شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ(1957-2022ء) کے علمی وتحقیقی کارناموں میں ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے شاہ محمداسماعیل شہید رحمہ اللہ (1779-1831ء) کی کتاب ‘‘رد الاشراک’’ کی تحقیق وتخریج فرمائی اور اسے برصغیر کے معتبر سلفی ادارے ‘‘المکتبۃ السلفیۃ لاہور’’ نے 1983ء میں شائع کیا۔ اسی ادارے نے کتاب کا دوسرا ایڈیشن نومبر 1988ء میں شائع کیا ہے، جو انٹرنیٹ پر موجود ہے اور یہی نسخہ اس وقت راقم کے پیش نظر ہے۔ اس کے صفحات کی کل تعداد 173 ہے۔ شاہ محمداسماعیل شہید رحمہ اللہ کی مشہور زمانہ اردو تصنیف ‘‘تقویت الایمان’’ اسی کتاب کے باب اول کی تفصیل وتشریح ہے۔ کتاب کے باب دوم کی ترجمانی شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے شاگرد مولانا محمد سلطان نے کی ہے جو ‘‘تذکیر الاخوان’’ کے نام سے شائع ہورہی ہے۔
برصغیر کے دینی پس منظر میں لکھی جانے والی یہ اولین کتاب ہے جس نے بہت باریکی سے شرک، بدعت اور غیر شرعی رسومات کے مظاہر کا احاطہ کیا ہے اور قرآنی آیات، احادیث نبویہ اور آثار سلف صالحین کی روشنی میں ان کے دینی نقصانات کی نشان دہی کی ہے۔ شاہ محمد اسماعیل شہید کی اردو کتاب ‘‘تقویت الایمان’’ تو ان کی زندگی میں کلکتے سے 1242ھ میں شائع ہوگئی تھی لیکن عربی کتاب ‘‘رد الاشراک’’ اپنی اصلی صورت میں شائع نہیں ہوسکی تھی۔ کتاب کا ایک تکملہ یا تتمہ نواب صدیق حسن خاں قنوجی رحمہ اللہ (م 1307ھ) نے ‘‘الادراک لتخریج أحادیث رد الاشراک’’ کے نام سے ضرور لکھا اور 1290ھ میں کانپور سے شائع کیا تھا لیکن اس میں عوام الناس کے فائدے کے پیش نظر ہر موضوع کے تحت مزید احادیث کا اضافہ کیا ہے، نامکمل احادیث کی تکمیل کی ہے اور مشکل الفاظ کی شرح بھی لکھی ہے۔ یہ نواب صاحب کا ایک عظیم کارنامہ اور توحید وسنت کی ایک بڑی خدمت ہے۔ شیخ عزیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کاش نواب صاحب نے اپنے تمام اضافے الگ سے حواشی میں کیے ہوتے تو شاہ اسماعیل شہید کی اصل کتاب محفوظ رہتی لیکن انھوں نے تمام علمی اضافے متن میں کردیے ہیں جس کی وجہ سے اصل کتاب گم ہوگئی ہے۔ (ص:6-7)
مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی تحریک وتشویق پر یہ علمی خدمت انجام پائی ہے، مولانا بھوجیانی نے کتاب پر اپنے عربی پیش لفظ میں لکھا ہے:
‘‘ایک طویل عرصے سے میری دلی خواہش تھی کہ ‘‘ردالاشراک’’ اصل کتاب شائع کی جائے۔ میں نے جب اپنی اس دیرینہ آرزو کا اظہار صالح، ذہین اور سعادت مند نوجوان محمد عزیر شمس سلفی ثم مکی حفظہ اللہ سے کیا جو سلف کے علمی تراث کے احیاء اور اس کی نشرواشاعت کا حد درجہ شوق رکھتے ہیں، کہ وہ کوشش کرکے سرکاری اور ذاتی کتب خانوں میں اصل کتاب ‘‘ردالاشراک’’ کا پتا لگائیں تو انھوں نے بہ خوشی اس خواہش کی تکمیل پر لبیک کہا اور اپنی تلاش وجستجو میں مصروف ہوگئے۔ اللہ نے ان کی کوششوں کو ثمربار کیا اور وہ کتاب کے کئی ایک مخطوطے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ انھوں نے اس کی تحقیق کی، اس میں موجود احادیث کی تخریج کی اور علمی مقدمہ تحریر کیا۔ اللہ عزوجل انھیں جزائے خیر دے اور ہمارے درمیان ان کے جیسے علمی اور تحقیقی ذوق رکھنے والے اصحاب علم کا اضافہ فرمائے’’۔(ص:3-4)
شاہ محمد اسماعیل شہید کی یہ کتاب نصوص کتاب وسنت پر مشتمل ہے اور شیخ محمد عزیر کے بہ قول یہ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ (م: 1206ھ) کی مشہور زمانہ کتاب ‘‘کتاب التوحید ’’ کی طرح ہے۔(ص:11) شیخ محمد عزیر نے کتاب کے عنوانات کی جو فہرست شامل کتاب کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے اپنے مقدمہ کے علاوہ اس میں دو ابواب ہیں۔کتاب کے مضامین کو گرفت میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ اس فہرست کو قارئین ذی اکرام کی خدمت میں من وعن پیش کردیا جائے:
باب الاجتناب عن الاشراک
٭ذکر رد الاشراک فی العلم
٭ذکر رد الاشراک فی التصرف
٭ذکر رد الاشراک فی العبادۃ
٭ذکر رد الاشراک فی العادات
باب وجوب اتباع السنۃ واجتناب عن البدعۃ
٭ذکر حقیقۃ الایمان
٭ذکرالایمان(بالقدر)
٭ذکر الصحابۃ رضوان اللہ علیہم
٭ذکر رد بدعات القبور
٭ذکر رد بدعات التقلید
٭ذکر رد بدعات الرسوم
برصغیر میں عام مسلمانوں کی دینی صورت حال پر جن حضرات کی نظر ہے اور جو کتاب وسنت سے منحرف نظریات، عادات واعمال سے واقف ہیں، ان کو یہ بات سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگے گی کہ شاہ محمد اسماعیل شہید نے ایک مختصر اور جامع کتاب میں یہی مضامین کیوں تحریر فرمائے ہیں۔ جذبہ جہاد سے سرشار، مسلمانوں کی بدترین دینی صورت حال سے مضطرب اور کتاب وسنت کے ایک مخلص اور بے لوث داعی نے یہ کتاب لکھ کر برصغیر میں ایک ہلچل پیدا کردی اور لاکھوں سعادت مند روحوں کے لیے توحید وسنت کی شاہراہ مستقیم پر چلنا آسان ہوگیا۔ کئی طرح کی باطل تاویلات کے ذریعے مسلم معاشرے میں شرک وبدعت کے مختلف مظاہر کی اشاعت کرنے والے اور ان کو عین اسلام سمجھنے والے طبقات اپنی اور اپنے سے متعلق لوگوں کی اصلاح کرنے کے بجائے شاہ اسماعیل شہید کے دشمن بن گئے، طرح طرح کے الزامات لگائے گئے اور راہ حق میں اپنی جان قربان کردینے والے مرد مجاہد کو آج بھی بدعات کے پرستار شب وروز گالیاں دیتے ہیں۔ جب کہ ننانوے فیصد لوگوں کو پتا ہی نہیں ہے کہ اس کتاب میں لکھا کیا ہے۔
شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کی خواہش اور کوشش تھی کہ تقویت الایمان کا بھی اصلی نسخہ شائع کیا جائے۔ غلام رسول مہر رحمہ اللہ نے جو نسخہ مرتب کیا تھا، وہی عام طور سے مروج ہے لیکن مہر صاحب کو بھی اس کتاب کا قدیم ترین نسخہ نہیں مل سکا تھا۔ برادر مکرم کے کتنے خواب تھے، جو ادھورے رہ گئے، تقویت الایمان کا جو اصلی اور قدیم ترین نسخہ انھوں نے حاصل کیا تھا، خدا جانے اب وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔ شیخ عزیر کی ذہانت اور ان کی معلومات سے تو ہم ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے لیکن جو علمی وتحقیقی نوادرات وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں، اللہ ان کی حفاظت فرمائے۔ آمین
شیخ محمد عزیر رحمہ اللہ جب ‘‘رد الاشراک’’ کی تلاش میں باہر نکلے تو انھیں ذاتی اور سرکاری کتب خانوں میں کتاب کے پانچ نسخوں کا سراغ ملا۔ ہر مخطوط کے سلسلے میں ضروری معلومات انھوں نے اپنے ‘‘مقدمۃ التحقیق’’ میں درج کردی ہیں جو اس خاص فن سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بہت مفید ہیں۔ پہلا مخطوط انھیں دیال سنگھ لائبریری لاہور میں، دوسرا اور تیسرا مخطوط دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی لائبریری میں، چوتھا نسخہ خدا بخش لائبریری پٹنہ میں اور پانچواں نسخہ گھوسی(اعظم گڑھ) کے مولانا ظفر احمد ندوی کے ذاتی کتب خانے میں ملا۔ اول الذکر چاروں نسخوں سے انھوں نے استفادہ کیا ہے لیکن پانچویں نسخے تک ان کی رسائی نہیں ہوسکی۔ ان کے علاوہ بھی کتب مراجع ومصادر جیسے ‘‘ ارواح ثلاثہ’’ وغیرہ میں کتاب کے مزید نسخوں کا پتا چلتا ہے لیکن شیخ محمد عزیر ان تک نہیں پہنچ سکے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ ان میں قدیم ترین نسخہ دیال سنگھ لائبریری لاہور کا ہے جو 1257ھ کا لکھا ہوا ہے اور انیس(19) اوراق پر مشتمل ہے۔
شیخ عزیر رحمہ اللہ نے سب سے پہلے تو متن کی تصحیح پر توجہ دی۔ مخطوطات میں تصحیفات اور تحریفات کی بھرمار ہے بلکہ خدا بخش لائبریری پٹنہ کے مخطوط کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے کہ میں نے اتنا غلط مخطوطہ ابھی تک نہیں دیکھا۔ دوسرے مرحلے میں انھوں نے آیات قرآنی کے حوالے درج کیے اور احادیث اور آثار کی تخریج باب اور کتاب کی قید کے ساتھ کی تاکہ کتب احادیث کے مختلف طبعات سے استفادہ کرنے والوں کو کوئی زحمت نہ ہو اور اس کے علاوہ انھوں نے محدثین اور ائمہ جرح وتعدیل کے اصولوں کے مطابق صحیحین کے علاوہ کی احادیث اور آثار پر صحت وضعف کا حکم لگایا۔ شیخ عزیر نے کتاب پر جو مقدمۃ التحقیق(5-12) لکھا ہے، اس میں ان تمام تفصیلات کے علاوہ یہ بھی لکھا ہے کہ شاہ محمد اسماعیل شہید نے آیات اور آثار کے علاوہ کل تین سو بیس (320) احادیث درج کی ہیں۔انھوں نے دوصفحات پر مشتمل شاہ اسماعیل شہید کا سوانحی خاکہ لکھا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود بنیادی معلومات پر مشتمل ہے۔
شیخ عزیر رحمہ اللہ نے اپنی اس تحقیق میں بعض بڑی دلچسپ باتیں تحریر فرمائی ہیں، ان کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کاروان علم وتحقیق ہمیشہ آگے بڑھتا رہتا ہے، آنے والے محققین ماضی کے تسامحات کو درست کرتے رہتے ہیں اور ہر محقق کے علمی اور تحقیقی کاموں میں کوئی نہ کوئی خلا رہ ہی جاتا ہے اور ایسا ہونا بعید ازقیاس نہیں ہے، انسان بہر حال انسان ہے، اس سے خطا اور سہو کا صدور ہوتا ہی رہتا ہے۔
مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ نے ‘‘تقویت الایمان’’ کا عربی میں ترجمہ ‘‘رسالۃ التوحید’’ کے نام سے کیا ہے، اس کے مقدمے میں انھوں نے لکھا ہے کہ شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ کی کتاب ‘‘رد الاشراک’’ کاشمار مفقودات(گم شدہ کتابوں) میں ہوتا ہے۔ شیخ محمد عزیر نے اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ خود دارالعلوم ندوۃ العلماء کے کتب خانے میں اس کتاب کے دو مخطوطے موجود ہیں اور مولانا اس پر مطلع نہ ہوسکے۔ اسی طرح انھی کا مرتب کیا ہوا تقویت الایمان اردو میں نے دیکھا، اس کے مقدمے میں بھی مولانا ندوی نے یہی بات لکھی ہے۔
شاہ اسماعیل شہید نے احادیث بالعموم مشکوۃ المصابیح سے نقل کی ہیں اور کہیں کہیں ان کو مختصر بھی کردیا ہے۔ البتہ مشکوۃ المصابیح کے علاوہ جو کتابیں ان کے سامنے رہی ہیں اور جن سے انھوں نے احادیث نقل کی ہیں، ان کی نشان دہی شیخ عزیر رحمہ اللہ نے نہیں کی ہے۔
مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ نے بھی کتاب میں بعض تعلیقات اور حواشی کا اضافہ کیا ہے۔ کہیں تو انھوں نے محقق کی تحقیقات کو مزید موید کیا ہے اور کہیں محقق کی تحقیق سے اگر غلط فہمی ہونے کا اندیشہ ہوسکتا ہے تو اس کا ازالہ کردیا ہے۔ مثال کے طور پر فضیلت علی رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں مشہور روایت ‘‘أنا دارالحکمۃ وعلی بابھا’’ کی تخریج کرتے ہوئے شیخ محمد عزیر شمس نے اسے کئی ایک حوالوں سے ضعیف اور منکر قرار دیا لیکن علائی کی کتاب‘‘النقد الصحیح لما اعترض علیہ من أحادیث المصابیح’’ کے حوالے سے یہ بھی لکھ دیا کہ علائی حدیث کے مجموعی طرق کی بنیاد پر اسے حسن کہتے ہیں۔مولانا بھوجیانی نے اس تعلیق پر یہ اضافہ کیا ہے:
وذکر فی تعلیق الفوائد المجموعۃ للشوکانی طرق ھذہ الروایۃ وتکلم علیہا کلاماً شافیاً(أنظر:ص:۳۵۳-۳۴۹)،وقال شیخ الاسلام ابن تیمیۃ:انما یعد فی الموضوعات وذکرہ ابن الجوزی وبین أن سائر طرقہ موضوعۃ والکذب یعرف من نفس متنہ۔(منھاج السنۃ ۴؍۱۳۷) [ص:82-83]
‘‘(علامہ معلمی یمانی نے) شوکانی کی کتاب ‘‘الفوائد المجموعۃ’’ پر اپنی تعلیق میں اس روایت کی تمام سندوں کا تذکرہ کرکے ان پر کافی اور اطمینان بخش گفتگو کی ہے، ملاحظہ ہوں صفحات ۳۴۹ تا ۳۵۳۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ اس روایت کا شمار موضوعات میں کیا جاتا ہے، اس کا ذکر ابن جوز ی نے بھی کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی تمام سندیں موضوع ہیں، روایت کے نفس متن سے بھی اس کا موضوع ہونا واضح ہے۔( منہاج السنہ:4/137)’’۔
کتاب کو بالاستیعاب دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ محقق محترم کی تحقیق کے مطابق کئی ایک احادیث ضعیف بھی ہیں اور کئی ایک پر انھوں نے صحت یا ضعف کا حکم نہیں لگایا ہے۔ آج ہمارے درمیان حدیث کے کئی ایک متخصصین موجود ہیں، ان میں سے کوئی ایک فاضل اگر اس کتاب پر نظر ثانی کردے تو یہ خلا پُر کیا جاسکتا ہے۔ یہ شیخ محمد عزیر رحمہ اللہ کے اولین دور کے علمی اور تحقیقی کاموں میں سے ایک ہے، اس وقت کئی ایک سہولتیں دستیاب نہیں تھیں جو آج کے محققین کو حاصل ہیں۔
میری ایک خواہش یہ بھی ہے کہ نوجوان محققین کی ایک جماعت ‘‘رد الاشراک، الادراک لتخریج أحادیث رد الاشراک، تقویت الایمان اور تذکیر الاخوان’’ کا ایک تحقیقی مجموعہ مرتب کردے جس میں متن کی تصحیح کے ساتھ ساتھ نصوص کی علمی تحقیق وتخریج بھی ہو تاکہ توحید وسنت اور رد شرک وبدعت کے موضوع پر برصغیر کے پس منظر میں لکھی گئی اس کتاب کی افادیت ازسرنو عام ہوسکے اور ہمارے خطباء اور واعظین اس کتاب سے بھرپور استفادہ کرکے یہاں کی دینی فضا کو شرک اور اوہام پرستی سے پاک کرکے اسے توحید وسنت کی ضیائے لا زوال سے منور کرسکیں۔
آپ کے تبصرے