مولانا سید جلال الدین عمری/ رحمہ اللہ: میرے استاذ، میرے مربی

رفیق احمد رئیس سلفی تذکرہ

خاکسار کا آبائی وطن ضلع بلرام پور کی تحصیل تلسی پور کا ایک گاؤں ’’گورا بھاری‘‘ ہے۔ گاؤں کے مکتب سے نکل کر مدرسہ اتحاد قوم(دارالتوحید)میناں عیدگاہ، اس کے بعد مفتاح العلوم ٹکریا، اورسراج العلوم جھنڈانگر(نیپال)سے ہوتا ہوا جامعہ سلفیہ بنارس پہنچا۔ جامعہ سلفیہ بنارس میں تعلیم ختم ہونے کے بعد سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ اب آگے کیا کریں۔ اس تعلق سے جب اپنے ہم زلف ڈاکٹر عبیداللہ فہد صاحب (پروفیسر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز،مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ)سے مشورہ کیا تو انھوں نے علی گڑھ آنے اور مزید کچھ سیکھنے کا مشورہ دیا۔ اس کے لیے انھوں نے ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ میں درخواست دلائی اور میں علی گڑھ آگیا۔ اس وقت ادارے میں جگہ خالی نہیں تھی، اس لیے انھوں نے تین چار ماہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر پر رکھا، مصروفیت کے لیے ان مہینوں میں دوتین علمی کاموں کا انھوں نے انتظام بھی کیا ۔ اس سے پہلے نہ میں نے کسی عربی کتاب کا ترجمہ کیا تھا اور نہ باقاعدہ کوئی مضمون لکھا تھا۔ ان کی رہنمائی میں عبدالمجید زندانی کی کتاب ’’ کتاب التوحید‘‘ کے تینوں حصوں کا ترجمہ کیا، اس کے علاوہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی ایک کتاب ’’کیف نتعامل مع السنۃ النبویۃ‘‘ کا بھی ترجمہ کیا۔ ان کتابوں کا مجھے معاوضہ بھی ملا لیکن افسوس ہے کہ کتابت ہوجانے کے باوجود ’’کتاب التوحید‘‘ شائع نہیں ہوسکی اور اب اس کا مسودہ بھی میرے پاس محفوظ نہیں ہے۔ یوسف قرضاوی کی کتاب کا ترجمہ شائع تو ہوا لیکن وہ کسی دوسرے مترجم کا ہے۔جس ادارے نے یہ کام دیا تھا، مجھے نہیں معلوم کہ اس نے ایسا کیوں کیا اور نہ یہ معلوم ہے کہ میرا ترجمہ کہاں اور کس حال میں ہے، اب اس کی بھی کوئی کاپی میرے پاس محفوظ نہیں ہے۔

تین چار ماہ کا عرصہ گزرجانے کے بعد ایک دن مجھے اطلاع ملی کہ ادارۂ تحقیق میں جگہ خالی ہوگئی ہے اور فلاں تاریخ کومیرا انٹرویو ہے۔ انتخاب انٹرویو کے بعد کیا جائے گا۔ ایک طالب علم ایسی حالت میں جس قدر گھبراتا ہے، وہ گھبراہٹ میرے اوپر بھی طاری تھی۔ متعینہ تاریخ میں پان والی کوٹھی پہنچا جہاں اس وقت کرایے کی تین پرانی عمارتوں پر ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی مشتمل تھا، مولانا سید جلال الدین عمری رحمہ اللہ کے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں انٹرویو کے لیے ایک دوسری شخصیت بھی موجود تھی جن کو میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ پروفیسر اشتیاق احمد ظلی حفظہ اللہ تھے جو اس وقت یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ میں استاذ تھے۔ رسمی بات چیت کے بعد مقدمہ ابن خلدون کی ایک عبارت مجھ سے پڑھائی گئی، اس کا ترجمہ کرنے کو کہا گیا۔ پروفیسر ظلی صاحب نے بعض مشکل الفاظ کے معنی پوچھے اور عربی کی بعض ترکیبوں سے متعلق سوالات کیے۔ مجھے نہیں معلوم ہوسکا کہ میرے جوابات سے دونوں شخصیات کس حد تک مطمئن ہوئیں۔ انٹرویو ختم ہونے کے بعد میں واپس آگیا اور پھر شاید ہفتہ دس روز بعد بھائی عبیداللہ فہد صاحب نے یہ خوش خبری سنائی کہ ادارہ میں ایک اسکالر (طالب علم) کی حیثیت سے میرا انتخاب ہوگیا ہے اور اس طرح میں دو سال (۱۹۸۵ء تا ۱۹۸۷ء) کے لیے مولانا سید جلال الدین عمری رحمہ اللہ کی تربیت میں آگیا۔

اپنا سامان لے کر ادارہ تحقیق پہنچا اور اس کے ایک کمرے میں مجھے جگہ مل گئی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اس وقت برادر زبیر ملک فلاحی ادارے میں میری ہی طرح ایک اسکالر تھے۔ ان کی صحبت میسر آئی اوران سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ برادر محترم بہت ہی شریف، مہذب اور زندہ دل انسان ہیں۔ ان کی رفاقت بہت اچھی رہی، اس طرح ایک بار پھر ہم طالب علمی کے دور میں واپس آگئے۔ بھائی زبیرملک فلاحی آج کل لکھنؤ میں ہیں ۔ اللہ انھیں صحت وعافیت سے رکھے ۔آمین

دوسرے دن مولانا سید جلال الدین عمری رحمہ اللہ نے اپنے کمرے میں بلایا،مختصر گفتگو فرمائی اور دوسالہ تصنیفی تربیت کی اہمیت بتائی اور ان دوسالوں میں مجھے کیا پڑھنا اور لکھنا ہے، اس کی تفصیل سمجھائی۔ ان کا طرز تخاطب انتہائی شفقت آمیز اوربہت پیارا تھا، ہر بات دل میں اترتی چلی گئی اور ان کی ہدایت کے مطابق میں تربیت کے پہلے سال کے لیے تفسیر ابن کثیر، سبل السلام، مباحث فی علوم القرآن اور السنۃ ومکانتھا فی ا لتشریع الاسلامی، الماری سے نکال کر مطالعہ کی اپنی میز پر آگیا۔ ان چاروں کتابوں کو سمجھ کر حرفاً حرفاً پڑھنا تھا۔ اگر کہیں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو رفقائے ادارہ کی طرف رجوع کرنے کی تاکید کی گئی تھی۔

ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی جن فارغین مدارس اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل کو تربیت دیتا ہے، ان کے لیے انگریزی اور عربی سکھانے کا بھی انتظام کرتا ہے۔ عربی مدارس کے فیض یافتگان کے لیے انگریزی کا اور عصری درسگاہوں کے فضلاء کے لیے عربی کا، چنانچہ ہم مدرسے والوں کے لیے انگریزی کے استاذ مولانا محمد عبدالمنان اثری (سابق انگریزی استاذ، سٹی ہائی اسکول، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) منتخب کیے گئے۔ مولانا سے تعارف پہلے سے تھا اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ مولانا نہ صرف میرے علاقے کے ہیں بلکہ مئو کے مشہور اہل حدیث مدرسہ ’’جامعہ اثریہ دارالحدیث‘‘ کے فیض یافتہ بھی ہیں۔کئی مہینوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا، اس دوران میرے نہایت محترم دوست مولانا محمد اسلام عمر ی(متوفی:۱۳؍دسمبر۲۰۱۹ء) بھی ادارے کے طالب علم بن گئے۔برادر عزیز اسلام صاحب اسم با مسمی تھے، حددرجہ شریف، ملنسار اور محبت کرنے والے۔ ادارہ میں کئی مہینوں تک میرا ان کا ساتھ رہا، ان دنوں کھانا ہم سب مل کر خود بناتے تھے، کوئی باورچی مشکل سے رکتا تھا۔ بھائی اسلام عمری صاحب کی اچانک وفات سے دل کو شدید صدمہ پہنچا۔ انھوں نے علی گڑھ میں بھرپور زندگی گزاری، سخت محنت کی، اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلانے میں کامیاب رہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور بچوں کو نیک، صالح، ذمہ دار اور اپنی والدہ محترمہ کا خدمت گزار بنائے ۔آمین

مولانا سید جلال الدین عمری رحمہ اللہ ہر ماہ مطالعے کی رپورٹ طلب فرماتے تھے اور ان کا حکم تھا کہ کسی نہ کسی موضوع پر ایک مضمون بھی لکھ کر جمع کریں۔ مولانا رپورٹ جمع کرلیتے تھے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کبھی انھوں نے رپورٹ کے تعلق سے کوئی احتساب کیا ہو۔ کمیاں اور کمزوریاں ان کے سامنے آجاتی تھیں اور پھر دوران نصیحت ان کی طرف اشارہ فرما دیا کرتے تھے۔ ملک کے بیشتر دینی رسائل اور جرائد ادارے میں آتے تھے، ان کو پڑھنے کی طرف توجہ دلاتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر پورا پڑھنے کا موقع نہ بھی مل سکے تو یہ تو ضرور ذہن میں رہے کہ موجودہ اہل علم اسلامیات کے کن کن پہلووں پر لکھ رہے ہیں۔ عصری آگہی اسلامیات کے ایک اسکالرکے لیے نہایت ضروری ہے۔

ادارے میں ہفت روزہ دینی پروگرام منعقد ہوا کرتے تھے۔ اس میں ہماری شرکت ضروری تھی۔ مولانا عام طور پرقرآن مجید کا درس دیتے تھے اور اس میں ہم طالب علموں کی رعایت سے علمی نکات بھی بیان فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ دوسرے موضوعات پر ان کے محاضرات ہوتے تھے۔ سامعین میں اکثریت چوں کہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور دوسرے اہل علم کی ہوتی تھی، اس لیے زیادہ تر گفتگو علمی اور فکری ہوا کرتی تھی۔

مولانا کے درس قرآن کی ایک اہم بات آج بھی مجھے یاد ہے جسے ایک علمی ضرورت سمجھ کر میں یہاں عرض کررہا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے مولانا کے حوالے سے یہ بات کہیں لکھی ہے یا نہیں۔ ایک دن درس قرآن کے دوران مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کا ذکر آگیا۔ مولانا فراہی قرآنیات کے متخصص کے طور پر جانے جاتے ہیں، قرآن مجید کے تعلق سے ان کی بعض تحقیقات اعلی درجے کی ہیں، ان کے بہت سے تفردات بھی ہیں جن سے اہل علم اتفاق نہیں رکھتے۔ انہی تفردات کے حوالے سے مولانا عمری رحمہ اللہ نے فرمایا: مولانا حمیدالدین فراہی بہ مشکل کوئی نئی بات کہتے ہیں، ہماری کتب تفاسیر میں ایک آیت کے ذیل میں جو بہت سے اقوال ’’قیل‘‘ کہہ کر بیان کیے گئے ہیں، فراہی صاحب نے ان پربھی غور کیا ہے اور اگر وہ مرجوح قول ان کے غوروفکر اور ان کی تحقیق کے مطابق ہے تو اسے انھوں نے اختیار کرلیا ہے۔ فلاحی اور اصلاحی بزرگوں اور دوستوں سے درخواست کروں گا کہ اس پہلو سے علامہ فراہی رحمہ اللہ کے تفردات کا استیعابی مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ کیا قدیم مفسرین کے یہاں ان کے تفردات کے تعلق سے کچھ ملتا ہے، اگر ان کا کوئی حوالہ ہماری کتب تفاسیر میں ملتا ہے تو اسے واضح کریں، اس سے ان شاء اللہ علامہ فراہی کے علمی مقام میں اضافہ ہوگا اور ان کے بارے میں بعض اہل علم کے جو تحفظات ہیں، وہ بھی دور ہوں گے۔

درس قرآن ہی کی ایک اور بات جو بہت دل چسپ بھی ہے اور قرآن کے تعلق سے انتہائی اہم بھی، ایک دن مولانا سورۃ المدثر کا درس دے رہے تھے۔ اس کی آیت(۳۰) ہے:{علیہا تسعۃ عشر}’’جہنم پر انیس فرشتے مقرر ہیں‘‘۔ مولانا نے دوران درس فرمایا: یہاں متعین تعداد نہیں بلکہ کثرت مراد ہے۔ درس میں مولانا سلطان احمد اصلاحی رحمہ اللہ کے بھانجے بھائی قیام الدین مدنی رحمہ اللہ موجود تھے۔ انھوں نے کہا: مولانا! عربی زبان کا دامن اتنا تنگ نہیں ہے کہ کثرت بیان کرنے کے لیے ایک متعین گنتی کا سہارا لیا جائے۔ اگر اللہ نے انیس(۱۹) کی گنتی بیان کی ہے تو انیس مان لینے میں کیا حرج ہے۔ بھائی قیام الدین مدنی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فاضل تھے، وہ جامعہ کے سلفی العقیدہ اساتذہ سے نصوص کتاب وسنت کے ظاہری اور باطنی مفہوم کے تعلق سے متکلمین کے یہاں جو بحث ملتی ہے، اس سے اچھی طرح واقف تھے۔ اعتراض سامنے آنے پر مولانا کے ذہن میں بھی یہ مباحث تازہ ہوگئے اور انھوں نے اپنی بات پر اصرار نہ کرتے ہوئے قیام الدین مدنی رحمہ اللہ کی تصویب فرمائی۔

بھائی قیام الدین مدنی رحمہ اللہ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں جو علمی مقالہ لکھا تھا، اس کا عنوان تھا: ’’الصوم لأھل الأعذار‘‘۔ ان کی خواہش اور مولانا سلطان احمد اصلاحی کے حکم سے اس عربی مقالے کا میں نے ترجمہ کیا ہے جو ’’معذوروں کا روزہ‘‘کے عنوان سے دہلی سے شائع ہوا ہے۔

ادارہ کی دوسالہ تربیت میں اسی ہفت روزہ پروگرام میں جماعت اسلامی کے اکابرین اور دیگر بڑے علماء اور جدید تعلیم یافتہ اہل علم کو سننے کا موقع ملا۔مولانا عمری رحمہ اللہ اس طرح کے پروگراموں میں شریک ہونے کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ یونیورسٹی میں زیر تعلیم بعض طلبہ اپنے مختلف اقامتی ہالوں میں دینی پروگرام کرتے تھے، اس میں بھی ادارے کے طلباء شرکت کرتے تھے، ان کے ذمہ کبھی درس قرآن،کبھی درس حدیث اور کبھی کسی موضوع پر تقریر ہوا کرتی تھی۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہم مختلف شعبوں میں زیر تعلیم اسلام پسندطلباء سے قریب ہوگئے اور ان سے علمی مسائل پر گفتگو کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ آگے چل کر اس کا ایک بڑا علمی فائدہ یہ سامنے آیا کہ ہم باتوں باتوں میں بہت سی کتابوں، بہت سے مصنفین اور بہت سے موضوعات سے واقف ہوتے چلے گئے۔ ادارہ میں ہماری تربیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ ہم اہل علم سے علمی مسائل میں گفتگو کریں اور ان سے مستفید ہوں۔

ادارے میں علی گڑھ کے بہت سے اہل علم آتے جاتے تھے، ان سے بھی ملاقاتیں ہوتی تھیں اور ان کی علمی باتوں سے ہمیں مستفید ہونے کا موقع ملتا تھا۔ مجھے بطور خاص مولانا محمد تقی امینی رحمہ اللہ سے استفادے کا موقع ملا۔ بعد میں پروفیسر محمد یسین مظہر صدیقی سے بھی تعلقات ہوئے اور ان کی صحبت سے بھی بہت کچھ سیکھنے کے مواقع ملے۔ ادارے میں زیر تربیت طلبہ کی اس پہلو سے حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی، کسی سے ملنے جلنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ میں دوران تربیت سول لائن میں موجود اہل حدیث اہل علم سے بھی ملتا تھا، ان کے پروگراموں میں شریک ہوکر درس بھی دیتا تھا اور تقریر بھی کرتا تھا لیکن مولانا نے اس پر کبھی کچھ نہیں کہا، وہ مسلکی مسائل ومعاملات میں حددرجہ روادار تھے۔

لگے ہاتھوں مولانا محمد تقی امینی رحمہ اللہ کی ایک بات یہاں عرض کردوں، ممکن ہے اس سے غور وفکر کے کچھ پہلو سامنے آئیں۔ ادارے میں غالباً میری تربیت کا دوسرا سال تھا۔ دوسرے سال میں ہمارا نصاب اسلام کے مختلف موضوعات پر ایک ترتیب سے مطالعہ کرنا تھا۔ عقائد، عبادات، معاشرت، معیشت، سیاست اور اخلاق کے موضوع پر لکھی گئی اردو کتابیں تنقیدی نظر سے پڑھنے کو کہا گیا تھا۔ اسلام کے معاشی اور سیاسی نظریات پر میرا مطالعہ جاری تھا، انھی دنوں مولانا سے ملاقات ہوئی، اس تعلق سے کئی ایک سوالات میرے ذہن میں تھے، میں نے ان کے سامنے یہ سوالات رکھے۔ مولانا نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا: میاں اسلام کو مطلب نہ کمیونزم سے ہے اور نہ سرمایہ داری سے، اسی طرح اسے غرض نہ جمہوریت سے ہے اور نہ شخصی حکومت سے، معاشی اور سیاسی مسائل ومعاملات میں اسلام کے اپنے جو اصول وضوابط ہیں، اگر وہ پورے ہوتے ہیں تو اسلام کا مطلوبہ معاشی وسیاسی نظام وہی ہے، دنیا اسے کس نام سے یاد کرتی ہے، اسلام کو اس سے کوئی مطلب نہیں۔

ادارۂ تحقیق میں زیر تربیت طلباء کو مکلف کیا جاتا تھا کہ وہ ہر ماہ کوئی نہ کوئی مضمون لکھیں، مضامین لکھے جاتے تھے اور کبھی مولانا عمری اور کبھی مولانا سلطان احمد اصلاحی ان کو ملاحظہ فرماتے تھے۔ ضرورت محسوس کرتے تو کچھ مشورے دیا کرتے تھے۔ مقالہ نویسی کی تربیت کے لیے ادارہ میں ایک اور پروگرام مولانا کی ہدایت پر چلتا تھا کہ طلبہ ہر ماہ کسی صاحب علم کی صدارت میں اپنے تحریر کردہ مقالات پڑھ کر سناتے تھے۔ اس میں سارے ساتھی طلبہ شرکت کرتے تھے، کبھی یونیورسٹی کے بعض ہم عمر احباب بھی اس میں شریک ہوجایا کرتے تھے۔ موضوع پر گفتگو ہم سب باری باری کیا کرتے تھے، مضمون میں استعمال کیے گئے بعض لفظوں پر بھی گفتگو ہوتی تھی، اسلوب بھی زیر بحث آتا تھا۔ اس پروگرام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مقالہ خوانی میں جو جھجھک ہوا کرتی ہے، وہ دور ہوتی چلی گئی اور اپنی غلطیوں کو سدھارنے کے بھی مواقع ملتے رہے۔

ایسا کم ہی ہوا کرتا تھا کہ کسی علمی موضوع پر مولانا عمری ہم زیر تربیت طلباء کو ساتھ لے کر بیٹھیں اور ہم سے کچھ سوالات کریں۔ میری تربیت کے دوران صرف ایک بار یہ موقع آیا جب مولانا نے ہمیں سبل السلام شرح بلوغ المرام لے کر اپنے آفس میں آنے کو کہا۔ جب ہم حاضر ہوئے تو مولانا نے نماز فجر کے لیے غلس افضل ہے یا اسفار، والی بحث کتاب سے نکالنے کا حکم دیا، عبارت پڑھوائی اور پوچھا کہ احناف اور شوافع کے درمیان اس مسئلے میں جو اختلاف ہے، اس کو سمجھائیں۔ باری باری ساتھی طلبہ نے اپنی باتیں رکھیں۔ میں چونکہ اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتا تھا، اس لیے مولانا نے مجھے مخاطب کرکے بطور خاص پوچھا کہ علمائے اہل حدیث جو غلس کو افضل قرار دیتے ہیں، وہ ’’أسفروا بالفجر فانہ اعظم للأجر‘‘ کی کیا توجیہ کریں گے۔ میں چوں کہ یہ بحث اہل حدیث علماء کی کتابوں میں پڑھ چکا تھا، میں نے جواب دیا کہ امام طحاوی نے حدیث اسفار کی جو توجیہ کی ہے، علمائے اہل حدیث اسے درست سمجھتے ہیں کہ نماز فجر میں اتنی طویل قرأت کی جائے کہ غلس میں شروع کرکے نماز اسفار میں ختم ہو۔ اگر یہ توجیہ درست نہ تسلیم کی جائے تو لازم آئے گا کہ نبی اکرم ﷺ ایک افضل وقت کو ترک کرکے مفضول وقت پر نماز فجر ادا کرتے رہے اور اسے کوئی درست نہیں کہہ سکتا۔ مجھے نہیں معلوم کہ مولانا میرے جواب سے مطمئن ہوئے یا نہیں لیکن انھوں نے آگے کوئی سوال نہیں کیا۔ اس نشست کا مقصد یہ جائزہ بھی لینا تھا کہ طلبہ کو جن کتابوں کے مطالعہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ اسے تحقیقی انداز میں پڑھتے ہیں یا نہیں۔

ہم طلبہ کے مضامین دیکھ کر مولانا نے ایک بارنصیحت فرمائی کہ برجستہ کوئی بھی چیز لکھی جاسکتی ہے، آپ حضرات بھی قلم میں زور پیدا ہونے کے بعد ایسا کرسکتے ہیں لیکن یہ عادت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ کوئی بھی پیراگراف لکھیں تو اسے بار بار پڑھیں اور خود سے سوال کریں کہ جو بات آپ تحریر کرنا چاہتے ہیں، کیا وہ بات مکمل ہوگئی، کیا قاری وہی کچھ سمجھ پائے گا جو آپ سمجھانا چاہتے ہیں۔ پورے مضمون میں اس کی رعایت ضروری ہے۔ تربیت کے اس مرحلے میں آپ حضرات ایسا کریں کہ ایک مضمون لکھ لینے کے بعد اسے ہفتہ بھر کے لیے بھول جائیں۔ ایک ہفتے بعد دوبارہ اسے غور سے پڑھیں تو آپ کو اپنی کمیاں خود دکھائی دینے لگیں گی۔ اس اصلاح کے بعد آپ کا مضمون قابل اشاعت ہوجائے گا۔ اور اس طریقہ پر عمل کرتے کرتے آپ ایک اچھے مضمون نگار اور مصنف بن سکیں گے۔

مولانا عمری رحمہ اللہ کی اردو تحریر بہت رواں اور بھاری بھرکم الفاظ سے خالی ہوتی ہے۔ ایک مضمون میں وہ اپنے پیراگراف جس انداز میں ترتیب دیتے ہیں، وہ بڑی معنویت رکھتی ہے۔ اردو املا پر بھی ان کی پوری توجہ ہوتی ہے۔ وہ لفظوں کو ملاکر لکھنے کے قائل نہیں تھے۔ ’’چونکہ اور کیونکہ‘‘ کوبھی وہ اپنی تحریروں میں ’’چوں کہ اور کیوں کہ‘‘ لکھتے ہیں۔ اردو مضمون نگاروں اور مصنفین کو مولانا کی اردو سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کی زبان سادہ، سہل اور خوبصورت ہوتی ہے۔ قرآنی آیات، احادیث اور دیگر عربی نصوص کا وہ رواں اور بامحاورہ ترجمہ کرتے ہیں۔

مولانا کی تربیت کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ وہ بسااوقات ’’تحقیقات اسلامی‘‘ کے لیے کوئی علمی مضمون لکھتے تو ہم طلبہ سے پوچھتے کہ میں نے اس مضمون کا یہ عنوان متعین کیا ہے، کیا یہ مناسب ہے، اگر آپ اس مضمون پر کوئی سرخی لگائیں تو وہ کیا ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ مولانا نے مجھ سے ایک مضمون کے بارے میں سرخی قائم کرنے کو کہا تو میں نے جو عنوان بتایا، اس میں ’’تناظر‘‘ کا لفظ تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ میں اپنی تحریروں میں ’’تناظر‘‘ کا لفظ کہاں استعمال کرتا ہوں۔ چنانچہ مولانا کی تحریروں میں یہ لفظ شاید نہ ملے، ویسے میرے فاضل دوست ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی یا مولانا جرجیس کریمی بتائیں گے کہ کیا مولانا نے اپنے کسی مضمون یا کتاب میں یہ لفظ کہیں استعمال کیا ہے۔

میری تربیت کے دوران جب مولانا کی کتاب ’’مسلمان عورت پر اعتراضات کا علمی جائزہ‘‘ شائع ہوئی تو میں نے اسے بالاستیعاب پڑھا۔ مسئلہ طلاق پر بھی اس میں مضمون شامل ہے جس میں مولانا نے ایک مجلس کی تین طلاق کے مسئلے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس مسئلے میں احناف اور دیگر مکاتب فکر کہتے ہیں کہ ایک مجلس میں دی گئی تینوں طلاق تین مانی جائیں گی جب کہ علمائے اہل حدیث اسے ایک رجعی طلاق تسلیم کرتے ہیں۔ میں کتاب لیے ہوئے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا، جاڑے کے دن تھے مولانا دھوپ میں میز کرسی پر اپنا کام کررہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ مولانا آپ نے اس مسئلے میں اپنا نقطۂ نظر بیان نہیں کیا۔ قاری کیا کرے گا، کوئی فیصلہ کن بات ہونی چاہیے۔ میری مسلکی حمیت مولانا سمجھ گئے اور فرمایا: بیٹھ جائیے، آپ کو اپنے مدراس کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایک اہل حدیث بزرگ نے بڑھاپے میں جوان جوان بیٹوں کے رہتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ جب انھوں نے مسئلہ معلوم کیا تو انھیں پتا چلا کہ ائمہ اربعہ اس بات پر متفق ہیں کہ ایک مجلس میں دی گئی تینوں طلاقیں ایک نہیں بلکہ تین ہوتی ہیں اور عورت پر طلاق مغلظہ واقع ہوجاتی ہے۔ یہ معلوم ہونے کے بعد انھوں نے تاحیات بیوی سے رجوع نہیں کیا، گھر کے ایک گوشے میں رہتے رہے، اندر سے ان کے لیے کھانا وغیرہ آتا رہا۔

میں نے عرض کیا: کیا چاروں ائمہ کے اتفاق سے وہ مسئلہ متفق علیہ ہوجائے گا، امام ابن تیمیہ اور دوسرے علماء اس کے خلاف نقطۂ نظر رکھتے ہیں، احادیث بھی ان کی تائید میں ہیں۔ اس واقعہ کو ذکر کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ادارے میں آنے والے طلبہ خواہ وہ حنفی ہوں یا اہل حدیث، ان پر کوئی مسلکی دباؤ نہیں ڈالا جاتا ہے بلکہ زور صرف اس بات پر دیا جاتا ہے کہ آپ علم وتحقیق کی بنیاد پر کوئی بات کہیں اور نقطۂ نظر اختیار کریں۔

دو سال تک مولانا کو میں نے بہت قریب سے دیکھا، وہ وقت کے پابند تھے، ادارے کے اوقات کا پورا لحاظ کرتے تھے، ہم لوگوں سے کوتاہی ہوتی تو نرمی سے فرماتے کہ آپ لوگ اوقات کی پابندی کیا کریں۔ نماز ظہر کے بعد کھانا کھاکر قیلولہ کرنے کا مولانا کا معمول تھا لیکن تین ساڑھے تین بجے وہ دفتر آجاتے تھے۔ اور اس میں کوئی کوتاہی ان سے نہیں ہوتی تھی۔

مولانا سواری کے لیے سائیکل کا استعمال کرتے تھے، عام طور سے نماز عصر کے بعد گھر کے لیے ضروری سامان خریدنے دودھ پور جاتے اور ہم لوگوں کو بھی نصیحت کرتے کہ سبزی وغیرہ آپ لوگ یہاں ٹھیلوں سے نہ خریدیں بلکہ مارکیٹ سے لایا کریں۔ مولانا کی سادگی کو آج سوچتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کل جو جماعت اسلامی کا امیر ہونے والا تھا اور جس کی تحریروں اور جس کی فکر کی بلندی کا چرچا پوری دنیا میں ہے، اس نے علی گڑھ میں ایک معمولی سی عمارت میں کتنے ماہ وسال گزارے ہیں۔ اللہ کی رضا کے لیے زندگی گزارنے والے اور اپنی ذات کو اسلام کے لیے وقف کردینے والے میرے استاذ اور مربی مولانا سید جلال الدین عمری رحمہ اللہ کو رب ذوالجلال اپنی رحمت کے سایے میں جگہ دے، ان کی تمام دینی خدمات کو شرف قبول عطا فرمائے۔آمین

باتیں اور یادیں بہت سی ہیں، ان کو کسی ایک مضمون میں سمیٹا نہیں جاسکتا، آخر میں مولانا کی ایک خواہش کا تذکرہ کردینا ضروری سمجھتا ہوں جس کا تعلق علم وتحقیق سے ہے اور اسلامیات پر کام کرنے والوں کے لیے بہت ضروری ہے۔

ایک دن کی مجلس میں مولانا نے فرمایا کہ آپ حضرات وقتاً فوقتاً میرے پاس بیٹھ جایا کریں اور اسلامی تراث کی امہات کتب کے بارے میں میں جو کچھ بتاؤں اسے قلم بند کرلیا کریں۔ تفسیر، حدیث، شروح حدیث، فقہ اسلامی، سیرت اور اسلامی تاریخ کی امہات کتب معروف ومشہور ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو ان کتابوں، ان کے انداز بحث اور مصنفین کی ترجیحات کے بارے میں معلومات ہیں۔ اسلامی تراث کی کئی ایک امہات کتب کا مولانا نے بالاستیعاب مطالعہ کررکھا تھا، ان کے مباحث سے بھی اچھی طرح واقف تھے ۔ آج کتنے لوگوں کو پتا ہے کہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر کا طریقۂ کار کیا ہے، علامہ شوکانی نیل الاوطار میں کس طرح بحث کرتے ہیں۔ افسوس کہ مولانا کے وسیع علم کا یہ پہلو ہم کاغذ پر منتقل نہیں کرسکے اور اسلامی تراث کی امہات کتب سے متعلق ان کی معلومات دنیا کے سامنے نہیں آسکیں۔

مولانا کی شفقت اور ان کی محبت، ان کا لگاؤ ادارہ سے الگ ہوجانے کے بعد بھی باقی رہا، جب بھی علی گڑھ میں یا دہلی میں ملاقات ہوئی محبت سے ملے، حال احوال کے بعد لکھنے لکھانے کے بارے میں پوچھتے، کسی علمی موضوع کی طرف اشارہ کرتے اور ترغیب دیتے کہ اسلامیات پر جس قسم کی تحقیق کی ضرورت ہے، اس کے لیے سنجیدہ رہیں اور علمی کام کریں۔ زندگی شاید آخری دور میں داخل ہورہی ہے، کیا کیا، کیا نہیں کیا، سب کچھ سامنے ہے، تھوڑا بہت جو کچھ ہوا، وہ مولانا کی تربیت اور صحبت کا فیضان ہے۔

اللہ سے دست بہ دعا ہوں کہ رب العالمین اپنے بندے کو جو صرف اسلام کے لیے دنیا میں زندہ رہا، جس نے دولت دنیا کی طرف دیکھا تک نہیں، جو اپنی سادگی میں مطمئن اور خوش رہا، اسے جنت میں سکون واطمینان کی زندگی عطا فرما، ان کے بچوں کو بھی باپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور ان کا حامی وناصر ہو۔ آمین، تقبل یا رب العالمین۔

آپ کے تبصرے

3000