شیخ محمد عزیر شمس ؒکی ذہانت اور ان کا موسوعاتی مطالعہ(غور وفکر کے چند پہلو)

رفیق احمد رئیس سلفی تذکرہ

برادر مکرم شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کی اچانک وفات کا سانحہ اتنا بڑا ہے کہ ہم اسے ابھی تک بھول نہیں پارہے ہیں۔ پوری دنیا بالخصوص برصغیر اور عالم عرب میں ان کی موت کی خبر سن کر ان کا ہر جاننے والامضطرب ہو اٹھا ۔ ان کی حیات،شخصیت اور متنوع خدمات کا تذکرہ ہر سطح پر کیا جارہا ہے ۔ آن لائن سیمینار کا ایک سلسلہ ہے جو برابر جاری ہے اور دیکھیے کب تک جاری رہتا ہے۔ میں ذاتی طور پر شیخ محمد عزیر رحمہ اللہ سے مسلسل رابطے میں رہتا تھا، ان سے استفادہ کرتا تھا اوربہت سی علمی اور فکری مشکلات میں ان سے رہنمائی حاصل کرتا تھا لیکن ہائے افسوس !آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، ہم ان کی یادوں کوتازہ کرنے اور اپنا غم غلط کرنے میں مصروف ہیں۔

ان کی حیات،شخصیت اور ہمہ جہت علمی ،تصنیفی اور تحقیقی فتوحات پر مضامین اور مقالات لکھے جارہے ہیں اور جو بھی تھوڑی بہت واقفیت رکھتا تھا،وہ اپنے مشاہدات اور تجربات سے دوسروں کو مستفید کررہا ہے اور ان کی معلومات میں اضافہ کررہا ہے۔۳۵؍ سالوں پر مشتمل اپنی منتشر یادیں میں خود مرتب کرنے میں مصروف ہوں ،ابھی تک اس کی تکمیل نہیں ہوسکی ہے ۔ اسی درمیان برادر عزیز ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق سلفی نے بھی اپنے ادارے کی طرف سے ایک سیمینار کا اعلان کردیا اور ان کی خواہش تھی کہ میں بھی اس میں اپنی شراکت درج کراؤں۔عزیز محترم سے تعلق ہی ایسا ہے کہ میں انھیں منع نہیں کرسکتا تھا لیکن معاً یہ خیال آیا کہ ان کے پروگرام میں پیش کیا کروں گا۔ اپنی یادیں اور تاثرات تو برادر عزیز حافظ شاہد رفیق حفظہ اللہ کی مجوزہ کتاب کے لیے مختص کرچکا ہوں ،زبانی طور پر انھی یادوں اور تاثرات کا اعادہ وقت کا کوئی صحیح استعمال نہیں تھا ،اس لیے اس سے آگے کی چند باتیں جو ہمارے لیے باعث عبرت ونصیحت بھی ہیں اور جن پر ہمیں لازمی طور پر غور کرنا چاہیے،آج کی مجلس میں پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔

موت ایک حقیقت ہے ،کب آئے گی کہاں آئے گی،اس کا ہمیں علم نہیں۔ قرآن میں ہم پڑھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس کے لیے جو وقت طے کردیا ہے،اس سے وہ نہ ایک لمحہ آگے جاسکتا ہے اور نہ ایک لمحہ پیچھے ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے برادر مکرم کی زندگی اتنی ہی لکھی تھی،وقت موعود آپہنچا اور وہ اپنے رب کے پاس بلالیے گئے۔ ہماری دعا یہی ہوگی کہ اللہ ان کی تمام دینی،دعوتی،علمی،تصنیفی اور تحقیقی خدمات کو شرف قبول عطا فرمائے ،جو علم وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں،اسے ان کے حق میں صدقۂ جاریہ بنادے تاکہ ان کے نامۂ اعمال میں روز بہ روز حسنات کا اضافہ ہوتا رہے اور ان کے درجات بلند سے بلند ترہوتے جائیں۔

آج کل بہت سے سلفی نوجوانوں کا ذہن مثبت اور تعمیری راستوں پر چلنے کے بجائے منفی اورغیر صحت مند تنقیدی راستوں پر سرپٹ بھاگ رہا ہے۔شیخ عزیر رحمہ اللہ کے ذکر جمیل کے مواقع پر بھی ایسی آوازیں اٹھیں کہ ان پر سیمینار ایک قسم کا تعزیتی جلسہ ہے جو شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے۔تعزیت تین دنوں تک کی جاسکتی ہے،اس کے بعد نہیں۔نصوص کے معانی ومفاہیم کی تعیین اور پیش آمدہ صورت حال پر ان کی تطبیق کے لیے اسلام کے اصولوں اور اس کے مجموعی مزاج سے جو واقفیت اور آگاہی مطلوب ہے،اس سے اب ہمارا بہت زیادہ تعلق نہیں رہ گیا ہے ۔سیدنا عیسی علیہ السلام نے اپنے دور کے نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں پر جو طنز کیا تھا ،اس کی معنویت پر غور کرنے کی ضرورت ہمیشہ رہے گی کہ تم مچھر چھانتے ہو اور اونٹ نگلتے ہو۔ کسی فقہی جزئیے میں الجھ کر میں اس پر آج کوئی بحث نہیں کروں گا لیکن یہ درخواست ضرور کروں گا کہ نصوص کا استیعابی مطالعہ ضروری ہے ، ناقص مطالعہ یا کسی ایک نص کو مرضی کا مفہوم پہنانا اللہ کی شریعت کے ساتھ انصاف نہیں ہے ۔ ہمیں اس سے باز رہنا چاہیے۔

بات طویل ہوجائے گی لیکن یہاں ایک سچا واقعہ درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ڈاکٹر عبدالعلی ازہری رحمہ اللہ جن کی وفات پر ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے، جب وہ مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کے ادارے سے وابستہ تھے تو ممبئی کے ہمارے نہایت محترم دو بزرگ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ مسلمانوں کا ایک فرقہ نماز باجماعت کے لیے مساجد میں صف بندی کے لیے اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب تکبیر کہنے والااپنی زبان سے ‘‘ قد قامت الصلوۃ’’ ادا کرتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے پر کوئی کتابچہ تحریر فرمادیں تاکہ عوام کو ہم بتا سکیں کہ احادیث وآثار میں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ ایک فرقے نے بلاوجہ اسے اپنے فرقے کا امتیاز بنالیا ہے۔ ڈاکٹر ازہری نے دونوں بزرگوں کی باتیں غور سے سنیں اور ادارے کے ایک کارکن کو حکم دیا کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی فلاں جلد لے آؤ۔ مصنف کی متعلقہ جلد لائی گئی اور ڈاکٹر ازہری نے دکھایا کہ صحابہ کرام کے کئی ایک آثار موجود ہیں جن میں قد قامت الصلوۃ پر کھڑے ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے،دونوں طرف دلائل موجود ہیں لہذا اس مسئلے میں مت الجھیے اور دوسرے انداز میں ان کو کتاب وسنت کے قریب لائیے۔حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں بھی اس مسئلے پر گفتگو کی ہے ۔ میں یہاں صحیح کیا ہے،غلط کیا ہے،راجح کیا ہے اور مرجوح کیا ہے،اس بحث میں نہیں جانا چاہتا صرف یہ بتانا مقصد ہے کہ اسلامی تراث کا استیعابی مطالعہ آپ کو کئی ایک پریشانیوں اور غیر ضروری تعصبات سے دور لے جائے گا، آپ دوسروں کے موقف پر ہمدردی سے غور کرسکیں گے۔

فقہی جزئیات میں توسع اور رواداری کی بات ہو، دوسرے مسالک کے اہل علم سے روابط اور ان سے استفادے کی بات ہو، غیر سلفی حلقے میں لکھی گئی معاصر موضوعات پر علمی وتحقیقی کتابوں کے مطالعہ کی بات ہو یااپنے مدارس میں فقہ حنفی کی تعلیم اور تدریس کی بات ہو ،ان تمام مسائل میں برادر مکرم کا جو غیر متعصبانہ،صاف ستھرا،پاکیزہ،کھلا ہوا ذہن اور نقطۂ نظر تھا، وہ ہمارے لیے اور ہمارے نوجوان سلفی اسکالرس کے لیے منارۂ نور ہے ،کاش ہم اپنی سطح سے بلند ہوکر اس روشنی کو دیکھنے کی ہمت،جرا ٔ ت اور صلاحیت اپنے اندر پیدا کرسکیں۔ملت کے مسائل اور اس کی مشکلات کو وہی سمجھ سکتا ہے جو وسیع تناظر میں چیزوں کو دیکھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔

برصغیر میں اسلامی دعوت، توحید وسنت کی اشاعت ،غیر ملکی سامراج سے وطن کی آزادی وغیرہ کے حوالے سے میں نے برادر مکرم سے کبھی سوالات کیے تھے کہ اس میں کس مسلک کے حاملین کا کردار تھا۔ ان کا جواب تھا کہ آج کل جو مسالک اور فرقے معروف ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی بہ حیثیت مجموعی ان تمام خدمات کا حامل نہیں رہا بلکہ تحریک شہیدین خود مختلف مسالک کے لوگوں سے عبارت رہی ہے اور اس نے جس انداز میں کام کیا ہے ،وہ ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح انگریزی دور اقتدار میں کسی نے دوبدو جنگ کرکے اسلام اور اہل اسلام کو فیض پہنچانے کی کوشش کی ہے اور کسی نے انگریزی اقتدار سے مفاہمت کا راستہ نکال کر اسلام اور اہل اسلام کی خدمت کی ہے۔ اس لیے یہاں کی اس تاریخ کو اسی حیثیت سے پڑھنا اور اس کو سمجھنا چاہیے۔

ذہانت اور صلاحیت،بالغ نظری اور مجتہدانہ بصیرت کی حامل شخصیات ذاتی طور پر اللہ کی ان نعمتوں سے تو متمتع ہوتی ہی ہیں لیکن وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ملت کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ ہر ہر صدی میں کارتجدید کے لیے اللہ اپنے کسی بندے کو کھڑا کرتا ہے تو وہ صرف اپنی ذات تک اپنی خوبیوں اور کمالات کو محدود نہیں رکھتا بلکہ ان کا فیض ساری انسانیت تک پہنچتا ہے اور ہر کوئی اس کے کارہائے تجدید سے راحت کی سانس لیتا ہے۔ لیکن ایسے رجال ہر وقت نہیں بلکہ کبھی کبھی سامنے آتے ہیں اور اپنے کار تجدید کی تکمیل کرکے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال جو اپنے دور میں فلسفہ ٔ اسلام کے عظیم شارح اور ترجمان تھے،انھوں نے اپنے ایک شعر میں اس سچائی کو کس خوبی سے بیان کیا ہے:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

برادر مکرم کو قریب سے دیکھنے،جاننے اور برتنے والے جانتے ہیں کہ اللہ نے انھیں ذہانت اور فطانت کی کتنی بڑی دولت سے نوازا تھا۔وہبی اور کسبی صلاحیتوں نے انھیں نہ صرف علوم شرعیہ میں ایک ممتاز فرد بنادیا تھا بلکہ وہ دوسرے کئی ایک علوم وفنون پر گہری اور وسیع نظر رکھتے تھے۔ شاید ہمارے ذی اکرام قارئین کے علم میں ہو کہ عربوں میں دور قدیم سے انگلیوں پر گننے کا جو طریقہ مروج تھا،اسی طریقے کی طرف اشارہ تسبیحات فاطمہ اور دیگر تسبیحات کے شمار میں بھی کیا گیا ہے۔برادر مکرم نے شاید پہلی بار اردو زبان میں تصاویر بناکر عربوں کے اس قدیم طریقے کی وضاحت فرمائی ۔حافظ شکیل میرٹھی صاحب نے شاید سب سے پہلے اپنے رسالہ‘‘اشاعۃ السنۃ’’میں اسے شائع کیا اور بعد میں کتابچے کی صورت میں بھی وہ سامنے آیا اور اب وہ مقالات عزیر جلد اول کا حصہ ہے۔

اسی طرح انھوں نے حالی کی تنقید اور ہندوستان کی عربی شاعری پر جو کام کیے ،وہ غیر مسبوق کام ہیں۔ حالی کی تنقیدی بصیرت پر ان کا ایم اے کا مقالہ میں نے سرسری طور پر دیکھا ہے ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو ادب کا پورا سرمایہ انھوں نے اپنے مقالے میں نچوڑ کررکھ دیا ہے۔ اس سے اردو ادب کے مختلف اصناف پر تنقیدی نظر رکھنے والوں کو اپنے کئی ایک خیالات اور تصورات کو بدلنے پر مجبور ہونا پڑا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جن کے علوم ومعارف کے برادر مکرم متخصص تھے اور اس میدان میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا،شیخ الاسلام کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریریں انھوں نے پڑھیں اور ان کی تحقیق وترتیب سے پہلی بار ان کی اشاعت عمل میں آئی۔ ایک ملاقات میں میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے شیخ الاسلام کے ہاتھوں سے لکھی گئی تحریروں کو کیسے پڑھا،ان کا جواب تھا کہ ایک مخطوطہ مجھے ایسا ملا جس کا ایک پیراگراف مجھے ان کی مطبوعہ کتاب میں مل گیا۔میں نے کئی دنوں تک اسے غور سے پڑھا اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ شیخ الاسلام کسی لفظ کو لکھتے کیسے ہیں ،جب یہ بات میری گرفت میں آگئی تو پھر ان کی کسی تحریر کو پڑھنا میرے لیے بہت آسان ہوگیا۔

یہاں سوال یہ ہے کہ برادر مکرم کی یہ حیرت انگیز ذہانت اور ان کا موسوعاتی مطالعہ اپنی افادیت کے اعتبار سے کہاں تک اس بلند مقام تک پہنچ سکا جو اللہ نے انھیں بخشا تھا، شیخ عزیر کسی بڑے زمین دار باپ کے بیٹے اور کسی رئیس کے پوتے نہیں تھے۔ دادا اور والد محترم عالم دین تھے ،درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ سے زندگی بھر ان کی وابستگی رہی اور اپنے ان فرائض کو ادا کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر ان کو اقامت اختیار کرنی پڑی۔اپنے دادا اور والد محترم کی طرح شیخ عزیر بھی اپنے بچوں کو لے کر اپنے وطن سے دور مکہ مکرمہ میں اس لیے مقیم رہے کہ بچوں کی پرورش اور تربیت کے لیے جس سرمایے کی ضرورت ہے، اسے فراہم کرسکیں۔پوری زندگی یا یوں کہیں کہ میدان عمل میں اترنے کے بعد کی زندگی اسی طرح بھاگتے دوڑتے گزر گئی۔ وہ اپنی ترجیحات کے مطابق کام نہیں کرسکے۔ برصغیر کی اہل حدیث تاریخ سے متعلق ان کے پاس جو مواد موجود تھا اور جسے مرتب کرنے کا وہ ارادہ رکھتے تھے، اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی کتاب‘‘معیارالحق’’کا عربی ترجمہ وہ بہت پہلے شروع کرچکے تھے۔ بعض مراجع تک رسائی نہیں ہوپارہی تھی،اس لیے وہ کتاب ابھی تک شائع نہیں ہوسکی۔ واٹساپ پر ان کے بعض پیغامات سے اندازہ ہوا کہ کتاب مکمل ہوگئی ہے،اللہ کرے کہ وہ جلد ہی کہیں سے شائع ہوجائے۔

اس طویل سمع خراشی کا مقصد یہ ہے کہ ایسی نابغۂ روزگار شخصیات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا ملت کی،اس کے اداروں اور اس کی تنظیموں کی بھی ذمہ داری ہے۔ لیکن ہمارے اداروں کی ترجیحات کیا ہیں،اس کو سمجھنے کے لیے استاذ گرامی مولانا صفی الرحمن مبارک پوری اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف رحمہما اللہ کی زندگیوں کو دیکھیں۔ ہماری یہ دونوں عظیم شخصیات اپنے گھریلو مصارف کی تکمیل کے لیے ایک ایسے ادارے سے وابستہ رہیں جہاں ان سے مسودات پر نظر ثانی کرائی جاتی رہی اور پروف پڑھائے جاتے رہے۔ جو صلاحیتیں معاصر حالات کے مطابق علمی کتابیں تصنیف کرسکتی تھیں ،وہ نومشقوں کی تحریروں کی تصحیح کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ مولانا مبارک پوری انتاجی اور مجتہدانہ صلاحیت کے حامل تھے، ذہانت وفطانت سے سرفراز تھے ۔ الرحیق المختوم ڈیڑھ دو ماہ میں لکھی تھی جس پر سیرت نبوی کے عالمی مقابلے میں انھیں اول انعام سے نوازا گیا۔ یہی حال مولاناحافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کا تھا۔

آج شیخ محمد عزیر رحمہ اللہ کی وفات پر ہمارے ادارے، ہماری تنظیمیں اور ان سے وابستہ مقتدر شخصیات آن لائن سیمینار کا اہتمام کررہی ہیں اور ان کی صلاحیتوں کا اعتراف اور اقرار کررہی ہیں لیکن زندگی میں کم ہی توفیق ملی ہوگی کہ شیخ عزیر رحمہ اللہ کی صلاحیتوں سے طلبہ،علماء اور ملت کو فائدہ پہنچانے کی کوئی ترکیب نکالی جائے۔

نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ کی گراں قدر خدمات کیوں کر دنیا کے سامنے آتیں اگر ایک ریاست ان کے پیچھے نہ کھڑی ہوتی۔ مولانا شمس الحق عظیم آبادی ایک رئیس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔غایۃ المقصود اور عون المعبود کی تصنیف وتسوید کے لیے علماء کی جو ٹیم ان کے پاس تھی،اس کی کفالت وہ خود کرتے تھے۔ تحفۃ الاحوذی وجود میں آئی تو اس کی اشاعت کے اخراجات بڑی حد تک کونڈؤ بونڈیہار(ضلع بلرام پور،مشرقی یوپی) سے تعلق رکھنے والے ان کے عقیدت مندوں اورحافظ حمیداللہ صاحب دہلی نے برداشت کیے۔ مرعاۃ المفاتیح کا آغاز مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے توسط سے زکریا صاحب کی مالی اعانت سے ہوا۔ یہ ہماری تاریخ کی چند جھلکیاں ہیں اور گہرائی میں جائیں گے تو بہت کچھ سامنے آئے گا۔شیخ عزیر رحمہ اللہ کو اگر ڈاکٹر بکر بن عبداللہ ابوزیدرحمہ اللہ (1946-2008)کی سرپرستی حاصل نہ ہوئی ہوتی تو کیا ابن تیمیہ اور ابن قیم کے وہ معارف جدید لباس میں سامنے آپاتے،جن پر آج ہمیں بجا طور پر فخر ہورہا ہے۔

سب سے بڑی چیز جو ہمارے اداروں اور تنظیموں کو صلاحیتیوں سے فائدہ اٹھانے نہیں دیتی ،وہ ان کی یہ سوچ ہے کہ ہمارے ماتحت کام کرنے والے ہمارے ملازم ہیں۔ جو ہم کہیں اور جو ہم سوچیں ،اسی کو سنا جائے اور اسی کے مطابق کام کیا جائے لیکن یاد رکھیں جو بھی صاحب علم اور صاحب بصیرت ہوگا، وہ ہمیشہ سرجھکاکر اپنے آقا کی بات نہیں سنے گا، اسے جی حضوری کا قلادہ نہیں پہنایا جاسکتا۔ اگر اس کی صلاحیتیوں سے ملت کو فیض پہنچانا ہے تو اس کی ترجیحات کو بھی قبول کرنا پڑے گا۔ آج کے اس دور فتن میں ہم اسی آزمائش سے دوچار ہیں اور قحط الرجال کا رونا روتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں پر بڑارحیم وکریم ہے ،وہ قحط الرجال کی صورت حال کبھی پیدا نہیں ہونے دے گا،یہ تو ہماری کوتاہی فکر ونظر ہے کہ ہمیں صلاحیتیں نظر ہی نہیں آتیں:

یہ قائدین نے قحط الرجال کا شوشہ

بڑھادیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے

شیخ عزیر رحمہ اللہ کی ذہانت اور ان کا موسوعاتی مطالعہ اہل علم اور دیگر متعارفین پر واضح ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ عصر حاضر کا ایک معجزہ ہے ۔ آپ ذرا تصور کریں کہ اگر ان سے درخواست کی جاتی کہ آپ اپنی ترجیحات کے مطابق ایک علمی اکیڈمی قائم کرلیں اور دس پانچ مخلص،ذہین اور محنتی نوجوانوں کو منتخب کرکے اپنے ساتھ جوڑ لیں تو علم وتحقیق کے کتنے شہ پارے وجود میں آجاتے اور ان کے کئی ایک علمی منصوبے جو ہجوم کار کی وجہ سے پائے تکمیل کو نہیں پہنچ سکے ،وہ نہ صرف مکمل ہوجاتے بلکہ اسلامیات میں ایک بیش قیمت اضافہ قرار پاتے۔ مغرب اور مشرق کے علمی ذوق میں یہی فرق ہے۔مغرب اپنے باصلاحیت افراد کو سرکاری یا نیم سرکاری سرپرستی فراہم کرتا ہے اور کئی قسم کے موسوعات تیار کرکے علمی دنیا میں ایک مستحکم اور دائمی اعتبار قائم کرلیتا ہے۔

ہم سب کی خواہش ہے کہ برصغیر میں سلفی تراث اور سلفی تحریک کا احیاء ہو اور وہ کاروان دعوت وعزیمت جس کی رفتار کہیں سست اور کہیں اپنی غیر ضروری ترجیحات میں الجھ کو اپنے اصلی مقاصد سے دور ہوتا دکھائی دے رہا ہے،وہ تیز گام بھی ہوجائے اور اس کا سمت سفر بھی درست ہوجائے۔ ہمارے معاصر علماء میں شیخ عزیر رحمہ اللہ کی واحد شخصیت تھی جو ہمارے اس خواب کو صحیح تعبیر دے سکتی تھی اور ہماری اس خواہش کی تکمیل کرسکتی تھی۔

برادر مکرم کا تنقیدی ذہن ان کمیوں اور خامیوں کا بھرپور ادراک رکھتا تھا جو برصغیر کی سلفی تحریک سے متعلق اپنوں اور غیروں کی کتابوں اور تحریروں میں موجود ہیں۔ کہاں کہاں تاریخ سازی کی گئی ہے، کہاں کہاں تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے ،سیر وتراجم کی کن کتابوں میں غلط معلومات موجود ہیں اور عجلت میں کن مصنفین سے بعض کتابوں اوران کے مولفین کے سلسلے میں سہو اور نسیان واقع ہوا ہے۔ اپنی تاریخ کے اہم مصادر اور مراجع کو وہ ازسرنو ایڈیٹ کرکے اپنی تعلیقات اور حواشی سے مزین کرکے ان کے جدید ایڈیشن تیار کرسکتے تھے۔ استاذ گرامی مولانا محمد مستقیم سلفی حفظہ اللہ کی بڑی اہم اور بیش قیمت کتاب ‘‘جماعت اہل حدیث کی تصنیفی خدمات’’ کے سلسلے میں ایک ملاقات میں میں نے ان سے عرض کیا کہ استاذ گرامی سے ایک عجیب سہو ہوا ہے، انھوں نے ایک جگہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی عقیدہ سے متعلق دو مترجم کتابوں کو صرف ونحو کی کتاب بنادیا ہے۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا کہ اس کتاب میں ایسی بیسیوں غلطیاں ہیں جن کو میں نے اس کتاب کے اپنے نسخے میں نشان زد کررکھا ہے۔مجھے امید ہے کہ شیخ کی لائبریری کی حفاظت کی جائے گی اور بعض کتابوں پر ان کے حواشی اور تعلیقات کو بھی مرتب کیا جائے گا۔ علمائے بریلی،علمائے بدایوں اور علمائے دیوبند میں سے بہت سے ایسے مصنفین ہیں جنھوں نے ہماری تاریخ، اس سے وابستہ شخصیات اور ان کی فکری وعملی ترجیحات کے حوالے سے بہت سی منفی باتیں اپنی کتابوں میں درج کررکھی ہیں،شیخ عزیر رحمہ اللہ ان تمام بے اعتدالیوں سے باخبر تھے اور ان پر کئی ایک کتابیں ان کی نگرانی اور اشراف میں مرتب ہوسکتی تھیں۔

ہمارے ادارے اور ہماری تنظیمیں اپنے وسائل کی تنگ دامانی کا عذر پیش کرسکتی ہیں ۔ مجھے بھی ان کی مشکلات اور مسائل کا تھوڑا بہت ادراک ہے لیکن اس حاجت اور ضرورت کو محسوس تو کیا جاسکتا تھا اور جب ایک بار احساس مردہ میں روح زندگی دوڑنے لگے تو امکانات کے دروازے خود بخود کھلنے شروع ہوجاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ابھی افراد جماعت میں یہ جذبہ موجود ہے کہ اگر ہمارے ادارے اور تنظیمیں اس طرح کے اکیڈمک ورک کی ضرورت کا احساس کریں اور صاحب حیثیت افراد کو اس جانب متوجہ کریں تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایک کام کے سرپرست تلاش کیے جاسکتے ہیں اور وہ مبنی براخلاص ہر کام میں ان شاء اللہ دست تعاون دراز کرنے میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کریں گے ۔

کئی ایک علمی کاموں کا میں شاہد ہوں اور کئی ایک کے بارے میں باوثوق ذرائع سے مجھے علم ہے کہ سرمایہ فراہم ہوجانے کے باوجود بعض علمی کام نہیں ہوسکے اور بعض سالوں بعد اپنی تکمیل کو پہنچے۔ کسی شخص سے ہمارے ذاتی تحفظات ہوسکتے ہیں،لیکن علمی کاموں کے سلسلے میں ہمارے دلوں میں وسعت ہونی چاہیے اور ذاتیات سے اوپر اٹھ کر ہمیں اس طرح کے مفید کاموں کو آگے بڑھانے کی فکر کرنی چاہیے۔

جب بات سرپرستی کی کی جاتی ہے تو اس کا مطلب کفالت ہوتا ہے۔ کفالت میں کھانے پینے،روزمرہ کے اخراجات،دواعلاج،بچوں کی تعلیم وتربیت اور ان کی شادی بیاہ کے مصارف اور جائے سکونت کی فراہمی سب کچھ شامل ہوتا ہے۔ علم وتحقیق کے لیے جو یکسوئی مطلوب ہے،وہ حاصل نہیں ہوسکتی اگر گھر کو سنبھالنے والی بیوی گھریلو مسائل کو لے کر ذہنی تناؤ کا شکار ہو۔ دور جدید کے ایک سائنس داں کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ جب ایک ریسرچ اکیڈمی کے ڈائرکٹر نے اپنے یہاں تقرری دیتے وقت اس کے مشاہرے کے بارے میں اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اس بابت میری بیوی سے بات کرلیں ،وہ صحیح بات بتائے گی،مجھے اپنے گھریلو اخراجات کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہے۔ ہم اہل مشرق کو صلاحیتوں کو نچوڑنا اور چوسنا تو آتا ہے لیکن صلاحیتوں کو یکسوئی فراہم کرنا ہمارے دائرے سے باہر ہے۔یہاں نہ صلاحیتوں کی کمی ہے اور نہ ماہرین علوم وفنون کم یاب ہیں، ذرا اپنے ذہنی افق کو وسیع کریں ،آپ کے چاروں طرف ایسے رجال کار موجود ملیں گے ۔ شرط صرف یہ ہے کہ اپنی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی ترجیحات پر آپ ہم دردی سے غور فرمانے کی تھوڑی سی زحمت برداشت کرلیں۔

شیخ عزیر رحمہ اللہ کے زیادہ علمی اور تحقیقی کام عربی زبان میں ہیں۔ اردو میں بھی انھوں نے بہت سے مضامین ومقالات لکھے ہیں، اسی طرح مختلف اہل علم،دوست واحباب کے نام ان کے بہت سے علمی اور مفید خطوط ہیں، حافظ شاہد رفیق مدنی حفظہ اللہ مقالات عزیر جلد اول شائع کرچکے ہیں،جلد دوم بھی شاید تیار ہے،وہ شیخ کے مکاتیب کی جمع وتدوین کررہے ہیں اور ان شاء اللہ جلد ہی وہ بھی قابل اشاعت ہوجائیں گے۔ اپنی وفات سے چند ماہ پہلے وہ اپنی مختلف اردو تحریروں کی فائل حافظ شاہد رفیق صاحب کو منتقل کرچکے تھے ۔ امید ہے کہ ان کے شذرات علمیہ برائے استفادہ جلد ہی منصۂ شہود پر آجائیں گے۔ شیخ عزیر رحمہ اللہ کی دو مزید چیزیں اردو میں مرتب کرنے کی ضرورت ہے:

(الف)شیخ عزیر کے عربی واردو محاضرات کی جمع وتدوین۔برادر عزیز ثناء اللہ صادق تیمی حفظہ اللہ نے کئی اک موضوعات پر بہت سے سوالا ت مرتب کرکے شیخ عزیر رحمہ اللہ سے سوالات کیے اور ان کو خوش اسلوبی سے ریکارڈ کیا۔سوال وجواب کے اس سلسلے نے بھرپور علمی محاضرات کی شکل اختیار کرلی ہے۔ یہ محاضرات صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوجائیں تو ایک بڑا علمی کام ہوجائے گا۔اسی طرح ان کے کئی ایک عربی محاضرات اور انٹرویوز بھی ہیں جن کو پہلے عربی میں اور پھر بعد میں اردو میں منتقل کرکے اس محاضراتی سلسلے کو مکمل کیا جاسکتا ہے۔ جب وہ ہندوستان آتے تھے یا دنیا کے کسی بھی ملک میں سفر پر جاتے تھے تو متعارفین اور اہل علم ان سے درخواست کرتے تھے کہ طلبہ اور اہل علم کو خطاب فرمائیں ۔شیخ عزیر رحمہ اللہ اس قسم کی درخواستیں بالعموم قبول کرلیا کرتے تھے اور دیے گئے موضوع پر خطاب کرکے سامعین کو مستفید کرتے تھے۔ علی گڑھ میں بھی ان کے کئی ایک محاضرات یونیورسٹی کے کئی ایک شعبوں میں ہوئے ہیں۔علامہ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ پر انھوں نے ایک خطبہ دیا تھا،اسی طرح عالم عرب میں اس وقت حدیث پر جو کام ہورہے ہیں،ان کا تعارف کرایا تھا۔ اگر دوسرے مقامات پر یہ محاضرات ویڈیوز یا آڈیوز کی صورت میں مل سکیں تو ان کو بھی اس سلسلے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

(ب)شیخ عزیر رحمہ اللہ نے جن عربی کتابوں کی تحقیق وتخریج کی ہے،ان میں بیشتر پر ان کے تفصیلی مقدمے ہیں۔یہ مقدمات کتاب،صاحب کتاب،کتاب کا مضمون، کتاب کے مخطوطے،اب تک کی طباعتوں کی صورت حال اور دیگر کئی اہم معلومات پر مشتمل ہیں۔ان کو بھی جمع کرنے اور اردو میں ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے ۔اس سے ان کی علمی وتحقیقی خدمات کا ایک اہم حصہ مرتب ہوجائے گا۔اس سلسلے میں جو شخصیات اور ادارے پیش رفت کررہے ہیں ،انھیں پہلی فرصت میں یہ کام کرالینا چاہیے،بعد میں بڑی مشکل پیش آئے گی۔

برادر محترم کی تعلیمی زندگی کا ایک بڑا المیہ یہ رہا کہ ان کو پی ایچ ڈی کی سند حاصل نہ ہوسکی۔ان کا مقالہ تیار تھا لیکن عین وقت پر مصری مشرف نے اس میں ایسی تبدیلیوں کا مطالبہ کردیا جو ممکن نہیں تھا اور شیخ عزیر بھی بضد ہوگئے کہ میرا یہ مقالہ رجسٹریشن کے وقت پیش کیے گئے خطے کے مطابق ہے،میں اس میں اب کوئی تبدیلی نہیں کروں گا۔ یہ تو خیر دور حاضر کی ایک ٹیکنکل گفتگو تھی جس کا علم اور علمی ذوق سے بہت زیادہ تعلق نہیں ہے۔ برادر مکرم مکہ مکرمہ میں تھے،سعودی جامعات کے بیشتر اساتذہ ان سے اور ان کی علمی فتوحات سے واقف تھے ،پھر بھی کسی یونیورسٹی میں انھیں جگہ نہیں مل سکی ۔یہی ٹیکنکل معاملہ علامہ محمد ناصرالدین البانی اور شیخ شنقیطی رحمہما اللہ کے ساتھ بھی پیش آیا تھا جب کہ حدیث اور تفسیر کی تدریس میں ان دونوں شخصیات کا کوئی بدل اس وقت بھی نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔ اللہ کی طرف سے جو ذہانتیں ملت کو انعام کے طور پر ملتی ہیں ،اگر ملت ہی ان کو صحیح طور پر استعمال نہ کرسکے اور کاغذ کے ایک ٹکڑے کا محتاج ذہانتوں کو بھی بنادے تو اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ آج کی جامعات میں علم وتحقیق کے زوال اور فقدان کے اسباب پر جب کوئی غیر جانب دار قلم اٹھائے گا تو اس کی تحریر کو سنبھالنا اور برداشت کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔آمین

برادرمکرم کو اللہ تعالیٰ نے ایمان ویقین کی جس دولت سے نوازا تھا ،وہ ان کی تحریروں ،محاضرات اور انٹرویوز سے نمایاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دارفانی سے داربقا کی طرف کوچ کرنے والی شخصیات کو ہمارا اصل اور حقیقی خراج عقیدت یہ ہوگا کہ ہم ان کے مشن کو آگے بڑھائیں، علم وتحقیق کی جو راہیں انھوں نے نکالی ہیں،ان پر آگے بڑھیں اور ان کاموں کی تکمیل کریں جو رخصت ہوجانے والی شخصیات مکمل نہ کرسکیں۔ اسلامی تراث پر وسیع اور گہری نظر رکھنے والے برادر مکرم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ تفسیر،شروح حدیث،سیر وتراجم اور رجال کے کئی ایک مہتم بالشان علمی کاموں کا تکملہ لکھا گیا ہے اور اس سے موضوع کی تکمیل ہوئی ہے ۔ کیا ہم اس کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں اور ہمارے درمیان نوجوان اہل علم اس کی ہمت کرسکتے ہیں کہ وہ برادرمکرم کے بعض ادھورے کاموں کی تکمیل کرسکیں ۔ زندگیاں چند سالوں ہی کو محیط ہوتی ہیں لیکن اسلام اور اس سے متعلق کاموں کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے حصے کی ذمہ داریاں ادا کرسکیں ،برادر مکرم کو اللہ نے جو حیات بخشی تھی ،وہ مکمل کرکے اب وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ہماری نسل کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ برادرمکرم شیخ عزیر شمس کو پڑھے،ان کی تحقیقات کا مطالعہ کرے اور علم وتحقیق کا جو معیار اور اسلوب انھوں نے اختیار کیا ،اس کو سمجھے اور اسے اپنے لیے نمونہ بنائے۔

آپ کے تبصرے

3000