی شایان شان ایک نہایت شاندار عمارت کا نقشہ تیار کیا اور آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے مقتدر اراکین اور جماعت کے دوسرے اصحاب رائے حضرات سے مشورے کے بعد اس کو بنارس کارپوریشن میں منظوری کے لیے داخل کر دیا ہے کوشش کی جارہی ہے کہ یہ نقشہ جلد منظور ہو جائے۔‘‘
یہ عبارت بتار ہی ہے کہ نقشہ پاس نہیں ہوا ہے، منظور کرانے کے لیے کوشش جاری ہے اور یہ عبارت یکم جنوری ۱۹۶۲ء کی ہے، اب میں کہہ سکتا ہوں کہ فیضی صاحب کے خیالات اور ترجمان یکم دسمبر ۱۹۶۱ء کی عبارت کے لیے ناظم عبدالوحید صاحب کی یہ عبارت ناسخ ہوگی، ناظم عبدالوحید صاحب کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ نوگڑھ کانفرنس تک نقشہ داخل بھی نہیں کیا گیا تھا تو منظور اور پاس ہونے کا سوال کہاں اٹھتا ہے؟ اور صدر محترم علامہ آروی کے خطبۂ صدارت کی وہ عبارت جس کو فیضی صاحب نے نقل کیا ہے ایک میں نقشہ بنانے کی بات ہے اور دوسرے میں پختہ نقشہ بن جانے کی بات ہے مگر کارپوریشن میں داخل کر دینے اور نقشہ پاس کروا لینے کی کوئی بات نہیں ہے، نیز نوگڑھ کانفرنس میں نقشہ لانے کی بات بھی نہیں ہے۔
یہ تو آئینہ دکھایا گیا ہے فیضی صاحب کے دلائل کو، فیضی صاحب چاہیں تو خود بھی اس آئینہ میں اپنے دلائل کو دیکھ سکتے ہیں۔
فیضی صاحب کا بار بار یہ کہنا کہ یہ نوگڑھ کانفرنس سے پہلے کی بات ہے، یہ نوگڑھ کانفرنس سے پہلے کی بات ہے، لیکن فیضی صاحب اس بات کی وضاحت نہیں کرتے ہیں کہ نوگڑھ کانفرنس کا تصور و تحریک کیوں کر پیدا ہوئی، سابقہ سطور میں مکمل شرح و بسط کے ساتھ اس پر روشنی ڈال دی گئی ہے۔ جتنے فیصلے تھے، اشتہارات، اعلانات اور اقدامات تھے وہ سب کے سب بے جان اور مردہ تھے، اس لیے اعیان جماعت و قائدین آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے نزدیک ان کی کوئی بھی اہمیت و حیثیت نہ تھی، اس لیے کبھی بھی ان کا چرچا نہیں کیا گیا۔ وہ جس طرح ترجمان و اہل حدیث کے پرچوں میں چھپے تھے وہ یوں ہی پڑے کے پڑے رہ گئے، اگر کبھی کسی محفل و مجلس اور بزم احباب میں چرچا ہوا، تذکرہ ہوا، یاد کیا گیا، تو وہ صرف اجلاس عام نوگڑھ تھا،ا س لیے کہ اس کے بعد ہی لوگوں میں ولولہ و دھن پیدا ہوئی، کہ مرکزی دارالعلوم کے لیے تن من اور دھن کی بازی لگا دیں، اور اس کا زندہ ثبوت ’’اراکین انجمن جامعہ رحمانیہ‘‘ بنارس کی وہ پیش کش ہے جو انھوں نے اجلاس عام نوگڑھ کے موقع پر کیا، اور اسی بات کی بھرپور وضاحت و وکالت مسیح جماعت مولانا مختار احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے، لیکن افسوس فیضی صاحب اس کو ’’بے تکی‘‘بات سے تعبیر کرتے ہیں۔
اس کی ایک واضح اور بین مثال یہ جان لیجیے کہ مرکزی دفتر کے لیے ایک بلڈنگ کی ضرورت و اہمیت پر، اور اس کی خریداری کے لیے ۱۹۰۶ء سے بات چل رہی تھی، اشتہارات و اعلانات دیے جارہے تھے، تجویزیں پیش کی جارہی تھیں، قرارداد پاس ہورہے تھے، فنڈ اکٹھا کیا جارہا تھا، اور لوگوں کو اس کی بھرپور اہمیت بتائی جارہی تھی، مگر مرکز چوہتر (۷۴) سال تک بھٹکتا رہا، ٹھوکریں کھاتا رہا، دربدر پھرتا رہا، حالانکہ اس بلڈنگ کی خریداری مقدر تھی، مسیح جماعت مولانا مختار احمد ندوی رحمۃ اللہ کے ہاتھوں اور ان کی ہمت جواں نے مرکزی جمعیت کے لیے ۱۹۸۰ء میں قلب دہلی میں ایک شاندار بلڈنگ خرید دی، تو کیا اب ہم کہیں گے؟ کہ مرکزی دفتر کے قیام و خریداری میں مولانا ندوی صاحب کا کوئی اہم کردار نہیں ہے، کوئی قابل ذکر رول نہیں ہے، اس لیے کہ اس کے اشتہارات و اعلانات ہم ترجمان و اہل حدیث پرچوں میں چوہتر (۷۴) سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ تجویز اور قرارداد تو بہت پہلے پاس ہو چکی تھی کہ ایک مرکزی دفتر ہونا چاہیے، اس میں ندوی صاحب کا کیا کمال ہے؟ کیا کردار ہے؟ تو یہ بات تو کوئی دیوانہ ہی کہہ سکتا ہے، دیوانے ہیں دیوانوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسدؔ
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی
(غالب)
آئیے ہم فیضی صاحب سے با ادب ایک سوال کرتے ہیں اگر جواب دیں گے تو عنایت ہوگی، ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ کسی اسکول، مدرسہ، جامعہ، یونیورسٹی اور مرکزی دارالعلوم کا نصاب تعلیم، وہاں کا مینی فیسٹو ہوتا ہے جس میں اہم ترین باتوں اور خاص خاص نکات کا ذکر کیا جاتا ہے اور وہ نصاب تعلیم، مدارس و جامعات اور دارالعلوم کے لیے ایک آئینہ ہوتا ہے جس میں اس دارالعلوم یا جامعہ کی باتیں صاف صاف نظر آتی ہیں۔ آئیے مرکزی دارالعلوم بنارس کے نصاب تعلیم پر ایک نظر ڈال لی جائے، تاکہ فیضی صاحب کے مغالطہ دینے کا پردہ فاش ہو سکے، آئیے مرکزی دارالعلوم بنارس کے ناظم اعلی کا بیان پڑھیے اور سر پیٹیے، وہ لکھتے ہیں:
’’چنانچہ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کی نوگڑھ کانفرنس ۱۹۶۱ء کی قرارداد کے مطابق مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی سرپرستی میں بروز جمعہ ۱۱؍رجب ۱۳۸۳ھ مطابق ۲۹؍نومبر ۱۹۶۳ء جامعہ سلفیہ کا قیام عمل میں آیا، اور بتاریخ ۲۷؍۱۱؍۱۳۸۵ھ مطابق ۲۱؍۳؍۱۹۶۶ء یہاں تعلیم کا آغاز ہوگیا۔‘‘ (نصاب تعلیم، ص:۳، بحوالہ جریدہ ترجمان دہلی ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء، ص:۱۶)
اب بتائیے کہ مرکزی درالعلوم (جامعہ سلفیہ) بنارس کے نصاب تعلیم میں اگر یہ بات درج ہے کہ مرکزی دارالعلوم کا قیام نوگڑھ کانفرنس کی قرارداد کے مطابق ہوا تو اب اس کے بعد کیا کسی خارجی دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے اور اگر یہ بات غلط ہے تو پھر مرکزی دارالعلوم کے نصاب تعلیم میں درج کیوں کی گئی، کیا اس کے ناظم اعلی کو اس بات کا علم نہیں تھا اور اَنجانے میں ایک ایسی بات لکھ دی، جس کا خارج میں وجود نہیں ہے، تو کیا پھر لوگ اس کے معزز اور اعلی مقام پر فائز ہونے پر سوال نہیں اٹھائیں گے؟ اور سوالیہ نشان نہیں لگائیں گے؟
فیضی صاحب کی جتنی بھی دلیلیں ہیں، وہ نوگڑھ کانفرنس سے پہلے کی مردار دلیلیں ہیں، اس لیے ریت کی دیوار کی طرح ڈھ کر اڑ رہی ہیں، چونکہ جس طرح اسلام اپنے ماقبل کی چیزوں کو ختم کر دیتا ہے، اسی طرح نوگڑھ کانفرنس کا کردار، رول، اثرات اور فعالیت اپنے ماقبل سارے فیصلے، ترجیحات، اشتہارات اعلانات اور اقدامات کو لاشئے اور کالعدم قرار دیتا ہے اور لوگوں کو صرف نوگڑھ کانفرنس ہی یاد رہ جاتی ہے، جیسا کہ مسیح جماعت مولانا مختار احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔
میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اگرچہ کسی اخبار، جریدہ یا مجلہ میں نوگڑھ کانفرنس کے رول، کردار، تاثیر کے بارے میں تفصیل نہ بھی ملے تو بھی یہ بات کافی ہے کہ یہ روایت سینہ بسینہ چلی آرہی ہے، جس پر قدغن نہیں لگایا جا سکتا ہے، جیسا کہ میں نے جب مرکزی دارالعلوم بنارس کے حالیہ ناظم اعلی جناب مولانا عبداللہ سعود حفظہ اللہ و تولاہ سے فون پر بات چیت کے دوران پوچھا کہ آپ کو میری کتاب مل گئی ہے؟ ناظم صاحب نے جواب دیا جی ہاں! پھر میں نے پوچھا کہ آپ نے کتاب پڑھ لی ہے؟ انھوں نے کہا ہاں۔ پھر میں نے سوال کیا کہ کتاب کیسی ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ کتاب اچھی ہے، لیکن تم نے نوگڑھ کانفرنس کو ہی سب کچھ قرار دے دیا ہے۔ تب میں نے عرض کیا کہ فیضی صاحب نوگڑھ کانفرنس کے رول او رکردار کا انکار کیوں کرتے ہیں؟ تب ناظم صاحب نے کہا کہ وہ بھی غلط ہے، ان کا انکار حقیقت کے خلاف ہے۔ پھر میں نے عرض کیا کہ آپ کے مضمون سے میں نے اقتباس نقل کیا ہے، آپ نے دیکھا اور ملاحظہ فرمایا؟ ناظم صاحب نے جواب دیا کہ ہاں دیکھا اور پڑھا ہے۔ میں نے پھر پوچھا کہ آپ نے کیسے لکھ دیا؟ ناظم صاحب نے فوراً جواب دیا کہ:والد محترم سے ہم یہی سنتے آرہے تھے۔
الحمدللہ ناظم عبداللہ سعود حفظہ اللہ ابھی باحیات ہیں، اللہ ان کی عمر میں مزید برکت دے اور ان سے زیادہ سے زیادہ دین حنیف کی خدمت لے، آمین۔ ان سے استفسار کیا جا سکتا ہے۔
فیضی صاحب اور ہم سب مل کر غور کریں کہ مرکزی دارالعلوم کے موجودہ ناظم اعلی اپنے والد محترم جناب مولانا عبدالوحید سلفی رحمہ اللہ ناظم اول کی بات نقل کرتے ہیں کہ ہم والد صاحب سے یہی سنتے آرہے تھے، بیچ میں کوئی اور راوی نہیں ہے، اس اعتبار سے اس روایت کو سند عالی کی حیثیت حاصل ہوگی۔ اب جب کہ مرکزی دارالعلوم بنارس کے ناظم اول یہ بات کہہ رہے ہوں، جو خود نوگڑھ کانفرنس میں شریک تھے، اور مرکزی دارالعلوم کے ناظم اول اور اس کے اولین موسسین میں سے تھے، تو باقی روایات اور ترجمان و اہل حدیث کے اشتہارات و اعلانات قابل اعتناء و استناد نہیں ہیں۔ گویا کہ نوگڑھ کانفرنس سے قبل جتنے بھی اعلانات و اقدامات ہوئے وہ نوگڑھ کانفرنس میں آکر ضم ہو جاتے ہیں اور جب قطرہ یا قطرات سمندر میں آکر مل گئے تو پھر ان کا وجود ختم ہوگیا۔ اب صرف سمندر کی موجوں اور لہروں کا ہی ذکر ہوگا، نوگڑھ کانفرنس اسی سمندر کی مانند تھی۔
اب آئیے ناظم اعلی مولانا عبداللہ سعود حفظہ اللہ کے اس بیان کی روشنی میں فیضی صاحب کے اس تبصرہ کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں جو انھوں نے علامہ شبلی کی ایک تحریر سے ناجائز کشید کیا ہے۔
فیضی صاحب لکھتے ہیں:
’’میں یہاں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی ایک تحریر معمولی سے حذف و تصرف کے ساتھ نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں، وہ اپنے ایک معروف رسالہ ’’عالم گیر اورنگ زیب پر ایک نظر‘‘ میں فلسفۂ تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں۔
’’بہت سی باتیں کسی خاص سبب سے شہرت کے منظر پر آجاتی ہیں پھر عام تقلید کے اثر سے شہرت عام کی بنا پر لوگ اس پر یقین کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی کو تنقید و تحقیق کا خیال نہیں آتا، یہاں تک رفتہ رفتہ وہ مسلمات عامہ میں داخل ہو جاتی ہیں۔‘‘
یعنی وہ باتیں تنقید و تحقیق کی رو سے واقع کے خلاف اور غلط ہوتی ہیں مرکزی دارالعلوم کے نوگڑھ کانفرنس کے بطن سے پیدا ہونے اور اسی موقع پر اس کے قیام کا قطعی فیصلہ لیے جانے کی باتیں بھی درحقیقت ایسی ہی ہیں اس قبیل کی ہیں۔‘‘(جریدہ ترجمان ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء، ص:۱۳)
علامہ شبلی کی تحریر پر فیضی صاحب کا یہ تبصرہ دیکھنے اور پڑھنے کے بعد حیران ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں، اسداللہ خاں غالب بہت یاد آنے لگے۔
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو، تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
(غالب)
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں علامہ شبلی کی تحریر میں تصرف کی قطعا ضرورت نہیں تھی، تصرف اس لیے کیا گیا ہے تاکہ فیضی صاحب اپنا کیس مضبوط کر سکیں، مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا، فیضی صاحب اپنی ناکام کوشش میں ناکام ہی نظر آرہے ہیں۔
آئیے علامہ شبلی کی پوری کی پوری اصل تحریر پڑھتے ہیں وہ اپنی کتاب ’’اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر‘‘ کے دیباچہ میں یوں لکھتے ہیں:
’’فلسفۂ تاریخی کا یہ ایک راز ہے کہ جو واقعات جس قدر زیادہ شہرت پکڑ جاتے ہیں اسی قدر ان کی صحت مشتبہ ہوتی ہے، سد سکندر، دیوارِ قہقہہ، چاہ بابل، آب حیواں، مارضحاک، جام جم سے بڑھ کر کس واقعہ نے شہرت عام کی سند حاصل کی ہے لیکن کیا ان میں ایک بھی اصلیت سے کچھ علاقہ رکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اکثر واقعات کسی خاص وقتی سبب سے شہرت کی نظر پر آجاتے ہیں، پھر عام تقلید کے اثر سے جو خاصۂ انسانی ہے، شہرت عام کی بناپر لوگ اس پر یقین کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی کو تنقید اور تحقیق کا خیال تک نہیں آتا، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ مسلمات عامہ میں داخل ہو جاتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نسبت کتب خانہ اسکندریہ کے جلانے کا حکم کسی بدنیت عیسائی نے دل سے گڑھ کر منسوب کیا، زمانہ وہ تھا کہ صلیبی لڑائیاں جاری تھیں اور عیسائی، مسلمانوں سے نفرت دلانے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں اختیاکرتے تھے اس واقعہ کا کانوں میں پڑنا تھا کہ گویا خدا کا خاص قاصد آکر ایک ایک کے کان میں وحی پھونک گیا۔ بچے، جوان، بوڑھے، جاہل، عالم، رذیل، شریف، نیک، بد جو تھا یہی راگ لگاتا تھا، رفتہ رفتہ تقریر، تحریر، ضرب المثل، تلمیحات، افسانہ کوئی چیز اس سے خالی نہیں رہی۔‘‘ (اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر، ص:۴۔۵)
مولانا فیضی صاحب نے جلدی میں علامہ شبلی کی کتاب کا نام بھی غلط لکھ دیا ہے ’’عالمگیر اورنگ زیب پر ایک نظر‘‘ جب کہ کتاب کا نام ’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘ہے۔ جس طرح آپ سے چھوٹی موٹی غلطی ہوگئی، اسی طرح اگر رحمانی جھنڈا نگری رحمہ اللہ نے نوگڑھ کانفرنس کو ۲۵؍واں لکھنے کی بجائے اگر ۲۶؍واں لکھ دیا اور اس کی تحقیق نہ کرپائے، تو آپ نے اس سے باقاعدہ ایک مسئلہ کا استنباط فرمالیا، آپ سے گزارش ہے کہ جھنڈا نگری صاحب کا خط شائع فرمادیں تو نوازش ہوگی۔
میں حیرت میں ڈوبا جارہا ہوں کہ فیضی صاحب اس قدر سطحی اور پست استدلال کریں گے معلوم نہ تھا، وہ نوگڑھ کانفرنس کو، سدسکندر، دیوارِ قہقہہ، چاہ بابل، آب حیواں، مارضحاک، جام جم اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سازش کے تحت گڑھی ہوئی منسوب بات سے تشبیہ دیں گے، جب کہ فیضی صاحب کو معلوم ہے کہ میں نے جتنے اقوال، اقتباسات اور بیانات نقل کیے ہیں وہ، وہ بیانات ہیں جو کہ نوگڑھ کانفرنس منعقد کرنے والے، اس کا خطبۂ استقبالیہ پڑھنے والے، اس میں بنفس نفیس شریک ہونے والے اس کے اسٹیج سے خطاب کرنے والے اور اس کے چشم دید گواہ ہیں، مثلا:مولانا عبدالوحید سلفی ناظم اول، مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری، مولانا عبدالجلیل رحمانی، مولانا عبدالشکور دور صدیقی، مولانا محمد داؤد راز، مولانا عبدالمبین منظر اور مسیح جماعت مولانا مختار احمد ندوی رحمہم اللہ رحمۃ واسعہ۔
آپ حضرات نے علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا تحریر ملاحظہ فرمالیا، فیضی صاحب عام قاری کو یہاں جھانسہ میں لے رہے ہیں اور مغالطہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، دراصل علامہ شبلی کی تحریر فکری، عملی اور نظری چیزوں کے بارے میں ہے، ایک بدیہی چیز کے بارے میں نہیں ہے، اور نوگڑھ کانفرنس ایک بدیہی چیز ہے اس کا انعقاد بدیہی ہے، اس میں شریک ہونے والے اور اس کے اسٹیج سے خطاب کرنے والے بدیہی ہیں، اس اجلاس کے اثرات بدیہی ہیں۔ مرکزی دارالعلوم کے قیام میں نوگڑھ کانفرنس کا کردار اور رول بدیہی ہے، پھر اس کے دیرپا اور دور رس اثرات پر سوالیہ نشان لگانا کس ذہنیت کی نشاندہی کرتا ہے؟ کیا نوگڑھ اجلاس عام کی فعالیت کو گڑھ لیا گیا؟ کیا اس کے اثرات کو بالجبر تھوپنے کی کوشش کی گئی؟ کیا اس کی شہرت کا غلط پروپیگنڈا کیا گیا؟ کیا ہمارے اسلاف نے نوگڑھ اجلاس عام کو کسی سازش کے تحت گڑھ کر پیش کیا؟ کیا مرکزی دارالعلوم کے قیام میں نوگڑھ کانفرنس کا کردار اور رول آفتاب آمد دلیل آفتاب کے مصداق نہیں ہے؟ وھلم جراً۔
اس کے علاوہ علامہ شبلی رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا تحریر کے پس منظر میں چند بنیادی سوالات بھی اٹھائے جاسکتے ہیں۔
۱۔ واقعہ بیان کرنے والا کون ہے؟
۲۔ جس کے بارے میں بیان کیا جا رہا ہے اس کا کردار کیا ہے؟
۳۔ بیان کرنے والے کا مقصد کیا ہے؟
۴۔ اس واقعہ کا پس منظر صحیح ہے یا غلط؟
۵۔ اس واقعہ کا بیان کرنے والا اس کا چشم دید گواہ ہے یا نہیں؟
۶۔ کیا اس واقعہ کے بارے میں اسی جماعت کے افراد کا اجماع ثابت ہے؟
کیا یہ سارے سوالات نوگڑھ کانفرنس پر منطبق ہوتے ہیں یا نہیں؟ جواب مولانا فیضی صاحب دیں گے،
مجھ میں وہ تاب ضبط شکایت کہاں ہے اب؟
چھیڑو نہ تم کہ میرے بھی منھ میں زباں ہے اب
(حالی)
آئیے فیضی صاحب کے چند اقتباسات کا اور جائزہ لے لیا جائے اور اس کے بعد یہ کہانی ختم کر دی جائے، فیضی صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’گزشتہ صفحات میں مرکزی دارالعلوم سے متعلق جو بیانات نقل کیے گئے ہیں وہ مولانا (محمد مستقیم) سلفی صاحب کے کسی ناچیز معاصر کا بیان نہیں ہے، بلکہ اکابر قدمائے جماعت و جمعیت کے صریحی و قطعی بیانات ہیں۔‘‘(جریدہ ترجمان ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء، ص:۱۱)
فیضی صاحب کی اس عبارت پر قربان جائیے، جی چاہتا ہے ان کا قلم چوم لوں، فیضی صاحب نے کیا ہی خوب منطق استعمال کی ہے کہ انھوں نے جو بیانات نقل کیے ہیں وہ مولانا مستقیم سلفی صاحب کے کسی ناچیز معاصر کا بیان نہیں ہے، بلکہ وہ اکابر قدمائے جماعت و جمعیت کے صریحی و قطعی بیانات ہیں اس لیے وہ قابل قبول ہیں اور میں نے اپنی کتاب میں جو بیانات، اقوال و اقتباسات نقل کیے ہیں وہ مولانا فیضی صاحب کے ناچیز معاصر کا بیان ہے یا وہ حضرات جن کے اقوال میں نے نقل کیے ہیں فیضی صاحب سے جونیر ہیں اس لیے ان کے بیانات قابل قبول نہیں ہیں، مثلا:مولانا داؤد راز، مولانا رحمانی جھنڈا نگری، مولانا عبدالجلیل رحمانی، مولانا عبدالمبین منظر، مولانا دور صدیقی، مولانا مختار احمد ندوی وغیرہ وغیرہ۔
یہ وہ حضرات ہیں جو فیضی صاحب سے کچھ جونیر ہیں اس لیے ان کے بیانات قابل استناد نہیں ہیں اور ردی کی ٹوکری میں ڈال دینے کے لائق ہیں، کیوں کہ مولانا عبدالمبین منظر صاحب ’’بے تکی‘‘ باتیں کرتے ہیں، مولانا رحمانی جھنڈا نگری ’’بعدازوقت‘‘اپنا راگ الاپتے ہیں، اور بے وقت اپنا ساز چھیڑتے ہیں، مولانا داؤد راز، مولانا دور صدیقی اور مولانا عبدالجلیل رحمانی ناچیز اور معمولی قسم کے آدمی ہیں ان کا کیا اعتبار؟ اور مولانا مختار احمد ندوی ۱۹۵۹ء کے بعد ۲۰۰۶ء میں یہ باتیں لکھ رہے ہیں اس لیے ساقط الاعتبار ہیں۔
اکبر الٰہ آبادی نے کیا ہی خوب کہا ہے:
لبھا لیا مجھے اے شیخ! چشمِ ساقی نے
غرورِ زہد سے مئے کا سرور ہی اچھا
رہے نہ دل کے لیے کوئی مستقل مرکز
یہی ہے عقل، تو دل اس سے دور ہی اچھا
(اکبرؔ)
آئیے فیضی صاحب کے اس تبصرے کا جائزہ لیا جائے جو انھوں نے مولانا رحمانی جھنڈا نگری کے خطبۂ استقبالیہ کے بیان پر کیا ہے اور صدرِ کانفرنس علامہ آروی کے خطبۂ صدارت اور رحمانی جھنڈانگری کے خطبۂ استقبالیہ کے مابین جو تضاد پیدا کرنے اور دکھانے کی ناکام کوشش کی ہے اس کا بھی جائزہ لے لیا جائے، تاکہ مسئلے کی وضاحت ہو سکے۔
فیضی صاحب اپنے مضمون میں لکھتے:
’’اور جب مرکزی دارالعلوم کے قیام سے متعلق نوگڑھ کانفرنس نومبر۱۹۶۱ء سے پہلے اتنے سارے اقدامات اور اتنی پیش رفت ہو چکی تھی تو نوگڑھ کانفرنس کے خطبۂ استقبالیہ میں ’’ایک مرکزی دارالعلوم کے قیام کی ضرورت بیان کرنا اور صدرِ محترم سے یہ گزارش کرنا کہ ایسے دارالعلوم کے نصب و قیام کے مسئلے پر ہر ممکن توجہ دے کر اس کے لیے عملی اقدام فرمائیں‘‘ ، ’’بعد از وقت معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ صدر محترم مرکزی دارالعلوم کے نصب و قیام کی تجویز و تحریک سے آگے کے مرحلہ و پیش رفت اور عملی اقدامات۔۔۔۔۔ کی خوشخبری سنا رہے ہیں اور خطبۂ استقبالیہ میں ابھی مرکزی دارالعلوم کے قیام کی ضرورت بیان کی جارہی ہے، قارئین خطبۂ صدارت اور خطبۂ استقبالیہ میں مرکزی دارالعلوم کے تذکرہ کا تقابلی مطالعہ فرماکر خود دیکھ لیں دونوں میں فرق واضح ہے۔‘‘
فیضی صاحب مزید آگے لکھتے ہیں:
’’نوگڑھ کانفرنس سے پہلے مرکزی دارالعلوم کے نصب وقیام سے متعلق جو بہت سی ضروری کاروائیاں اور پیش رفت ہو چکی تھیں یا تو حضرت مولانا (جھنڈا نگری)رحمہ اللہ کو ان سب کا علم نہیں ہو سکا تھا اس لیے خطبۂ استقبالیہ میں ایسا لکھا یا علم ہونے کے باوجود ایسا لکھا دونوں صورتوں میں محل نظر اور قابل اعتراض ہے، اللہم عفواً، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سب معلوم ہونے کے باوجود خطبۂ استقبالیہ لکھتے وقت وہ سب ذہن میں مستحضر نہ رہا ہو۔‘‘(جریدہ ترجمان ۱۵؍اکتوبر۲۰۱۶ء، ص:۱۱۔۱۲)
مولانا فیضی صاحب کی یہ ساری باتیں بالکل لغو، فضول اور لایعنی ہیں، کیونکہ اگر کوئی تجویز قابل نفاذ نہیں ہو سکی ہے اور تاخیر پر تاخیر ہورہی ہے تو اس تجویز کو بار بار پیش کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی قباحت و شناعت نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مرکزی دارالعلوم کے قیام کی بات جس آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے تحت چل رہی تھی، مولانا رحمانی جھنڈا نگری اس کے رکن رکین تھے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسی دارالعلوم کے بارے میں ان کو کچھ بھی معلوم نہ ہو، یہ امر محال ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۶۱ء کے درمیان اتنی لمبی مدت نہیں گزر گئی تھی کہ پرانی باتیں ان کو یاد نہ ہوں اور وہ اس کے خلاف لکھ رہے ہوں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ خطبۂ استقبالیہ جو اتنی بڑی کانفرنس کے لیے تیار کیا جارہا ہے مفکر ملت مولانا عبدالجلیل رحمانی اور مولانا عبدالمبین منظر کی رائے اور مشورہ کے بغیر تیار کر لیا گیا ہو اور ان حضرات کی اس پر نظرثانی نہ ہوئی ہو، یا مولانا رحمانی جھنڈا نگری نے ان حضرات سے استشارہ نہ کیا ہو، نیز نوگڑھ کانفرنس کے انعقاد کا مقصد بھی جھنڈا نگری کی نظروں سے اوجھل نہیں تھا، کیونکہ اس سے قبل کانفرنس کی عاملہ کے اجلاس بہت ہوتے رہے، ان سے کیا نتائج نکلتے رہے وہ ان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں تھا، پانچویں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ رحمانی جھنڈا نگری کے پاس دارالعلوم دیوبند کے ڈھائی سو طلبہ کا ایک مشترک کھلا ہوا خط موجود تھا، جس میں دارالعلوم کے قیام کا پرزور مطالبہ کیا گیا تھا اور اکابرین جماعت کو خوب خوب شرم و عار دلائی گئی تھی۔ کیا خطبۂ استقبالیہ لکھتے وقت ان کے ذہن میں یہ سب باتیں مستحضر نہ تھیں اور وہ ’’بعد از وقت‘‘دارالعلوم کے قیام کی تجویز پیش کر رہے تھے اور صدرِ محترم سے یہ گزارش کر رہے تھے کہ ایسے دارالعلوم کے نصب و قیام کے مسئلے پر ہر ممکن توجہ دے کر اس کے لیے عملی اقدام فرمائیں اور یہ مطالبہ اس قدر پرزور انداز میں تھا کہ عمائدین کانفرنس رو رہے تھے اور آنسو بہا رہے تھے اور آپ کا یہ فرمانا ’’کہ یا تو حضرت مولانا (جھنڈا نگری)رحمہ اللہ کو ان سب (سابقہ اعلانات، ترجیحات، اقدامات اور فیصلوں) کا علم نہیں ہو سکا تھا اس لیے خطبۂ استقبالیہ میں ایسا لکھا یا علم ہونے کے باوجود لکھا دونوں صورت محل نظر اور قابل اعتراض ہے۔‘‘
بہت خوب فیضی صاحب نے کیا خوب احتمال پیدا کیا ہے کہ علامہ جھنڈا نگری صاحب نے جو تجویز پیش کی تھی بہرحال خطاپر مبنی تھی، علم ہونے اور عدم علم، دونوں صورتوں میں رحمانی جھنڈا نگری صاحب قابل مواخذہ ہیں، قابل سرزنش ہیں، اسی کو کہتے ہیں کہ بات چاہے بے سلیقہ ہو لیکن بات کہنے کا سلیقہ آنا چاہیے، فیضی صاحب کا قلم کیا ہی سلیقہ مند ہے۔
ہر دن ہو ترا لطف زباں اور زیادہ
اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ
(فیضؔ)
اگر یہ احتمال برقرار رکھا جائے تو فیضی صاحب! آپ سے بھی خطا ہو رہی ہے اور عظیم خطا ہو رہی ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ یہ خطا آپ سے ان جانے میں نہیں، بلکہ جانکاری میں ہورہی ہے، جس طرح یہود اللہ کے رسول ﷺ کو اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ آخری نبی ہیں مگر اعتراف نہیں کرتے تھے اسی طرح آپ بہت ہی اچھے طرح جانتے ہیں کہ مرکزی دارالعلوم کے قیام میں نوگڑھ کانفرنس کا رول، کردار، تاثیر اور اہمیت آفتاب نصف النہار کی طرح روشن ہے مگر آپ اعتراف کرنے کی ہمت نہیں پارہے ہیں، سبب آپ کو ہی معلوم ہوگا، اگر ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔
پہلے فیضی صاحب کا کہنا تھا کہ نوگڑھ کانفرنس میں نہ کوئی تجویز آئی، نہ زمین کی کوئی پیش کش کی گئی اور نہ اس کی ضرورت ہی تھی لیکن جب اس پر دلائل دیے گئے، مولانا رحمانی جھنڈا نگری، مولانا عبدالجلیل رحمانی، مولانا عبدالمبین منظر، مولانا محمد داؤد راز، مولانا عبدالشکور دور صدیقی اور مولانا عبدالوحید سلفی ناظم اول کی تحریریں پیش کر دی گئیں، تو فیضی صاحب اب کہتے ہیں کہ مولانا عبدالمبین منظر صاحب کی باتیں ’’بے تکی‘‘ ہیں اور رحمانی جھنڈا نگری صاحب کو اس کا علم نہیں تھا اور اگر تھا تو پیش کیوں کیا؟ دونوں صورتوں میں مولانا جھنڈا نگری قابل مواخذہ ہیں اور ان کی بات ’’بعد از وقت‘‘ہے۔ واہ! آپ اگر کوئی بات پیش کریں اور دلیل دیں تو قابل قبول اور اگر دوسرا اپنی دلیل دے تو قابل گردن زدنی، آخر یہ دوہرا معیار کیوں؟
کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
(غالب)
مولانا رحمانی جھنڈا نگری صاحب ضلعی جمعیت گونڈہ و بستی کے صدر تھے اور آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کی مجلس عاملہ و شوری کے ممبر بھی، وہی آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس مولانا رحمانی جھنڈا نگری جس کی مجلس عاملہ و شوری کے ممبر ہیں، مرکزی دارالعلوم کے سارے پروگراموں کو مرتب کر رہی ہے، مگر رحمانی جھنڈا نگری کو اس کا علم نہیں ہے اور اگر علم ہے تو جو بات وہ اپنے خطبۂ استقبالیہ میں پیش کر رہے ہیں، وہ ’’بعد ازوقت‘‘ہے۔ کیا کوئی ایسا شخص جس کو علم و عقل سے ادنی اِلمام ہوگا وہ فیضی صاحب کی بات کو تسلیم کرے گا یا قہقہہ لگائے گا؟ یعنی ایک شخص جو اسی جمعیت کا رکن رکین ہے، جو مرکزی دارالعلوم کی گاڑی کو آگے کھینچ رہی ہے، اس جمعیت کے ایک خاص رکن کو اس کا علم تک نہیں ہے اور وہ جمعیت کے پروگراموں کے خلاف تجویز پیش کر رہا ہے، اس کے نفاذ پر زور دے رہا ہے اور تمام ارکانِ جمعیت بشمول صدر و جنرل سکریٹری ہمہ تن گوش سن رہے ہیں اور کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ جھنڈا نگری صاحب کو ٹوک دے، کہ یہ تم کیا بکواس کر رہے ہو، یہاں تو سارا پروگرام مرتب ہو چکا ہے، جیب و گریباں کی دھجیاں حاضر ہیں، نقشہ تمھارے سامنے آویزاں ہے اے دلِ دیوانہ! اب اور کیا تجھے چاہیے؟ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے صدرِ کانفرنس رو رہے ہیں اور عمائدین بنارس تین تین بار گلے مل رہے ہیں، سبحان اللہ۔
فیضی صاحب خطبۂ صدارت و خطبۂ استقبالیہ میں تضاد دکھانے کی بات کر رہے ہیں، یعنی دونوں خطبوں میں یکسانیت نہیں ہے۔ یہ بھی لغو بات ہے، کیونکہ بڑی ہی لے دے کے بعد اگر چہ خطبۂ صدارت میں پختہ نقشہ بنانے کی بات ہو رہی ہے مگر اس بات کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے کہ اس نقشہ میں خون جگر کب بھرا جائے گا، سات سال کی ایک طویل مدت گزر چکی ہے مگر ابھی صرف پختہ نقشہ بنانے کی بات ہو رہی ہے اور مولانا رحمانی جھنڈا نگری اپنے خطبۂ استقبالیہ میں تجویز کے ساتھ ساتھ اس نقشہ میں خونِ جگر بھرنے پر زور دے رہے ہیں یعنی صدرکانفرنس سے گزارش کر رہے ہیں کہ ’’دارالعلوم کے نصب و قیام کے لیے ہر ممکن اقدام فرمائیں‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اب صرف نقشہ سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس کو عملی طور پر قائم کرنا ہوگا، تو اب ان دونوں باتوں میں تضاد کہاں ہے؟ اور پھر یہ تضاد صرف آپ کو نظر آرہا ہے علامہ آروی رحمہ اللہ کو نظر کیوں نہیں آیا؟ تضاد ہونے کے باوجود خطبۂ استقبالیہ سننے کے بعد علامہ آروی رونے لگے اور کہنے لگے: بیٹا تم نے حق ادا کردیا، بیٹا تم نے حق ادا کردیا، اور عمائدین بنارس تین تین بار گلے مل رہے ہیں ان کو بھی تضاد نظر نہیں آرہا ہے، علامہ آروی کہہ رہے ہیں کہ بیٹا تم نے حق ادا کردیا، اور فیضی صاحب کو تضاد نظر آرہا ہے، واہ! فیضی صاحب آپ نے کیا خوب تضاد نکالا ہے دونوں خطبوں میں، کہ مارو گھٹنا پھوٹے سر، کیا فیضی صاحب کے پاس ایسا خورد بین ہے کہ کسی اور کے پاس نہیں ہے۔
علامہ آروی رحمہ اللہ اس لیے رو رہے تھے کہ بڑی ہی ردو کد اور سالوں پاپڑ بیلنے کے بعد عمائدین بنارس کو یہاں تک لائے تھے، کہ ٹوٹا پھوٹا اور غیرمکمل نقشہ آویزاں کروالیا، مگر عمائدین بنارس اب بھی میدان عمل سے بہت دور تھے کوسوں دور تھے۔
لائے اس بت کو التجا کرکے
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
(دیاشنکر نسیم)
علامہ آروی رحمہ اللہ نقشہ بن جانے کی بات کر رہے تھے اور بقول فیضی صاحب نقشہ بن بھی گیا تھا اور وہاں آویزاں بھی تھا، ایک نقشہ کیا اگر ہزاروں نقشے آویزاں ہوتے تھے تو بھی اس سے کیا فرق پڑتا ہے، جب تک ان نقشوں میں خون جگر نہ بھرا جاتا، اور اس نقشہ میں خون جگر بھرنے کی بات جھنڈا نگر کا ایک دیوانہ کر رہا تھا، اور میدان عمل کی طرف بلا رہا تھا، اسی بات پر اہل بزم رو رہے تھے کہ جھنڈا نگر کا دیوانہ ہم کو ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلا رہا ہے اور آویزاں کاغذی نقشہ کو حقیقت میں زمین پراتارنے کی بات کر رہا ہے، اگر آپ اس کو فرزانے کی بات نہیں مانتے ہیں بلکہ دیوانے کی بڑ سے تعبیر کرتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ رحمانی جھنڈا نگری کی بات ’’بعد ازوقت‘‘ہے مگر ’’بعد از وقت‘‘بھی دیوانوں کی بات سمجھنا آسان نہیں ہے یہ صرف علامہ آروی تھے کہ سمجھ رہے تھے اور رو رہے تھے اور بزبان حال کہہ رہے تھے کہ یہ سب چمن ہیں لگائے ہوئے دیوانوں کے۔
دھوپ کہیں جب دھوپ نہیں ہو، رات کہیں جب رات نہیں
دیوانوں کی بات سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں
(کلیم عاجز)
اب میری ان تصریحات کی روشنی میں مسیح جماعت مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کے ارشادات گرامی ایک بار اور پڑھ لیں، ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’یوں تو جمعیت اہل حدیث کی جماعتی، علمی اور تنظیمی زندگی برسہابرس سے محض برائے نام چل رہی تھی، لیکن حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی جھنڈانگریؒ کی نگرانی و سرپرستی میں جب اچانک نوگڑھ ضلع بستی میں اہل حدیث کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ہوا، تو پورے بر صغیر ہندو پاک میں جماعت اہل حدیث ہند میں ایک نئی زندگی پیدا ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کانفرنس کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس میں سعودی عرب کے سفیر معالی الشیخ محمد حمد الشبیلی بطور خاص شریک اجلاس ہوئے، اور بلا شبہ جماعت اہل حدیث کی تاریخ میں یہ ایک یادگار کانفرنس ہوئی جس کی یاد آج تک تازہ ہے اس کانفرنس کے بعد ہندوستان کی جماعت اہل حدیث میں ایک نئی زندگی اور حرکت و عمل کا ایک نیا دور شروع ہوا، جن میں قابل ذکر تاریخی یادگار عمل ’’مرکزی دارالعلوم‘‘کے قیام کا بڑا عظیم تاریخ ساز فیصلہ ہوا، اور جلد ہی تقدیر کے فیصلے نے اسے بنارس کی سرزمین میں ایک عظیم یادگار سلفی درسگاہ مرکزی دارالعلوم (الجامعۃ السلفیہ) سے موسوم و مشہور کر دیا، جو بلاشبہ ہندوستان میں سلفی درسگاہ کا عظیم خواب پورا ہوا، اور جس کی تعبیر برصغیر ہندوپاک میں عظیم یادگار درسگاہ کی شکل میں وجود میں آئی۔‘‘ (البلاغ فروری ۲۰۰۶ء، ص:۳۲)
ندوی صاحب کا یہ انمول بیان، فیضی صاحب کے حق میں ’’وشھد شاھد من أھلھا‘‘ کے عین مصداق ہے۔
ندوی صاحب رحمہ اللہ کی اس انمول عبارت کو بار بار پڑھیں اور فیضی صاحب کی تحقیق و حقیقت پسندی کو خوب خوب داد دیں۔
اس کے بعد مولانا عبدالجلیل رحمانی کی عبارت ایک بار اور پڑھ لیں، رحمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’سولہ سال پر آل انڈیا اہل حدیث کا اجلاس عام جمعیت اہل حدیث بستی و گونڈہ کے زیر اہتمام نوگڑھ بستی میں ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ ایک اہل حدیث یونیورسٹی یا مرکزی دارالعلوم کے قیام کی دیرینہ تمنا کی تکمیل کے لیے افراد جماعت میں تڑپ پیدا کرنا آسان نہ تھا یہ ’’اجلاس عام‘‘ہے، جس نے احساسات خفتہ کو بیدار کیا۔‘‘ (ترجمان دہلی یکم نومبر ۱۹۶۸ء، ایضا نقوش و تاثرات، ص:۹۱۔۹۲)
کیا فیضی صاحب!ندوی اور رحمانی رحمہمااللہ کے ان ارشادات پر کچھ لب کشائی فرمائیں گے؟ یا ان ارشادات کو بھی ’’بے تکی‘‘ اور ’’بعد ازوقت‘‘بات سے تعبیر کریں گے!
دل سے دیوانے کو مت چھیڑ یہ زنجیر نہ کھینچ
(مومنؔ)
فیضی صاحب اپنے مضمون کے آخری پیرا میں لکھتے ہیں:
’’یہاں میں واضح کر دینا بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ زیر تحقیق موضوع پر میں نے جو کچھ لکھا ہے، کسی قسم کی طمع یا کسی قسم کی عصبیت کی بنا پر نہیں لکھا ہے، جیسا کہ بعض لوگوں کو بہت کچھ بدگمانی ہے، بلکہ جو کچھ لکھا ہے محض تحقیق اور حقیقت پسندی کے جذبہ سے لکھا، واللہ علی مانقول وکیل۔‘‘ (جریدہ ترجمان ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء، ص:۱۳)
میں اس عبارت پر زیادہ تبصرہ نہیں کروں گا، فیضی صاحب سے صرف اتنا پوچھنا چاہوں گا کہ آپ نے غیر جانب دار ہوکر تحقیق کیوں نہیں کی؟ اور ساری گفتگو کا ارتکاز ایک رخ پر کیوں رکھا؟ اور آپ نے ہمارے اسلاف کے بیانات اور تحریروں کو چھپانے کی کوشش کیوں کی؟ کیا مولانا منظر، مولانا رحمانی جھنڈانگری، مولانا عبدالجلیل رحمانی، مولانا دور صدیقی، مولانا محمد داؤد راز اور مولانا مختار احمد ندوی رحمہم اللہ نے تحقیق اور حقیقت پسندی کے خلاف بیانات دیے ہیں؟ آپ سورج کے نکلنے کی تحقیق کرنے بیٹھے ہیں، کہ سورج نکلا ہے یا نہیں؟ اس میں غلطی سورج کی نہیں ہے، بلکہ ہماری نظر و بصر کی ہے، میں آپ کی نیت پر حملہ نہیں کرتا ہوں، آپ قسم نہ کھائیں، آپ کے بارے میں بدگمانی نہیں ہے، بلکہ آپ کایہ مضمون دیکھنے کے بعد یقین ہے کہ آپ نے جانبدار ہوکر ہی تحقیق کی ہے۔ فیضی صاحب!الفاظ اور تحریریں زبان نہیں ہیں مگر بے زبان بھی نہیں ہیں، یاد رکھیے الفاظ چیختے ہیں اور تحریریں بولتی ہیں، آئیے ہم سب مل کر دعا کریں: اللھم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وأرناالباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ، آمین
فیضی صاحب کے مضمون میں اس قدر غلط بیانیاں ہیں اور کچھ اس طرح بات گھما پھرا کر کی گئی ہے کہ اگر ہر ہر سطر کا جائزہ لیں گے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے گی اور مجھ پر یہ الزام بھی تھوپ دیا جائے گا کہ ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطاء است‘‘ ویسے اس مقولہ کو عموما میں یوں پڑھتا ہوں ’’خطائے بزرگاں گرفتن وفا است‘‘اور مجھے امید ہے کہ اہل فکر و نظر میری اس بات کی تائید ضرور کریں گے کیوں کہ ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘‘ در اصل یہ مقولہ شیعہ اثنا عشریہ کا گڑھا ہوا عقیدہ تھا، بعد میں ترقی کرتے کرتے چشتی، سہروردی، نقشبندی، قادری، وارثی اور قبوری وغیرہ کے عقیدوں میں بھی یہ بات داخل ہو گئی اور یہ مقولہ ان کے نزدیک ایک اساسی رکن کی حیثیت اختیار کر گیا، مجھے نہایت دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک سلفی عالم دین کے لیے ایسے مقولہ کا استعمال حیرت ناک اور افسوس ناک ہے یہ بحث میرے موضوع سے خارج ہے اور یہ مقام تفصیل کا بھی نہیں ہے ورنہ میں بتاتا کہ یہ مقولہ کیوں کر رواج پذیر ہوا۔
طلوع صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا
(ناسخؔ)
آج بھی دنیا حق گو اور انصاف پسندوں سے خالی نہیں ہے، اب بھی کئی علماء کرام کے بیانات میرے پیش نظر ہیں، مثلاً:مولانا عبدالرؤف خان ندوی، حکیم اجمل خاں، مولانا ابوعدنان اشفاق سجاد سلفی، مولانا محمد جہانگیر سلفی حفظہم اللہ، مگر بخوف طوالت ان کے بیانات کو نظراندازکرتے ہوئے آئیے عدل و انصاف پر مبنی فقط ایک تحریر پڑھ لی جائے، اور نوگڑھ کانفرنس کی فعالیت کا اندازہ لگایا جائے۔ فیضی صاحب کے ہی ہم وطن مولانا ضیاء الحسن سلفی حفظہ اللہ ہیں، جو ایک بڑے مصنف، محقق، مترجم اور مقالہ نگار ہیں، وہ اپنی کتاب ’’مولانا مختار احمد ندوی حیات و خدمات‘‘میں بہت ہی دل کھول کر لکھتے ہیں:
’’اس (دارالعلوم) کی تجویز اور فیصلہ قدیم ہے، تقسیم ہند کے بہت پہلے ہی سے اکابر جماعت اہل حدیث اس ضرورت کو نہایت شدت کے ساتھ محسوس کر رہے تھے، صرف محسوس ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ اہل حدیث کانفرنس کے متعدد جلسوں میں اس سے متعلق تجاویز اور اس کو بروئے کار لانے کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دی گئی، اور ایسا قطعا نہیں کہ ایک مرکزی دارالعلوم کے قیام کی ضرورت کا احساس جماعت اہل حدیث کے ارباب حل و عقد کو تقسیم ہند کے بعد ہوا ہو، اور مرکزی درس گاہ کے قیام کے بارے میں تجویز پہلی بار نوگڑھ کانفرنس منعقدہ ۱۹۶۱ء میں پاس ہوئی ہو، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ بنارس میں یہ مرکزی دارالعلوم ہمارے اسلاف اکابر جماعت کے دیرینہ خواب کی تعبیر اور تخیل کی عملی تصویر ہے، جلسہ اہل حدیث کانفرنس نوگڑھ جو آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا ۲۵؍واں اجلاس تھا اس میں اسی مرکزی ادارہ کے قیام کی تجویز اسی قدیم تجویز کا اعادہ تھا البتہ اس حقیقت سے انحراف کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ مرکزی دارالعلوم کی تاسیس و قیام میں نوگڑھ کانفرنس کا زبردست رول رہا ہے اور یقینا اس میں اس کا زبردست کردار رہا ہے، البتہ اسی کو اولین اساس اور مبدأ احساس و شعور قرار دینا صحیح نہیں، کیونکہ یہ ہمارے اسلاف کے ان ہی دیرینہ پاکیزہ جذبات اور شدید خواہشات کی عملی تصویر ہے جو ان کے دلوں میں مدتوں سے انگڑائیاں لے رہی تھیں، اور جس کے بارے میں وہ ہمیشہ غور و فکر کرتے اور اس کے لیے برابر کوشاں رہے، لیکن اس سے پہلے اس تجویز کو عملی جامہ پہنایا نہ جا سکا، اور نوگڑھ کانفرنس میں پاس شدہ تجویز کا بھی وہی حال ہوتا جو پہلے ہوا تھا لیکن جماعت اہل حدیث بنارس کے ذمہ داروں اور بزرگوں کو اللہ کی توفیق حاصل ہوئی اور انھوں نے اسی توفیق باری تعالی کے ذریعہ اس بار حوصلہ مندانہ اقدام اور پیش قدمی کرکے بنارس میں ایک طویل و عریض قطعہ آراضی اس مقصد کی تکمیل کے لیے وقف کر دیا اور اس طرح انھوں نے مرکزی دارالعلوم کی داغ بیل ڈال کر اس مجوزہ منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی راہ ہموار کر دی۔‘‘ (مولانا مختار احمد ندوی حیات و خدمات، ص:۴۵۰۔۴۵۱)
یہ ہے عدل و انصاف پر مبنی غیر جانب دارانہ اور بے لاگ جچا تلا تجزیہ و تبصرہ اور اسے کہتے ہیں تحقیق و حقیقت پسندی کے جذبہ سے لکھنا اور تحریر کرنا۔
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت، معجزۂ فن کی نمود خون جگر کے بغیر ممکن نہیں ہے، اور مرکزی دارالعلوم کے قیام میں جس خونِ جگر کی ضرورت تھی اس کے لیے اسباب اجلاس عام نوگڑھ نے ہی پیدا کیا۔ فیضی صاحب! دین و دنیا ہو کہ ہو عشق و ہوس، ہر کوئی خونِ جگر، خونِ جگر مانگے ہے۔
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
(اقبالؔ)
میرا مقالہ مکمل ہوچکا تھا اور کمپوز کے لیے روانہ بھی کرچکا تھا کہ محدث بنارس ستمبر۲۰۱۶ء میں صفحہ ۱۸؍پر محترم المقام جناب مولانا عبداللہ سعود حفظہ اللہ، ناظم اعلی مرکزی دارالعلوم بنارس کی ایک نہایت مختصر تحریر یا تبصرہ بعنوان ’’تاریخ کو مسخ نہ کریں‘‘پڑھا تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ ایسے باعزت منصب و مقام پر فائز شخص ایسی کمزور بات کرے گا تو ہم جیسے چھٹ بھیّوں کا کیا حال ہوگا، اور جانے کیوں مجھے شیخ سعدی کا یہ شعر:
تامردِ سخن نگفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
رہ رہ کر یاد آنے لگا۔
ناظم صاحب میرے محسنین میں سے ہیں، لہٰذا ’’ھل جزاء الاحسان الاالاحسان‘‘کے پیش نظر میں ان کے تبصرہ پر کچھ زیادہ نہیں کہوں گا، ہاں ان کا استاذانہ مشورہ منظور و مقبول ہے، البتہ ناظم صاحب سے اتنا پوچھنے کی جرأت ضرور کروں گا کہ آیا آپ کی پہلی تحریر جو آپ نے اپنے والد محترم کی وفات پر رقم فرمائی تھی وہ صحیح ہے؟ یا یہ تبصرہ صحیح ہے؟ یا مجھ سے فون پر جو بیان دیا ہے وہ صحیح ہے؟ انسان کو ایک موقف اختیار کرنا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی ہم سب لوگوں کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ تاریخ کو کون ’’مسخ‘‘ کر رہا ہے۔ ناچیز راقم الحروف یا شیخ محفوظ الرحمن فیضی حفظہ اللہ یا مسیح جماعت مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ؟
اگر اس کے باوجود فیصلہ کرنے میں دشواری اور دقت پیش آرہی ہو، تو میں ناظم صاحب سے گزارش کروں گا کہ ایک کمیشن بٹھا دیا جائے اور دلائل کی روشنی میں اس کمیشن کا فیصلہ ہر ایک کے لیے قابل قبول ہوگا، میں ہر صورت میں تیار ہوں۔
پھر دیا پارۂ جگر نے سوال
ایک فریاد و آہ و زاری ہے
(غالب)
آپ کے تبصرے