بعض فتنے ایسے ہوتے ہیں کہ انسان لا شعوری طور پر اس کا شکار ہو جاتا ہے، اور ایک مدت گزرنے کے بعد اس کے اثرات اس پر مرتب ہوتے ہیں، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس فتنے میں مبتلا شخص رفتہ رفتہ خالق کائنات کے انکار تک پہنچ جاتا ہے، اس کے بعد اس کے لیے کسی بھی دینی مسلّمات کا انکار کرنا آسان ہو جاتا ہے اور اسی کو الحاد کا فتنہ کہتے ہیں۔ عصر حاضر میں یہ تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کی جڑیں کافی مضبوط اور اس کے برگ و بار ہر سو نظر آنے لگے ہیں۔ یہ فتنہ کبھی بہت محدود دائرے میں ہوا کرتا تھا۔ بعض اعلی تعلیم یافتہ لوگوں یا دین بیزاروں میں اس کا چلن تھا، مگر دورِ حاضر میں فکری آوارگی، لامحدود آزادی، دین بیزاری، موبائل و انٹرنیٹ کی سہولیات، خود ساختہ نظریات کی ریل پیل، سوشل میڈیا کی لا محدود فضا اور ہر کس و ناکس کے لیے بآسانی اس کی فراہمی نے گھر گھر تک الحادی نظریات کی پہنچ کو آسان بنا دیا ہے۔
الحادی نظریات سب سے زیادہ دینی عقائد کو ٹارگیٹ کر رہے ہیں۔ دین اسلام کی مسلمات میں شک و شبہات پیدا کرنے کی منظم کوششیں جاری ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پڑھا لکھا طبقہ اس سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ الحادی لٹریچر کی بہتات ہے،انٹرنیٹ پر بہت ساری ویب سائٹیں اور منظم گروپ ایسے مل جائیں گے جو الحادی نظریات کے فروغ کے لیے مسلم نوجوانوں کو اپنا ہدف بنا رہے ہیں اور اسلامی تعلیمات میں تشکیک کا دروازہ کھول کر غیر ضروری سوالوں میں انھیں الجھا رہے ہیں۔ آج لوگوں کی اکثریت اور بطور خاص نوجوان انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں اتنا منہمک ہو چکا ہے کہ اسے یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے، کیا دیکھ رہا ہے، کس چیز سے متاثر ہو رہا ہے اور اس کی ذہنی اور فکری شعور میں کیسی تبدیلی اور اثر پذیری رونما ہو رہی ہے؟ دینی معلومات حاصل کرنے کے لیے آج نوجوانوں میں صحیح اور غلط کے درمیان تمییز کی پرواہ نہیں۔ ہمارے سامنے ایسی مثالیں موجود ہیں اور بکثرت ایسے واقعات سننے میں آتے ہیں کہ مدرسہ کا پڑھا نوجوان اس طرح کے فتنے کا شکار ہو رہا ہے۔ اسے یہ تمییز نہیں کہ کونسی کتاب پڑھے؟ کن ویب سائٹوں سے استفادہ کرے؟ کن علماء کرام کو سنے اور فالو کرے؟ مراجع ومصادر کی کتابوں کی طرف کیسے رجوع کرے؟ اگر آج انٹرنیٹ کی دنیا کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دین کے نام پر ایسے باطل نظریات اور جماعتیں متحرک ہیں جن کے افکارو عقائد منہج سلف سے کلی طور پر متصادم ہیں۔ مگر ایک نوجوان جس کے اندر عقیدے کی پختگی نہیں، منہج سلف کے اصول و ضوابط کی پہچان نہیں، جدید افکار و نظریات کی حقیقت سے آگاہی نہیں اور الحاد کے تیر و نشتر سے مقابلہ آرائی کی قوت نہیں، تو دریائے الحاد میں غوطہ زنی کے بعد اس کی کیا حالت ہوگی؟الحاد صرف یہ نہیں کہ انسان دین اسلام کا انکار کردے یا رب العالمین کے وجود کا انکار کردے جو کہ الحاد کی سب سے بد ترین شکل ہے، بلکہ الحادی فتنے کی شروعات غیرمنہجی جماعتوں کے افکار و نظریات کو اپنانے سے ہوتی ہے۔ اسلام کے نام پر متحرک کئی جماعتیں ایسی ہیں جن کے یہاں احادیث کے مقام و مرتبہ کا استخفاف پایا جاتا ہے۔ صحابہ کرام کی قدر و منزلت میں شبہات پیدا کرنے کی مذموم کوششیں کرتی ہیں، جو بعد میں انکار سنت تک پہنچا دیتی ہیں۔ فتنہ غامدیت، فتنہ پرویزیت، فتنہ مرزائیت، فتنہ مہدویت اور فتنہ اخوانیت اس کی بین دلیل ہیں۔ آپ ان کے افکار و نظریات کا مطالعہ کریں، ان کے ویڈیو دیکھیں، لٹریچر پڑھیں یا صحیح اسلامی تعلیمات اور منہج سلف کی روشنی میں ان کی حرکت و عمل کا جائزہ لیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ کس طرح فتنہ انکار حدیث، استخفاف صحابہ، منہج سلف کی توہین کر کے فکری الحاد کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔ آج مدارس کے وہ طلبہ جو عصری جامعات کا رخ کرتے ہیں، اعلی تعلیم سے سرفراز ہوتے ہیں، نئے تجربات سے روشناس ہوتے ہیں،زندگی کے ایک نئے دور کی شروعات کرتے ہیں، غور و فکر کے نئے زاویے کھلتے ہیں، فکر و نظر کی آزادی کے ماحول میں نشو نما پاتے ہیں اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے جو ان کی شخصیت سازی اور ذہنی و فکری تربیت و ساخت میں کافی اہم رول ادا کرتے ہیں، ایسے ماحول میں بھی الحمد للہ اچھی خاصی تعداداپنے دینی عقائد و نظریات کی حفاظت کرتے ہوئے نمایاں کامیابیوں سے ہمکنار ہوتی ہے۔ مگر ایک معتد بہ تعداد ایسے مسلم اسکالرز کی بھی ہوتی ہے جو عصری یونیورسٹیوں میں جاکر مدارس کے قلعوں میں سیکھے ہوئے شرعی علوم کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ انھیں دینی ماحول سے چڑ ہونے لگتی ہے، اسلاف کی کتابوں سے نظریں چراتے ہیں اور اپنی دینی شناخت کو مٹانے میں گریز نہیں کرتے۔ ایسے طلبہ کو جب کھلا ماحول میسر ہوتا ہے تو دین مخالف نظریات سے بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں، ہر طرح کے لٹریچر پڑھنا ان کا فیشن بن جاتا ہے۔ وہ مارکس کے نظریات سے متاثر ہو جاتے ہیں، وہ عرب قوم پرستوں کے نظریات پر فدا ہوتے ہیں، ملحدین شعراء اور ادباء کے لٹریچر میں انھیں سکونِ قلب ملتا ہے۔ وہ مغربی ادباء اور دین بیزار مصنفین کو شب و روز پڑھ کر مفکر بننے کی کوشش کرتے ہیں اور انقلابی جماعتوں اور سلفیت کے دشمنوں کے لٹریچر کا خوگر بن کر اپنی فکری مہارت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ پھر تو اسلام اور اہل اسلام پر تنقید کرنا ان کے لیے آسان ہو جاتا ہے، اور دھیرے دھیرے وہ اپنے نظریات کا اتنا خوگر ہو جاتے ہیں کہ دین پر اعتراض کرنا، علماء پر کیچڑ اچھالنا، ان کی تحقیر و توہین کرنا، اسلامی لٹریچر کا مذاق اڑانا اور عظمتِ اسلام کو پامال کرنا ان کے شب و روز کا عمل بن جاتا ہے۔
واضح ہو کہ آج غیر شعوری طور پر اکثر گھرانے اس فتنے کی زد میں ہیں۔ بچوں کی ذہنی تربیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ایسے میں والدین کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ صحیح اسلامی عقائد کو جاننا، سیرت رسول ﷺ کو پڑھنا اور دین کی مبادیات کو سیکھنا اور اس کی روشنی میں بچوں کی تربیت کرنا بے حد ضروری ہے۔ بچپن ہی سے اللہ اور اس کے رسول کی محبت ذہن نشین کرنا، اسلامی شعائر کی پہچان کرانا اور خود عملی طور پر بچوں کے لیے بہترین اسوہ بن کر زندگی گزارنا بہت ضروری ہے۔ مسلم سماج کا ہر فرد یہ کوشش کرے کہ اس کا گھر اسلامی اقدار کا پابند ہو۔ مساجد میں نونہالوں کی ذہنی تربیت اور اعتقادی پختگی پر کافی محنت کی ضرورت ہے۔ مدارس و جامعات کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان کے آغوش میں تعلیم پانے والے طلبہ ذہنی، فکری اور اعتقادی طور پر اتنے مضبوط ہوں کہ گمراہ کن لٹریچر، الحادی نظریات اور منحرف جماعتیں انھیں ورغلا نہ سکیں اور نہ ہی انھیں اپنا آلہ کار بنا سکیں۔ دینی جماعتوں کو عصر حاضر میں الحادی نظریات اور ملحدین کے مقابلے کے لیے لکچر کا اہتمام کرنا، لٹریچر کی فراہمی، پمفلٹ کی تقسیم اور سوشل میڈیا کا موثر استعمال حکمت ودانائی کے ساتھ کرنی چاہیے۔ مسلم نوجوانوں کی فکری تربیت، جدید فارغین کی صحیح رہنمائی اور عصری جامعات میں پڑھنے والے مسلم طلبہ کی کونسلنگ،ان کے ساتھ بات چیت اور ان کے اعتراضات و خدشات کو دور کرنے کے لیے منظم لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ملحدین کے افکار و نظریات کا جامع ریسرچ کر کےاس کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔ وقتًا فوقتًا جدید فتنوں سے متعلق لکچر،سمینار اور تربیتی پروگرام موثر طریقے سے پیش کرنا کافی اہم ثابت ہوگا ان شاء اللہ۔
خلاصہ یہ کہ الحادی فتنوں کا مقابلہ شرعی علم کی پختگی کے بغیر ممکن نہیں،اس لیے اس دور میں تمام مدارس، مساجد، جمعیتوں اور جماعتوں کو ٹھوس لائحۂ عمل تیار کرکے میدان عمل میں محنت کی ضرورت ہے۔نیز تمام والدین اپنے بچوں کو بنیادی دینی تعلیم ضرور سکھائیں اور بچپن سے ہی ان کی دینی تربیت کا اہتمام کریں۔
ماشاء الله آپ نے تحریر کے لئیے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے یہ دور حاضر کا سلگتا موضوع ہے اور امت کا پڑھا لکھا طبقہ اس فتنہ کا شکار ہو کر سسکنے پر مجبور ہوگیا ہے میری تو یہ دلیری خواہش ہے کہ اس موضوع پر کچھ باتیں امت کو اس فتنہ سے آگاہ کرنے کے لیے قلم وقرطاس کے حوالے کروں إن شاء الله اور ایک بات میں تو یہ کہتا ہوں کہ اس فتنہ کے سد باب کے لئیے صرف تحریریں ناکافی ہوں گی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ خطبات دروس اور ہمارے محاضرات اسی کی بنیاد پر… Read more »
تحریر زور دار ہے، بڑھ کر کئی سارے شکوک وشبہات رفع ہوئے، اپنے اندر بھی جھانکا اور اصلاح پر خود کو ابھارا، ماشاءاللہ جامع تحریر ہے پر مغز نصیحت ہے، الحادی وسایل کا صحیح ذکر ہے بچنے کی تدبیریں الحمد للہ عمدہ تجویز ہیں
معین اسلام