کسی بھی معاشرے کی مضبوطی اور پائیداری کے لیے کچھ خاص اصول و ضوابط اور اخلاقیات کی پابندی انتہائی ضروری ہے، بغیر اس کے معاشرہ بد نظمی اور انارکی کا شکار ہو جاتا ہے، سچائی اور صداقت کی پاسداری صالح معاشرے کے قیام کی ضامن ہے، اگر سچائی کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور صداقت کے دامن کو چاق کر دیا جائے تو انسانی سوسائٹی تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود آج کا مزعومہ مہذب سماج جھوٹ کے دلدل میں پھنستا جا رہا ہے، ہم جھوٹ کی مسموم فضاؤوں میں سانس لے رہے ہیں، ہر طرف فیک نیوز کا بول بالا ہے اور پروپیگنڈہ کا بازار عروج پر ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کی دنیا میں بے پناہ ترقیوں اور وسعتوں کے بعد معلومات کی ارسال و ترسیل کے اسباب اس قدر آسان ہوچکے ہیں کہ ہر فرد تھوک کی شکل میں انفارمیشن کنزیوم کر رہا ہے جبکہ وہ ان کی صداقت، مرجعیت اور حقائق سے بالکل نابلد ہے۔ آج مذہبی جذبات بھڑکانے، نسلی امتیازات پر فخر کرنے، معاشرتی ہم آہنگی کو سبوتاژ کرنے اور سیاسی بالا دستی اور مفادات کی خاطر اخلاقیات کے تمام حدود و قیود کو توڑنے کے لیے فیک نیوز کا سہارا لیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے معاشرہ نفرت کی خلیج میں ڈوبا جا رہا ہے، حقائق سے پردہ اٹھانے والوں پر زمین تنگ کی جا رہی ہے جبکہ فیک نیوز کے ذرائع اور افراد دن بدن ملک کی ٹھوس بنیادوں کو کمزور کرتے جا رہے ہیں، فیک نیوز ہماری زندگی کے کئی پہلؤوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ آئیے ان میں سے چند اہم زاویوں پر گفتگو کرتے ہیں۔
تعلیمی میدان
انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز ترقیوں اور تبدیلیوں کے سبب تعلیمی میدان میں بھی کافی ترقی ہوئی، تعلیم کے ذرائع اور وسائل میں بڑی سہولت ہوئی، ریسرچ اور تحقیق کے نئے زاویے اور حیرت انگیز امکانات و اکتشافات کے عہد کا آغاز ہوا، آن لائن تعلیم کے سبب معاشرے کے ہر فرد تک تعلیم کی رسائی ممکن ہوئی، کمپوٹر، موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت نے کتنے ہی ناممکنات کو ممکنات کی دنیا سے آشنا کرایا، غرضیکہ علمی میدان میں لامحدود ترقیوں کا دروازہ کھل گیا، مگر انفارمیشن ٹکنالوجی کی دنیا میں جب جھوٹ، فیک نیوز، فراڈ، ہیکنگ، حیلہ سازی، بلیک میلنگ کی اِنٹری ہوئی تو اس نے انفارمیشن کے تقدس کو پامال کر دیا، جھوٹوں، فریبیوں اور جاہلوں کے پنپنے، اپنے افکار و نظریات کو تھونپنے اور سچائی کی شاہ راہ عام پر دن دہاڑے ڈاکہ زنی کا راستہ ہموار کر دیا، جو آج کے خود ساختہ مہذب اور ترقی پذیر و ترقی یافتہ معاشرے کو اپنے آہنی پنجے میں دبوچتا جا رہا ہے، جھوٹ کا چلن اتنا عام ہوچکا ہے کہ سچائی و صداقت کا دم گھٹنے لگا ہے، اب تو حال یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کے لیے صحیح معلومات اور آتھینٹک ذرائع تک پہنچنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے، آج طلبہ کے درمیان غیر موثوق خبروں کا چلن عام ہو رہا ہے، وہ بھی فیک نیوز کے شکار ہو رہے ہیں، آڈیوز اور ویڈیوز سنتے اور دیکھتے ہیں مگر ان کو پتہ نہیں ہوتا ہے کہ ان میں کس حد تک سچائی ہے! ان کو اس حقیقت کا شعور ہی نہیں کہ کس ویب سایٹ، نیوز چینل اور ذرائع پر اعتماد کریں۔ حد تو یہ ہے کہ آج دینی معلومات پر مشتمل غیر محقق خطبات و تقاریر، آڈیوز، ویڈیوز کی اتنی کثرت ہو چکی ہے کہ طلبہ لاشعوری طور پر غیر شرعی، غیر منہجی اور غیر موثوق معلومات کے شکار ہوتے جا رہے ہیں جو معاشرے کے لءے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
سماجی میدان
صداقت پر مبنی خبریں صالح اور پر امن سماج کی ضامن ہوتی ہیں، اعتماد کی فضا عام ہوتی ہے، معاشرے کا تانا بانا مضبوط ہوتا ہے، مذہبی ہم آہنگی اور پر امن بقائے باہم کو فروغ ملتا ہے، مگر فیک نیوز کے چلن نے آج ہمارے معاشرے کو زہر آلود کر رکھا ہے، نفرت کا ماحول عام ہے، افواہوں کی بنیاد پر قتل و خونریزی کی نوبت آجاتی ہے، مذہبی منافرت کو ہوا دینے کے لیے جھوٹی خبروں کو عام کیا جا رہا ہے، نسلی اور طبقاتی تعصب کو پروان چڑھانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال عام ہے اور اب حالات بایں جا رسید کہ ایک خاص دھرم کے لوگوں کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانا نارمل ہو چکا ہے، ہمارا سماج دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے، باہمی اعتماد کا جنازہ نکل رہا ہے، ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے، تو کسی کی وطن دوستی اور حب الوطنی پر سوال اٹھایا جا رہا ہے، جو کہ ملک کی سالمیت اور امن کے لیے کافی خطرناک ہے۔
سیاسی میدان
سیاسی قوت سماج و ملک میں کوئی بھی تبدیلی لانے پر قادر ہوتی ہے، قانون سازی انھی کے دائرہ اختیار میں ہوتی ہے، انتظامی امور پر انھی کی پکڑ ہوتی ہے اور تنفیذی ادارے انھی کے حکم و اشارے پر حرکت میں آتے ہیں، ملک کے خزانے پر وہ راج کرتے ہیں۔ پس اگر زمام حکومت مخلص قائدین کے ہاتھوں میں ہو تو ملک تعمیر و ترقی کے مدارج طے کرتا ہے، معاشرے میں امن و شانتی کا بول بالا ہوتا ہے، قانون کی نظر میں سب یکساں اور برابر ہوتے ہیں، ہر شہری کو مکمل حقوق حاصل ہوتے ہیں، عدل و انصاف کی بالادستی اور سچائی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سیاسی قوت جب ذاتی مفادات کے لیے ہو، خاص نظریات کا فروغ مقصود ہو، اہداف کی تکمیل کے لیے تمام حربے استعمال میں لائے جاتے ہوں، جہاں جھوٹ اور سچائی کے درمیان تمییز نہ ہو، اخلاقیات کے دامن داغدار ہوں، سیاسی قوت و نخوت کا استعمال من مانی طریقے سے ہو اور سیاست محض ذاتی مفادات کے دائرے میں سمٹ کر رہ جائے تو ایسی صورت میں جھوٹ کو پنپنے کا موقع مل جاتا ہے، جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے، فیک آئی ڈی کی آڑ میں جھوٹ، نفرت، کردار کشی، افواہ اور اشتعال انگیز اخبار، ویڈیوز اور بھاشڑ مہذب سماج کی آبرو کو تار تار کر دیتے ہیں، سماجی اتحاد کو سخت خطرہ لاحق ہوتا ہے اور مجرمین قانون کے چنگل سے اس طرح آزاد پھرتے ہیں کہ وہ کوئی بھی جرم بے خوف و خطر کر گزرتے ہیں۔
آج اگر ہم اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر دوڑائیں تو بے ساختہ ہمارے ذہنوں میں یہ اضطرابی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ آخر اس معاشرے کو ہو کیا گیا ہے؟ کیوں مذہبی منافرت میں اتنی شدت آچکی ہے؟ کیوں اتحاد کے شیرازے کو بکھیرا جا رہا ہے؟ کیوں ملک کو ترقی کی شاہراہ سے ہٹا کر ذلت و نکبت کے دلدل میں پھنسایا جا رہا ہے؟ کیوں سچائی پر جھوٹ کا غلبہ ہے؟ کیوں فیک نیوز کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے؟ کیوں شخصی مفاد کے لیے ملکی مفادات کو داؤں پر لگایا جا رہا ہے؟ کیوں سوشل میڈیا فیک نیوز کے اڈے بن گئے ہیں؟ یقین مانیں اگر فیک نیوز کی روک تھام کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار نہ کیا گیا، جھوٹوں پر قدغن لگانے کی کوششیں نہ کی گئی، میڈیا کے نفرت انگیز پروگراموں پر روک نہ لگائی گی اور نفرتی اور متعصب لوگوں کے خلاف ٹھوس کاروائی نہ کی گئی تو معاشرہ تباہ ہوجائے گا، ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی اور مفاد پرست بھی تباہ و برباد ہو کر تاریخ کا حصہ بن چکے ہوں گے اور تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
موجودہ حالات کی زبرسست عکاسی