وہ ایک غلطی

ابوالمرجان فیضی عقائد

پوسٹ اور کمنٹ کے اس زمانے میں اقوال زریں چھوڑنے کے بجائے اہم مستفادات کو مدلل طریقے سے مختصر مضمون کی شکل دے دینا صبر و ضبط نیز علم و حلم کی راہ ہے۔ اس سے اشکال کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں اور استفادہ کے مواقع بھی وسیع ہوجاتے ہیں۔
زیر نظر مضمون اپنے موضوع اور پیش کش دونوں اعتبار سے انتہائی اچھوتا ہے۔ اللہ رب العالمین ابو المرجان فیضی صاحب کو یہ مبارک سلسلہ جاری رکھنے اور ہمیں مستفید ہونے کی توفیق دے۔ (ایڈیٹر)


انسان فطرتا آزاد پیدا ہوا ہے اور یہ تب تک آزاد رہتا ہے جب تک اشخاص، موضوعات اور مواقف یا دیگر اشیاء کے بارے میں اپنا کوئی اسٹینڈ نہیں لیتا ۔کوئی عمل نہیں کرتا یا کسی رائے کا اظہار نہیں کرتا ۔جب وہ کوئی عمل کر دیتا ہے اور کسی رائے کا اظہار کر جاتا ہے تو پھر اسی عمل یا رائے کے حوالے کر دیا جاتا ہے، اسی کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے اور اسی جانب ایکسیلیٹ کر دیا جاتا ہے ۔اب اپنی رائے کا قیدی بن گیا۔اپنے عمل کا گرفتار ہوگیا اور اپنی اس رائے کے حوالے کردیا گیا۔

پہلا عمل:

ہم یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں اور جب بھی ویڈیوز ختم ہوتی ہیں اسی کٹیگری کی دوسری سیمیلر ویڈیوز چالو ہو جاتی ہیں اس کا مطلب ہے اگر ہم اچھی ویڈیوز دیکھیں گے تو اسی طرح کی مزید اچھی ویڈیوز کی رہنمائی ملے گی اور اگر ہم گندی ویڈیوز دیکھتے ہیں تو مزید گندا میٹیریل سامنے آجائے گا ۔ بالکل اسی طرح پوری کائنات کام کرتی ہے۔

یعنی ایک نیکی مزید نیکیوں کا راستہ دکھاتی ہے۔اور ایک برائی انسان کے لیے اور زیادہ برائیوں کا راستہ ہموار کردیتی ہے۔

یہاں ہم کو جو مکمل آزادی تھی ۔وہ پہلی غلطی کے وقت تھی۔بعد میں ہمیں اسی طرف ایکسلیٹ کردیا جاتاہے۔پھر وہاں سے واپسی دشوار ہوجاتی ہے۔الا یہ کہ صدق دل سے توبہ کرلیا جائے۔

اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ان الصدق یھدی الی البر وان البر یھدی الی الجنہ وان الکذب یہدی الی الفجور و ان الفجور یھدی إلى النار(متفق علیہ)سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف، اسی طرح جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف۔

یہ دنیا مناسبات سے بھری ہوئی ہے۔ایک ہم جنس دوسرے ہم جنس کو ڈھونڈ لیتا ہے۔قانون جاذبیت سیمیلر اشیاء کو اکٹھا کردیتا ہے۔نیک نیکوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور برے بروں کے ساتھ۔

یہاں تک کہ آخرت میں بھی لوگ اپنے جیسوں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔بعض ابلیس وفرعون کے ساتھ ہوں گے اور بعض سید الانبیاء و صحابہ و اولیاء کے ساتھ۔

کند ہم جنس با ہم جنس پرواز

کبوتر با کبوتر باز با باز

(ہم جنس ،ہم جنس کے ساتھ پرواز کرتا ہے۔کبوتر کبوتر کے ساتھ، باز باز کے ساتھ)

اور اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے:

الخبيثات للخبيثين والخبيثون للخبيثات والطيبات للطيبين والطيبون للطيبات أولئك مبرءون مما يقولون لهم مغفرة ورزق كريم[النور:۲۶]لخبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔

پہلی رائے:

‏جب ہم خالی الذہن ہوتے ہیں تو ہمارے سامنے بہت سارے موضوعات اور بہت ساری باتیں اور مسائل آتے ہیں وہاں ہم بنا کسی جھجھک اور بنا زیادہ سوچے سمجھے اپنی رائے فوری طور سے دے دیتے ہیں بسا اوقات یہی اظہار رائے ہماری قسمت کا فیصلہ کرتا ہے ۔یہی ایکسپریشن ہمارا مستقبل اور ہمارا انجام طے کرتا ہے ۔اور یہیں سے زندگی کا رخ مڑجاتا ہے۔

حديث پاک میں وارد ہے:

إنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمَةِ مِن رِضْوانِ اللَّهِ، لا يُلْقِي لها بالًا، يَرْفَعُهُ اللَّهُ بها دَرَجاتٍ، وإنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمَةِ مِن سَخَطِ اللَّهِ، لا يُلْقِي لها بالًا، يَهْوِي بها في جَهَنَّمَ[أبو هريرة • البخاري (ت )، صحيح البخاری:۶۴۷۸]یقینا بندہ اللہ کی خوشنودی سے متعلق ایسا کلمہ منہ سے نکالتا ہے جس پر وہ دھیان نہیں دیتا اوراللہ تعالی اس کے ذریعے اس کے درجات بلند کردیتے ہیں اور بندہ اللہ تعالی کی ناراضگی سے متعلق ایسا کلمہ منہ سے نکالتا ہے جس کو وہ اہمیت نہیں دیتا اور اس کی وجہ سے وہ جہنم میں گرجاتا ہے ۔

اور سورہ قصص میں درج ذیل آیت کی تفسیر میں بھی اسی طرح کی بات مروی ہے:

وَقَالَتِ ٱمْرَأَةُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّي وَلَكَ(اور فرعون کی بیوی نے کہا میری اور تمھاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ فرعون نے کہا بلکہ تمھاری آنکھوں کی ٹھنڈک،میری نہیں)

فقال النبي ﷺ:

والذي يحلف به لو أقر فرعون أنه يكون له قرة عين كما أقرت لهداه الله جل ذكره به كما هدى به امرأته، ولكن الله حرمه ذلك[تفسير طبري]نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کی قسم کھائی جاتی ہے۔اگر فرعون کہتا کہ اس کی بھی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگا تو اللہ اسے بھی ہدایت دیتا جیسا کہ وہ عورت ہدایت یاب ہوئی۔ لیکن اس طرح کبر کے کلمات بولنے سے اللہ نے اس کے اوپر ہدایت حرام کردی۔

‏یعنی ہم کو کسی چیز کے بارے میں غلط قسم کا اظہار رائے کرنے سے بچنا چاہیے۔اگر بولیں تو اچھی بات بولیں ورنہ چپ رہیں۔

حدیث پاک میں ہے:

مَن كان يُؤمِنُ باللهِ واليَومِ الآخِرِ، فليَقُلْ خَيْرًا أو ليَسكُتْ، وقال يَحيى مرَّةً: أو ليَصمُتْ[شعيب الأرنؤوط (ت۱۴۳۸)،تخريج المسند۹۵۹۵]‏جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے۔

‏معلوم ہوا کہ پہلا عمل ، پہلی رائے، پہلی نظر اور پہلے میلان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔یہاں بندہ پورے طور آزاد اور فل کانفیڈنس میں ہوتا ہے۔بڑے ولولے اور شوق سے چوائس کرتاہے۔لیکن اسی انتخاب سے اس کا انجام طے ہوجاتا ہے۔سوائے اس کے جو ریورس ہوجائے۔اور سچے دل سے توبہ کرلے۔لیکن ایسے بہت کم ہوتے ہیں۔اور پہلے انتخاب کے بعد جب ان کو ایکسلیٹ کردیا جاتاہے تو اسی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے کہ زندگی بھر برے اعمال انجام دے اور خاتمہ اچھائی پر ہو۔

‏لہذا ہم کو اپنی پہلی چوائس پہلا ایکسپریشن اچھا رکھنا چاہیے۔اگر اچھے جذبات نہ پیدا ہوں تو اظہار سے رک جانا چاہیے۔خاموش ہوجانا چاہیے۔

‏نسال اللہ حسن الخاتمة و من القول والعمل ما یرضی بہ ربنا۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
اشفاق سجاد سلفی

جزاکم اللہ خیرا
بہت اچھا لگا
اللہم زد فزد